بعض اوقات ایسی خبریں سننے او ر دیکھنے کو ملتی ہے کہ انسان کے دونوں ہاتھ بغیر کسی توقف کے دونوں ہاتھ سر سے جا ٹکراتے ہیں ۔۔۔۔ اور دل میں خواہش جنم لیتی ہے کہ مستقبل میں کاش اِس قسم کی خبریں نظروں سے نہ گزریں ۔
خبر یہ ہے کہ اقوام متحدہ کے ادارے برائے اطفال نے اپنی حالیہ ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ سنہ 2014 میں ایک اندازے کے مطابق 20 کروڑ 30 لاکھ بچے ایسے ممالک یا علاقوں میں رہتے ہیں جہاں مسلح تصادم جاری ہے جبکہ اسرائیل کی جانب سے 50 روزہ کارروائیوں میں 538 بچے ہلاک، تین ہزار سے زائد زخمی، ڈیڑھ ہزار یتیم، جبکہ 54 ہزار بچے بے گھر ہوئے۔
رُکیے، رُکیے ۔۔۔۔ میرے ہاتھ ہرگز یہ خبر سن کر سر سے نہیں ٹکرائے ۔۔۔۔ بلکہ جو ادارہ یہ خبر سنا رہا ہے مجھے تو اُس کے رویے اور کردار پر ایسا کرنے کی خواہش اور دل کررہا ہے ۔۔۔ معاملہ یہ ہے کہ انفارمیشن تو آپ کو انٹرنیٹ سے بھی حاصل ہوجائینگی اور دیگر ذرائع سے ۔۔۔۔ کمال یہ نہیں کہ آپ کسی کو خبر پہنچادیں بلکہ کمال یہ ہوتا ہے کہ آپ کا جو کام ہے اُس کوفرض سمجھ کر پورے اہتمام سے کیا جائے ۔
اگر بات سمجھ نہیں آئی تو ابھی سمجھادیتے ہیں ۔۔۔۔ اگر میں کسی فرد کو نوکری پر اِس لیے رکھوں کہ وہ میرے گھر کی صفائی کرے ۔۔۔ مگر جس شخص کو میں نے صفائی کی غرض سے نوکری پر رکھا ہے اگر وہ صفائی کے بجائے مجھے صرف یہ بتاتا رہے کہ دیکھیں وہاں بھی کچرا موجود ہے، وہاں بھی کچرا موجود ہے ۔۔۔۔ تو آپ بتائیے کہ میرا اُس نوکر کے ساتھ کیا رویہ ہونا چاہیے کہ کچرا تو مجھے پہلے بھی نظر آتا تھا اور اُسی کچرے کی صفائی کے لیے نوکر کو رکھا تھا ۔۔۔۔ اِسی طرح اگر آپ گھر کی حفاظت کے لیے ایک چوکیدار رکھیں جس کی بنیادی ذمہ داری ڈاکوں اور چوروں سے حفاظت ہو ۔۔۔ لیکن وہ حفاظت کرنے کے بجائے آپ کو آدھی رات فون کرکے یہ کہے کہ جناب میں نے ابھی گھر کے اندر 4 ڈاکووں کو اندر آتے دیکھا ہے ۔۔۔۔ تو آپ کا پہلا جملہ کیا ہوگا؟ یہی نہ کہ ارے کمبخت جب دیکھا ہے تو روکا کیوں نہیں؟
بالکل یہی معاملہ یونیسیف نے بھی اپنی نئی رپورت کو منظر عام پر لاکر کیا ہے ۔۔۔۔ 20 کروڑ 30 لاکھ کہنے اور لکھنے میں بہت آسان ہوتا ہے ۔۔۔۔ مگر درحقیقت اس رپورٹ میں بتائی گئی معلومات کو سنجیدگی سے سوچا جائے تو سمجھ لیں کہ دنیا میں بسنے والی آبادی اِس وقت رسک میں ہے ۔۔۔۔ ظاہر ہے اِنہی بچوں نے آگے جاکر دنیا کا نظام چلانا ہے ۔۔۔۔ مگر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اِس خطرناک معلومات کو منظر عام پر لاکر اِس عالمی ادارے نے اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرلیا ۔۔۔
بھلا کوئی ہے جو اِن سے پوچھے کہ چلیں آپ نے یہ معلومات منظر عام پر لاکر بڑا کام کیا ہے ۔۔۔۔ لیکن اب یہ بتائیے کہ اِن 20 کروڑ بچوں کی زندگیوں اور مستقبل کو محفوظ بنانے کےلیے دنیا کیا کررہی ہے ۔۔۔ آخر وہ کونسے طریقہ کار ہے جن کو اپناتے ہوئے دنیا کے مستقبل کی روشنیوں کو برقرار رکھا جائے ۔۔۔۔ کہ خدارا محض معلومات تک خود کو محدود نہ رکھیں اگر معاملہ یہیں تو محدود رہا تو اللہ نہ کرے کہ کل کو آپ یہ بھی ہمیں بتارہے ہوں کہ مسلح تصادم کے نتیجے میں کئی لاکھ بچے لقمہ اجل بن گئے ۔۔۔۔ اگرچہ یہ سلسلہ اب بھی مسلسل جاری ہے مگر چونکہ کرنے والے بہادر ملک ہیں تو اُن کے گریبان پر ہاتھ ڈالنا آپ اپنے لیے مکروہ سمجھتے ہیں ۔۔۔ لیکن ایک بات سمجھ لیں ۔۔۔۔ اگر تو آپ نے ذمہ داری لی ہے تو اُس کو پورا بھی کیجیے وگرنہ اِس بات کے لیے تیار ہوجائیں کہ مظلوم جب اپنے صبر کو توڑتا ہے تو ظالم بھی اُس کے قہر سے نہیں بچ سکتا ۔۔۔۔
اِس لیے ایک بار پھر گزارش ہے کہ ایسے نوکر اور چوکیدار نہ بنیں جو اپنی بنیادی زمہ داریوں سے ہٹ کر محض معلومات کی رسائی کا ذریعہ ہوں۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔