آبائی حلقے نظر انداز کیوں
عام انتخابات ہوں یا بلدیاتی انتخابات ہر نشست کا حلقہ مختص ہوتا ہے اور ہمارے یہاں اکثر حکومتیں ہی حلقہ بندیاں کرتی ہے
دو ماہ قبل ایکسپریس میں راقم کا ایک کالم اپنے حلقے نظرانداز کرنے والے سیاست دان کے عنوان سے جو کالم شایع ہوا تھا اس کے جواب میں قارئین ایکسپریس نے اپنے عوامی نمایندوں کے اپنے آبائی حلقے نظر انداز کرنے کی متعدد شکایات کی طرف توجہ دلائی ہے جس میں عام ارکان اسمبلی ہی نہیں بلکہ اہم عہدوں پر موجود اہم سیاست دان بھی شامل ہیں۔
عام انتخابات ہوں یا بلدیاتی انتخابات ہر نشست کا حلقہ مختص ہوتا ہے اور ہمارے یہاں اکثر حکومتیں ہی حلقہ بندیاں کرتی ہے۔ کونسلر سے لے کر قومی اسمبلی تک مقررہ تعداد کے مطابق حلقہ بندیاں ہوتی ہیں۔ خواتین، مزدوروں، کسانوں، ٹیکنوکریٹس سمیت ایوان بالا کے لیے منتخب ہونے والے سینیٹروں کے عوامی حلقے نہیں ہوتے اور مقررہ مخصوص نشستوں پر عوام کے ذریعے منتخب ہونے والے منتخب نمایندے ان لوگوں کو منتخب کرتے ہیں اور حکومتوں کی طرف سے ترقیاتی فنڈ مخصوص نشستوں پر منتخب ہونے والوں کو بھی ملتے ہیں۔ حکومتیں سیاسی رشوت کے طور پر ارکان اسمبلی اور سینیٹروں کو ترقیاتی منصوبوں کے نام پر فنڈ دیتی ہیں جب کہ ہر چھوٹے بڑے صوبوں سے یکساں تعداد میں منتخب سینیٹروں کو بھی فنڈ ملتے ہیں۔ جن کا کوئی عوامی حلقہ نہیں ہوتا۔
پاکستان میں وزیر اعظم اور وزرائے اعلیٰ ارکان اسمبلی کے ذریعے منتخب ہوتے ہیں مگر ان کے فنڈز لا محدود ہوتے ہیں اور وہ جب دوروں پر جاتے ہیں تو متعلقہ حلقوں کی ضرورت کے مطابق ترقیاتی منصوبوں اور ان پر آنے والی لاگت کی رقم کا اعلان کرتے ہیں اور یہ وفاقی اور صوبائی بجٹوں میں مختص کی جانے والی ترقیاتی رقم ہوتی ہے۔ اکثر یہ ہوتا آیا ہے کہ وزیر اعظم اور وزرائے اعلیٰ اپنے آبائی حلقوں یا شہروں کو ترجیح دیتے ہیں اور وہاں اتنی زیادہ رقم خرچ کرا دیتے ہیں کہ دوسرے شہروں والے بھی کہنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ کاش ہمارے شہر سے تعلق رکھنے والا بھی کوئی وزیر اعظم یا وزیر اعلیٰ ہوتا۔
وفاقی اور صوبائی مالی وسائل ہوتے تو ملک اور صوبوں کے لیے ہوتے ہیں مگر صوابدیدی اختیار کے تحت ان فنڈز کا غلط استعمال ہونے کی وجہ سے کراچی کو حکومت سندھ سے اور جنوبی پنجاب کو تخت لاہور سے نظر انداز کیے جانے کی شکایات مسلسل بڑھ رہی ہیں۔ وزیر اعظم اور وزرائے اعلیٰ کو تو فرصت نہیں ہوتی کہ ملک اور صوبوں کے تمام علاقوں کا بلا امتیاز دورہ کریں تا کہ وہاں کے مسائل کا انھیں علم ہو سکے۔ مگر وہ سیکیورٹی خدشات کے تحت ایسے دورے نہیں کرتے تو ہر علاقے کے لوگ اپنے منتخب نمایندوں سے یہ توقعات رکھنے کے لیے حق بجانب ہوتے ہیں کہ وہ ہی اپنے آبائی حلقوں کے مسائل حل کرانے کی کوشش کریں اپنے حلقوں میں موجود ملیں اور حکومتوں سے اپنے علاقوں کے مسائل حل کرائیں مگر منتخب نمایندے زیادہ تر اپنے ذاتی مسائل حل کرانے کے لیے آبائی حلقوں کی بجائے اپنے دارالحکومتوں میں رہتے ہیں اور ان کے ووٹر اور آبائی حلقوں کے مسائل اپنے منتخب نمایندوں کی راہ تکتے تکتے نئے انتخابات کا انتظار کرتے رہتے ہیں تا کہ منتخب نمایندوں کو اپنے آبائی حلقے یاد آ جائیں۔
سندھ اب وہ صوبہ ہے جہاں وزرا، مشیروں اور معاونین خصوصی کی سب سے زیادہ بہتات ہے جہاں اب سیاسی مفاد اور نوازنے کے لیے جیالا نہ ہونے والوں کو بھی معاون خصوصی تھوک کے حساب سے بنا کر نوازا جا رہا ہے اور ان سے عوامی مسائل کے بجائے اپنے مسائل، سرکاری حیثیت اور مراعات، اپنا استقبال کرانے، سرکاری پروٹوکول اور اپنے استقبال میں ہوائی فائرنگ سے زیادہ دلچسپی ہوتی ہے۔
انھیں اپنے آبائی حلقوں کے مسائل سے کوئی دلچسپی ہے نہ جیالوں کی طرف سے کی جانے والی کرپشن کی شکایات کی۔ انھیں صرف ذاتی مفاد عزیز ہے جس کی وجہ سے لاڑکانہ، سکھر، شکارپور، خیرپور، نواب شاہ و دیگر بڑے شہر ہی نہیں حیدرآباد اور کراچی بھی بد حال ہیں اور حیدرآباد سے خیرپور تک دن میں سندھ بھی محفوظ نہیں ہے اور حکومت کی طرف سے ظاہر کیے جانے والے اربوں روپے نہ جانے کہاں خرچ ہوئے، رکن قومی اسمبلی کے بارے میں صوابی کے محمد عادل نے راقم کو بتایا کہ پی ٹی آئی رہنماؤں کو اپنے اپنے حلقوں کے مسائل سے دلچسپی ہے نہ وہاں آنے کی فرصت۔
وہ ہفتہ وار چھٹی پر کبھی کبھی صوابی آ جاتے ہیں مگر اپنی صوبائی حکومت سے صوابی کی ترقی کے لیے ڈیڑھ سال میں کچھ نہیں کرایا اور صوابی آج بھی مسائل کی آماجگاہ بنا ہوا ہے۔ جہلم پنجاب کا ایک اہم ضلع ہے جہاں کے سیاسی رہنما پنجاب کے اہم گورنر رہے اور ہر دور میں ہی جہلم کے رہنما حکومتوں میں رہے مگر کسی نے بھی اپنے آبائی حلقوں پر توجہ نہیں دی۔ ضلع جہلم سے تعلق رکھنے والے ایک سابق پولیس افسر راجہ نذیر نے راقم کو بتایا کہ لگتا ہے کہ کسی کو بھی ضلع جہلم سے دلچسپی نہیں ہے۔ ضلع بدحالی کا شکار، ترقیاقی منصوبوں سے محروم رہ کر بے شمار مسائل میں مبتلا ہے اور جہلم کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔
بلوچستان کا ضلع پشین اور ضلع قلعہ عبداﷲ صوبے کے گورنر اور اہم سیاسی رہنما محمود خان اچکزئی کا آبائی علاقہ ہے اور محمود اچکزئی کے 8 قریبی عزیز حکومت اور اسمبلیوں میں ہیں اور اس اہم سیاسی خاندان کی کارکردگی قلعہ عبداﷲ سے ضلعی صدر مقام چمن جانے والی سالوں سے زیر تعمیر سڑک سے دیکھی جا سکتی ہے جو بننے ہی میں نہیں آ رہی۔
پشین کے اہم رہنما ملک سعداﷲ ترین نے راقم کو تین ماہ قبل اس سڑک کی حالت زار دکھائی تھی جو تباہی کا شکار ہے مگر اس اہم شاہراہ کی تعمیر پر حکومت توجہ نہیں دے رہی جس کی وجہ سے ایک گھنٹے کا سفر کئی گھنٹوں میں مکمل ہوتا ہے، سڑک پر گڑھے پڑ چکے ہیں، دھول، مٹی اڑتی رہتی ہے اور پہاڑی علاقے اور جگہ جگہ موڑوں اور خطرناک ٹرننگ پوائنٹس کی وجہ سے نہ صرف گاڑیوں کو نقصان پہنچ رہا ہے بلکہ حادثات معمول بن چکے ہیں۔
گورنر بننے کے بعد محمود اچکزئی یا ان کے بھائی محمد خان اچکزئی نے اپنے علاقے کی اہم ترین شاہراہ کی تکمیل پر توجہ نہیں دی جو چمن افغان سرحد پر واقع ہے اور روزانہ سیکڑوں ٹرک اور ٹرالر اس تباہ حال سڑک پر سفر پر مجبور ہیں اور تباہ حال سڑک پر متعدد خراب گاڑیاں کھڑی نظر آتی ہیں عوام اپنے نمایندوں کو اپنے ذاتی نہیں بلکہ علاقوں کے اجتماعی مسائل کے حل کے لیے منتخب کرتے ہیں مگر منتخب ہونے کے بعد ان منتخب نمایندوں کو نہ اپنے آبائی علاقے یاد رہتے ہیں نہ عوام سے کیے گئے اپنے وعدے اور یہ صورت حال تقریباً ملک میں ہر جگہ موجود ہے جس کی وجہ سے عوام کے مسائل حل نہیں ہو رہے بلکہ ان کا اپنے منتخب نمایندوں سے بھی اعتماد ختم ہو رہا ہے اور لوگ کہتے ہیں کہ انتخابات میں کسی کو بھی ووٹ دیں وہ کامیاب ہو کر سب کچھ بھول جاتا ہے اور عوامی مسائل کم ہونے کی بجائے بڑھ رہے ہیں اور جب منتخب نمایندوں ہی کو فکر نہ ہو تو حکومت کو کیا پڑی کہ وہ عوام کو درپیش مسائل پر توجہ دے اور انھیں حل کرائے۔