گوانتاناموبے میں قید سمیر کی اپنے اوپر ڈھائے جانے والے سی آئی اے مظالم کی ہولناک داستان

جیل کے ایک کمرے میں خواتین کی فحش تصاویرلگی ہوئی ہیں جہاں مجھے برہنہ حالت میں لاکرمیرے مذہب کا مذاق اڑایا جاتاتھا،سمیر

ہ پیشاب کے لیے واش روم جانے کی اجازت نہ تھی اورجب پیشاب کی شدت سے تکلیف بڑھ جاتی تو تفتیش کار قہقہےمار کر ہنستے، سمیر فوٹو:فائل

KARACHI:
سی آئی اے کی ظالمانہ ،انسانیت سوزاور دل دہلا دینے والی داستان کے راز تو امریکی سینیٹ نے افشا کردیئے ہیں لیکن امریکی خفیہ ایجنسی کے اس ظلم کا شکار قیدی کی زبان سے ان دہشت ناک سزاؤں کا ذکر سنا جائے تو سی آئی اے کے انتقام کا اصل چہرہ سامنے آتا ہے۔

یمن سے تعلق رکھنے والے سمیر ناجی کو اسامہ بن لادن سے تعلق کے شبے میں گرفتار کرکے گوانتاناموبے میں لایا گیا جس نے اس بدنام زمانہ جیل میں 13 اذیت ناک سال گزارے اور پھر انہیں 2009 میں تمام الزامات سے بری کردیا گیا لیکن پھر بھی جیل میں ہی رکھاگیا، گزشتہ روزاس سے انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ریپرائیو کے وکلا نے ملاقات کی اوراس ملاقات میں سمیر نے سی آئی اے کی اذیت ناک سزاؤں کے راز سے پردہ اٹھایا۔

سمیر نے کہا کہ سنا ہے امریکی سینیٹ میں سی آئی اے کی ظالمانہ سزاؤں پر مشتمل رپورٹ پیش کی گئی ہے لیکن میری کہانی امریکا سے دور بہت دور گوانتاناموبے جیل سے تعلق رکھتی ہے، سی آئی اے کی کارکردگی پر سینیٹ کی رپورٹ اس ظلم کے رازوں سے پردہ اٹھنے کا آغاز ہے جو امریکی اپنے نام سے کرتے رہے ہیں، یہ اس چھوٹی اور سرد جیل کی خاموشی کے خاتمے کا آغاز ہے، یہ وہ جگہ ہے جہاں آپ کو ہر لمحے یہ خوف رہتا ہے کہ اگلے لمحے آپ کے ساتھ کیا ہونے والا ہے، یہاں کوئی مددگار نہیں اور آپ کویہ بھی پتہ ہے کہ تمام دوست، خاندان اورزندگی آپ سے دور بہت دور ہے۔


یمن سے تعلق رکھنے والے سمیر ناجی کا کہنا تھا کہ پہلے 3 ماہ میں ہر روز 3 تفتیشی ٹیمیں میرے سیل میں داخل ہوتیں، ہر سیشن میں وہ آتے مجھ پر چیختے، میرے چہرے پراورکمر پر لاتوں اور گھونسوں کی بارش کردیتے اور مکمل طور پر سونے سے محروم کردیا جاتا پھر ایک شخص میرے بازو میں انجیکشن لگاتا پھر مجھے ہوش نہیں رہتا، پھر کچھ دیربعد سیل کا دروازہ کھلتا اور ایک گارڈ اندر داخل ہوتا اور مجھ پر جنگلی جانوروں جیسی آوازیں نکالتا اور چلا جاتا۔ اگر میں کھانے سے انکارکردیتا تو کھانا میرے سر پر ماردیا جاتا پھر ایک شخص کو حکم دیا جاتا کہ وہ میرے جسم میں کھانا داخل کرے، وہ شخص میرے بازو پر دو مختلف جگہوں سے دوٹیوب داخل کرتا جس کے بعد بازو سے خون بہنا شروع ہوجاتا۔پھر دروازہ کھلتا اور ایک گارڈ اندر داخل ہوتا مجھے فرش پر دھکا دے کر کمر پر چڑھ کر کودنا شروع کردیتا۔

سمیر نے اپنی داستان جاری رکھتے ہوئے کہا کہ پیشاب کے لیے واش روم جانے کی اجازت نہ تھی اورجب پیشاب کی شدت سے تکلیف بڑھ جاتی تو تفتیش کار قہقہےمار کر ہنستے اور ترجمان کے ذریعے کہتے کہ اسے بتادو اگر پینٹ میں پیشاب کیا تو اسے جنسی تشدد کا نشانہ بنایا جائے گا۔ پھر مجھے ایک سینما نما ہال میں لے جایا جاتا اور دوسروں قیدیوں پر تشدد کی ویڈیوز دکھائی جاتی اور کہا جاتا کہ ہمارے لیے رقص کرو پھر میری ہتھکڑیوں کو کھینچتے اور حکم دیتے کہ دائرے میں گھومو اور جب میں انکار کردیتا تو میرے جسم کے مخصوص اعضا کو چھیڑتے۔ ان کا کہنا تھا کہ بارش کے دوران سیل سے باہر لا کر کیچڑ میں چلنے پر مجبورکیا جاتا انکار کرنے پر زمین پر رگڑا جاتا، میری قید کے سب سے درد ناک لحات فحاشی کا کمرہ تھا جہاں ہر طرف عریاں تصاویر لگائی گئی تھیں یہاں میری داڑھی صاف کر کے عریاں حالت میں لایا جاتا اور ننگی عورتوں کی تصاویر دکھا کر میرے مذہب کا مذاق اڑایا جاتا اور مجھے جانوروں کی آوازیں نکالنے پر مجبور کیا جاتا جب کہ انکار کرنے پرمارا جاتا اور آخر میں انتہائی ٹھنڈا پانی پورے جسم پر پھینک دیا جاتا۔ اس خوفناک تشدد کے بعد جب انہیں یقین ہوگیا کہ میں نے کوئی جرم نہیں کیا تو 6 ماہ قبل 4 امریکی سیکورٹی ایجنسیز نے میرے کیس کا ایک بارپھر جائزہ لیا اور اس نتیجے پر پہنچے کہ مجھے رہا کردیا جائے۔ لیکن میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ مجھے بغیر کسی الزام کے براہ راست اس جیل میں لانا ظلم اور جیل ہر لہرانے والے امریکی پرچم کےلیے شرمناک بھی ہے۔

سمیر ناجی نے آخر میں کہا کہ مجھ جیسے 136 قیدی اب بھی گوانتاناموبے جیل میں ہولناک سزائیں بھگت رہے ہیں، امریکا اپنے ماضی اور حال کو چھپا نہیں سکتا ہماری کہانیاں اور مسلسل قیدوبند کودنیا نظر انداز نہیں کر سکتی۔
Load Next Story