عوامی شاعری
عوامی شاعری کو نوعیت کے اعتبار سے کئی سطحوں پر دیکھا جا سکتا ہے
عوامی شاعری کو نوعیت کے اعتبار سے کئی سطحوں پر دیکھا جا سکتا ہے جن میں عوام کے لیے کی گئی شاعری' عوامی لہجے اور زبان کی شاعری' عوامی مسائل کی ترجمان شہری' عوامی مطالبات اور مسائل پر مبنی شاعری' عوامی حقوق کی علمبردار شاعری وغیرہ وغیرہ شامل ہیں لیکن اس کی ایک قسم اور بھی ہے جس میں موجود صورت حال کے بارے میں عوام کے ردعمل' ناراضگی اور غم و غصے کا انداز غالب ہوتا ہے اس کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ یہ زیادہ تر ترقی یافتہ زبانوں کے بجائے ان بولیوں میں کی جاتی ہے جو عام' غریب' تعلیم' روز گار اور پہچان سے محروم' بے وسیلہ لوگ روز مرہ کی زندگی میں استعمال کرتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ آپ کو اردو کی عوامی شاعری شدت اور مقدار کے حوالے سے بہت کم ملے گی لیکن برصغیر اور پاکستان کی مختلف علاقائی اور عوامی زبانوں میں اس کا رنگ ڈھنگ ہی کچھ اور ہے، رسم الخط کے مسائل اور ان زبانوں سے براہ راست واقفیت کی کمی کی وجہ سے میں اپنی بات کو صرف اردو اور پنجابی میں کی گئی عوامی شاعری تک ہی محدود رکھوں گا، نظیر اکبر آبادی سے لے کر حبیب جالب تک اردو میں عوامی شاعری کے بہت سے روپ ملتے ہیں جن میں احتجاج' مزاحمت' غصہ' طنز' بے چارگی اور بغاوت کے عناصر پائے جاتے ہیں مگر جو کاٹ' براہ راست انداز اور انکار کا لہجہ عوامی بولیوں بالخصوص پنجابی زبان میں نظر آتا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے یہاں تک کہ صوفی شعراء کی شاعری میں بھی اس کا پرتو آسانی سے دیکھا جا سکتا ہے جس کے دو اہم ترین نمایندے شاہ حسین اور بابا بلھے شاہ ہیں۔ پنجابی گیتوں میں ظالم بادشاہوں' راجوں مہاراجوں اور بیرونی حملہ آوروں کے ظلم و ستم کے تذکرے ان کے ناموں اور انسان دشمن ظالمانہ خصائص کے حوالے سے بھی خوب خوب بیان کیے گئے ہیں۔
بیسویں صدی میں برطانوی استعمار سے آزادی اور انسانی حقوق کی پامالی اور بحالی کے موضوعات پر عوامی شاعری کا ایک نیا روپ سامنے آنا شروع ہوا جو قیام پاکستان کے بعد بھی نہ صرف جاری رہا بلکہ اس میں مقامی حوالوں' واقعات اور کرداروں کا ذکر بہت شدت اور تواتر سے کیا جانے لگا، نظیر کے زمانے میں اگر احتجاج کی صورت یہ تھی کہ
حکم حاکم ہے کہ اس محکمہ عدل کے بیچ
دست فریاد کو اونچا نہ کرے فریادی
تو حبیب جالب کے یہاں یہ ''میں نہیں جانتا' میں نہیں مانتا'' کے بلند آہنگ انکار کے ساتھ ساتھ اردو غزل کی روایت کا بھی اس طرح سے حصہ بنتی دکھائی دیتی ہے کہ
کہاں قاتل بدلتے ہیں فقط چہرے بدلتے ہیں
عجب اپنا سفر ہے فاصلے بھی ساتھ چلتے ہیں
وہ جس کی روشنی کچے گھروں کو جگمگائے گی
نہ وہ سورج نکلتا ہے' نہ دن اپنے بدلتے ہیں
لیکن ان کے ہم عصر استاد دامن نے جالب کے ''رقص زنجیر پہن کر بھی کیا جاتا ہے'' کو جب اس انداز میں لکھا کہ ''لاڑکانے چلو ورنہ تھانے چلو'' تو بات ایک نئے منطقے میں داخل ہو گئی کہ ان کے ہم عصر اور بعد کی نسل کے پنجابی شاعروں نے استعاروں کے بجائے براہ راست خطابیہ انداز کو اپنایا اور اس طرز تخاطب میں بعض اوقات اتنی شدت اور جارحیت در آئی کہ بات گالی گلوچ اور نعرہ بازی کی حدوں کو چھونے لگی، قابل غور بات یہ ہے کہ ایسا صرف پنجابی یا دیگر عوامی زبانوں میں ہی نہیں ہوا بلکہ دنیا بھر کی زبانوں کی عام بول چال اور عوامی شاعری پر اس کا اثر غالب دکھائی دیتا ہے۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ستر کی دہائی میں جب میں نے امریکا اور افریقہ کے سیاہ فام باشندوں کی شاعری کے تراجم (جو بعد میں کتابی صورت میں ''کالے لوگوں کی روشن نظمیں'' کے نام سے شایع ہوئے) کرنا شروع کیے تو مجھے پروفیسر فیٹز سمنز کی معرفت کچھ ایسے گیت اور نظمیں بھی ہاتھ لگیں جو امریکی سیاہ فام گلوکار گٹاروں پر کمپوز کر کے گایا کرتے تھے، ان گیتوں میں ماں بہن کی گالیوں اور بے حیائی کا ذکر بڑی بے تکلفی اور کثرت سے کیا گیا تھا بلکہ بعض گیت تو تھے ہی منظوم گالیاں۔ یہ گویا ایک طرح سے ان لوگوں کے احتجاج غصے اور اعلان بغاوت کی صورتیں تھیں۔ جنگ عظیم اول کے بعد جب برصغیر میں آزادی کی مہمات شروع ہوئیں تو یہاں بھی اس سے ملتی جلتی جارحانہ شاعری کے کچھ نمونے سامنے آئے
تہذیب نو کے منہ پہ وہ تھپڑ رسید کر
جو اس حرام زادی کا حلیہ بگاڑ دے
اور یہ کہ ''ہر شاخ پہ الو بیٹھا ہے انجام گلستاں کیا ہو گا' وغیرہ وغیرہ۔ لیکن اس کا جو رنگ قیام پاکستان کے بعد مقامی کرداروں اور حوالوں کے ساتھ سامنے آیا اور آرہا ہے اس کی وجہ سے یہ عوامی شاعری گویا ایک تاریخی شہادت اور حقیقت کی شکل اختیار کر گئی ہے کہ بے شمار شاعروں نے اس رنگ میں بہت عمدہ اور دل و دماغ کو بیک چھونے والی شاعری کی ہے یہ بات اور ہے کہ ان میں سے بیشتر شاعر یا تو گمنام رہے یا اپنے قریب کے علاقوں تک محدود ہو کر رہ گئے) ان سب کی ایک مشترکہ خوبی چھوٹی بحر کا استعمال ہے کہ جس کا مناسب اور تخلیقی استعمال قاری اور سامع پر فوری اور گہرا اثر قائم کرتا ہے۔
ایسے ہی ایک عمدہ شاعر ارشد منظور کا کلام مجھے سننے اور پڑھنے کا موقع ملا ہے سو مثال کے طور پر اسی کی ایک تازہ پنجابی غزل درج کرتا ہوں جو دراصل ایک پوری نسل کے ذہنی رویوں اور مزاج کی آئینہ دار ہے مجھے امید ہے کہ پنجابی کو ٹھیک طرح سے پڑھ اور بول نہ سکنے والے احباب بھی اس سے لطف اندوز ہو سکیں گے کہ لہجے اور تلفظ کے معمولی سے فرق سے قطع نظر باقی تو سب کچھ تو وہی ہے جسے ہم آپ اردو کہتے ہیں
اج نئیں تے کل ہوئے گی
محنت کش دی گل ہوئے گی
جے نہ رج کے روٹی لبھی
دھرتی تے تھڑ تھل ہوئے گی
جھوٹھے دے گل پھا ہوئیگا
خلقت سچے ول ہوئے گی
یا تے لاش ہوئے گی میری
یا فیر تیری کھل ہوئے گی
میں نئیں مندا تیرا جرگہ
تبدیلی دی گل ہوئے گی
مک جاون گے گھپ ہنیرے
بس چانن دی چھل ہوئے گی
رب دی خلقت راج کرے گی
ارشد چل سو چل ہوئے گی
یہی وجہ ہے کہ آپ کو اردو کی عوامی شاعری شدت اور مقدار کے حوالے سے بہت کم ملے گی لیکن برصغیر اور پاکستان کی مختلف علاقائی اور عوامی زبانوں میں اس کا رنگ ڈھنگ ہی کچھ اور ہے، رسم الخط کے مسائل اور ان زبانوں سے براہ راست واقفیت کی کمی کی وجہ سے میں اپنی بات کو صرف اردو اور پنجابی میں کی گئی عوامی شاعری تک ہی محدود رکھوں گا، نظیر اکبر آبادی سے لے کر حبیب جالب تک اردو میں عوامی شاعری کے بہت سے روپ ملتے ہیں جن میں احتجاج' مزاحمت' غصہ' طنز' بے چارگی اور بغاوت کے عناصر پائے جاتے ہیں مگر جو کاٹ' براہ راست انداز اور انکار کا لہجہ عوامی بولیوں بالخصوص پنجابی زبان میں نظر آتا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے یہاں تک کہ صوفی شعراء کی شاعری میں بھی اس کا پرتو آسانی سے دیکھا جا سکتا ہے جس کے دو اہم ترین نمایندے شاہ حسین اور بابا بلھے شاہ ہیں۔ پنجابی گیتوں میں ظالم بادشاہوں' راجوں مہاراجوں اور بیرونی حملہ آوروں کے ظلم و ستم کے تذکرے ان کے ناموں اور انسان دشمن ظالمانہ خصائص کے حوالے سے بھی خوب خوب بیان کیے گئے ہیں۔
بیسویں صدی میں برطانوی استعمار سے آزادی اور انسانی حقوق کی پامالی اور بحالی کے موضوعات پر عوامی شاعری کا ایک نیا روپ سامنے آنا شروع ہوا جو قیام پاکستان کے بعد بھی نہ صرف جاری رہا بلکہ اس میں مقامی حوالوں' واقعات اور کرداروں کا ذکر بہت شدت اور تواتر سے کیا جانے لگا، نظیر کے زمانے میں اگر احتجاج کی صورت یہ تھی کہ
حکم حاکم ہے کہ اس محکمہ عدل کے بیچ
دست فریاد کو اونچا نہ کرے فریادی
تو حبیب جالب کے یہاں یہ ''میں نہیں جانتا' میں نہیں مانتا'' کے بلند آہنگ انکار کے ساتھ ساتھ اردو غزل کی روایت کا بھی اس طرح سے حصہ بنتی دکھائی دیتی ہے کہ
کہاں قاتل بدلتے ہیں فقط چہرے بدلتے ہیں
عجب اپنا سفر ہے فاصلے بھی ساتھ چلتے ہیں
وہ جس کی روشنی کچے گھروں کو جگمگائے گی
نہ وہ سورج نکلتا ہے' نہ دن اپنے بدلتے ہیں
لیکن ان کے ہم عصر استاد دامن نے جالب کے ''رقص زنجیر پہن کر بھی کیا جاتا ہے'' کو جب اس انداز میں لکھا کہ ''لاڑکانے چلو ورنہ تھانے چلو'' تو بات ایک نئے منطقے میں داخل ہو گئی کہ ان کے ہم عصر اور بعد کی نسل کے پنجابی شاعروں نے استعاروں کے بجائے براہ راست خطابیہ انداز کو اپنایا اور اس طرز تخاطب میں بعض اوقات اتنی شدت اور جارحیت در آئی کہ بات گالی گلوچ اور نعرہ بازی کی حدوں کو چھونے لگی، قابل غور بات یہ ہے کہ ایسا صرف پنجابی یا دیگر عوامی زبانوں میں ہی نہیں ہوا بلکہ دنیا بھر کی زبانوں کی عام بول چال اور عوامی شاعری پر اس کا اثر غالب دکھائی دیتا ہے۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ستر کی دہائی میں جب میں نے امریکا اور افریقہ کے سیاہ فام باشندوں کی شاعری کے تراجم (جو بعد میں کتابی صورت میں ''کالے لوگوں کی روشن نظمیں'' کے نام سے شایع ہوئے) کرنا شروع کیے تو مجھے پروفیسر فیٹز سمنز کی معرفت کچھ ایسے گیت اور نظمیں بھی ہاتھ لگیں جو امریکی سیاہ فام گلوکار گٹاروں پر کمپوز کر کے گایا کرتے تھے، ان گیتوں میں ماں بہن کی گالیوں اور بے حیائی کا ذکر بڑی بے تکلفی اور کثرت سے کیا گیا تھا بلکہ بعض گیت تو تھے ہی منظوم گالیاں۔ یہ گویا ایک طرح سے ان لوگوں کے احتجاج غصے اور اعلان بغاوت کی صورتیں تھیں۔ جنگ عظیم اول کے بعد جب برصغیر میں آزادی کی مہمات شروع ہوئیں تو یہاں بھی اس سے ملتی جلتی جارحانہ شاعری کے کچھ نمونے سامنے آئے
تہذیب نو کے منہ پہ وہ تھپڑ رسید کر
جو اس حرام زادی کا حلیہ بگاڑ دے
اور یہ کہ ''ہر شاخ پہ الو بیٹھا ہے انجام گلستاں کیا ہو گا' وغیرہ وغیرہ۔ لیکن اس کا جو رنگ قیام پاکستان کے بعد مقامی کرداروں اور حوالوں کے ساتھ سامنے آیا اور آرہا ہے اس کی وجہ سے یہ عوامی شاعری گویا ایک تاریخی شہادت اور حقیقت کی شکل اختیار کر گئی ہے کہ بے شمار شاعروں نے اس رنگ میں بہت عمدہ اور دل و دماغ کو بیک چھونے والی شاعری کی ہے یہ بات اور ہے کہ ان میں سے بیشتر شاعر یا تو گمنام رہے یا اپنے قریب کے علاقوں تک محدود ہو کر رہ گئے) ان سب کی ایک مشترکہ خوبی چھوٹی بحر کا استعمال ہے کہ جس کا مناسب اور تخلیقی استعمال قاری اور سامع پر فوری اور گہرا اثر قائم کرتا ہے۔
ایسے ہی ایک عمدہ شاعر ارشد منظور کا کلام مجھے سننے اور پڑھنے کا موقع ملا ہے سو مثال کے طور پر اسی کی ایک تازہ پنجابی غزل درج کرتا ہوں جو دراصل ایک پوری نسل کے ذہنی رویوں اور مزاج کی آئینہ دار ہے مجھے امید ہے کہ پنجابی کو ٹھیک طرح سے پڑھ اور بول نہ سکنے والے احباب بھی اس سے لطف اندوز ہو سکیں گے کہ لہجے اور تلفظ کے معمولی سے فرق سے قطع نظر باقی تو سب کچھ تو وہی ہے جسے ہم آپ اردو کہتے ہیں
اج نئیں تے کل ہوئے گی
محنت کش دی گل ہوئے گی
جے نہ رج کے روٹی لبھی
دھرتی تے تھڑ تھل ہوئے گی
جھوٹھے دے گل پھا ہوئیگا
خلقت سچے ول ہوئے گی
یا تے لاش ہوئے گی میری
یا فیر تیری کھل ہوئے گی
میں نئیں مندا تیرا جرگہ
تبدیلی دی گل ہوئے گی
مک جاون گے گھپ ہنیرے
بس چانن دی چھل ہوئے گی
رب دی خلقت راج کرے گی
ارشد چل سو چل ہوئے گی