بات کچھ اِدھر اُدھر کی زمانے کی دورنگی روش
کمرے میں خاموشی چھائی ہوئی تھی کہ ہلکی سی سرسراہٹ کے بعد باہر تیز ہوا چلنے لگی۔ تیز ہوا سے کمرے میں گرد آنے لگی ، میں نے جلدی سے اٹھ کر کھڑکی بند کردی، پھر ایکدم لائٹ آف ہوگئی، روشنی کم ہونی کی وجہ سے نظریں ادھر ادھر دوڑنے لگیں ایسے میں نظریں قریب پڑی ہوئی مرحوم والدہ کی تصویر پر پڑی اور ساری سوچیں ان کی یاد میں کہیں کھو گئیں۔ ذہن میں دھندلی دھندلی سے یادیں رفتہ رفتہ جھلملاتے آنسوؤں کیساتھ ابھرنے لگیں۔
مجھے آج بھی وہ دن یاد ہے جب والدہ کے ساتھ ایک سفر پر روانہ ہوا تھا ، ہم گوجرانوالہ جارہے تھے اور میں گاڑی ڈرایئو کررہا تھا، والدہ میرے ساتھ فرنٹ سیٹ پر بیٹھی ہوئی تھیں، وہ مسکراتے ہوئے بولیں کہ آج میں بہت خوش ہوں، بس اختر کے لئے یہ لڑکی پسند آجائے۔ لڑکی والوں کے گھر پہنچے مجھے ڈرائنیگ روم میں بیٹھا دیا گیا اور والدہ اندر ملاقات کے لیے چلی گئیں۔ وہ تھوڑی دیر بعد باہر آئیں تو ان کے چہرے سے پریشانی جھلک رہی تھی، ہم خاموشی سے دوبارہ گھر کی جانب چل دیئے۔ راستے میں والدہ نے بتایا کہ اس گھر میں تین بہنیں تھیں اور تینوں ہی غیر شادی شدہ تھیں، جس کی سب سے بڑی وجہ ان کی والدہ کا حیات نہ ہونا ہے، والد صاحب اپنے فرض کو نبھا نہ سکے اور یوں ان تینوں بچیوں کی عمریں42،38،35 سال تک کا جاپہنچی، اور شاید اب ان کی شادی ہونا کافی مشکل ہے۔ ان میں سب سے چھوٹی والی کے لئے میں نے بات کی ہے، لڑکی بی اے پاس، پیاری اور سلیقہ مند بھی ہے، مجھے تو کوئی اعتراض نہیں پر شاید اختر کے گھر والے نا مانیں کیونکہ اختر 28 سال کا ہے اور لڑکی35 کی۔
اس پر میں نے امی سے کہا کہ ہم مرد حضرات تو 45 سال میں بھی 30 سالہ خاتون سے شادی کر لیتے ہیں تو اگر لڑکی 35 سال کی ہے تو ایسی کیا مشکل ہے ، بھئی دونوں کے لئے اصول ایک ہونا چاہیئے، میں نے بے خیالی میں ترکی بہ ترکی بات کردی ۔ تمہیں کیا پتہ بچے رشتہ کیسے ہوتا ہے، امی نے میرے ناک کو پیار سے دبایا اور کہا جیسا تم کہتے ہو ہونا تو ویسے ہی چایئے پر حقیقیت اس سے مختلف ہے، لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ لڑکی کی شادی اب تک کیوں نہیں ہوئی؟ ہوسکتا ہے یہ اس کی دوسری شادی ہو؟ کہیں کچھ چھپا تو نہیں رہے؟ اس کے اندر کون سی خرابی تھی جو ابھی تک اس کا رشتہ نا ہوسکا؟ وغیرہ وغیرہ ۔ ہمیشہ لڑکی کی عمر لڑکے سے کم ہونی چاہیئے، ہمارے معاشرے میں بڑی عمر کی لڑکی سے شادی کرنا معیوب سمجھا جاتا ہے۔ مگر امی معیوب کیوں سمجھتے ہیں؟ آخر دونوں انسان ہیں، جو اصول مرد کے لیے ہے عورت کے لیے بھی ویسا ہی ہونا چاہیے نا۔ میرے انہی سوالوں میں راستہ ختم ہوگیا۔
آج اس بات کو 16 سال گزر چکے ہیں۔ اختر جو میرا ماموں زاد بھائی ہے اب شادی شدہ ہے، والدہ محترم کے سمجھانے کے باوجود ہمارے ماموں نے اس شادی کے پرپوزل کو تسیلم نہیں کیا اور یوں اپنے بیٹے کی شادی کہیں اور کردی۔ مرحوم والدہ صحیح فرمایا کرتی تھیں کہ ہمارے معاشرے میں ہمیشہ کم عمر لڑکیوں کو پسند کیا جاتا ہے، اور جو لڑکیاں زندگی میں گھریلو مسائل کا شکار ہوکر اپنی عمر گزار دیتی ہیں انہیں یہ زمانہ شادی کے اعتبار سے موزوں قرار نہیں دیتا۔ عمر گزر جائے تو شازو نازر ہی اچھے رشتے یا پھر دوسری شادی کے خواہشمند لوگوں کے رشتے آتے ہیں۔
ہمارا معاشرہ چاہے وہ دیہی ہو یا شہری دونوں میں رشتے کی پہلی ترجیح ہمیشہ 18 سے 28 سال کی عمر کی لڑکیاں ہیں، اس کے بعد والی عمر کی خواتین کو اکثر رشتے کے اعتبار سے نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ رشتہ کروانے والی آنٹیاں بھی ہمیشہ کم عمر والی لڑکی کی بات چلاتے ہی نظر آتی ہیں۔ مجبورا بڑی عمر والی لڑکیوں کے والدین کو طعنے اور دل دکھانے کی عجیب باتیں سننے کو ملتی ہیں، والدین بچارے یہ سب کچھ ناچاہتے ہوئے بھی برداشت کرتے رہتے ہیں۔ ان حالات کی وجہ سے خواتین پر شدید منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں اور اکثر شدید ڈیپریشن کا شکار ہوجاتی ہیں۔
یہاں ایک سوال یہ ابھرتا ہے کہ آخر لڑکیوں کی لڑکوں سے عمر نسبتا تھوڑی زیادہ ہوتو کیا کوئی حرج ہے؟ کیاصرف مرد ہی کم عمر خواتین سے شادی کا حق رکھتے ہیں ؟ کیا لڑکیاں کم عمر مردوں سے شادی کا حق نہیں رکھتیں ؟
دو رنگی چھوڑ دے یک رنگ ہو جا
سراسر موم یاں پھر سنگ ہوجا
اس تناظر میں ہمارا معاشرہ ہمیشہ دورنگی سوچ رکھتا ہے ، انٹرنیٹ اور ٹیلی کام کی ترقی نے دنیا کو گلوبل ویلج بنادیا ہے مگر ہماری فرسودہ سوچ آج بھی وہیں پر اٹکی ہوئی ہے۔ مرد حضرات کی کم عمر خواتین سے شادی سے کوئی اعتراض نہیں بس اعتراض اس بات سے ہے کہ جو خواتین گھریلو مسائل کیوجہ سے بن بیاہی گھر بیٹھی ہوئی ہیں، آخر ان کے گھر خوشیاں کب رخ کریں گی؟ انہیں مزید کب تک انتظار کرنا پڑےگا ؟
حوا کی بیٹی پر بڑی عمر کے اعتراضات کی حوصلہ شکنی ہونی چاہیے ، معاشرے کی یہ روش ایک پست و بیمار سوچ کی عکاسی کرتی ہے، یہ سوچ خواتین میں خود اعتمادی اور ذہنی نشوو نما میں بڑی رکاوٹ ہے۔ اسلام روداری اور مساوات کا درس دیتا ہے اس نقطہ نظر کے اعتبار سے خواتین میں یہ درجہ بندیاں سخت متصادم ہیں۔ ہمارے آقا ﷺ نے جب نکاح فرمایا تو اس وقت آپ ﷺ کی عمر مبارک 25 سال تھی اور ام مومنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی عمر مبارک 40 سال کی تھی اور آپ محمد مصطفے ﷺ کے بے مثال نکاح نے ان سب نام نہاد درجہ بندیوں کی نفی کردی ، آئیں ہم بھی اس عظیم مثال کو سامنے رکھتے ہوئے زمانے کی اس دو رنگی روش کا خاتمہ کرنے کا عزم کریں، تاکہ کل کو کوئی بھی لڑکی ان فرسودہ روایات کی بھینٹ نہ چڑھ جائے۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔