پاکستان ایک نظر میں دھرنے سے اختلافات کیوں

جمہوریت اس وقت تک نہیں چل سکتی ہے جب تک عوام میں اس کا بوجھ سہنے کے لائق شعور اور مناسب اخلاق نہ ہو۔


سالار سلیمان December 10, 2014
جمہوریت اس وقت تک نہیں چل سکتی ہے جب تک عوام میں اس کا بوجھ سہنے کے لائق شعور اور مناسب اخلاق نہ ہو۔ فوٹو آن لائن

اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان اس ملک کی ایک کرشماتی شخصیت ہیں اور لوگوں پر آج کل اُن کا سحر سر چڑھ کر بول رہاہے ۔لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ خان صاحب اور ان کی جماعت انسانوں پر مشتمل جماعت ہے اور اُن سے غلطیاں سر زد ہو سکتی ہیں۔میں خان صاحب کی دل سے عزت کرتا ہوں اور ان کی یہ عزت اُن کے سیاسی کارکنا ن تمام تر گالیوں، بد تمیزیوں اور اخلاقیات کی حد سے گری ہوئی تمام تر گفتگو کے بعد بھی نہیں نکال سکتے ہیں۔ میرے ذاتی حلقہ احباب میں تحریک انصاف کے کارکنا ن کا وسیع حلقہ موجو دہے ۔ان ہی میں سے ایک دوست حافظ عبدالرحمن ہیں ، محترم نہایت ہی سرگرم اور جوشیلے کارکن ہیں ۔گزشتہ روز اُن کو بھی میری پی ٹی آئی کے حوالے سے قائم رائے سے شدید اختلاف ہو گیا تھا، اگست 2014ء میں پی ٹی آئی کی جانب سے دھرنے کی کال کے بعد سے آج تک مجھ نا چیز کو تحریک انصاف کی اس طرز سیاست سے اختلافات ہیں۔

میری ذاتی رائے میں خان صاحب نے دھرنے کی کال دینے میں جلد بازی سے کام لیا ہے ۔ الیکشن پر سب کو اعتراضات تھے اور ہیں، حکومت کو بھی چاہئے تھا کہ وہ خان صاحب کے چار حلقوں کے مطالبات کو تسلیم کر لیتی لیکن حکومت نے روایتی بے حسی کا ثبوت دیا۔مجبوراً اس کے کہ ابھی حکومت کو بنے ہوئے ایک سال اور تین ماہ ہوئے تھے کہ خان صاحب نے اعلان کر دیا کہ اسلام آباد میں دھرنا دیا جائے گا۔ اس دھرنے کو طاہر القادری صاحب کی جماعت کی مکمل حمایت حاصل تھی ۔ یہ میرا پہلا اختلاف تھا کہ خان صاحب کو قادری صاحب کی حمایت نہیں لینی چاہئے تھی ۔ خان صاحب کو ایسا کیوں نہیں کرنا چاہئے تھا ، اس کیلئے طاہر القادری کا ماضی ہی دیکھ لیں تو وہی کافی ہے ۔ خان صاحب نے اعلان کیا تھا کہ وہ اپنے ساتھ دس لاکھ لوگوں کا قافلہ لے کر اسلام آباد آئیں گے۔ لیکن غیر جانبدانہ رپورٹس کے مطابق خان صاحب اور قادری صاحب دونو ں کا کل قافلہ ایک لاکھ نفوس پر بھی مشتمل نہیں تھا۔

پھر خان صاحب پہلے ہی روز دھرنے سے اُٹھ کر بنی گالہ روانہ ہو گئے تھے ۔تاہم دھرنے کو اگر اُس کی تعریف کی رو سے دیکھا جائے تو دھرنا اُسی دن ختم ہو گیا تھا اور اس کے بعد روزانہ بنیادوں پر جلسہ اور احتجاج کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔اگر دھرنا دے دیا تھا تو پھر اس سے اٹھ کر جانے کی ضرورت نہیں تھی جب تک کے آپ کے مطالبات تسلیم نہ ہو جاتے۔ یہی باقی سب سے بھی کیا کہ دن میں غائب ہو جاتے اور شام کے سائے لمبے ہوتے ہیں دھرنے کے مقام پر واپس آجاتے ۔اس کے برعکس طاہر القادری صاحب نے دھرنا دیا تھا اور حیران کن طور پر کئی ماہ مستقل مزاجی سے جم کر بیٹھے رہے، لیکن یہاں یہ بھی عرض کر دوں کہ قادری صاحب کے دھرنے میں مقصد سے زیادہ عقیدت کا عنصر غالب تھا اور اسی عقیدت نے اُ ن کے دھرنے کو قائم رکھا،پھر قادری صاحب نے عین وقت پر دھرنوں کو تحلیل کر کے پورے ملک میں پھیلانے کااعلان کر دیا اور اس دن سے اب تک تحریک انصاف اکیلی ہی اسلام آباد میں موجو د ہے۔قادری صاحب نے ایسا کیوں کیا؟ اس کا جواب ابھی مبہم ہے لیکن آنے والے وقتوں میں سامنے بھی آجائے گا۔

خان صاحب نے ان ہی دھرنوں میں سول نا فرمانی کا اعلان بھی کیا اور سب کے سامنے بل بھی نظر آتش کیا، لیکن سول نافرمانی کی کال کو اُن کی پارٹی کے ارکان نے مسترد کر دیا اور اپنے بل اور ٹیکس جمع کروا دیے۔ خان صاحب نے کہا کہ اسمبلیوں سے استعفیٰ دیں گے لیکن اس کے ساتھ ہی انہوں نے خیبر پختونخواہ کی اسمبلیوں سے استعفیٰ نہ دیا۔ اگر الیکشن میں دھاندلی ہوئی ہے تو کیا وہ پنجاب، بلوچستان اور سندھ کی حد تک ہوئی ہے ؟ کیا کے پی کے میں کوئی دھاندلی نہیں ہوئی ہے؟ کیا وہاں کوئی اور الیکشن کمیشن تھا ؟ اگر ان سب سوالات کا جوا ب نہیں ہے تو پھر کے پی کے کی اسمبلیوں سے کیوں مستعفی ہونے کا اعلان نہیں کیاگیا؟ آپ اس سسٹم کے خلاف ہیں تو کے پی کے میں بھی وہی سسٹم ہے ، آپ وہاں اس کا تحفظ کیوں کر رہے ہیں؟ یہ تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ چونکہ کے پی کے میں تحریک انصاف کی حکومت ہے لہذا وہاں سب ٹھیک ہے اور باقی جگہوں پر سب غلط ہے ۔ اپنی ایمانداری سے بتائیں کہ کیا ایسا رویہ کسی کو بھی قابل قبول ہے؟ پی ٹی آئی نے کہا تھا کہ وہ ریڈ زون میں داخل نہیں ہونگے اور نہ ہی سرکاری املاک کو نقصان پہنچایں گے،لیکن اس کے باوجودنہ جانے کیوں اور کن مجبوریوں پر ایوان وزیر اعظم کی طرف مارچ شروع کر دیاگیا،جس کے نتیجے میں تصاد م بھی ہوا۔ مزید پیش قدمی سے اختلاف کی بنیاد پرخان صاحب نے جاوید ہاشمی کو جو کہ پارٹی کے اُ س وقت صدر تھے ، ایک لمحے میں پارٹی سے نکا ل کر باہر کر دیا۔کیا پیش قدمی سے حوالے سے جاوید ہاشمی کے تما م تر خدشات درست ثابت نہیں ہوئے ہیں؟ کیا دھرنا واپس اپنے مقام پر نہیں آیا؟

خان صاحب بین الاقوامی یونیورسٹی سے فاضل ہیں اور پوری دنیا میں خان صاحب کا ایک مقام ہے۔ ٹی وی ٹاک شوز میں مہذب لہجے میں بات کرنیو الے گنے چنے سیاستدانوں میں سے ایک سیاستدان خان صاحب بھی تھے۔ لیکن کنٹینر پر استعمال کی جانے والی زبانیں تہذیب کے کس دائرے میں آتی ہیں؟ کیا یہ رویہ درست ہے کہ چونکہ میرے مخالفین دوسروں کو سڑکوں کو پر گھسیٹنے اور پیٹ پھاڑنے کی باتیں کرتے ہیں لہذا مجھے شلواریں گیلی ہوگئی ہیں جیسے بیانات کا پورا حق حاصل ہے۔ اگرپارٹی چیئرمین سب کچھ کرے گا تو پارٹی کے کارکنا ن کیا نہیں کریں گے؟ میں تسلیم کرتا ہوں کہ پاکستانی سیاست اور بدتمیز ی کا چولی دامن کا ساتھ ہے لیکن تحریک انصاف تو تبدیلی کے نعروں کے ساتھ میدان میں آئی تھی۔ یہ عجیب تبدیلی ہے کہ پارٹی کا سربراہ اپنے لہجے میں منفی تبدیلیاں لا رہا ہے ۔ جو بھی خان صاحب سے اختلاف کرتا ہے اُ س کو گالیاں سننی پڑتی ہیں۔ کیا یہ رویہ درست ہے کہ صرف ہم ہی ٹھیک ہیں اور ہمارے مخالفین جہنم کی ریل گاڑی میں سوا ر ہیں۔

احتجاج کا تیسرا مرحلہ یعنی پلان سی شروع ہو چکا ہے، اس ضمن میں فیصل آباد میں ہونے والے احتجاج میں حکومتی غفلت اور نا اہلی کے باعث ایک کارکن کی جان بھی چلی گئی ہے۔ابھی تحریک انصاف کا احتجاج جاری ہے ، اس کے کیا نتائج نکلتے ہیں اس کیلئے ہمیں اس احتجاج کے ختم ہونے کا انتظار کرنا پڑے گا۔ اس کے بعد ہی یہ حقیقت واضح ہوگی کہ کیا پایا ہے اور کیا کھویا ہے ۔ لیکن ان سب کے بعد تحریک انصاف کو یہ بھی مدنظر رکھنا چاہئے کہ انہوں نے چند ہزار لوگوں کے ساتھ احتجاج کی روایت ڈا ل دی ہے اور کل کو اِن کو بھی ایسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑ سکتاہے ۔

کیا یہ مناسب نہیں تھاکہ نواز شریف کے استعفیٰ کی شرط عائد نہ کی جاتی ؟ کیا یہ درست نہیں تھا کہ اسمبلیوں میں رہتے ہوئے ایسی آئینی اصلاحات کروائی جاتی کہ مستقبل میں دھاندلی کے راستے ہمیشہ کیلئے بند ہو جاتے؟ کیا یہ درست نہیں تھا کہ قوم کو غلامی سے نجات دلانے کیلئے ایسی قانون سازی کروائی جاتی کہ اداروں کی بندر بانٹ نہ ہو سکتی؟ ایوانوں میں رہتے ہوئے مضبوط اپوزیشن کا کردار ادا کیا جاتاتاکہ حکومت پر مستقل پریشر برقرار رہتا؟ سیاست میں تہذیب کا عنصر لایا جاتا نہ کہ سیاسی رُخ کو بیک گیئر لگا کر واپس 77ء اور90ء میں لایا جائے؟ سسٹم کو اسمبلی میں چیلنج کیا جاتا اور اس کو ٹھیک کیا جاتا؟ اسمبلی میں رہتے ہوئے الیکشن اصلاحات کروائی جاتی ؟ کیا یہ ٹھیک نہیں تھا کہ اسمبلیوں میں رہتے ہوئے حکومت کا پوسٹ مارٹم کیا جاتا اور اس کے ہر غلط کام کی نشاندہی کی جاتی؟ لیکن اگر دھرنا سیاست ہی درست ہے تو پھر لگے رہیں ۔ جمہوریت اس وقت تک نہیں چل سکتی ہے جب تک عوام میں اس کا بوجھ سہنے کے لائق شعور اور مناسب اخلاق نہ ہو۔ کیا پی ٹی آئی کے کارکنان سمیت ہم سب میں یہ عنصر موجود ہے ؟ خود سوچیئے۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں