افسوس کہ فرعون کو اس کی بھی نہ سوجھی
جیسے بھلے وقتوں میں نیک بیبیاں اس نصیحت کے ساتھ سسرال جاتی تھیں کہ ڈولی جا رہی ہے تو جنازہ ہی باہر آئے
جیسے بھلے وقتوں میں نیک بیبیاں اس نصیحت کے ساتھ سسرال جاتی تھیں کہ ڈولی جا رہی ہے تو جنازہ ہی باہر آئے، مصر میں حکمران بھی ایسے ہی آئے اور گئے۔ 1952ء میں فوجی انقلاب کے نتیجے میں شاہ فاروق کا تختہ الٹ کر Revolutionary Command Council بنائی گئی جو مصر اور سوڈان کی مشترکہ مملکت تھی۔ کچھ تنازعات کی بنا پہ اس کے وزیر اعظم کو استعفی دینا پڑا تو کونسل کا کنٹرول مکمل طور پہ مصر کے پاس آ گیا۔ نجیب نے پہلے فوج کے کمانڈر ان چیف اور پھر وزیر اعظم کا منصب سنبھال لیا جب کہ جمال ناصر وزیر داخلہ بن گئے۔دسمبر 1952ء میںملک کا آئین معطل کر دیا گیا اور تمام سیاسی جماعتوں پہ پابندی لگا دی گئی۔
1953 ء میں کونسل نے مصر کو سوڈان سے الگ کر دیا اور مصر، جمہوریہ مصر قرار پایا۔ جمہوریہ مصر کے پہلے صدر خود نجیب تھے جب کہ وزیر اعظم تو وہ تھے ہی۔ یہاں ناصر اور نجیب کے تنازعات بڑھتے گئے اور نجیب کو دونوں عہدوں سے مستعفی ہونا پڑا تو ناصر وزیر اعظم بن گئے جب کہ اس وقت صدر کوئی بھی نہیں تھا۔ نجیب کو نظر بند کر دیا گیا لیکن ان کی نظربندی کے خلاف ملک میں مظاہرے شروع ہو گئے۔ ناصر نے ہوا کا رخ اور کونسل کا موڈ دیکھا اور نجیب کے حق میں مستعفی ہو گئے لیکن اس دوران وہ فوج کے اندر سے نجیب کا اثر و رسوخ کافی حد تک نکال چکے تھے۔
1954ء میں انھوں نے نجیب کو معزول کیا اور خود صدر بن گئے1956 ء میں انھوں نے ریفرینڈم کروایا جس کا نتیجہ ظاہر ہے ان کے ہی حق میں نکلنا تھا۔ وہ باقاعدہ صدر بن گئے اور قصر صدارت سے مر کے ہی نکلے۔ اس کے بعد انور السادات صدر بنے انھوں نے کل ملا کرگیارہ سال ایسے حکومت کی جیسے محبت کرتے ہیں یعنی بہانے بہانے سے اور بار بار۔ بالآخر قتل کر دیے گئے۔ اس کے بعد صوفی ابو طالب نگراں صدر بنے جو واقعی صوفی ثابت ہوئے اور انورالسادات کے بعد گرتی حکومت کو صرف اس وقت تک کاندھا دیے رکھا جب تک اسے نائب صدر حسنی مبارک نے پوری طرح سنبھال نہ لیا۔ حسنی مبارک 1981ء میں صدر بنے اور 2011ء میں ایک اور انقلاب کے ہاتھوںمعزول ہوئے۔ وہ بھی مارے جاتے اگر ملک کا عدالتی نظام انھیں تحفظ نہ دیتا۔
اپنے دور اقتدار کی شروعات میں حسنی مبارک خاصے سخت گیر منتظم ثابت ہوئے۔ اس دوران مصر کی مجموعی معیشت بہتری کی طرف گامزن رہی اور عام ا ٓدمی کی حالت بہتر ہوئی۔ ملکی معیشت کا دارومدار امریکا پہ ہونے کے باوجود انھوں نے دو بار اسرائیل کا دورہ کرنے سے معذرت کر لی۔ یہ اور بات کہ اسی اسرائیل کو سستے داموں مصر کی قدرتی گیس بھی انھوں نے ہی فروخت کی اور ان ہی کے دور حکومت میں اسرائیل کی سرحدیں پھیلتی چلی گئیں۔ ساتھ ساتھ موصوف نے روس کے ساتھ خفیہ معاشقہ بھی جاری رکھا۔
دوسری بار صدر منتخب ہونے کے بعد انھیں اپنی سیکوریٹی کی فکر کچھ زیادہ رہنے لگی اور انھوں نے مصر کی خفیہ ایجنسی مباحث امن الدولۃ کا دائرہ کار بڑھا دیا اور اپنے فیصلوں کے لیے اپنے وزیروں، مشیروں اور ماہرین کار کی بجائے آرمی چیف اور انٹیلیجنس پہ بھروسا کرنے لگے۔ ان کے خدشات درست تھے کیونکہ اسلام پسندوں کو وہ ایک آنکھ نہ بھاتے تھے۔ ان پہ چھ بار قاتلانہ حملہ ہوا۔ 1993,1987اور 1999ء کے ریفرینڈم میں وہ بلا مقابلہ صدر منتخب ہوئے کیونکہ مقابلے پہ کسی کو کھڑا ہونے کی آئین اجازت نہیں دیتا تھا۔ موصوف خود کو اسمبلی سے منتخب کرواتے تھے پھر اس پہ عوامی ریفرینڈم کی مہر لگوا دیتے تھے۔ جب اندرونی اور بیرونی دباو بڑھا تو 2005ء میں کچھ امیدوار میدان میں آئے اور منہ کی کھائی کیونکہ میدان حسنی مبارک کے کنٹرول میں تھا۔ ایسی حکومت ایسی ہی طرز حکمرانی کی متقاضی ہوتی ہے۔
نتیجہ یہ ہوا کہ وزارت داخلہ کو کھلی چھٹی مل گئی۔ اس دوران بے شمار نوجوان جن میں سے بیشتر کا تعلق اخوان سے تھا لاپتہ کر دیے گئے۔ بغیر کسی کاغذی کاروائی کے سیاسی مخالفین گھروں سے اٹھائے جانے لگے۔ اخبارات پہ پابندیاں لگیں۔ مصر کا ایمرجنسی قانون جو عرب اسرائیل جنگ کے وقت نافذ ہوا، نافذ ہی رہا۔ اسی قانون کے تحت حکومت کو اختیار تھا کہ وہ جسے چاہے پکڑے اور داخل زنداں کر دے یا لا پتہ۔ موصوف مالی کرپشن میں بھی پیچھے نہیں رہے۔
ان کے دور میں ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے ایک سروے کے مطابق مصر 178 بدعنوان ترین ملکوں کی فہرست میں 78 ویں نمبر پہ رہا۔2011ء میں ABC News کے مطابق مبارک خاندان کے اثاثے تقریبا 70 بلین امریکی ڈالر تھے جو دفاعی معاہدوں میں کرپشن کر کے بنائے گئے تھے۔ یہ اثاثے بینک اکاونٹس کی صورت میں سوئٹزرلینڈ، امریکا اور برطانیہ میں رکھے گئے تھے۔ بیرون ملک جائدادیں اس کے علاوہ تھیں۔ صدارتی محل کی دیکھ بھال پہ بھی 18 ملین ڈالر قومی خزانے سے خرچ کیے گئے۔ اس پہ مستزاد، مبارک کے صاحبزادے جمال مبارک مستقبل کے صدر کے منصب کے لیے پر تول رہے تھے۔
یہ وہ حالات تھے جن میں عوام کے صبر کا پیمانہ چھلک پڑا۔ دسمبر 2010ء میں تیونس سے پھوٹ پڑنے والے ہنگاموں نے مصر میں بھی آگ لگا دی اور 25 جنوری 2011ء کو ریاستی جبر، مہنگائی، بیروزگاری، پولیس گردی، کرپشن اور انتخابی ڈرامہ بازی کے خلاف مظاہروں کا آغاز ہوا۔ تحریر اسکوائر ان مظاہروں کا مرکز تھا۔ ان مظاہروں میں اخوان المسلمین کے حامیوں کے علاوہ سیکولر، لبرل، اینٹی کیپلسٹ، قوم پرست اور سول سوسائٹی سب ہی شامل تھے۔ ان کا ایک ہی مطالبہ تھا۔ حسنی مبارک کا استعفی۔ مظاہروں نے پر تشدد صورت اختیار کر لی اور تین ہفتوں کے دوران تقریبا 900 مظاہرین ہلاک ہو گئے۔ جلد ہی حسنی مبارک کو عوامی دباو کے سامنے جھکنا پڑا اور بالآخر 11 فروری2011ء کو انھوں نے استعفی دے دیا۔19 مارچ کے انتخابی ترامیم کے ریفرینڈم کے بعد 28 نومبر کو شروع ہونے والے پارلیمانی اور پھر صدارتی انتخاب کے نتیجے میں مرسی برسراقتدار آئے۔
یہ اخوان المسلمون کی ہی نہیں مصر کی تاریخ کی پہلی جمہوری حکومت تھی جو آزادانہ انتخاب کے نتیجے میں وجود میں آئی تھی۔ جون2012 ء میں حسنی مبارک کو ان کے دو بیٹوں اور وزیر داخلہ سمیت کرپشن، اسرائیل کو ارزاں نرخوں پہ گیس فروخت کرنے اور مظاہرین کے قتل کے الزام میں عمر قید سنائی گئی۔ حسنی کی بیماری کے باعث اگست میں یہ عمر قید نظر بندی میں بدل گئی۔ اسی دوران صدر مرسی کے خلاف بھی مظاہرے ہوئے اور 3 جولائی 2013ء کو ایسے ہی مظاہروں کے بعد جن کے نتیجے میں مرسی صدر بنے تھے، جنرل سیسی نے انھیں معزول کر کے اقتدار پہ قبضہ کر لیا۔ مرسی مختلف سنگین جرائم جن میں حماس اور حزب اللہ کے لیے جاسوسی اور غداری بھی شامل ہیں، پس زنداں دھکیل دیے گئے۔ اخوان المسلمون پھر زیر عتاب آ گئی۔ جب کہ نومبر 2014ء میں حسنی مبارک کرپشن سمیت تمام الزامات سے بری قرار دئے گئے۔ حسنی مبارک کے خلاف ٹرائل میں مصر کے مشہور صحافی اور مصنف ابراہیم عیسی جو ان ہی کے دور میں زیر عتاب بھی رہ چکے تھے، قتل کے مقدمے کے عینی گواہ تھے لیکن حالیہ ٹرائل میں وہ اپنے بیان سے صاف مکر گئے۔
یہ عقدہ نہ کھل سکا کہ بیان بدلنے پہ انھیں شیطان کے علاوہ کس نے ورغلایا۔ فیصلہ سنانے والے جج نے ناکافی ثبوت اور گواہوں کے متضاد بیانات اور واقعاتی شہادتوں کی روشنی میں 280 صفحات کا فیصلہ لکھا جس کا ایک فقرہ اس قابل ہے کہ پاکستان کی ایک اسلامی جماعت اسے اپنے منشور میں شامل کر لے۔ ا س نے کہا ہم نے قتل کا مقدمہ اللہ کی عدالت میں پیش کیا البتہ وہ یہ وضاحت نہ کرسکا کہ لوٹی ہوئی دولت کا حساب کون دے گا کیونکہ کرپشن کے مقدمات بھی اس کے ساتھ ہی ختم ہو چکے ہیں۔ اس فیصلے کے خلاف اپیل دائرکی جا سکتی ہے لیکن اس کا فائدہ کچھ نہیں، کیونکہ عدالتی طریقہ کار کے مطابق صرف یہ فیصلہ کیا جائے گا کہ یہ فیصلہ درست ہے یا نہیں۔
اگر کسی کو زیادہ شوق ہے تو مقدمہ جو پہلے ہی تین سال سے چل رہا تھا دوبارہ کھولا جا سکتا ہے لیکن اسی عدالت میں جس نے بریت کا پہلے ہی فیصلہ دے دیا ہے۔ یہ قانون کا وہ جال ہے جو ایسے ہی موقعوں کے لیے بنا جاتا ہے۔ صدر مرسی نے ایک سال میں عدالتی نظام کو بس اس حد تک تبدیل کیاکہ ججوں کی مدت ملازمت کم کر دی اور انھیں اپنے اختیارات کے تحت لانے کی کوشش کی۔ اس سے زیادہ کچھ کرنے کی انھیں مہلت نہ ملی۔
اکبر الہ آبادی دور حاضر میں ہوتے تو فرعون کو بعد ازخرابیء بسیار و غرقابی، بدنامی سے بچنے کے لیے کالج کھولنے کے بجائے عدالتوں کے قیام کا مشورہ دیتے کہ دور جدید کا عدالتی نظام ایسی واشنگ مشین بن کے رہ گیا ہے جس میں فرعون غرق نہیں ہوتے، دھل دھلا کے، پاک صاف ہو کر نکل آتے ہیں چاہے ان کے ہاتھ لال مسجد کے معصوم خون سے رنگے ہوں یا تحریر اسکوائر کے اخوان کے خون سے۔