پارلیمنٹ کیخلاف کوئی اقدام ہوا تو اسکی پہلی مخالفت عدلیہ کریگی چیف جسٹس

بلوچستان کے حوالے سے صورتحال لمحہ فکریہ ہے،کوئٹہ میں عشایئے سے خطاب

کوئٹہ:چیف جسٹس افتخار چوہدری بلوچستان ہائی کورٹ بار کے عشایئے سے خطاب کررہے ہیں۔ فوٹو/ایکسپریس

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس افتخار محمدچوہدری نے کہا ہے کہ ملک میں ابآئین اور قانون کے علاوہ کسی قسم کا ایکشن قابل قبول نہیں ہوگا ، جس کسی کو شبہہ ہے تو میں دہراتا ہوں کہ ملک میں اب صرف آئین و قانون کی حکمرانی ہو گی ، اب اگر عدلیہ ، پارلیمنٹ ، عوام کے خلاف کوئی اقدام ہوا تو اس کی سب سے پہلی مخالفت عدلیہ کی طرف سے ہوگی ، جیسے3 نومبر 2007کو ہوئی، ہم آئین و قانون کی پاسداری کریںگے، لگتا ہے ملکی معاملات میں کسی کوکوئی دلچسپی نہیں ، ہرفرد چاہتا ہے کہ اپنا بوجھ عدلیہ کے کندھوں پرڈال دیا جائے۔

بلوچستان ہائیکورٹ بار کی طرف سے اپنے اعزاز میں دیے گئے عشایئے کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ بلوچستان کے طول و عرض میں انسانی حقوق کی پامالی کی جارہی ہے، بلوچستان مشکل حالات سے گزررہا ہے ، مگر کسی کو کوئی احساس نہیں، بلوچستان میں لوگوں کے بنیادی حقوق کا کوئی تحفظ نہیں، قانون کا احترام کرنے کی بات ختم ہوتی جا رہی ہے، آئین کے تحت تمام ادارے اپنی حدود میں کام کرنے کے پابند ہیں، انصاف کی فراہمی یقینی بنانا عدالتوں کی ذمے داری ہے، سپریم کورٹ اپنی ذمے داریوں سے بخوبی آگاہ ہے ، ہم نے آئین کے تحفظ اور اس کے دفاع کا حلف اٹھایا ہے لگتا ہے کسی کوملک کے حالات سے دلچسپی نہیں، ہر فرداپنا بوجھ عدلیہ کے کندھوں پر ڈالنا چاہتا ہے، جو کام کسی اور نے کرنا ہے وہ بھی سپریم کورٹ کے ذمے ڈال دیا جاتا ہے،

چیف جسٹس نے کہا کہ اس وقت کہاں پر لوگوں کے حقوق کا تحفظ ہو رہا ہے، بلوچستان کے حوالے سے صورتحال لمحہ فکریہ ہے، صوبے میں کوئی بلوچی، سندھی ، پنجابی ، پٹھان، ہزارہ، مزدور محفوظ نہیں ۔بلوچستان کے حالات ہمیشہ ایسے نہ تھے،گذشتہ سال کراچی کی صورتحال بھی بدتر تھی، اورآج بھی روزانہ وہاں پانچ سے چھ افراد کا قتل ، بوری بند لاشیں ، اغوا برائے تاوان اور اسٹریٹ کرائم ہوتے ہیں، پنجاب میں اس سے بھی بری حالت ہے،کل ہی گجرات میں سات فوجی مار دیے گئے اورگذشتہ روز لاہور جیسے شہر میں صوبہ خیبر کے نو اہلکاروں کو قتل کردیا گیا ، صوبہ خیبر میں قانون کی حکمرانی سے رو گردانی ہو رہی ہے، پولیس انتی بددل ہے کہ دہشت گردوں کیخلاف کارروائی نہیں کرتی، ہر فرد چاہتا ہے کہ بوجھ عدالت کے کندھوں میں ڈال دیا جائے،


انھوں نے کہا کہ عدالتیں اپنے فرائض انجام دینے سے کسی بھی جگہ پیچھے نہیں، چیف جسٹس خیبر ہائیکورٹ روزانہ لاپتہ افراد کے کیس سنتے ہیں، بلوچستان بھی تمام ججوں اور بار کے تعاون سے روزانہ کتنے معاملات نمٹائے جاتے ہیں،کسی کو کسی کا شکر گذار ہونے کی ضرورت نہیں بلکہ فرض نبھانے کی بات ہے، اب نہ گھبرانا ہے نہ جھکنا ہے ، نہ ہی کسی طرح کی مصلحت سے کام لینا ہے ، صرف آئین اور قانون کی ہی بالادستی ہوگی،گھر سے نکلتے ہوئے میں بھی سوچتا ہوں کہ شاید ہم آج کام آجائیں مگر جو گولی ہمارے نام کی بنی ہے ، وہی لگے گی، ملک میں آئین اور قانون کے علاوہ کسی قسم کا ایکشن قابل قبول نہیں ہوگا ۔ اسلام آباد میں گردش کرنے والی افواہوں کی باتوں کے حوالے سے چیف جسٹس نے کہاکہ ان لوگوں پر جن کے ذہن میں کسی بھی قسم کا شبہہ ہے تو میں دہراتا ہوں کہ اب صرف اور صرف آئین و قانون کی حکمرانی ہو گی،

یہ بات طے ہے کہ اب آئین اور قانون کی حکمرانی کے سوا کچھ نہیں ہو گا، ہمارا اور کوئی وسیلہ اور ٹھکانہ نہیں ، ہم پنجاب ، سندھ، بلوچستان ، کے پی کے سے محبت کریں گے، ہم نے آئین اور قانون کے سوا کسی اور طرف نہ دیکھنا ہے نہ دیکھنے کی ضرورت ہے، میں وکلا کو یاد کراتا چلوں کہ یہ ہمارے کوڈ آف کنڈکٹ میں شامل ہے کہ کوئی اعلیٰ عدلیہ کا جج کسی بھی ماورائے آئین عنصر کے نیچے حلف نہیں اٹھائے گا، اگر اٹھائے گا تو یہ آئین کی خلاف ورزی ہوگی، فیصلے کا یہ اہم حصہ ہم نے ججوں کے کوڈ آف کنڈکٹ میں شامل کیا ہے، ضابطہ اخلاق بننے کے بعد پارلیمنٹ نے آرٹیکل چھ ترمیم بھی کیا، مگر اس سے پہلے تمام جج خود پر قدغن لگا چکے ہیں، جو اس لیے لگائی کہ اب ججوں ، میڈیا پرسنز، مزدوروں سمیت تمام قوم کا یہ عزم ہے کہ ملک کو اب پھلنا پھولنا ہے، اور یہ تب ہو گا، جب جمہوریت ہوگی، اب کوئی اور اقدام ملک برداشت نہیں کر سکتا۔

یہ طے ہے کہ ملک میں ہم نے قانون کے سوا کچھ نہیں ہونے دینا، آزاد عدلیہ کیلیے جانیں قربان کی گئیں، اب بھی ملک کو ضرورت پڑی تو جانوں کی قربانی پھر دینا ہو گی، موت کا ایک دن معین ہے، انھوں نے کہا کہ جج بھرتی کرنے کیلیے لائنیں لگ جاتی ہیں، مگر لوگوں نے دیکھا کہ میرے سو کے قریب تعلقات والے لوگوں کو بھی تین نومبر کے حکم کو نہ ماننے پر گھر جانا پڑا ہے، میں ججوں سے کہوں گا کہ وہ لوگوں کے ساتھ انصاف کریں ، ٹیکنیکل انصاف کوئی انصاف نہیں ہوتا، بلوچستان میں امن وامان کیس سے متعلق کوئی بھی ناامید نہ ہو، کسی بھی ماورا اقدام کی صورت میں کوئی جج حلف نہیں اٹھائے گا، چیف جسٹس نے کہا کہ طوفان آتے ہیں مگر گھبرانے کی ضرورت نہیں، انتظامیہ کے کرنے والے کام بھی عدلیہ کے ذمے لگا دیے گئے ہیں لگتا ہے کہ کسی کو حالات سے کوئی دلچسپی نہیں۔

وکلاء کو قانون کی بالادستی کیلیے کام کرنا ہے، سپریم کورٹ کی وجہ سے کئی لاپتہ افراد گھروں میں واپس آئے ہیں۔ وقتی پریشانی کا سامنا ضرور ہے، مگر لوگوں کو ریلیف بھی ملا ہے، بلوچستان میں میں کوئی محفوظ نہیں ، یہاں بھی آئین کا اطلاق دوسرے صوبوں کی طرح ہونا چاہیے، ملک تب ترقی کرے گا جب جمہوریت کی علمبرداری ہو گی۔ ایسا راستہ بنائیں کہ کسی کو ایمرجنسی لگانے کی جرات نہ ہو۔

Recommended Stories

Load Next Story