لے کے رہیں گے پاکستان
تحریک پاکستان کے دوران جو نعرے عام سنے جاتے تھے ان میں ایک بڑا اور بنیادی نعرہ تھا ’لے کے رہیں گے پاکستان
تحریک پاکستان کے دوران جو نعرے عام سنے جاتے تھے ان میں ایک بڑا اور بنیادی نعرہ تھا 'لے کے رہیں گے پاکستان' اسی طرح ایک اور نعرہ بھی تھا ''بن کے رہے گا پاکستان'' ان نعروں نے 14 اگست 1947ء کو حقیقت کا روپ تو دھار لیا لیکن صرف جسمانی حد تک۔ اندر کی سماجی اور روحانی دنیا میں پاکستان نہ بن سکا۔ یعنی ایک نظریاتی ملک اپنے نعرے کی تکمیل کے لیے جسمانی طور پر تو وجود میں آ گیا مگر اس ملک کے جو نظریات تھے اور جن پر برصغیر کے مسلمان متحد ہوئے تھے اور جو لے کے رہیں گے پاکستان کے نعرے کی اصل طاقت تھے وہ پاکستان کے روحانی وجود میں سرائیت نہ کر سکے۔
اس کیفیت کو شاید یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ہم نے پورا نہیں ادھورا پاکستان حاصل کیا یا اسے ادھورا کر دیا اور یوں نظریات کی ابدی طاقت سے محروم رہے۔ وہ جو کہا جاتا ہے کہ پاکستان خدا و رسولؐ کے نام پر حاصل کیا گیا تھا اس میں حقیقت ضرور تھی لیکن خدا و رسولؐ کے نام کی طرح نظریات ہم اختیار نہ کر سکے۔ صرف خدا و رسولؐ یعنی اسلام کا نام ہی لیتے رہے اور لے رہے ہیں۔ اس نعرے کو دہراتے ہوئے ہمیں 67 برس سے زائد عرصہ ہو چکا ہے لیکن یہ سب زبانی کلامی ہے آواز اگر دل سے بھی اٹھتی ہے لیکن ہمارے حکمران عملی اسلام کو برداشت نہیں کر سکتے اس لیے وہ عوام کا منہ بند کرنے کے لیے کبھی اسلامی نظریاتی کونسل بناتے ہیں اور کبھی نمائشی قسم کے اقدامات کرتے ہیں لیکن اسلام کا نفاذ نہیں کیا جاتا۔
یوں ہے کہ ہم نہ اسلامی ملک ہیں نہ غیر اسلامی اور مغربی طرز کے کوئی ملک۔ اس گومگو میں ہم کچھ بھی نہیں ہیں۔ ہمارا اصل تعارف کیا ہے میں کچھ کہہ نہیں سکتا البتہ ہمارا سرکاری نام کچھ عرصہ سے اسلامی جمہوریہ پاکستان قرار دیا گیا ہے مگر حقیقت میں نہ اسلامی ہے نہ جمہوری ہے اور نہ وہ پاکستان ہے جو 1947ء میں قائم ہوا تھا، اب یہ نصف کر دیا گیا ہے اور اس سانحہ عظیم کی وجہ بھی ہماری یہی دوعملی ہے کہ پاکستانی عوام کو ہم وہ پاکستان نہیں دے سکے جس کا ان کے بزرگوں نے ان سے وعدہ کیا تھا۔ یہ ایک غیر نظریاتی کھوکھلا اور کمزور ملک ہے جو اس ملک کے دشمنوں کے لیے تر نوالہ ثابت ہوا۔ اسلام کے عادلانہ نظام سے محروم مشرقی پاکستان کے عوام کو ہمارے دشمنوں نے آسانی کے ساتھ فتح کر لیا۔ بھارت کی وزیراعظم اندرا گاندھی نے سر بلند کر کے اعلان کیا کہ ہم نے مسلمانوں سے ہزار برس کی غلامی کا بدلہ لے لیا ہے اور اس کی یہ بات ہمارے لیے کتنی ہی تلخ سہی مگر ایک حقیقت ضرور تھی۔
ہم مسلمانوں کے نظریات اور ہمارا ایمان ہمیں یہ خوشخبری دیتا ہے کہ اگر تم سچے مسلمان ہو تو کوئی تمہیں فتح اور مغلوب نہیں کر سکتا۔ ہمارے بزرگ عرب کے ریگستانوں سے اٹھے اور پیغمبر علیہ السلام کے سکھائے ہوئے نظریات کو اپنا کر انھیں اپنے اوپر نافذ کر کے ایک ایسی طاقت بن گئے کہ آج کے مورخوں کا اتفاق ہے کہ اگر حضرت عمرؓ دس برس مزید زندہ رہتے تو دنیا میں سب سے بڑا مذہب اسلام ہوتا اور سب سے زیادہ تعداد مسلمانوں کی ہوتی وجہ صرف یہ ہے کہ اسلام کے نظریات میں اتنی طاقت تھی کہ ان کی وسعت کو روکا نہیں جا سکتا تھا، اسلام نے مسلمانوں کو عظمت کردار سے بہرہ مند کیا ان کے حکمرانوں کو ایثار و قربانی اور فراست و حکمت کا مرقع بنا دیا اور حکمرانی کے ایسے اصول عطا کر دیے کہ وہ انسانیت کی معراج تک پہنچ گئے۔
ہمارے ہاں کے بے عمل مسلمانوں نے ایک بہانہ بنا رکھا ہے کہ وہ تو پیغمبر اسلامؐ کے براہ راست تربیت یافتہ یا ان کے قریب ترین زمانے کے لوگ تھے ہم تو اب صدیوں دور کے زمانے میں ہیں ہم کہاں ان کا مقابلہ کر سکتے ہیں اور ان جیسے کردار کے مالک ہو سکتے ہیں۔ یہ ایک بڑا جھوٹ اور دھوکا ہے جو ہم اپنے آپ کو دیتے رہتے ہیں۔ کیا ہمارے پاس لفظ بہ لفظ وہی رہنما کتاب نہیں ہے جس پر عمل کر کے کچھ خلفائے راشدین کہلائے اور کچھ عادل و منصف حکمران۔ اگر ہم ان کے قریب نہیں پہنچ سکتے تو نعوذ باللہ ہمارے پاس اللہ کا جو کلام ہے وہ فرسودہ اور بے اثر ہو گیا ہے۔ سب کچھ حرف بہ حرف ہی ہے اور حضور پاکﷺ کے ارشادات غیر معمولی احتیاط کے ساتھ جمع کر دیے گئے ہیں۔ دنیا کے مورخ تسلیم کرتے ہیں کہ کسی ایک شخص کی زندگی اور فرمودات کو اس قدر تفصیل اور سند کے ساتھ جمع نہیں کیا گیا جتنے پیغمبر اسلام کے۔
قرآن و سنت دونوں موجود ہیں اور ہمیں وہ پوری رہنمائی اور ہدایت میسر ہے جو اسلام کا پیغام ہے۔ کمزوری جو بھی ہے وہ ہماری اپنی ہے۔ خلفائے راشدین کی حاکمانہ زندگی کی مثال نہیں دیتے اس وقت ان کے بعد پیدا ہونے والے اشرافیہ کے ایک فرد کی بات کرتے ہیں جو مسلمانوں کی پہلی ملوکیت کا ایک شہزادہ تھا۔ اس نے امیر المومنین منتخب ہونے کے بعد پہلا کام تو یہ کیا کہ مسجد میں بیٹھ کر اپنے شاہی خاندان کے قبضے میں لی گئی عام لوگوں کی جائیدادوں کی رجسٹریاں کتر دیں۔ پھر اسلام کے اصولوں کی پیروی کرتے ہوئے حکومت شروع کی۔ اسی حکومت کے دوران عید آ گئی۔ بیگم نے کہا کہ میرے پاس تو اب کچھ بھی نہیں ہے ان کی بیگم بھی ان کے خاندان سے تھیں، اس شہزادی نے شوہر سے کہا کہ عید آ گئی ہے۔
بچیوں کے پاس نئے کپڑے نہیں ہیں کوئی بندوبست کیجیے۔ وہ یہ سن کر بیت المال کے انچارج کے پاس گئے اور کہا کہ مجھے آپ ایک مہینے کی تنخواہ ایڈوانس دے دیں۔ بیت المال کے افسر نے عرض کیا کہ آپ مالک ہیں جو حکم ہو اس کی تعمیل میرا فرض ہے لیکن صرف ایک عرض ہے کہ کیا تنخواہ کے ایڈوانس کی ادائیگی یعنی ایک ماہ تک کیا آپ زندہ رہیں گے اس کی کیا ضمانت ہے۔ اپنی طرح دیانت و امانت کے زندہ پیکر خزانچی کی یہ سچی بات سن کر سر جھکائے ہوئے چلے گئے اور بیگم سے کہا کہ ان کے پرانے کپڑوں کو دھو کر انھیں پہنا دینا بیت المال سے تو جواب مل گیا ہے۔ یہ عمر بن عبدالعزیزؒ تھے عمر بھر گورنر رہے تھے ان کے شاندار لباس اور رہن سہن کے قصے مشہور ہیں۔ ان کے دور حکومت میں عوام کی خوشحالی کے قصے بھی بہت عام ہیں۔ ان کے بعد بھی ہمیں اپنی تاریخ کو روشن کرنے اور رکھنے والے حکمران ملتے رہے اور ان کی عادلانہ اور بے غرض حکمرانی کا نتیجہ تھا کہ گزشتہ انیسویں صدی کے شروع تک مسلمان دنیا کی سپر پاور رہے۔ یہ زمانے لوٹ سکتے ہیں بس کچھ معقول قسم کے حکمران درکار ہیں۔
پاکستان کے ذرایع آمدن بے شمار ہیں اور ہماری افرادی قوت کا ایک کمال تو یہ ہے کہ ہم نے ایٹم بم بنا لیا ہے۔ بس ضرورت صرف جاندار اور لالچ سے کسی حد تک محفوظ اور قدرے مسلمان حکمرانوں کی ہے اس کے بعد ہمارے دشمن ہمارے خوشامد کیا کریں گے جن لوگوں کا عقیدہ یہ ہو کہ موت کے بعد ابدی زندگی مل سکتی ہے اور اعمال درست ہوں تو ایک بے حد آسودہ زندگی۔ ایسی قوم کو شہادت کی طلب گار قوم کو کون شکست دے سکتا ہے۔ بس یہی وہ پاکستان ہے جس کی آرزو لے کر ہمارے بزرگ ایک بڑی طاقت کے خلاف کامیاب ہوئے تھے۔ ہم ایک کامیاب زندگی بھی بسر کر سکتے ہیں اور وہ پاکستان بنا سکتے ہیں جس کی تمنا کی گئی تھی یعنی خدا و رسولؐ کے نام پر پاکستان جس میں ان کا دین غالب ہو۔
اس کیفیت کو شاید یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ہم نے پورا نہیں ادھورا پاکستان حاصل کیا یا اسے ادھورا کر دیا اور یوں نظریات کی ابدی طاقت سے محروم رہے۔ وہ جو کہا جاتا ہے کہ پاکستان خدا و رسولؐ کے نام پر حاصل کیا گیا تھا اس میں حقیقت ضرور تھی لیکن خدا و رسولؐ کے نام کی طرح نظریات ہم اختیار نہ کر سکے۔ صرف خدا و رسولؐ یعنی اسلام کا نام ہی لیتے رہے اور لے رہے ہیں۔ اس نعرے کو دہراتے ہوئے ہمیں 67 برس سے زائد عرصہ ہو چکا ہے لیکن یہ سب زبانی کلامی ہے آواز اگر دل سے بھی اٹھتی ہے لیکن ہمارے حکمران عملی اسلام کو برداشت نہیں کر سکتے اس لیے وہ عوام کا منہ بند کرنے کے لیے کبھی اسلامی نظریاتی کونسل بناتے ہیں اور کبھی نمائشی قسم کے اقدامات کرتے ہیں لیکن اسلام کا نفاذ نہیں کیا جاتا۔
یوں ہے کہ ہم نہ اسلامی ملک ہیں نہ غیر اسلامی اور مغربی طرز کے کوئی ملک۔ اس گومگو میں ہم کچھ بھی نہیں ہیں۔ ہمارا اصل تعارف کیا ہے میں کچھ کہہ نہیں سکتا البتہ ہمارا سرکاری نام کچھ عرصہ سے اسلامی جمہوریہ پاکستان قرار دیا گیا ہے مگر حقیقت میں نہ اسلامی ہے نہ جمہوری ہے اور نہ وہ پاکستان ہے جو 1947ء میں قائم ہوا تھا، اب یہ نصف کر دیا گیا ہے اور اس سانحہ عظیم کی وجہ بھی ہماری یہی دوعملی ہے کہ پاکستانی عوام کو ہم وہ پاکستان نہیں دے سکے جس کا ان کے بزرگوں نے ان سے وعدہ کیا تھا۔ یہ ایک غیر نظریاتی کھوکھلا اور کمزور ملک ہے جو اس ملک کے دشمنوں کے لیے تر نوالہ ثابت ہوا۔ اسلام کے عادلانہ نظام سے محروم مشرقی پاکستان کے عوام کو ہمارے دشمنوں نے آسانی کے ساتھ فتح کر لیا۔ بھارت کی وزیراعظم اندرا گاندھی نے سر بلند کر کے اعلان کیا کہ ہم نے مسلمانوں سے ہزار برس کی غلامی کا بدلہ لے لیا ہے اور اس کی یہ بات ہمارے لیے کتنی ہی تلخ سہی مگر ایک حقیقت ضرور تھی۔
ہم مسلمانوں کے نظریات اور ہمارا ایمان ہمیں یہ خوشخبری دیتا ہے کہ اگر تم سچے مسلمان ہو تو کوئی تمہیں فتح اور مغلوب نہیں کر سکتا۔ ہمارے بزرگ عرب کے ریگستانوں سے اٹھے اور پیغمبر علیہ السلام کے سکھائے ہوئے نظریات کو اپنا کر انھیں اپنے اوپر نافذ کر کے ایک ایسی طاقت بن گئے کہ آج کے مورخوں کا اتفاق ہے کہ اگر حضرت عمرؓ دس برس مزید زندہ رہتے تو دنیا میں سب سے بڑا مذہب اسلام ہوتا اور سب سے زیادہ تعداد مسلمانوں کی ہوتی وجہ صرف یہ ہے کہ اسلام کے نظریات میں اتنی طاقت تھی کہ ان کی وسعت کو روکا نہیں جا سکتا تھا، اسلام نے مسلمانوں کو عظمت کردار سے بہرہ مند کیا ان کے حکمرانوں کو ایثار و قربانی اور فراست و حکمت کا مرقع بنا دیا اور حکمرانی کے ایسے اصول عطا کر دیے کہ وہ انسانیت کی معراج تک پہنچ گئے۔
ہمارے ہاں کے بے عمل مسلمانوں نے ایک بہانہ بنا رکھا ہے کہ وہ تو پیغمبر اسلامؐ کے براہ راست تربیت یافتہ یا ان کے قریب ترین زمانے کے لوگ تھے ہم تو اب صدیوں دور کے زمانے میں ہیں ہم کہاں ان کا مقابلہ کر سکتے ہیں اور ان جیسے کردار کے مالک ہو سکتے ہیں۔ یہ ایک بڑا جھوٹ اور دھوکا ہے جو ہم اپنے آپ کو دیتے رہتے ہیں۔ کیا ہمارے پاس لفظ بہ لفظ وہی رہنما کتاب نہیں ہے جس پر عمل کر کے کچھ خلفائے راشدین کہلائے اور کچھ عادل و منصف حکمران۔ اگر ہم ان کے قریب نہیں پہنچ سکتے تو نعوذ باللہ ہمارے پاس اللہ کا جو کلام ہے وہ فرسودہ اور بے اثر ہو گیا ہے۔ سب کچھ حرف بہ حرف ہی ہے اور حضور پاکﷺ کے ارشادات غیر معمولی احتیاط کے ساتھ جمع کر دیے گئے ہیں۔ دنیا کے مورخ تسلیم کرتے ہیں کہ کسی ایک شخص کی زندگی اور فرمودات کو اس قدر تفصیل اور سند کے ساتھ جمع نہیں کیا گیا جتنے پیغمبر اسلام کے۔
قرآن و سنت دونوں موجود ہیں اور ہمیں وہ پوری رہنمائی اور ہدایت میسر ہے جو اسلام کا پیغام ہے۔ کمزوری جو بھی ہے وہ ہماری اپنی ہے۔ خلفائے راشدین کی حاکمانہ زندگی کی مثال نہیں دیتے اس وقت ان کے بعد پیدا ہونے والے اشرافیہ کے ایک فرد کی بات کرتے ہیں جو مسلمانوں کی پہلی ملوکیت کا ایک شہزادہ تھا۔ اس نے امیر المومنین منتخب ہونے کے بعد پہلا کام تو یہ کیا کہ مسجد میں بیٹھ کر اپنے شاہی خاندان کے قبضے میں لی گئی عام لوگوں کی جائیدادوں کی رجسٹریاں کتر دیں۔ پھر اسلام کے اصولوں کی پیروی کرتے ہوئے حکومت شروع کی۔ اسی حکومت کے دوران عید آ گئی۔ بیگم نے کہا کہ میرے پاس تو اب کچھ بھی نہیں ہے ان کی بیگم بھی ان کے خاندان سے تھیں، اس شہزادی نے شوہر سے کہا کہ عید آ گئی ہے۔
بچیوں کے پاس نئے کپڑے نہیں ہیں کوئی بندوبست کیجیے۔ وہ یہ سن کر بیت المال کے انچارج کے پاس گئے اور کہا کہ مجھے آپ ایک مہینے کی تنخواہ ایڈوانس دے دیں۔ بیت المال کے افسر نے عرض کیا کہ آپ مالک ہیں جو حکم ہو اس کی تعمیل میرا فرض ہے لیکن صرف ایک عرض ہے کہ کیا تنخواہ کے ایڈوانس کی ادائیگی یعنی ایک ماہ تک کیا آپ زندہ رہیں گے اس کی کیا ضمانت ہے۔ اپنی طرح دیانت و امانت کے زندہ پیکر خزانچی کی یہ سچی بات سن کر سر جھکائے ہوئے چلے گئے اور بیگم سے کہا کہ ان کے پرانے کپڑوں کو دھو کر انھیں پہنا دینا بیت المال سے تو جواب مل گیا ہے۔ یہ عمر بن عبدالعزیزؒ تھے عمر بھر گورنر رہے تھے ان کے شاندار لباس اور رہن سہن کے قصے مشہور ہیں۔ ان کے دور حکومت میں عوام کی خوشحالی کے قصے بھی بہت عام ہیں۔ ان کے بعد بھی ہمیں اپنی تاریخ کو روشن کرنے اور رکھنے والے حکمران ملتے رہے اور ان کی عادلانہ اور بے غرض حکمرانی کا نتیجہ تھا کہ گزشتہ انیسویں صدی کے شروع تک مسلمان دنیا کی سپر پاور رہے۔ یہ زمانے لوٹ سکتے ہیں بس کچھ معقول قسم کے حکمران درکار ہیں۔
پاکستان کے ذرایع آمدن بے شمار ہیں اور ہماری افرادی قوت کا ایک کمال تو یہ ہے کہ ہم نے ایٹم بم بنا لیا ہے۔ بس ضرورت صرف جاندار اور لالچ سے کسی حد تک محفوظ اور قدرے مسلمان حکمرانوں کی ہے اس کے بعد ہمارے دشمن ہمارے خوشامد کیا کریں گے جن لوگوں کا عقیدہ یہ ہو کہ موت کے بعد ابدی زندگی مل سکتی ہے اور اعمال درست ہوں تو ایک بے حد آسودہ زندگی۔ ایسی قوم کو شہادت کی طلب گار قوم کو کون شکست دے سکتا ہے۔ بس یہی وہ پاکستان ہے جس کی آرزو لے کر ہمارے بزرگ ایک بڑی طاقت کے خلاف کامیاب ہوئے تھے۔ ہم ایک کامیاب زندگی بھی بسر کر سکتے ہیں اور وہ پاکستان بنا سکتے ہیں جس کی تمنا کی گئی تھی یعنی خدا و رسولؐ کے نام پر پاکستان جس میں ان کا دین غالب ہو۔