مہنگائی کے باعث دکان ورکشاپ اورٹھیلوں پرکم عمربچے معمولی اجرت پرکام کرتے ہیں ایکسپریس سروے
بچے دن بھرمحنت مزدوری کرکے اپنے خاندان کی کفالت کرنے میں بڑوں کا ہاتھ بٹاتے ہیں
ہر شخص کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنے خاندان کی بہتر سے بہترکفالت کرسکے اوراس کے بچے خوش حال زندگی گزاریں لیکن وطن عزیز میں جہاں دیگر مسائل ہیں، وہاں سب سے بڑا مسئلہ بے روزگاری ہے جس کی وجہ سے غربت میںاضافہ ہو رہا ہے۔
غریب آدمی کے لیے دو وقت کی روٹی کمانا بھی مشکل ہو گیا ہے ،ہرغریب شخص اپنے بچوں کو اچھی تعلیم دینے کی خواہش رکھتا ہے لیکن غربت کے باعث اس کی یہ خواہش صرف خواب بن کررہ جاتی ہے ،ہر غریب خاندان کی یہ کہانی ہے کہ اگرگھر میں 5سے 15 سال کی عمرتک کے بچے ہیں تو ماں باپ ان کو تعلیم دلانے کے بجائے اپنے اخراجات پورے کرنے کیلیے مختلف ہنر سیکھانے یا محنت مزدوری پر لگا دیتے ہیں، میٹروپولیٹن سٹی کراچی میں ہر دوسری دکان، ہوٹل ورکشاپ یا ٹھیلوں پر مدد گار کے طور پر بچے کام کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ، ان بچوں کو چھوٹا یا چھوٹے استاد کے نام سے پکارا جاتا ہے، یہ بچے دن بھرانتہائی معمولی اجرت پرمحنت مزدوری کرکے اپنے خاندان کی کفالت کرنے میں بڑوں کا ہاتھ بٹاتے ہیں،ایکسپریس نے چھوٹے استادوں کے حوالے سے سروے کیا اور مختلف دکانوں پر جا کر وہاں کام کرنے والے بچوں سے بات چیت جس کے دوران ہر دوسرے بچے کی زبان پر ایک ہی کہانی تھی کہ وہ اسکول تو جانا چاہتا ہے لیکن اس کے ماں باپ کے پاس پیسے نہیں ہیں۔
، اسی لیے وہ تعلیم سے محروم اورمحنت مزدوری کرنے پرمجبورہے، لیاقت آباد میں موٹر سائیکل کا کام سیکھنے والے بچے اویس احمد نے بتایا کہ اس وقت اس کی عمر 10سال ہے، وہ 3سال سے موٹر سائیکل مکینک کا کام سیکھ رہا ہے، اب تک تقریباً 60 فیصد سے زائد کام سیکھ چکا ہے اور مزید اس کام کو سیکھنے میں 3سے 4 سال لگ جائیں گے، اس نے بتایا کہ وہ اسکول جانا چاہتا ہے لیکن کام کرنا اس کی مجبوری ہے ، یہ کام اس لیے سیکھ رہا ہوں کہ بڑے ہو کر اپنی ورکشاپ کھولوں گا، اگر پیسے ہوں گے تو کسی دکان میں چھوٹا ورکشاپ قائم کر لوں گا ورنہ فٹ پاتھ پر ٹھیا لگا کر یہ کام شروع کر دوں گا، مددگار ہیلپ لائن کے سربراہ ضیا اعوان ایڈووکیٹ نے بتایا کہ چھوٹے بچوں کا دکانوں پر کام کرنا یا محنت مزدوری کرنا چائلڈ لیبر کے زمرے میں آتا ہے جس پر پابندی عائد ہے مگراس پرعملدرآمدنہیں کیاجاتا،کراچی کا جائزہ لیا جائے تو کراچی کی آبادی دو کروڑ سے زیادہ ہو گئی ہے، اگر اس آبادی میں تناسب نکالا جائے تو5 فیصد بچے جن کی عمر 5سے 15 سال کے درمیان ہو گی ۔
وہ اپنے خاندان کے اخراجات پورے کرنے کے لیے اپنے والد کا محنت مزدوری کرکے ہاتھ بٹاتے ہیں اور ان 5فیصد بچوں کی تعداد تقریباً 10لاکھ سے زائد بنتی ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ کراچی میں تقریباً 10لاکھ سے زائد کم عمر بچے محنت مزدوری کرتے ہیں اور وہ تعلیم سے محروم ہیں، مردم شماری نہ ہونے کے باعث اصل تعداد کا معلوم کرنا انتہائی مشکل ہے تاہم ان بچوں کے محنت مزدوری کرنے کی وجہ غربت ہے اور ریاست کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ صرف قانون سازی نہ کریں بلکہ ان بچوں کو تعلیم دلوانے کیلیے ایسی پالیسی مرتب کریں، جس سے نہ صرف یہ بچے تعلیم حاصل کر سکیں بلکہ ہنر بھی سیکھ سکیں۔
مختلف دکانوں ، گیراجوں اور دیگر مقامات پر کام کرنیوالے کم عمر بچے روزانہ 12 سے 14 گھنٹے کام کرتے ہیں، سروے کے دوران یہ دیکھنے میں آیا کہ جو بچے کوئی ہنر سیکھنے کیلیے کام کرتے ہیں ، ان بچوں کو شروع میں 20 سے 30 روپے جیب خرچ دیا جاتا ہے، جیسے جیسے یہ بچہ کام سیکھتا جاتا ہے ، اس کے جیب خرچ میں بتدریج اضافہ ہوتارہتاہے جسے بعدمیں اجرت میں تبدیل کردیاجاتاہے ،مددگار چھوٹے استادوںکوکم سے کم 50 فیصد کام سیکھنے کے بعد اجرت 100 سے 150 روپے کے درمیان ملتی ہے اور جو بچے ہنر تقریباً سیکھ جاتے ہیں انھیں 200 روپے سے 300روپے تک روزانہ اجرت دی جاتی ہے یاان کی ماہانہ تنخواہ 5ہزارسے 8 ہزار کے درمیان مقررکردی جاتی ہے جو بچے ہوٹلوں ، بیکریوں یا جنرل اسٹور اوردیگراشیا فروخت کرنے کی دکانوں پرمددگارکے طور پرکام کرتے ہیں، انھیں بھی 50 روپے سے لیکر 150 روپے تک روزانہ اجرت دی جاتی ہے اور دوپہرکے کھانے کے علاوہ چائے بھی استاد یا دکاندار دیتا ہے، چھوٹے استاد کے کام سیکھنے کے دوران ان کے ساتھ انتہائی ناروا سلوک برتا جاتا ہے، یہ بچے کام سیکھنے کے دوران نہ صرف اپنے استادوں کی مارکھاتے ہیں بلکہ بعض اوقات انھیں استادکے دوست یاراورکام کرانے کیلیے آنیوالے افرادبھی گالیاںبکتے ہیں،کام سیکھانے والے مکینیک کا کہنا ہے کہ اگربچوں پرسختی نہیں کریں گے تو وہ کام کو سیکھنے میںدلچسپی نہیںلیںگے، سختی کرتے ہیں تاکہ یہ جلدکام سیکھ لیں۔
کراچی میں کام کرنیوالے بچے '' چھوٹے استاد '' یا ''چھوٹے '' زیادہ تر گاڑیوں کی مرمت ، پنکچرلگانے، درزی، ہوٹل پر پانی پلانے،میزیں صاف کرنے ، برتن دھونے ، گاڑیوں کے پرزوں، پان اورراشن کی دکانوں، پرنٹنگ پریس ، بیکریوں ، فرنیچر بنانے، جوتے پالش کرنے، مختلف بس اسٹاپوں پر چاکلیٹ فروخت کرنے، پانی پلانے، گاڑیاں دھونے ، پھل اور سبزی فروخت کرنے سمیت دیگر کاموں سے وابستہ ہیں ، سروے کے دوران یہ دیکھنے مین آیا کہ زیادہ تر بچے ان کاموں میں مددگار کے طور پر کام کرتے ہیں تاہم اکثریت بچوں کی ترجیح ہوتی ہے کہ وہ ایسا کام سیکھیں جو مستقبل میں ان کیلیے مستقل روزگار کا وسیلہ بن سکے، ان بچوں کے ماں باپ کی خواہش بھی یہی ہوتی ہے کہ ان کے بچے کو کام سیکھنے کے دوران بھلے اجرت کم ملے لیکن ان کا بچہ جلد سے جلد کام سیکھ جائے اور اتنی اجرت کماسکے کہ وہ اپنے اخراجات پورے کرنے کے ساتھ اپنے گھر والوں کو ایک معقول رقم بھی دے سکے۔
ہنر سیکھنے والے بچوں کے والدین کی ترجیح ہوتی ہے کہ ان کے بچے قریب ہی کسی دکان یا ہوٹل پر کام کریں یا کوئی ہنرمندی کا کام سیکھ سکیں تاکہ وہ نظروں کے سامنے رہیں اور ان پروالدین کی نگاہ ہو تاہم بعض بچے اپنے علاقے سے دورکام سیکھنے کیلیے جاتے ہیں یا تو یہ بچے پیدل سفر کرتے ہیں یا ان میں سے کئی کے پاس سائیکل موجود ہوتی ہے یا پھریہ بچے آمد و رفت کیلیے چنگچی یا سی این جی رکشوں میں سفر کرتے ہیں، عورت فاؤنڈیشن کی رہنما منہازالرحمن اس حوالے سے کہتی ہیں کہ حکومت یونین کونسل کی سطح پر فنی تربیت کے ادارے قائم کرے اور ان اداروں میں سیکنڈری سطح کی تعلیم حاصل کرنے کا انتظام کیا جائے تاکہ یہ بچے مفت تعلیم کے ساتھ مختلف شعبوں میں فنی تربیت بھی حاصل کرسکیں اس سلسلے میں سول سوسائٹی،این جی اوزاورمخیر حضرات کوبھی تعاون کرناچاہیے۔
غریب آدمی کے لیے دو وقت کی روٹی کمانا بھی مشکل ہو گیا ہے ،ہرغریب شخص اپنے بچوں کو اچھی تعلیم دینے کی خواہش رکھتا ہے لیکن غربت کے باعث اس کی یہ خواہش صرف خواب بن کررہ جاتی ہے ،ہر غریب خاندان کی یہ کہانی ہے کہ اگرگھر میں 5سے 15 سال کی عمرتک کے بچے ہیں تو ماں باپ ان کو تعلیم دلانے کے بجائے اپنے اخراجات پورے کرنے کیلیے مختلف ہنر سیکھانے یا محنت مزدوری پر لگا دیتے ہیں، میٹروپولیٹن سٹی کراچی میں ہر دوسری دکان، ہوٹل ورکشاپ یا ٹھیلوں پر مدد گار کے طور پر بچے کام کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ، ان بچوں کو چھوٹا یا چھوٹے استاد کے نام سے پکارا جاتا ہے، یہ بچے دن بھرانتہائی معمولی اجرت پرمحنت مزدوری کرکے اپنے خاندان کی کفالت کرنے میں بڑوں کا ہاتھ بٹاتے ہیں،ایکسپریس نے چھوٹے استادوں کے حوالے سے سروے کیا اور مختلف دکانوں پر جا کر وہاں کام کرنے والے بچوں سے بات چیت جس کے دوران ہر دوسرے بچے کی زبان پر ایک ہی کہانی تھی کہ وہ اسکول تو جانا چاہتا ہے لیکن اس کے ماں باپ کے پاس پیسے نہیں ہیں۔
، اسی لیے وہ تعلیم سے محروم اورمحنت مزدوری کرنے پرمجبورہے، لیاقت آباد میں موٹر سائیکل کا کام سیکھنے والے بچے اویس احمد نے بتایا کہ اس وقت اس کی عمر 10سال ہے، وہ 3سال سے موٹر سائیکل مکینک کا کام سیکھ رہا ہے، اب تک تقریباً 60 فیصد سے زائد کام سیکھ چکا ہے اور مزید اس کام کو سیکھنے میں 3سے 4 سال لگ جائیں گے، اس نے بتایا کہ وہ اسکول جانا چاہتا ہے لیکن کام کرنا اس کی مجبوری ہے ، یہ کام اس لیے سیکھ رہا ہوں کہ بڑے ہو کر اپنی ورکشاپ کھولوں گا، اگر پیسے ہوں گے تو کسی دکان میں چھوٹا ورکشاپ قائم کر لوں گا ورنہ فٹ پاتھ پر ٹھیا لگا کر یہ کام شروع کر دوں گا، مددگار ہیلپ لائن کے سربراہ ضیا اعوان ایڈووکیٹ نے بتایا کہ چھوٹے بچوں کا دکانوں پر کام کرنا یا محنت مزدوری کرنا چائلڈ لیبر کے زمرے میں آتا ہے جس پر پابندی عائد ہے مگراس پرعملدرآمدنہیں کیاجاتا،کراچی کا جائزہ لیا جائے تو کراچی کی آبادی دو کروڑ سے زیادہ ہو گئی ہے، اگر اس آبادی میں تناسب نکالا جائے تو5 فیصد بچے جن کی عمر 5سے 15 سال کے درمیان ہو گی ۔
وہ اپنے خاندان کے اخراجات پورے کرنے کے لیے اپنے والد کا محنت مزدوری کرکے ہاتھ بٹاتے ہیں اور ان 5فیصد بچوں کی تعداد تقریباً 10لاکھ سے زائد بنتی ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ کراچی میں تقریباً 10لاکھ سے زائد کم عمر بچے محنت مزدوری کرتے ہیں اور وہ تعلیم سے محروم ہیں، مردم شماری نہ ہونے کے باعث اصل تعداد کا معلوم کرنا انتہائی مشکل ہے تاہم ان بچوں کے محنت مزدوری کرنے کی وجہ غربت ہے اور ریاست کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ صرف قانون سازی نہ کریں بلکہ ان بچوں کو تعلیم دلوانے کیلیے ایسی پالیسی مرتب کریں، جس سے نہ صرف یہ بچے تعلیم حاصل کر سکیں بلکہ ہنر بھی سیکھ سکیں۔
مختلف دکانوں ، گیراجوں اور دیگر مقامات پر کام کرنیوالے کم عمر بچے روزانہ 12 سے 14 گھنٹے کام کرتے ہیں، سروے کے دوران یہ دیکھنے میں آیا کہ جو بچے کوئی ہنر سیکھنے کیلیے کام کرتے ہیں ، ان بچوں کو شروع میں 20 سے 30 روپے جیب خرچ دیا جاتا ہے، جیسے جیسے یہ بچہ کام سیکھتا جاتا ہے ، اس کے جیب خرچ میں بتدریج اضافہ ہوتارہتاہے جسے بعدمیں اجرت میں تبدیل کردیاجاتاہے ،مددگار چھوٹے استادوںکوکم سے کم 50 فیصد کام سیکھنے کے بعد اجرت 100 سے 150 روپے کے درمیان ملتی ہے اور جو بچے ہنر تقریباً سیکھ جاتے ہیں انھیں 200 روپے سے 300روپے تک روزانہ اجرت دی جاتی ہے یاان کی ماہانہ تنخواہ 5ہزارسے 8 ہزار کے درمیان مقررکردی جاتی ہے جو بچے ہوٹلوں ، بیکریوں یا جنرل اسٹور اوردیگراشیا فروخت کرنے کی دکانوں پرمددگارکے طور پرکام کرتے ہیں، انھیں بھی 50 روپے سے لیکر 150 روپے تک روزانہ اجرت دی جاتی ہے اور دوپہرکے کھانے کے علاوہ چائے بھی استاد یا دکاندار دیتا ہے، چھوٹے استاد کے کام سیکھنے کے دوران ان کے ساتھ انتہائی ناروا سلوک برتا جاتا ہے، یہ بچے کام سیکھنے کے دوران نہ صرف اپنے استادوں کی مارکھاتے ہیں بلکہ بعض اوقات انھیں استادکے دوست یاراورکام کرانے کیلیے آنیوالے افرادبھی گالیاںبکتے ہیں،کام سیکھانے والے مکینیک کا کہنا ہے کہ اگربچوں پرسختی نہیں کریں گے تو وہ کام کو سیکھنے میںدلچسپی نہیںلیںگے، سختی کرتے ہیں تاکہ یہ جلدکام سیکھ لیں۔
کراچی میں کام کرنیوالے بچے '' چھوٹے استاد '' یا ''چھوٹے '' زیادہ تر گاڑیوں کی مرمت ، پنکچرلگانے، درزی، ہوٹل پر پانی پلانے،میزیں صاف کرنے ، برتن دھونے ، گاڑیوں کے پرزوں، پان اورراشن کی دکانوں، پرنٹنگ پریس ، بیکریوں ، فرنیچر بنانے، جوتے پالش کرنے، مختلف بس اسٹاپوں پر چاکلیٹ فروخت کرنے، پانی پلانے، گاڑیاں دھونے ، پھل اور سبزی فروخت کرنے سمیت دیگر کاموں سے وابستہ ہیں ، سروے کے دوران یہ دیکھنے مین آیا کہ زیادہ تر بچے ان کاموں میں مددگار کے طور پر کام کرتے ہیں تاہم اکثریت بچوں کی ترجیح ہوتی ہے کہ وہ ایسا کام سیکھیں جو مستقبل میں ان کیلیے مستقل روزگار کا وسیلہ بن سکے، ان بچوں کے ماں باپ کی خواہش بھی یہی ہوتی ہے کہ ان کے بچے کو کام سیکھنے کے دوران بھلے اجرت کم ملے لیکن ان کا بچہ جلد سے جلد کام سیکھ جائے اور اتنی اجرت کماسکے کہ وہ اپنے اخراجات پورے کرنے کے ساتھ اپنے گھر والوں کو ایک معقول رقم بھی دے سکے۔
ہنر سیکھنے والے بچوں کے والدین کی ترجیح ہوتی ہے کہ ان کے بچے قریب ہی کسی دکان یا ہوٹل پر کام کریں یا کوئی ہنرمندی کا کام سیکھ سکیں تاکہ وہ نظروں کے سامنے رہیں اور ان پروالدین کی نگاہ ہو تاہم بعض بچے اپنے علاقے سے دورکام سیکھنے کیلیے جاتے ہیں یا تو یہ بچے پیدل سفر کرتے ہیں یا ان میں سے کئی کے پاس سائیکل موجود ہوتی ہے یا پھریہ بچے آمد و رفت کیلیے چنگچی یا سی این جی رکشوں میں سفر کرتے ہیں، عورت فاؤنڈیشن کی رہنما منہازالرحمن اس حوالے سے کہتی ہیں کہ حکومت یونین کونسل کی سطح پر فنی تربیت کے ادارے قائم کرے اور ان اداروں میں سیکنڈری سطح کی تعلیم حاصل کرنے کا انتظام کیا جائے تاکہ یہ بچے مفت تعلیم کے ساتھ مختلف شعبوں میں فنی تربیت بھی حاصل کرسکیں اس سلسلے میں سول سوسائٹی،این جی اوزاورمخیر حضرات کوبھی تعاون کرناچاہیے۔