مسئلہ کشمیر بانکی مون کی ثالثی پر آمادگی

بان کی مون نے صائب کہا کہ پاکستان اور بھارت کو مسئلہ کشمیر سمیت تمام ایشوز مذاکرات سے حل کرنے چاہئیں


Editorial December 10, 2014
مسئلہ کشمیر کا حل نہ صرف دونوں ممالک کے لیے بلکہ پورے خطے میں امن کے لیے ناگزیر ہے ۔ فوٹو:فائل

پاک بھارت تعلقات کی بہتری میں حائل سب سے بڑی رکاوٹ مسئلہ کشمیر ہے جس نکتے پر آ کر تمام تر مذاکرات اور بہتر تعلقات کی باہمی خواہشات دم توڑ جاتی ہیں۔ بلاشبہ اس معاملے میں زیادہ قصور وار بھارت کا ہٹ دھرم اور ''میں نہ مانوں'' کا رویہ شامل ہوتا ہے لیکن خطے کے تمام ہی ممالک اس بات پر متفق ہیں کہ پاکستان اور بھارت کو اپنے بہتر تعلقات کے لیے یہ ''ازلی'' مسئلہ مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر حل کرنا چاہیے۔

اس سلسلے میں تازہ اطلاع یہ ہے کہ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون نے پاکستان اور بھارت کے درمیان مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے ثالثی پر آمادگی ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر دونوں ممالک اس بارے میں درخواست کریں تو وہ کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہیں۔ اقوام متحدہ جیسے بڑے ادارے کے جنرل سیکریٹری کی جانب سے یہ تازہ بیان یقیناً اہمیت کا حامل ہے لیکن کیا بھارت ہوشمندی کے ناخن لیتے ہوئے حل کی جانب پیشرفت پر راضی ہو گا؟ اس سے پہلے بھی اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم سے مسئلہ کشمیر کے حل اور کشمیریوں کے حق رائے دہی پر آواز بلند ہوتی رہی ہے لیکن بھارت اپنی انا کی آگ میں جلتے ہوئے خطے کے امن کو بھی راکھ کا ڈھیر بنانے پر تلا ہوا ہے۔

ایک انٹرویو میں بان کی مون نے صائب کہا کہ پاکستان اور بھارت کو مسئلہ کشمیر سمیت تمام ایشوز مذاکرات سے حل کرنے چاہئیں، مسئلہ کشمیر کا حل نہ صرف دونوں ممالک کے لیے بلکہ پورے خطے میں امن کے لیے ناگزیر ہے۔ پاکستان کے فہمیدہ حلقے بھی ایک عرصے سے یہ بات دہرا رہے ہیں کہ کشمیر کا مسئلہ باہمی اتفاق سے حل کر لیا جانا چاہیے، اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر بھی اس مسئلے پر بار بار آواز اٹھائی گئی ہے اور پاکستان کی جانب سے ہمیشہ مذاکرات کا خیر مقدم کیا گیا ہے۔ موجودہ حکومت بھی مسئلہ کشمیر کے حل اور بھارت کے ساتھ بہتر تعلقات کی خواہاں ہے لیکن پاکستان کی جانب سے ہر مثبت پیش قدمی کو بھارت کے انتہاپسند رویے نے ناکام بنا دیا ہے۔ امید کرتے ہیں کہ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون کے متذکرہ بیان کے بعد بھارت اپنی روایتی ہٹ دھرمی سے باز آتے ہوئے مذاکرات کی طرف راغب ہو گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں