دہشت گردی کی الم ناک قیمت
وزیر اعظم نواز شریف نے کہا ہے کہ شمالی وزیرستان میں آپریشن ’’ضرب عضب‘‘ نے دہشتگردوں کی کمر توڑ دی ہے
وزیر اعظم نواز شریف نے کہا ہے کہ شمالی وزیرستان میں آپریشن ''ضرب عضب'' نے دہشتگردوں کی کمر توڑ دی ہے۔ آپریشن کی کامیابی کے لیے نقل مکانی کرنے والے افراد نے پاکستان کے استحکام کے لیے عظیم قربانیاں دی ہیں۔ اسلام آباد میں اعلیٰ سطح کے اجلاس جس میں آرمی چیف جنرل راحیل شریف، ڈی جی ملٹری آپریشنز، مشیر سلامتی امور سرتاج عزیز، وفاقی وزراء عبدالقادر بلوچ، اسحاق ڈار، گورنر خیبرپختونخوا سردار مہتاب اور معاون خصوصی طارق فاطمی شریک ہوئے، اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ حکومت آئی ڈی پیز کی بحالی کے لیے تمام اقدامات کریگی اور ان کی گھروں کو واپسی پر علاقے کی تعمیر نو کے ذریعے ان کی ضروریات کا مکمل خیال رکھا جائے گا۔
دہشت گردی کے حوالہ سے اس حقیقت کو تقریباً سب ہی تسلیم کر چکے ہیں کہ اس عفریت کی تباہ کاریوں کا سلسلہ عالمگیر ہے، اس لیے پاکستان بھی داخلی طور پر دہشت گردی کی المناک قیمت ادا کر چکا ہے، کہا جاتا ہے کہ دہشت گردی یا انتہا پسندی حکمرانی یا ریاستی نظام کی وہ قیمت ہے جو اہل اقتدار کو ادا کرنا پڑتی ہے، اگر کوئی حکمران اس کی قیمت ادا کرنے کو تیار نہیں تو اسے حکمرانی سے بھی دستبردار ہو جانا چاہیے، چنانچہ نوم چومسکی کہتے ہیں کہ دہشت گردی کی روک تھام کے مسئلہ پر ہر شخص پریشان ہے مگر اس کا ایک آسان علاج بھی ہے، وہ یہ کہ کوئی اس میں شریک نہ ہو۔
یہ بلیغ اشارہ ہے اس بات کا کہ دہشت گردی کے کسی ماسٹر مائنڈ کو ہلاک کرنے کے ساتھ ساتھ اس کی ہمہ گیر رفاقت و سرپرستی اور داخلی قوت و حمایت کا زور بھی ٹوٹنا چاہیے، تب وہ اکیلا کیا بھاڑ جھونکے گا۔ پاکستان کے قبائلی علاقوں سے دہشت گردی ختم ہو گی تو ملک کے عوام سکون کا سانس لے سکیں گے۔ ادھر ڈی جی ملٹری آپریشنز نے اہم اجلاس کو آپریشن ضرب عضب پر بریفنگ دی جس پر وزیر اعظم نے آپریشن کے ذریعے سے خطے میں امن یقینی بنانے کی امید ظاہر کی جب کہ متاثرین کی بحالی اور متاثرہ علاقوں کی تعمیر نو کے لیے جامع حکمت عملی وضع کرنے پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔میاں نواز شریف نے کہا کہ ضرب عضب سے دہشتگردوں کو مہلک دھچکا لگا ہے۔ مسلح افواج نے اس آپریشن میں مثالی قربانیاں دی ہیں۔ ادھر خیبر ایجنسی میں جیٹ طیاروں کی بمباری میں11 دہشتگرد ہلاک اور ان کے 12 ٹھکانے تباہ ہو گئے۔
ایک اطلاع یہ بھی آئی ہے کہ حکومت نے آئی ڈی پیز کی واپسی اور عسکری حکمت عملی پر مبنی منصوبہ کی منظوری دے دی ہے، جب کہ قومی سلامتی پالیسی اگلے ماہ کے وسط تک تیار ہو جائے گی، یہ ایک جامع پالیسی ہو گی، جو قومی سلامتی کے حوالے سے روایتی و غیر روایتی چیلنجز کا مکمل احاطہ کریگی۔ یہ بات سیکریٹری قومی سلامتی کمیٹی محمد صادق نے منگل کو ''جنوبی ایشیا کی سلامتی اور فلیش پوائنٹس'' کے موضوع پر منعقدہ کانفرنس سے خطاب کے دوران کہی۔ انھوں نے کہا کہ قومی سلامتی پالیسی کی دستاویز میں قومی سلامتی کی ڈاکٹرائن بھی شامل ہو گی۔ انھوں نے کہا کہ قومی سلامتی پالیسی کی تیاری کے علاوہ قومی سلامتی ڈویژن، قبائلی علاقوں میں اصلاحات، انتہا پسندی کے خاتمے اور پاک افغان سرحد کو جرائم پیشہ عناصر سے پاک کرنے سے متعلقہ منصوبوں پر بھی کام کر رہی ہے۔ دریں اثنا ایف بی آر نے پندرہ دسمبر سے پاکستان میں دھماکا خیز ڈیوائسز میں استعمال ہونیوالے کیمیکلز کی روک تھام اور دہشتگردوں کا سراغ لگانے کے لیے جدید نوعیت کا نظام متعارف کروانے کا فیصلہ کیا ہے جس کے تحت جدید آلات نصب کیے جائیں گے۔
ایف بی آر کے سینئر افسر نے ایکسپریس کو بتایا کہ اس نظام کی آپریشنل سرگرمیاں پندرہ دسمبر 2014ء سے شروع ہونگی جو تین جنوری 2015ء تک جاری رہینگی۔ یہ تمام اقدامات اور تیاریاں قابل قدر اسی وقت ہونگی جب ملک دہشت گردی سے نمٹنے کی وہی طاقت و قوت استعمال کریگا جو اسے جمہوری نظام اور مستحکم معیشت کی طرف سے ملے گی اور عوام اس کی پشت پناہی کو سیسہ پلائی دیوار کی طرح موجود ہوں گے، لیکن عوام کو کتنے گراں بار مسائل اور مصائب کا سامنا ہے، اس کی ایک ہلکی جھلک ایک رپورٹ میں دیکھیں جس کے مطابق پاکستان میں انسانی حقوق کی مجموعی صورتحال بتدریج ابتر ہو رہی ہے، اس وقت 70 لاکھ سے زائد اسکول جانے کی عمر کے بچے تعلیم کی سہولتوں سے محروم ہیں، 1.13 فیصد آبادی غلامانہ زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے'50 فیصد کے قریب آبادی کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں،48 فیصد سے زاید آبادی صحت کی بنیادی سہولتوں سے محروم ہے۔
اسی طرح ملک میں بدامنی' عدم تحفظ' انتشار، بڑھتے ہوئے جرائم بھی انسانی حقوق کی صورتحال کو مزید گمبھیر کر رہے ہیں۔ فیصل آباد میں پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلانے والی ٹیم پر نامعلوم افراد کی فائرنگ سے ایک رضا کار جاں بحق ہو گیا، یہ واقعہ فیصل آباد کے علاقے پیپلز کالونی نمبر 1 میں منگل کی صبح پیش آیا۔ پولیس کے بقول محمد سرفراز رحمانیہ مسجد کے قریب پہنچے تو موٹر سائیکل سوار دو مسلح افراد نے ان پر فائرنگ کر دی جس سے سرفراز زخمی ہو گئے۔
ان کو اسپتال منتقل کیا گیا جہاں وہ چل بسے۔ وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے کہا ہے اندرون سندھ لاشیں ملنے کا عمل افسوس ناک ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ملک دہشت گردی کے بدستور حصار میں ہے، جس سے نکلنے کے لیے آپریشن ضرب عضب کے ساتھ ایک کاری ضرب ان عناصر پر بھی لگنی چاہیے جو سات پردوں میں رہتے ہوئے ملک میں قتل و غارت گری، کرپشن اور بدامنی کے ذمے دار ہیں۔ حکمران حالات کو مزید نہ بگاڑیں بلکہ ہوش مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مذاکرات، امن و ترقی اور احتساب کا ماحول بحال کریں۔
دہشت گردی کے حوالہ سے اس حقیقت کو تقریباً سب ہی تسلیم کر چکے ہیں کہ اس عفریت کی تباہ کاریوں کا سلسلہ عالمگیر ہے، اس لیے پاکستان بھی داخلی طور پر دہشت گردی کی المناک قیمت ادا کر چکا ہے، کہا جاتا ہے کہ دہشت گردی یا انتہا پسندی حکمرانی یا ریاستی نظام کی وہ قیمت ہے جو اہل اقتدار کو ادا کرنا پڑتی ہے، اگر کوئی حکمران اس کی قیمت ادا کرنے کو تیار نہیں تو اسے حکمرانی سے بھی دستبردار ہو جانا چاہیے، چنانچہ نوم چومسکی کہتے ہیں کہ دہشت گردی کی روک تھام کے مسئلہ پر ہر شخص پریشان ہے مگر اس کا ایک آسان علاج بھی ہے، وہ یہ کہ کوئی اس میں شریک نہ ہو۔
یہ بلیغ اشارہ ہے اس بات کا کہ دہشت گردی کے کسی ماسٹر مائنڈ کو ہلاک کرنے کے ساتھ ساتھ اس کی ہمہ گیر رفاقت و سرپرستی اور داخلی قوت و حمایت کا زور بھی ٹوٹنا چاہیے، تب وہ اکیلا کیا بھاڑ جھونکے گا۔ پاکستان کے قبائلی علاقوں سے دہشت گردی ختم ہو گی تو ملک کے عوام سکون کا سانس لے سکیں گے۔ ادھر ڈی جی ملٹری آپریشنز نے اہم اجلاس کو آپریشن ضرب عضب پر بریفنگ دی جس پر وزیر اعظم نے آپریشن کے ذریعے سے خطے میں امن یقینی بنانے کی امید ظاہر کی جب کہ متاثرین کی بحالی اور متاثرہ علاقوں کی تعمیر نو کے لیے جامع حکمت عملی وضع کرنے پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔میاں نواز شریف نے کہا کہ ضرب عضب سے دہشتگردوں کو مہلک دھچکا لگا ہے۔ مسلح افواج نے اس آپریشن میں مثالی قربانیاں دی ہیں۔ ادھر خیبر ایجنسی میں جیٹ طیاروں کی بمباری میں11 دہشتگرد ہلاک اور ان کے 12 ٹھکانے تباہ ہو گئے۔
ایک اطلاع یہ بھی آئی ہے کہ حکومت نے آئی ڈی پیز کی واپسی اور عسکری حکمت عملی پر مبنی منصوبہ کی منظوری دے دی ہے، جب کہ قومی سلامتی پالیسی اگلے ماہ کے وسط تک تیار ہو جائے گی، یہ ایک جامع پالیسی ہو گی، جو قومی سلامتی کے حوالے سے روایتی و غیر روایتی چیلنجز کا مکمل احاطہ کریگی۔ یہ بات سیکریٹری قومی سلامتی کمیٹی محمد صادق نے منگل کو ''جنوبی ایشیا کی سلامتی اور فلیش پوائنٹس'' کے موضوع پر منعقدہ کانفرنس سے خطاب کے دوران کہی۔ انھوں نے کہا کہ قومی سلامتی پالیسی کی دستاویز میں قومی سلامتی کی ڈاکٹرائن بھی شامل ہو گی۔ انھوں نے کہا کہ قومی سلامتی پالیسی کی تیاری کے علاوہ قومی سلامتی ڈویژن، قبائلی علاقوں میں اصلاحات، انتہا پسندی کے خاتمے اور پاک افغان سرحد کو جرائم پیشہ عناصر سے پاک کرنے سے متعلقہ منصوبوں پر بھی کام کر رہی ہے۔ دریں اثنا ایف بی آر نے پندرہ دسمبر سے پاکستان میں دھماکا خیز ڈیوائسز میں استعمال ہونیوالے کیمیکلز کی روک تھام اور دہشتگردوں کا سراغ لگانے کے لیے جدید نوعیت کا نظام متعارف کروانے کا فیصلہ کیا ہے جس کے تحت جدید آلات نصب کیے جائیں گے۔
ایف بی آر کے سینئر افسر نے ایکسپریس کو بتایا کہ اس نظام کی آپریشنل سرگرمیاں پندرہ دسمبر 2014ء سے شروع ہونگی جو تین جنوری 2015ء تک جاری رہینگی۔ یہ تمام اقدامات اور تیاریاں قابل قدر اسی وقت ہونگی جب ملک دہشت گردی سے نمٹنے کی وہی طاقت و قوت استعمال کریگا جو اسے جمہوری نظام اور مستحکم معیشت کی طرف سے ملے گی اور عوام اس کی پشت پناہی کو سیسہ پلائی دیوار کی طرح موجود ہوں گے، لیکن عوام کو کتنے گراں بار مسائل اور مصائب کا سامنا ہے، اس کی ایک ہلکی جھلک ایک رپورٹ میں دیکھیں جس کے مطابق پاکستان میں انسانی حقوق کی مجموعی صورتحال بتدریج ابتر ہو رہی ہے، اس وقت 70 لاکھ سے زائد اسکول جانے کی عمر کے بچے تعلیم کی سہولتوں سے محروم ہیں، 1.13 فیصد آبادی غلامانہ زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے'50 فیصد کے قریب آبادی کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں،48 فیصد سے زاید آبادی صحت کی بنیادی سہولتوں سے محروم ہے۔
اسی طرح ملک میں بدامنی' عدم تحفظ' انتشار، بڑھتے ہوئے جرائم بھی انسانی حقوق کی صورتحال کو مزید گمبھیر کر رہے ہیں۔ فیصل آباد میں پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلانے والی ٹیم پر نامعلوم افراد کی فائرنگ سے ایک رضا کار جاں بحق ہو گیا، یہ واقعہ فیصل آباد کے علاقے پیپلز کالونی نمبر 1 میں منگل کی صبح پیش آیا۔ پولیس کے بقول محمد سرفراز رحمانیہ مسجد کے قریب پہنچے تو موٹر سائیکل سوار دو مسلح افراد نے ان پر فائرنگ کر دی جس سے سرفراز زخمی ہو گئے۔
ان کو اسپتال منتقل کیا گیا جہاں وہ چل بسے۔ وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے کہا ہے اندرون سندھ لاشیں ملنے کا عمل افسوس ناک ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ملک دہشت گردی کے بدستور حصار میں ہے، جس سے نکلنے کے لیے آپریشن ضرب عضب کے ساتھ ایک کاری ضرب ان عناصر پر بھی لگنی چاہیے جو سات پردوں میں رہتے ہوئے ملک میں قتل و غارت گری، کرپشن اور بدامنی کے ذمے دار ہیں۔ حکمران حالات کو مزید نہ بگاڑیں بلکہ ہوش مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مذاکرات، امن و ترقی اور احتساب کا ماحول بحال کریں۔