غزہ کے بچے اور اقوام متحدہ
غزہ کی اس جنگ کے بعد بھی صورتحال پر فیض احمد فیض کی اس نظم ’’مت رو بچے‘‘ کا اطلاق ہوتا ہے
غزہ پر اسرائیل کی منظم جارحیت کی تازہ ترین قسط کو دنیا نے51 روزہ جنگ کی صورت میں دیکھا۔ مصائب و مشکلات کے اس نئے مرحلے میں بھی ماضی کی طرح کے پرانے دکھ شامل دکھائی دیے۔ یقینا غزہ پر ڈھائی گئی قیامت کے بہت سے پہلو ہیں اور بہت سے پہلوؤں پر لکھا بھی گیا لیکن بندہ یہ سمجھتا ہے کہ فلسطینی بچوں پر بھی لکھا جانا چاہیے۔
غزہ کی اس جنگ کے بعد بھی صورتحال پر فیض احمد فیض کی اس نظم ''مت رو بچے'' کا اطلاق ہوتا ہے جو دراصل ایک فلسطینی ماں کی لوری ہے: مت رو بچے ، رو رو کے ابھی، تیری امی کی آنکھ لگی ہے، مت رو بچے، کچھ ہی پہلے، تیرے ابا نے، اپنے غم سے رخصت لی ہے، مت رو بچے، تیرا بھائی، اپنے خواب کی تتلی کے پیچھے، دور کہیں پردیس گیا ہے، مت رو بچے، تیری باجی کا، ڈولا پرائے دیس گیا ہے، مت رو بچے، تیرے آنگن میں، مردہ، سورج نہلا کے گئے ہیں چندرما دفنا کے گئے ہیں، مت رو بچے، امی، ابا، باجی، بھائی، چاند اور سورج، تو گر روئے گا تو یہ سب، اور بھی تجھ کو رلوائیں گے، تو مسکائے گا تو شاید سارے اک دن بھیس بدل کر، تجھ سے کھیلنے لوٹ آئینگے، یہ نظم مجھے اس لیے یاد آئی کہ غزہ پر مسلط کی گئی جنگ کے 2168 شہداء میں521 بچے اور297 خواتین بھی شامل تھیں۔
غزہ کی 18 لاکھ سے زائد آبادی میں پیدائش کے بعد سے لے کر 14 سال تک کی عمر کے بچوں کی تعداد کل آبادی کا 43.2% ہے۔ یونیسیف کی ایک رپورٹ کے مطابق غزہ کی نصف آبادی 18 سال سے کم عمر بچوں پر مشتمل ہے۔ مصر کے ہفت روزہ الاہرام کی رپورٹ کے مطابق غزہ کی 60 فیصد آبادی بچوں پر مشتمل ہے۔ غزہ میں قائم مرکز المیزان للحقوق الانسان نامی تنظیم برائے حقوق انسانی نے 27 اگست 2014ء کو جاری کی گئی رپورٹ میں بیان کیا ہے کہ7 جولائی تا26 اگست 2014ء جنگ میں 76.8 فیصد سویلین یعنی عام نہتے شہری شہید ہوئے۔ کل زخمی 10918 ہیں اور ان میں 3312 بچے اور 2120 خواتین ہیں۔ 10920 گھر تباہ ہوئے۔ تباہ شدہ عمارات میں 161 مساجد، 8 اسپتال، اور 46 این جی اوز دفاتر بھی شامل تھے۔
صہیونی افواج نے ماہی گیروں کی58 کشتیاں اور غزہ کے فلسطینیوں کی 244 گاڑیاں بھی تباہ کیں۔ امریکی روزنامہ یو ایس اے ٹوڈے (14ستمبر2014ء ) کی رپورٹ کے مطابق غزہ کے 258 اسکولوں کو بھی نقصان پہنچایا گیا۔ایک طرف یہ اعداد و شمار ہیں اور دوسری جانب وہ ملک اور ادارے جو خود کو متمدن و مہذب کہتے نہیں تھکتے۔ امریکا اور یورپی یونین کا کیا تذکرہ، خود اقوام متحدہ کے کردار کو دیکھ لیں۔ اقوام متحدہ، اس کے ذیلی ادارے یعنی UNRWA، UNHRC، یونیسیف، یونیسکو، اور چلڈرن اینڈ آرمڈ کنفلکٹ وغیرہ، ان کے چارٹر پڑھ لیں تو خود ہی سمجھ جائینگے کہ غزہ کی جنگ میں ان اداروں نے کوئی عملی کردار ادا نہیں کیا۔ چلڈرن اینڈ آرمڈ کنفلکٹ کے مطابق مسلح تنازعات میں بچوں کے حقوق کی6 سنگین خلاف ورزیوں میں انھیں قتل کرنا یا معذور کرنا اسکولوں اور اسپتالوں پر حملہ کرنا، انسانی امداد تک رسائی نہ دینا، اغوا کرنا، جنسی تشدد اور بچوں کی بھرتیاں شامل ہیں۔
یونیسیف کا دعویٰ ہے کہ وہ بچوں کے حقوق، دفاع و بقا اور ترقی کے لیے کام کرتا ہے۔ یونیسکو عالمی سطح پر امن اور حقوق انسانی کے احترام کے فروغ کے لیے کوشاں رہنے کا دعویدار ہے۔ UNRWA یونائٹیڈ نیشنز ریلیف ورکس ایجنسی کا مخفف ہے جو فلسطینی مہاجر ین کی ''خدمت '' میں مصروف ہے اور UNHRC کا مطلب ہے اقوام متحدہ کی کاؤنسل برائے حقوق انسانی۔اتنی تنظیموں کے ہوتے ہوئے غاصب صہیونی افواج نے غزہ کے علاقے بیت حنون کے ھانی نعیم ایگریکلچر سیکنڈری اسکول میں اپنا فوجی اڈہ قائم کیا، سیکڑوں اسکولوں پر حملے کر کے نقصان پہنچایا، اسپتال تباہ کر ڈالے، بچوں کو قتل اور معذور بھی کیا اور انھیں انسانی امداد تک رسائی حاصل بھی نہیں ہونے دی۔ کہاں گئے بچوں کے حقوق، ان کی بقا، ان کا دفاع، ان کا تعلیمی حق وغیرہ وغیرہ؟ چلڈرن اینڈ آرمڈ کنفلکٹ کی سربراہ لیلیٰ زیروگوئی نے8 ستمبر 2014ء کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس میں بتایا کہ اسرائیل کی مسلح افواج نے 244 اسکولوں پر شیلنگ کی، ان اسکولوں میں 75 اسکول ایسے تھے جو اقوام متحدہ کی ریلیف ورکس ایجنسی کے تحت چل رہے ہیں۔
یکم جنوری 2014ء تک کے اعداد و شمار کے مطابق یہ ادارہ غزہ میں 245 اسکول چلا رہا ہے جہاں 2 لاکھ 32 ہزار384 طالبعلم پڑھ رہے ہیں۔14 ستمبر 2014ء کو غزہ سے یہ خبر دنیا بھر کے ذرایع ابلاغ نے نشر کی کہ 3 ہفتوں کی تاخیر کے بعد غزہ کے تقریباً 5لاکھ بچے اسکول آئے ہیں لیکن ابھی ان کی تعلیمی سرگرمیوں کا آغاز نہیں ہو سکے گا۔ جنگ زدہ بچوں کو بہت سے نفسیاتی مسائل سامنا ہے اور فی الحال انھیں غیر نصابی تفریحی سرگرمیوں میں مصروف رکھا جائے گا۔ چار لاکھ فلسطینی بچے بے خوابی اور دیگر امراض میں مبتلا ہوئے ہیں اور انھیں علاج کی ضرورت ہے۔ لیلیٰ زیروگوئی کا کہنا ہے کہ جنگ سے متاثرہ ہزاروں خاندان IDPs کی زندگی گزار رہے ہیں اور یہ خاندان زیادہ تر اسکولوں میں قیام پذیر ہیں۔ ایسی صورتحال میں غزہ کے بچوں کی تعلیم تک رسائی بھی ایک محدود پیمانے تک ہی ممکن ہو سکے گی۔لیلیٰ زیروگوئی نے اس خطاب میں کہا کہ غزہ جنگ میں بچوں کے حقوق کی پامالی کرنیوالوں کا احتساب ہونا چاہیے۔
انھوں نے کہا کہ غزہ جنگ نے بچوں پر جو (مضر) اثرات مرتب کیے اس کی جامع تحقیقات ہونی چاہئیں۔ اس کے بعد کی صرف 2 خبریں فلسطین پر قابض ناجائز نسل پرست جعلی ریاست اسرائیل کی حکمت عملی کو واضح کرتی ہیں۔ رام اللہ میں قائم فلسطینی انتظامیہ کی سرکاری نیوز ایجنسی وفا نے 14 ستمبر کو رپورٹ میں انکشاف کیا کہ صہیونی حکومت نے خاتون فلسطینی وزیر تعلیم خولہ شخ شیرکو غزہ جانے سے روک دیا ہے۔ وہ نئے تعلیمی سال کے آغاز پہ غزہ جانا چاہتی تھیں لیکن اس کے لیے انھیں صہیونیوں کے زیر تسلط علاقے سے گزرنے کے لیے سفری اجازت نامے کی ضرورت تھی۔
غزہ کی اس جنگ کے بعد بھی صورتحال پر فیض احمد فیض کی اس نظم ''مت رو بچے'' کا اطلاق ہوتا ہے جو دراصل ایک فلسطینی ماں کی لوری ہے: مت رو بچے ، رو رو کے ابھی، تیری امی کی آنکھ لگی ہے، مت رو بچے، کچھ ہی پہلے، تیرے ابا نے، اپنے غم سے رخصت لی ہے، مت رو بچے، تیرا بھائی، اپنے خواب کی تتلی کے پیچھے، دور کہیں پردیس گیا ہے، مت رو بچے، تیری باجی کا، ڈولا پرائے دیس گیا ہے، مت رو بچے، تیرے آنگن میں، مردہ، سورج نہلا کے گئے ہیں چندرما دفنا کے گئے ہیں، مت رو بچے، امی، ابا، باجی، بھائی، چاند اور سورج، تو گر روئے گا تو یہ سب، اور بھی تجھ کو رلوائیں گے، تو مسکائے گا تو شاید سارے اک دن بھیس بدل کر، تجھ سے کھیلنے لوٹ آئینگے، یہ نظم مجھے اس لیے یاد آئی کہ غزہ پر مسلط کی گئی جنگ کے 2168 شہداء میں521 بچے اور297 خواتین بھی شامل تھیں۔
غزہ کی 18 لاکھ سے زائد آبادی میں پیدائش کے بعد سے لے کر 14 سال تک کی عمر کے بچوں کی تعداد کل آبادی کا 43.2% ہے۔ یونیسیف کی ایک رپورٹ کے مطابق غزہ کی نصف آبادی 18 سال سے کم عمر بچوں پر مشتمل ہے۔ مصر کے ہفت روزہ الاہرام کی رپورٹ کے مطابق غزہ کی 60 فیصد آبادی بچوں پر مشتمل ہے۔ غزہ میں قائم مرکز المیزان للحقوق الانسان نامی تنظیم برائے حقوق انسانی نے 27 اگست 2014ء کو جاری کی گئی رپورٹ میں بیان کیا ہے کہ7 جولائی تا26 اگست 2014ء جنگ میں 76.8 فیصد سویلین یعنی عام نہتے شہری شہید ہوئے۔ کل زخمی 10918 ہیں اور ان میں 3312 بچے اور 2120 خواتین ہیں۔ 10920 گھر تباہ ہوئے۔ تباہ شدہ عمارات میں 161 مساجد، 8 اسپتال، اور 46 این جی اوز دفاتر بھی شامل تھے۔
صہیونی افواج نے ماہی گیروں کی58 کشتیاں اور غزہ کے فلسطینیوں کی 244 گاڑیاں بھی تباہ کیں۔ امریکی روزنامہ یو ایس اے ٹوڈے (14ستمبر2014ء ) کی رپورٹ کے مطابق غزہ کے 258 اسکولوں کو بھی نقصان پہنچایا گیا۔ایک طرف یہ اعداد و شمار ہیں اور دوسری جانب وہ ملک اور ادارے جو خود کو متمدن و مہذب کہتے نہیں تھکتے۔ امریکا اور یورپی یونین کا کیا تذکرہ، خود اقوام متحدہ کے کردار کو دیکھ لیں۔ اقوام متحدہ، اس کے ذیلی ادارے یعنی UNRWA، UNHRC، یونیسیف، یونیسکو، اور چلڈرن اینڈ آرمڈ کنفلکٹ وغیرہ، ان کے چارٹر پڑھ لیں تو خود ہی سمجھ جائینگے کہ غزہ کی جنگ میں ان اداروں نے کوئی عملی کردار ادا نہیں کیا۔ چلڈرن اینڈ آرمڈ کنفلکٹ کے مطابق مسلح تنازعات میں بچوں کے حقوق کی6 سنگین خلاف ورزیوں میں انھیں قتل کرنا یا معذور کرنا اسکولوں اور اسپتالوں پر حملہ کرنا، انسانی امداد تک رسائی نہ دینا، اغوا کرنا، جنسی تشدد اور بچوں کی بھرتیاں شامل ہیں۔
یونیسیف کا دعویٰ ہے کہ وہ بچوں کے حقوق، دفاع و بقا اور ترقی کے لیے کام کرتا ہے۔ یونیسکو عالمی سطح پر امن اور حقوق انسانی کے احترام کے فروغ کے لیے کوشاں رہنے کا دعویدار ہے۔ UNRWA یونائٹیڈ نیشنز ریلیف ورکس ایجنسی کا مخفف ہے جو فلسطینی مہاجر ین کی ''خدمت '' میں مصروف ہے اور UNHRC کا مطلب ہے اقوام متحدہ کی کاؤنسل برائے حقوق انسانی۔اتنی تنظیموں کے ہوتے ہوئے غاصب صہیونی افواج نے غزہ کے علاقے بیت حنون کے ھانی نعیم ایگریکلچر سیکنڈری اسکول میں اپنا فوجی اڈہ قائم کیا، سیکڑوں اسکولوں پر حملے کر کے نقصان پہنچایا، اسپتال تباہ کر ڈالے، بچوں کو قتل اور معذور بھی کیا اور انھیں انسانی امداد تک رسائی حاصل بھی نہیں ہونے دی۔ کہاں گئے بچوں کے حقوق، ان کی بقا، ان کا دفاع، ان کا تعلیمی حق وغیرہ وغیرہ؟ چلڈرن اینڈ آرمڈ کنفلکٹ کی سربراہ لیلیٰ زیروگوئی نے8 ستمبر 2014ء کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس میں بتایا کہ اسرائیل کی مسلح افواج نے 244 اسکولوں پر شیلنگ کی، ان اسکولوں میں 75 اسکول ایسے تھے جو اقوام متحدہ کی ریلیف ورکس ایجنسی کے تحت چل رہے ہیں۔
یکم جنوری 2014ء تک کے اعداد و شمار کے مطابق یہ ادارہ غزہ میں 245 اسکول چلا رہا ہے جہاں 2 لاکھ 32 ہزار384 طالبعلم پڑھ رہے ہیں۔14 ستمبر 2014ء کو غزہ سے یہ خبر دنیا بھر کے ذرایع ابلاغ نے نشر کی کہ 3 ہفتوں کی تاخیر کے بعد غزہ کے تقریباً 5لاکھ بچے اسکول آئے ہیں لیکن ابھی ان کی تعلیمی سرگرمیوں کا آغاز نہیں ہو سکے گا۔ جنگ زدہ بچوں کو بہت سے نفسیاتی مسائل سامنا ہے اور فی الحال انھیں غیر نصابی تفریحی سرگرمیوں میں مصروف رکھا جائے گا۔ چار لاکھ فلسطینی بچے بے خوابی اور دیگر امراض میں مبتلا ہوئے ہیں اور انھیں علاج کی ضرورت ہے۔ لیلیٰ زیروگوئی کا کہنا ہے کہ جنگ سے متاثرہ ہزاروں خاندان IDPs کی زندگی گزار رہے ہیں اور یہ خاندان زیادہ تر اسکولوں میں قیام پذیر ہیں۔ ایسی صورتحال میں غزہ کے بچوں کی تعلیم تک رسائی بھی ایک محدود پیمانے تک ہی ممکن ہو سکے گی۔لیلیٰ زیروگوئی نے اس خطاب میں کہا کہ غزہ جنگ میں بچوں کے حقوق کی پامالی کرنیوالوں کا احتساب ہونا چاہیے۔
انھوں نے کہا کہ غزہ جنگ نے بچوں پر جو (مضر) اثرات مرتب کیے اس کی جامع تحقیقات ہونی چاہئیں۔ اس کے بعد کی صرف 2 خبریں فلسطین پر قابض ناجائز نسل پرست جعلی ریاست اسرائیل کی حکمت عملی کو واضح کرتی ہیں۔ رام اللہ میں قائم فلسطینی انتظامیہ کی سرکاری نیوز ایجنسی وفا نے 14 ستمبر کو رپورٹ میں انکشاف کیا کہ صہیونی حکومت نے خاتون فلسطینی وزیر تعلیم خولہ شخ شیرکو غزہ جانے سے روک دیا ہے۔ وہ نئے تعلیمی سال کے آغاز پہ غزہ جانا چاہتی تھیں لیکن اس کے لیے انھیں صہیونیوں کے زیر تسلط علاقے سے گزرنے کے لیے سفری اجازت نامے کی ضرورت تھی۔