فاش غلطی

پرویز مشرف کی مضبوط حکومت نے جسٹس افتخار محمد چوہدری کو غلط انداز میں ہٹانے کی فاش غلطی کی تھی

03332257239@hotmail.com

KABUL:
ڈاکٹر طاہرالقادری نے 2002ء کے انتخابات میں حصہ لیا۔ عمران کی طرح ان کی پارٹی کی بھی یہ اکلوتی نشست تھی۔ اسمبلی کی میعاد مکمل ہونے سے پہلے ڈاکٹر صاحب جمہوری سیاست سے مایوس ہو کر کینیڈا چلے گئے۔ دس سال بعد انقلاب کے نعرے کے ساتھ واپس آئے۔ زرداری اور نواز شریف کے زمانوں میں سردی اور گرمی میں دھرنے دیے۔

سیاست کے سرد و گرم نے بتایا کہ انتخابی سیاست سے ہی انقلاب لایا جا سکتا ہے۔ تاریخ فیصلہ کرے گی کہ طاہر القادری کی کینیڈا کو روانگی اور واپسی غلطیاں تھیں؟ بڑا آدمی بڑی غلطی کرتا ہے اور چھوٹا آدمی چھوٹی غلطی کرتا ہے۔ ان کے نتائج بھی اندوہناک، خطرناک اور ہولناک ہوتے ہیں۔ غلطیاں سیاست دانوں، کھلاڑیوں، فنکاروں اور منصفوں سے بھی ہوتی ہیں ۔ ان کا عبرت ناک خمیازہ کبھی ایک شخص تو کبھی کسی خاندان تو کبھی کروڑوں لوگوں کو بھگتنا پڑتا ہے۔ آج ہم پاک و ہند میں ہونے والی فاش غلطیوں کا جائزہ لے رہے ہیں۔

پرویز مشرف کی مضبوط حکومت نے جسٹس افتخار محمد چوہدری کو غلط انداز میں ہٹانے کی فاش غلطی کی تھی۔ وہ استعفے کی طلبی کے بجائے صرف ''سپریم جوڈیشل کونسل'' کو معاملہ بھجوا دیتے تو نہ وکلا تحریک چلتی اور نہ انھیں یوں اقتدار سے بے دخل ہونا پڑتا۔ اسی طرح اگر نواز شریف آرمی چیف پرویز مشرف کو ان کی غیر موجودگی میں برطرف نہ کرتے تو انھیں اقتدار سے محرومی اور جلاوطنی کے صدمے نہ جھیلنے پڑتے۔

غلام اسحاق خان نے 93ء میں دوسری مرتبہ صدر بننے کے لیے نواز شریف سے اختلاف مول لیا۔ دونوں کو عہدوں سے رخصت ہونا پڑا۔ یوں نائب قاصد سے صدر پاکستان کے عہدوں تک دیانت اور ذہانت کا معیار قائم رکھنے والے غلام اسحاق خان کو عمر کے آخری حصے میں اذیت سے گزرنا پڑا۔قذافی، صدام اور مبارک جیسے ڈکٹیٹرز بھی عوام کی تلخی نہ سمجھنے کے سبب اپنا اقتدار آنے والی نسل کو منتقل نہ کر سکے۔ اپنے بچوں کو ہی اپنی اولاد سمجھنے والوں کو قوم کے بچوں نے ذلیل کر دیا اور اب وہ تاریخ کے کوڑے دان پر نظر آ رہے ہیں۔ تیونس میں عزیزی نامی پڑھے لکھے بے روزگار نوجوان کے ٹھیلے کو پولیس نے پھنکوا دیا۔ خود کو آگ لگا کر خودکشی کرنے والے کی تصویر انٹرنیٹ پر لاکھوں لوگوں نے دیکھی۔

اس تصویر نے تیونس میں نہیں بلکہ پورے مشرقی وسطیٰ میں آگ لگا دی۔ آگ کے شعلوں سے ''عرب بہار'' اس لیے برآمد ہوئی کہ حکمران غلطیاں کرنے پر تیار تھے۔ فاش غلطیاں۔کرکٹ کی دنیا میں عامر، سلمان بٹ اور محمد آصف کی فاش غلطیاں ہمارے سامنے ہیں۔ عزت، دولت و شہرت اور وہ بھی کم عمری میں ان نوجوانوں سے برداشت نہ ہوئی۔ وہ سلیم ملک اور اظہر الدین کی تاریخ سے واقف تھے۔ امریکی صدر بش جونیئر سے پاکستان کے دورے پر ملاقات کرنے والے سلمان بٹ نے فاش غلطی کر کے عزت کی انتہا سے کرب کی انتہا دیکھی۔ سپر پاور کے صدر سے صرف ہاتھ ملانے کی تمنا بڑے بڑے ملکوں کے حکمران کرتے ہیں۔ یہ اعزاز تیس سالہ کرکٹر کو ملا۔ جب یہ عزت نہ سنبھلی تو قید کی سزا تب ملی جب وہ بیٹے کے باپ بنے۔

افتخار محمد چوہدری اور مشرف کی کشمکش نے اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کو دو مختلف قسم کے فیصلوں پر مجبور کر دیا۔ یہ اندازے کی غلطی کے ساتھ ساتھ قسمت کی خوبی و خرابی کا معاملہ ہے، مشرف نے 2007ء میں پی سی او متعارف کروایا تو جسٹس مشیر عالم اور جسٹس مقبول باقر جیسے ججوں نے حلف نہیں اٹھایا، جب کہ جسٹس ندیم اظہر صدیقی اور جسٹس حمود عالم رضوی نے حلف اٹھا لیا۔ کشمکش کے دو برسوں میں بڑے اتار چڑھاؤ آئے اس دوران وکلا تحریک چلی، بے نظیر اور نواز شریف وطن واپس آئے، راولپنڈی میں شہادت کا واقعہ ہوا، آصف زرداری صدر پاکستان اور یوسف رضا گیلانی وزیر اعظم بنے لیکن جسٹس افتخار محمد چوہدری اور ان کے ساتھی ججز بحال نہ ہوئے۔ اس وقت حلف اٹھا کر مشرف کا ساتھ دینے کا فیصلہ درست معلوم ہوا تھا۔


وزیر اعلیٰ شہباز شریف کی حکومت کو سلمان تاثیر نے برطرف کر کے گورنر راج نافذ کر دیا۔ اس وقت بار کی احتجاجی تحریک آخری ہچکولے کھا رہی تھی، پھر اس میں وکلا جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کے ساتھ نواز شریف بھی شامل ہو گئے، گوجرانوالہ پہنچنے سے قبل عدلیہ کی بحالی کا اعلان ہو گیا۔ جسٹس افتخار محمد چوہدری نے چار مختلف مرحلوں میں سو کے لگ بھگ پی سی او ججز کو برطرف کر دیا۔ یوں مشرف کا ساتھ دینے والے اور دو سال تک اپنے فیصلوں پر نازاں ججز کو محسوس ہوا کہ ان سے فاش غلطی ہوئی ہے۔ ممکن ہے گورنر راج نہ لگتا تو کرسیوں پر براجمان لوگ آج نیچے ہوتے اور برطرف ججز اونچی مسندوں پر بیٹھے ہوتے۔

یحییٰ خان نے سن 70ء کے انتخابات کروائے، مجیب کی عوامی لیگ سب سے بڑی پارٹی تھی۔ ڈھاکہ میں طے ہونے والا قومی اسمبلی کا اجلاس صدر یحییٰ نے منسوخ کر دیا۔ مشرقی پاکستان میں ہنگامے پھوٹ پڑے۔ ہنگامی ''تحریک آزادی'' پر آمادہ ہوئے۔ یوں 16 دسمبر کو ہم شکست کھا گئے۔ یحییٰ خان کا اسمبلی کا اجلاس ملتوی کرنا ایک اندوہناک غلطی تھی۔ غلام اسحاق خان کی طرح انھیں تاریخ کے رو برو پھر سنبھلنے کا موقع نہیں ملا۔ بھٹو اگر ڈھاکہ اجلاس میں جانے پر رضامندی ظاہر کر دیتے تو ممکن ہے حالات مختلف ہوتے۔ سندھ اور پنجاب میں پیپلز پارٹی کی طاقتور حکومتیں ہوتیں۔ مجیب یقیناً مجبور ہو جاتے بھٹو کو نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ بنانے پر۔ مگر لمحوں کی خطا کی سزا صدیوں تک آنے والی نسلوں کو بھگتنا پڑتی ہے۔

کھیل اور کھلاڑیوں کا تذکرہ ہوا تو اب مختصراً فلمی دنیا کا ذکر کر کے ہم کالم کو اختتامی مراحل پر لے آئیں گے۔ فلم ''شعلے'' کے ہدایت کار نے شتروگھن سہنا کو ہیرو کے دوست یا گبرسنگھ میں سے کسی ایک کردار کی پیشکش کی۔ شتروگھن نے ہیرو کا رول مانگا جو دھرمیندر کے لیے تھا۔ امیتابھ بچن یا امجد خان کا کردار قبول نہ کرنے والا اسے اپنی فاش غلطی قرار دے رہا ہے۔ زندگی کی سب سے بڑی غلطی شعلے اور مغل اعظم بیسویں صدی میں بالی وڈ کی بہت بڑی فلمیں ہیں۔

آج تو لوگ ان مشہور اداکاروں کو جانتے ہیں لیکن پچاس سو سال بعد کوئی نہیں جانے گا۔ پرتھوی راج، مدھوبالا، دلیپ کمار اور کے آصف مغل اعظم کی بدولت اور امیتابھ بچپن، امجد خان، دھرمیندر اور ہیما مالنی شعلے کی وجہ سے اکیسویں صدی کے آخر تک یاد رکھے جائیں گے۔ شتروگھن کو نہیں معلوم تھا کہ کیا فلم بننے جا رہی ہے لہٰذا وہ اپنی فاش غلطی پر آج بھی پچھتا رہے ہیں۔ فرد کا معاملہ ہوتا ہے کہ چھوٹا آدمی چھوٹی غلطی کرتا ہے اور بڑا آدمی بڑی غلطی کرتا ہے۔ چھوٹے بھارتی نے چھوٹی غلطی کی آئیے دیکھیں کہ بڑے ہندوستانی نے کتنی بڑی غلطی کی۔

نہرو کی ایک غلطی نے تاریخ کا رخ بدل دی۔ جولائی 46ء میں قائد اعظم نے کیبنٹ مشن پلان کو تسلیم کر لیا تھا۔ پاکستان کا قیام دس سال پیچھے چلا گیا تھا۔ ہندوستان کو تین دنوں میں تقسیم ہونا تھا جو تقریباً آج کے بھارت، پاکستان اور بنگلہ دیش ہیں۔ نہرو نے کہا کہ ''انگریز کے جانے کے بعد ہم اپنے فیصلوں میں آزاد ہوں گے'' یہ خانہ جنگی پیدا کرنے والا بیان تھا۔ مسلم لیگ نے اس پلان کو چھوڑ کر پاکستان کی جانب توجہ مرکوز کی۔ شاید یہ بیان نہ دیا جاتا تو ہجرت، مسئلہ کشمیر، پنجاب و بنگال کی تقسیم، سقوط ڈھاکہ اور پاک و ہند جنگیں نہ ہوتیں۔ جتنا بڑا آدمی اتنی بڑی غلطی۔

نواز شریف اور عمران خان پاکستان کے دو مقبول ترین رہنما ہیں۔ بیس کروڑ لوگوں کی قسمت بڑی حد تک ان دونوں کے ہاتھوں میں ہے ان میں سے کسی ایک کی غلطی ہمیں دس بیس سال پیچھے لے جا سکتی ہے۔ ان کے صحیح فیصلے ہم پاکستانیوں کو جمہوریت اور خوش حالی عطا کر سکتے ہیں۔ کیا بچ پائیں گے نواز شریف اور عمران خان کسی فاش غلطی سے؟
Load Next Story