آؤپڑھاؤ ڈیرہ بگٹی میں 86 فیصد بچے اسکول نہیں جاتے

ضلع آواران میں کسی گرلز سیکنڈری اسکول کیلئے کوئی رقم مختص نہیں کی گئی، صوبائی مشیر تعلیم


Qaiser Butt December 11, 2014
بلوچستان ایجوکیشن فاؤنڈیشن نے 20گھروں پر مشتمل دیہات میں بھی اسکول بنائے، ڈاکٹر عبدالتواب فوٹو: ایکسپریس

اگر بلوچستان کے وزیراعلیٰ کے پاس وزارت تعلیم کا قلم دان بھی ہوتو اس بات کی ضمانت دی جاسکتی ہے کہ وہ صوبے میں تعلیم کے فروغ کیلیے راست اور بہتر اقدام کریں گے۔

صوبائی سیکریٹری تعلیم عبدالصبور خان نے بتایاکہ بلوچستان میں رواں مالی سال میں تعلیم پر مجموعی طورپر55ارب روپے خرچ کیے جارہے ہیں جبکہ صرف پرائمری اسکولوں پر 29ارب روپے خرچ کیے جائیں گے، 215ارب کے بجٹ میںیہ رقم امن و امان کیلیے مختص رقم سے زیادہ ہےصوبے میںاسکولوں کی تعداد12500ہے جن میں7ہزار پرائمری،2ہزارمڈل اور3500سیکنڈری اسکول ہیں۔ وزیراعلیٰ بلوچستان کے مشیرتعلیم ریاض محمد خان باریچ نے کہاکہ پرائمری اسکولوں اور اعلیٰ تعلیمی اداروں کی مالی ضروریات کی تکمیل کیلیے حکومت عالمی امدادی اداروںاور حکومت پنجاب سے مذاکرات کررہی ہے۔

رواں سال کے بجٹ میں اساتذہ کی تنخواہ بڑھائی گئی ہے جبکہ اعلیٰ تعلیم یافتہ اساتذہ کومزید مراعات دی جارہی ہیں، تربیتی اداروں پر مزید سرمایہ کاری کی جارہی ہے،نجی اسکولوں، مدارس اور مسجد اسکولوں کو ضابطے کا پابند بنانے کیلیے پالیسی بنائی جارہی ہے۔ طلبہ کو ملک اور بیرون ملک اسکالرشپ دی جائیں گی، تعلیمی اداروں کی بہتری کے اقدام بھی کیے جائیں گے، اسکولوں میں چہاردیواری، چھت، بیت الخلاکی تعمیرو مرمت کے کام بھی انجام دیے جائیں گے۔ سیکنڈری اسکولوں میں ایک ارب روپے سے اضافی کلاس رومز تعمیرکیے جارہے ہیں، گوادر، نوشکی اور کیچ میںاسکولوں میں اضافی کلاس رومز بنائے جارہے ہیں۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ بلوچستان حکومت کو بجٹ پر نظرثانی کا مکمل اختیار ہے، مختص رقوم اور اخراجات میں واضح تضادہے، تعلیم کیلیے اخراجات میں اضافہ اپنی جگہ لیکن منصوبہ بندی اور عملی کام میں واضح فرق سامنے آرہاہے۔ گزشتہ سال پرائمری اور سیکنڈری اسکولوں کیلیے بجٹ میں32فیصد رقوم مختص کی گئیں جس کو نظرثانی بجٹ میں 56فیصد تک بڑھادیاگیا جبکہ رواں سال سیکنڈری اسکولوں اور یونیورسٹی کی نسبت پرائمری اسکولوں کو23فیصد کم رقوم دی جارہی ہیں۔

صوبائی مشیرتعلیم کا کہناہے کہ آئینی طورپر5سے16سال کی عمر کے ہر بچے کومفت اور لازمی تعلیم فراہم کی جانی چاہیے، پرائمری اسکولوں کیلیے فنڈ میں کمی سوالیہ نشان ہے، بلوچستان میں بچوں کے اسکول میں داخلے کی کم ترین شرح کے پیش نظرپرائمری اسکولوں کو فنڈ کی فراہمی میں اولین ترجیح دی جانی چاہیے، صوبے میںصرف دوتہائی بچے اسکولوں میں داخل ہوتے ہیں، ڈیرہ بگٹی میں بدترین صورتحال ہے جہاں 89فیصد بچے اسکول کی تعلیم سے محروم ہیں اور یہاں کیلیے صرف90لاکھ روپے مختص کیے گئے ہیں، جس سے یہ جاننا قطعی مشکل نہیںکہ ڈیرہ بگٹی بچوںکی تعلیم کے حوالے سے ملک بھرکا پسماندہ ترین ضلع کیوں ہے۔ بجٹ میں صنفی امتیاز کے رجحان کو بھی ختم کرنے کی ضرورت ہے، بلوچستان کے 60فیصد پرائمری اسکولوں میں صرف لڑکے زیرتعلیم ہیں اور صرف26فیصد پرائمری اسکول مخلوط ہیں، لڑکیوں کیلیے صرف15فیصد اسکول ہیں، ضلع آواران میں لڑکیوں کے کسی سیکنڈری اسکول کیلیے کوئی رقم مختص نہیں کی گئی جبکہ لڑکوں کے 2اسکولوں کیلیے رقم مختص کی گئی ہے، بجٹ تو صرف تصویر کا ایک رخ ہے، اسکول کی سطح پر تعلیم کا فروغ امن و امان کی صورتحال سے مشروط ہے۔

کئی کیسز میں بچوں کا اسکول تک جانا ہی غیرمحفوظ ہے، شدت پسندی سے متاثرہ ضلع کوہلو اور ڈیرہ بگٹی میں بچوں کے اسکول میں داخلے کی کم ترین شرح حیرانی کی بات نہیں۔ پاک فوج بھی تعلیمی سرگرمیوں پر کافی رقوم خرچ کررہی ہے جو صوبائی بجٹ میں ظاہر نہیں کی جاتی۔ پاک فوج اپنے پبلک اسکولوں، ہاسٹلز، وظائف اور اعلیٰ تعلیم کیلیے اسکالرشپ کے اجرا پر کافی رقوم خرچ کررہی ہے۔ 2006میں نواب اکبر بگٹی کی ہلاکت کے 4ماہ بعد قائم کیے گئے چمالانگ بینیفیشری ایجوکیشن پروگرام کے تحت مری اور بگٹی قبائل کے ہزاروں بلوچ بچوں کو مفت معیاری تعلیم دی جارہی ہے، پروگرام کے تحت7کروڑ 30لاکھ روپے سالانہ خرچ کیے جارہے ہیں۔

جس کیلیے مالی وسائل پاک فوج کی کوہلو اور لورالائی میں واقع چمالانگ کول مائنز کی آمدنی سے حاصل کیے جاتے ہیں۔ عالمی امداد کے حوالے سے بلوچستان ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے ایم ڈی پروفیسرڈاکٹر عبدالتواب خان نے بتایاکہ ایک کروڑ90لاکھ ڈالر(19ملین ڈالر) سے 225نئی عمارتوں سمیت 633اسکولوں کی تعمیر و مرمت کی گئی، ہم نے ایسی آبادیوں میں بھی کمیونٹی اسکول بنائے ہیں جوصرف20گھروں پر مشتمل دیہات تھے، اس طرح408 مکانات میںکمیونٹی اسکول بنائے گئے، ان تمام اسکولوں میں اس وقت27ہزار طلبہ زیرتعلیم ہیں۔ مندرجہ بالا مثالوں اور صوبائی حکومت کی ترجیحات کے تقابلی جائزے سے واضح ہوتاہے کہ بلوچستان میںفروغ تعلیم کیلیے لمبا سفر باقی ہے، رفتار کو تیز کرنے کی ضرورت ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں