پاکستان ایک نظر میں موت کی دستک

اگر بارش نہ ہو تو صحرائے تھر اپنی پیاس بجھانے کیلئے کسی کو بھی نہیں بخشتا خواہ وہ بچہ، بوڑھا، جوان، چرند ہو یا پرند۔


نعیم اقبال December 11, 2014
اگر بارش نہ ہو تو صحرائے تھر اپنی پیاس بجھانے کیلئے کسی کو بھی نہیں بخشتا خواہ وہ بچہ، بوڑھا، جوان، چرند ہو یا پرند۔ فوٹو آن لائن

گزشتہ عام انتخابات سے قبل پاکستان کی ہر چھوٹی بڑی سیاسی جماعت عوام کے مسائل سے نہ صرف آگاہ تھی بلکہ انہیں حل کرنے کے لئے پُرعزم بھی۔ پُرعزم بھی ایسی جیسی دیوارِ چین۔ انتخابات کے بعد وفاق اور پنجاب میں مسلم لیگ(نواز) کی حکومت بن گئی ۔ خبیر پختونخوا تحریک انصاف، سندھ پیپلز پارٹی جبکہ بلوچستان میں مخلوط حکومت وجود میں آئی۔پنجاب اور سندھ دو ایسے صوبے ہیں جہاں کئی برسوں سے بالترتیب مسلم لیگ(نواز) اور پیپلز پارٹی حکومت کرتی چلی آرہی ہیں اور کیسی خوش گوار حیرت ہے کہ ہر بار وزیراعلیٰ بھی ایک ہی صاحب ہوتے ہیں۔جی ہاں! جناب شہباز شریف اورقائم علی شاہ صاحب۔

یہ ساراپس منظر بیان کرنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ جس پارٹی کی حکومت جہاں زیادہ بار آئی ہو وہ پارٹی اس صوبے کے مسائل سے نہ صرف آگاہ ہوتی ہے بلکہ اسے ازبر بھی ہوتے ہیں لیکن ہمارے ہاں گنگا الٹی بہتی ہے۔ جس صوبے میں جس کی حکومت ہے وہاں مسائل کم ہونے کے بجائے بتدریج بڑھتے ہی چلے جا رہے ہیں۔ ایک ایسے ہی مستقل مسئلے میں گھرا بد نصیب ضلع تھرپارکر ہے۔ جہاں مسلسل تین سالوں سے مور کے رقص کے بجائے موت کا رقص جبکہ نومولود بچے کی پیدائش پر قہقہے گونجنے کے بجائے آہ و بکا سنائی دیتی ہے۔ تھر باسیوں کا اثاثہ، ان کا مال ڈنگر ہوتے ہیں لیکن وہ بھی نا پید ہوتے جا رہے ہیں۔ بعض اوقات تو میتیوں کے لئے کندھے کم پڑ جاتے ہیں کیونکہ کندھے دینے والے بیچارے خود قریب المرگ ہوتے ہیں۔

ایک کچے گھر میں شيموں میگھواڑ نامی خاتون اپنے چار لاغر اور نیم جاں بچوں کے ساتھ سوچوں میں گم بیٹھی ہے جبکہ اس کا شوہر کرموں محنت مزدوری کی تلاش میں باہر گیا ہواہے۔شیموں میگھواڑ کے پاس اپنے بچوں کو کھلانے کے لئے سوکھی روٹی اور لال مرچ کی چٹنی کے سواکچھ نہیں اور وہ بھی وہ صرف صبح اور رات کو ہی کھا سکتے ہیں، دوپہر میں کھانے کا خیال لانا بھی ان کے لئے کسی عیاشی سے کم نہیں۔ اس کا کہنا ہے کہ قحط نے ہمارا سب کچھ چھین لیا ہے۔ پہلے بارش ہو جاتی تھی تو کھیتی باڑی کرکے اناج جمع کر لیتے تھے۔ مال ڈنگر تھے وہ بھی بک گئے۔ اب تو ہر وقت یہی ڈر لگا رہتا ہے کہ کب ہماری گنتی کم ہو جائے؟ شیموں کا کہنا ہے کہ اب وہ اپنے آبائی دیس کو چھوڑ کر پردیس (دوسرے شہر) جانے کی تیاری کر رہے ہیں کیونکہ یہاں تو بس موت ہی رہ گئی ہے۔ نجانے کب' دستک ہو جائے؟

گزشتہ تین سالوں سے صحرائے تھر بارشوں سے محروم ہے۔ دریائے سندھ سے بے شمارنہریں نکلتی ہیں لیکن کسی نہر کا پانی آج تک تھر میں نہیں گرایا گیا۔ ابر کرم برس جائے تو یہ پانی کنوئوں میں جمع کر لیا جاتا ہے جس سے تھر باسی اپنے لئے اناج اگاتے ہیں۔ بال بچوں، مال ڈنگر و دیگر ضروریات کے لئے پورا سال استعمال کرتے ہیں۔اگر بارش نہ ہو تو صحرائے تھر اپنی پیاس بجھانے کیلئے کسی کو بھی نہیں بخشتا خواہ وہ بچہ، بوڑھا، جوان، چرند ہو یا پرند۔ گزشتہ برس2013ء میں کم و بیش ڈیڑھ سو کے قریب تھری لقمہ اجل بنے جبکہ امسال 250سے زائد ہلاکتیں ہو چکی ہیں۔ یعنی گزشتہ برس سے بھی بدترین صورت حال۔ ان ہلاکتوں پر ذمہ داران کا کہنا ہے کہ ''ہلاکتوں کا بڑا سبب پیدائش کے وقت وزن کم ہونا ' یا نمونیا اور سانس کی تکالیف ہیں۔ تھر میں بچے کمزور ہیں لیکن وہ غربت کے باعث نہیں بلکہ ورثاء کی غلطیوں کے باعث ہیں کیونکہ ایک تو بچیوں کی چھوٹی عمرمیں شادیاں کروادی جاتی ہیں جس کی وجہ سے کمزور بچے پیدا ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ بغیر وقفے کے بچوں کی پیدائش سے بچے کو مطلوبہ دودھ نہیں ملتا اور بچے کمزور رہ جاتے ہیں جبکہ کمزور بچے باآسانی بیماریوں کے شکار ہوجاتے ہیں''۔

چلیں ایک لمحہ کے لئے یہ بات تسلیم کر لیتے ہیں تو پھرتھر باسیوں کو بنیادی سہولیات فراہم کرنا کس کی ذمہ داری ہے؟ کیا تھری باشندے ہمارے ملک کے شہری نہیں؟ میڈیا پر انسانی جانوں کے ضیاع پر اگر واویلا کیا جاتا ہے تو حکومتی ترجمان فرماتے ہیں کہ ''پاکستان میں روزانہ چھ سو بچے مرتے ہیں' اگر تھر میں چار پانچ مر جاتے ہیں تو اتنا شور کیوں مچایا جا رہا ہے''۔ان بیانات سے آپ بخوبی اندازہ کر سکتے ہیں کہ ارباب اختیار ان کے مسائل حل کرنے میں کس قدرسنجیدہ ہیں؟ کہتے ہیں کہ حکمران عوام کے مائی باپ ہوتے ہیں۔ یہ کیسے مائی باپ ہیں جن کے بچے ایک نہیں ،دو نہیں مسلسل تین سالوں سے بھوک و پیاس سے بِلک بِلک کر مر رہے ہیں اور یہ نئی نئی تاویلیں گھڑنے میں لگے ہوئے ہیں۔ ایسے موقعے پر حضرت عمر فاروق ؓ کا فرمان یاد آتاہے ''اگر دریائے فرات کے کنارے کوئی کتا پیاس سے مر گیا تو اس بابت میں اللہ تعالیٰ کو کیا جواب دوں گا''۔ دوسری طرف ہمارے حکمران ہیں جنہیں اپنی رعایا کی رَتی برابر بھی پرواہ نہیں۔

ہونا تو یہ چاہئے کہ جو کوئی بھی اعلیٰ عہدیدار یا افسر ہلاکتوں کا نہ صرف بلاامتیازتعین کیا جاتا بلکہ وقت ضائع کئے بغیر ذمہ داروں کے خلاف قانونی کارروائی کرتے ہوئے'فی الفور'' سزائیں'' دی جاتیں۔ اگر اب بھی ایساکر لیا جائے تو کوئی امر مانع نہیں کہ اگلے برس تھر میں مور بھی ناچے گے، بچوں کی پیدائش پر قہقہے بھی سنائی دیں اور زندگی کا پہیہ بھی رواں دواں ہو۔

خدا کرے میری ارض پاک پر اترے
وہ فصل گُل جسے اندیشہ زوال نہ ہو

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں