جنگل کا قانون
وطن عزیز گزشتہ کئی برسوں سے دہشت گردی کی زد میں ہے۔ سیاسی و مذہبی کارکنان کے خلاف تشدد کا سلسلہ ہے
MULTAN:
وطن عزیز گزشتہ کئی برسوں سے دہشت گردی کی زد میں ہے۔ سیاسی و مذہبی کارکنان کے خلاف تشدد کا سلسلہ ہے کہ تھمنے میں ہی نہیں آ رہا۔ یوں لگتا ہے کہ اس ملک میں جنگل کا قانون ہے۔ جس کا جہاں بس چلتا ہے کر گزرتا ہے اور کوئی پوچھنے والا نہیں۔ دہشت گرد دن دہاڑے قتل کر کے بآسانی فرار ہو جاتے ہیں، لیکن حکمران روایتی بیان بازی کر کے اپنے فرائض سے بری الذمہ ہو جاتے ہیں۔ ایک طرف سیاسی و مذہبی رہنماؤں اور عام شہریوں کی ٹارگٹ کلنگ ہو رہی ہے، تو دوسری طرف مسخ شدہ لاشیں ملنے کا سلسلہ تیز ہو گیا ہے۔
حکومت شہریوں کا تحفظ کرنے میں ناکام ہو گئی ہے۔ کراچی میں بھی ٹارگٹ کلنگ بالخصوص مذہبی رہنماؤں اور علماء و طلبا پر مسلسل حملے حالات کی سنگینی کی جانب اشارہ کر رہے ہیں۔ صورت حال دن بدن دگرگوں ہوتی جا رہی ہے۔ سیاسی و مذہبی جماعتوں کے کارکنان کے ماورائے عدالت قتل کے واقعات میں تیزی آ گئی ہے، جس کے باعث عوام میں تشویش بڑھ رہی ہے۔ صرف ایم کیو ایم نہیں، قوم پرست رہنما، اہل سنت و الجماعت سمیت دیگر جماعتوں کی جانب سے بھی اس سلسلے کی روک تھام کے لیے وقتاً فوقتاً آوازیں اٹھائی جاتی رہی ہیں۔
ایم کیو ایم کے 40 کے قریب کارکنان لاپتہ ہیں۔ متحدہ متعدد مواقعے پر اپنے کارکنان کی بازیابی اور انھیں عدالتوں میں پیش کرنے کا مطالبہ کر چکی ہے۔ معاملے کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ خود سندھ کے وزیر جیل خانہ جات، معدنیات و معدنی ترقی اور اینٹی کرپشن منظور حسین وسان نے صوبے میں لاپتہ نوجوانوں کی مسخ شدہ لاشیں ملنے پر سخت تشویش کا اظہار کیا اور کہا ہے کہ سندھ کے عوام کے ساتھ زیادتی برداشت نہیں کریں گے۔ منظور حسین وسان نے کہا کہ مسلسل 8 ، 10 دن سے سندھ کے کسی نہ کسی ضلع میں مسخ شدہ لاشیں مل رہی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ اگر کسی کا کوئی قصور ہے تو اسے عدالتوں میں پیش کیا جائے۔ کسی بے گناہ کو قتل کرنے کی قانون اجازت نہیں دیتا۔
تحفظ پاکستان آرڈیننس کے تحت قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اختیارات میں اضافے کے بعد ہی لاپتہ افراد کا مسئلہ سنگین ہو گیا ہے، جب کہ ماورائے عدالت قتل کے واقعات میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ جس کے باعث شہری اپنے ہی ملک میں عدم تحفظ کا شکار ہو گئے ہیں اور ان میں خوف و ہراس پایا جاتا ہے۔
اگر مبینہ پولیس مقابلوں میں ہی ملزمان کو ٹھکانے لگانا ہے تو پھر عدالتوں کا کیا کام رہ جاتا ہے؟ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پولیس کو ملزمان کو دہشت گرد قرار دینے اور پھر انھیں موت کے گھاٹ اتارنے کا اختیار دیا کس نے ہے؟ اگر کوئی واقعتاً جرائم میں ملوث ہے تو اسے گرفتار کر کے عدالت میں پیش کیا جانا چاہیے نہ کہ پولیس اسے خود مجرم قرار دے کر مبینہ مقابلے میں قتل کرے۔ اس طرح تو پولیس نے گویا اس کے جرائم پر پردہ ڈال دیا (اگر وہ واقعی مجرم ہے)۔ اس لیے کہ وہ عدالتی کارروائی کے ذریعے مجرم ثابت نہیں ہوا۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے شہریوں کی حفاظت پر مامور کیے گئے ہیں، نہ کہ وہ لوگوں کو مبینہ پولیس مقابلوں میں ماریں۔
عوامی سطح پر پولیس مقابلوں پر سوالات اٹھ رہے ہیں، مگر ریاست نوٹس لینے کی بجائے مقابلوں میں ملوث اہلکاروں کو انعامات سے نواز رہی ہے۔ ریاستی اداروں اور نظام انصاف کے خلاف لوگوں میں لاوا پک رہا ہے۔ اگر اس صورت حال کا تدارک نہ کیا گیا تو معاملات مزید بگڑ سکتے ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ دنیا بھر میں یہ قانون رائج ہے کہ کسی بھی ملزم کو دفاع کا حق دیا جاتا ہے۔ وہ بھی عدالت میں قانونی چارہ جوئی کرتا ہے۔ یہی انصاف کا تقاضا ہے، لیکن ہمارے ہاں تو الٹی گنگا بہہ رہی ہے۔
حکومت دہشت گردی کی روک تھام کے لیے قانون سازی ضرور کرے، قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اختیارات بھی بڑھائے لیکن اس کے لیے اختیار کیا گیا طریقہ کار مناسب معلوم نہیں ہوتا۔ بعض مبصرین کے مطابق حکومت نے لاپتہ افراد کی حراست کو قانونی قرار دے کر عدالتوں سے جان چھڑانے کی کوشش کی ہے۔
اس طرح قانون نافذ کرنے والے اداروں کو مکمل اختیارات دے دیے گئے کہ وہ جسے چاہے اٹھا لیں، جسے چاہیں مار دیں، ان سے کوئی سوال نہیں کیا جا سکتا۔ دہشت گردی روکنے کے اور بھی بہت طریقے ہیں، جن پر عمل کر کے حکومت اس مسئلے پر قابو پا سکتی ہے۔ وفاقی اور سندھ حکومت کو مبینہ پولیس مقابلوں کا سختی سے نوٹس لینا ہو گا۔ کیوں کہ آج اگر ایک جماعت کی حکومت ہے تو کل دوسری پارٹی برسراقتدار آ کر مبینہ پولیس مقابلوں کے ذریعے اپنے مخالفین کو راستے سے ہٹائے گی۔ نہ صرف سیاسی و مذہبی جماعتوں بلکہ ہر شعبہ زندگی کے نمایندوں کو اس سلسلے کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے، قانون میں جو سقم ہے اسے دور کرانا چاہیے تا کہ معاشرے میں سدھار آ سکے۔
وطن عزیز گزشتہ کئی برسوں سے دہشت گردی کی زد میں ہے۔ سیاسی و مذہبی کارکنان کے خلاف تشدد کا سلسلہ ہے کہ تھمنے میں ہی نہیں آ رہا۔ یوں لگتا ہے کہ اس ملک میں جنگل کا قانون ہے۔ جس کا جہاں بس چلتا ہے کر گزرتا ہے اور کوئی پوچھنے والا نہیں۔ دہشت گرد دن دہاڑے قتل کر کے بآسانی فرار ہو جاتے ہیں، لیکن حکمران روایتی بیان بازی کر کے اپنے فرائض سے بری الذمہ ہو جاتے ہیں۔ ایک طرف سیاسی و مذہبی رہنماؤں اور عام شہریوں کی ٹارگٹ کلنگ ہو رہی ہے، تو دوسری طرف مسخ شدہ لاشیں ملنے کا سلسلہ تیز ہو گیا ہے۔
حکومت شہریوں کا تحفظ کرنے میں ناکام ہو گئی ہے۔ کراچی میں بھی ٹارگٹ کلنگ بالخصوص مذہبی رہنماؤں اور علماء و طلبا پر مسلسل حملے حالات کی سنگینی کی جانب اشارہ کر رہے ہیں۔ صورت حال دن بدن دگرگوں ہوتی جا رہی ہے۔ سیاسی و مذہبی جماعتوں کے کارکنان کے ماورائے عدالت قتل کے واقعات میں تیزی آ گئی ہے، جس کے باعث عوام میں تشویش بڑھ رہی ہے۔ صرف ایم کیو ایم نہیں، قوم پرست رہنما، اہل سنت و الجماعت سمیت دیگر جماعتوں کی جانب سے بھی اس سلسلے کی روک تھام کے لیے وقتاً فوقتاً آوازیں اٹھائی جاتی رہی ہیں۔
ایم کیو ایم کے 40 کے قریب کارکنان لاپتہ ہیں۔ متحدہ متعدد مواقعے پر اپنے کارکنان کی بازیابی اور انھیں عدالتوں میں پیش کرنے کا مطالبہ کر چکی ہے۔ معاملے کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ خود سندھ کے وزیر جیل خانہ جات، معدنیات و معدنی ترقی اور اینٹی کرپشن منظور حسین وسان نے صوبے میں لاپتہ نوجوانوں کی مسخ شدہ لاشیں ملنے پر سخت تشویش کا اظہار کیا اور کہا ہے کہ سندھ کے عوام کے ساتھ زیادتی برداشت نہیں کریں گے۔ منظور حسین وسان نے کہا کہ مسلسل 8 ، 10 دن سے سندھ کے کسی نہ کسی ضلع میں مسخ شدہ لاشیں مل رہی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ اگر کسی کا کوئی قصور ہے تو اسے عدالتوں میں پیش کیا جائے۔ کسی بے گناہ کو قتل کرنے کی قانون اجازت نہیں دیتا۔
تحفظ پاکستان آرڈیننس کے تحت قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اختیارات میں اضافے کے بعد ہی لاپتہ افراد کا مسئلہ سنگین ہو گیا ہے، جب کہ ماورائے عدالت قتل کے واقعات میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ جس کے باعث شہری اپنے ہی ملک میں عدم تحفظ کا شکار ہو گئے ہیں اور ان میں خوف و ہراس پایا جاتا ہے۔
اگر مبینہ پولیس مقابلوں میں ہی ملزمان کو ٹھکانے لگانا ہے تو پھر عدالتوں کا کیا کام رہ جاتا ہے؟ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پولیس کو ملزمان کو دہشت گرد قرار دینے اور پھر انھیں موت کے گھاٹ اتارنے کا اختیار دیا کس نے ہے؟ اگر کوئی واقعتاً جرائم میں ملوث ہے تو اسے گرفتار کر کے عدالت میں پیش کیا جانا چاہیے نہ کہ پولیس اسے خود مجرم قرار دے کر مبینہ مقابلے میں قتل کرے۔ اس طرح تو پولیس نے گویا اس کے جرائم پر پردہ ڈال دیا (اگر وہ واقعی مجرم ہے)۔ اس لیے کہ وہ عدالتی کارروائی کے ذریعے مجرم ثابت نہیں ہوا۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے شہریوں کی حفاظت پر مامور کیے گئے ہیں، نہ کہ وہ لوگوں کو مبینہ پولیس مقابلوں میں ماریں۔
عوامی سطح پر پولیس مقابلوں پر سوالات اٹھ رہے ہیں، مگر ریاست نوٹس لینے کی بجائے مقابلوں میں ملوث اہلکاروں کو انعامات سے نواز رہی ہے۔ ریاستی اداروں اور نظام انصاف کے خلاف لوگوں میں لاوا پک رہا ہے۔ اگر اس صورت حال کا تدارک نہ کیا گیا تو معاملات مزید بگڑ سکتے ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ دنیا بھر میں یہ قانون رائج ہے کہ کسی بھی ملزم کو دفاع کا حق دیا جاتا ہے۔ وہ بھی عدالت میں قانونی چارہ جوئی کرتا ہے۔ یہی انصاف کا تقاضا ہے، لیکن ہمارے ہاں تو الٹی گنگا بہہ رہی ہے۔
حکومت دہشت گردی کی روک تھام کے لیے قانون سازی ضرور کرے، قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اختیارات بھی بڑھائے لیکن اس کے لیے اختیار کیا گیا طریقہ کار مناسب معلوم نہیں ہوتا۔ بعض مبصرین کے مطابق حکومت نے لاپتہ افراد کی حراست کو قانونی قرار دے کر عدالتوں سے جان چھڑانے کی کوشش کی ہے۔
اس طرح قانون نافذ کرنے والے اداروں کو مکمل اختیارات دے دیے گئے کہ وہ جسے چاہے اٹھا لیں، جسے چاہیں مار دیں، ان سے کوئی سوال نہیں کیا جا سکتا۔ دہشت گردی روکنے کے اور بھی بہت طریقے ہیں، جن پر عمل کر کے حکومت اس مسئلے پر قابو پا سکتی ہے۔ وفاقی اور سندھ حکومت کو مبینہ پولیس مقابلوں کا سختی سے نوٹس لینا ہو گا۔ کیوں کہ آج اگر ایک جماعت کی حکومت ہے تو کل دوسری پارٹی برسراقتدار آ کر مبینہ پولیس مقابلوں کے ذریعے اپنے مخالفین کو راستے سے ہٹائے گی۔ نہ صرف سیاسی و مذہبی جماعتوں بلکہ ہر شعبہ زندگی کے نمایندوں کو اس سلسلے کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے، قانون میں جو سقم ہے اسے دور کرانا چاہیے تا کہ معاشرے میں سدھار آ سکے۔