اکثریت کی آمریت
جرمنی کی جنگِ عظیم اول کی شکست نےہٹلر کےجذبۂ انتقام کوعوام میں بےحد مقبول کیا اور وہ اپنی قوم کےدلوں کی دھڑکن بن گیا۔
انسان کو رنگ ، نسل ، زبان اور علاقے میں تقسیم کر کے قومی ریاستوں کے قیام کے ساتھ ساتھ جس تصور نے دنیا بھر میں مقبولیت حاصل کی وہ جمہوریت یا عوام کے ووٹوں سے منتخب ہو کر آنے والی حکومت کا دلآویز نقشہ تھا۔ لوگوں کو ایک ایسا شاندار اور خوش کن قسم کا نعرہ دیا گیا جس نے انھیں یقین دلادیا کہ ان کے ووٹ سے جو لوگ برسرِ اقتدار آتے ہیں وہ انھی کے نمایندے ہوتے ہیں اور انھی کے مفاد کے لیے کام کرتے ہیں۔
یہ سب بیسویں صدی کے آغاز کی باتیں ہیں۔ وہی آغاز جس کی پہلی دہائی ایک عالمی جنگِ عظیم میں صرف ہوئی اور کروڑوں لوگوں کی جان لے گئی۔لیکن اس پہلی جنگ عظیم میں وہ عالمی طاقتوں جنہوں نے پوری دنیا کو اپنی کالونی بنا رکھا تھا، انھوں نے باقی ماندہ دنیا کو بھی فتح کر لیا اور پھر اسے اپنی بادشاہت میں شامل نہ کیا، بلکہ اس کے حصے بخرے کر دیے۔ یہ حصے بخرے انھوں نے رنگ، نسل، زبان اور علاقے کی بنیاد پر کیے۔
یہ باقی ماندہ دنیا کون سی تھی؟ یہ باقی ماندہ دنیا مسلمانوں کی حکومتِ عثمانیہ، افریقہ کا براعظم، جنوبی امریکا اور مشرقِ بعید تھا۔ جو عالمی طاقتیں اس وقت بامِ عروج پر تھیں، ان میں برطانیہ، فرانس، جرمنی، اٹلی، اسپین، ہالینڈ اور پرتگال شامل تھے۔ امریکا عالمی طاقت تھا مگر دور دراز بھی تھا اور اس جنگ سے نسبتاً الگ بھی۔ اس جنگ کے بعد دنیا کا بیشتر حصہ قومی ریاستوں میں تقسیم کر دیا گیا اور ایک عالمی تنظیم بنائی گئی جس کا نام تھا ''لیگ آف نیشنز'' یعنی'' جمعّیتِ اقوام''۔ دنیا کو قومی ریاستوں میں تقسیم کر کے بنی نوع انسان کو ایک دوسرے کے خون کا پیاسا بنانے کا تصور چونکہ اسلام کی بنیادی روح کے منافی تھا اسی لیے اس تصور کے خلاف جو طاقتور ترین آواز بلند ہوئی وہ علامہ اقبال کی تھی۔ انھوں نے کہا کہ اسلام کا پیغام انسانوں کی وحدت اور یگانگت ہے ، اقوام کی جمعیت کا نہیں۔
اس دور میں اقوام کی صحبت بھی ہوئی عام
پوشیدہ نگاہوں سے رہی وحدتِ آدم
تفریقِ ملّل، حکمتِ افرنگ کا مقصود
اسلام کا مقصود فقط ملتِ آدم
مکّے نے دیا، خاکِ جنیوا کو یہ پیغام
جمعّیتِ اقوام کہ جمعّیتِ آدم
انسانوں کو رنگ ، نسل، زبان اور علاقے میں تقسیم کر کے ان کو آپس میں لڑانے کا یہ قومی ریاستوں کا کھیل صرف تیس سال بعد ہی دنیا کو ایک اورخونی عالمگیر جنگ کا تحفہ دے گیا۔ یہ جنگ تو خوفناک بھی تھی اور تباہ کن بھی۔ وہ جنگ جس میں پہلی دفعہ دو شہروں پر ایٹم بم برسائے گئے۔ دنیا کا کون سا خطہ تھا جو اس کی لپیٹ میں نہ آیا ہو۔ لیکن1915سے1945 ان تیس سالوں میں ان قومی ریاستوں کو خونخوار بنانے اور اپنی اپنی سرحدوں میں خونی پنجوں کو تیز کرنے میں جس تصور نے جلتی پر تیل کا کام کیا وہ جمہوریت تھی۔
لوگوں کے اندر چھپی عصبیت اس جمہوری نظام میں کھل کر سامنے آ گئی۔ جرمنی کی جنگِ عظیم اول کی شکست نے ہٹلر کے جذبۂ انتقام کو عوام میں بے حد مقبول کیا اور وہ اپنی قوم کے دلوں کی دھڑکن بن گیا۔ الیکشنوں میں وہ عوام کی واضح اکثریت سے جیتا اور اس نے جمہوریت کی روح یعنی '' اکثریت کی آمریت'' کا کریہہ چہرہ دنیا کے سامنے پیش کر دیا۔ یہودی اقلیت پر جس وقت پوری جرمن قوم اپنے جمہوری قائد ہٹلر کی سربراہی میں بھیڑیوں کی طرح ٹوٹ پڑی تھی تو اس وقت ہٹلر کے اس ظلم کا دفاع کرنے والی ایک واضح اکثریت اس قوم میں موجود تھی جو چیخ چیخ کر کہتی تھی اس یہودی اقلیت کو نیست ونابود کر دو۔ اکثریت کی آمریت کا یہ روپ دنیا کی ہر جمہوریت میں نظر آتا ہے۔
امریکا میں پولیس کے ہاتھوں سیاہ فام افراد کی ہلاکت اور اس پر سیاسی قیادتوں اور میڈیا کی المناک خاموشی کیا اکیسویں صدی کا تازہ ترین المیہ نہیں ہے کہ دو سو کے قریب سیاہ فام امریکی اسی اکثریت کی آمریت میں پولیس کے تشدد کی وجہ سے جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں اور وہاں اس بات کا رونا بھی سیاہ فاموں کو خود ہی رونا پڑ رہا ہے۔ برطانیہ کی برٹش نیشنل پارٹی کے ہاتھوں اقلیتوں پر تشدد ہو یا بھارت کی بی جے پی کے ہاتھوں پورے ملک کے مسلمان اور عیسائی خوفزدہ ہوں ، یہ سب اس جمہوری نظام کے تحائف ہیں جو دنیا کو مل رہے ہیں۔پورے کا پورا نظام صرف ایک فقرے پر قائم ہے۔ ''Majority is authority '' یعنی '' اکثریت ہی حق ہے''۔ اقلیت میں جو بھی چیخے ، چلائے ، شور مچائے اسے کہا جائے کہ جاؤ اپنی اکثریت ثابت کرو اور پھر جو چاہے کر لینا۔ ابھی تو ہم اکثریت میں ہیں اورہماری ہی بات چلے گی۔ اس جمہوری تصورِ حکومت ہی کے خلاف سب سے توانا آواز علامہ اقبال کی تھی۔
تو نے کیا دیکھا نہیں مغرب کا جمہوری نظام
چہرہ روشن، اندروں چنگیز سے تاریک تر
اس پورے نظام کی خرابی یہ ہے کہ اس میں جمہوری طور پر اکثریت سے جیتنے والے رہنما کا دفاع کرنے والے دیوانے اور فرزانے اس کے ہر ظلم کا دفاع دیدہ دلیری سے کرتے ہیں اور اس کی ہر زیادتی کے حق میں دلیلیں لے کر آتے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو جب بلوچستان میں اپنی ذاتی انا کی تسکین کے لیے عطا اللہ مینگل کی مخالف حکومت ختم کرکے آرمی آپریشن شروع کرواتے ہیں، ہزاروں بلوچوں کا قتل عام کرتے ہیں، تو اس کا دفاع کرنے والے 1973 سے لے کر آج تک اسی جوش اور جذبے کے ساتھ ان کے ہر عمل کو جائز قرار دیتے ہیں۔ ان کے دور میں تیس کے قریب سیاسی رہنماؤں کا قتل ہو یا پاکستان میں پہلی دفعہ لاپتہ افرادکی رسم کا آغاز دلائی کیمپ کے ذریعے کیا جائے، پیپلز پارٹی کے جیالوں کے لیے یہ سب سراہنے کی باتیں ہیں۔
کسی بھی آمر یا ڈکٹیٹر کے ظلم کو صرف چند ہی دفاع کرنے والے میسر آتے ہیں اور وہ بھی اس کی زندگی تک یا اقتدار تک اس کا دم بھرتے ہیں۔ لیکن جمہوری ڈکٹیٹروں یا '' اکثریت کی آمریت'' کے ذریعے برسر اقتدار آنے والے رہنماؤں کا دفاع کرنے والے تو ہر دور میں میسر آتے ہیں اور وہ مسلسل اس طرح اس کا دفاع کرتے رہتے ہیں کہ انصاف کے تمام معیارات زمین بوس ہو جاتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں جو بھی فوجی آمر آیا اس نے اپنی ایک سیاسی جماعت بنائی تاکہ اس کا جمہوری طور پر دفاع کرنے والے بھی موجود رہیں۔ ایوب خان نے کنونشن مسلم لیگ بنائی، جس کا جنرل سیکریٹری ذوالفقار علی بھٹو تھا، ضیاالحق کی مسلم لیگ کو نواز شریف، اور جونیجو میسر آئے اور پرویز مشرف کی مسلم لیگ کو چوہدری شجاعت اور پرویز الٰہی۔ لیکن فوجی آمر اور سیاسی رہنماؤں کا یہ تعلق اقتدار کی چوکھٹ تک رہتا ہے جیسے ہی آمر گیا یہ اس کا نام تک نہیں لیتے۔ مگر جمہوری سیاسی نظام میں سیاسی پارٹیاں اپنے لیڈروں کی مدح سرائی میں اپنے رہنماؤں کے ظلم اور بربریت کی مسلسل اور مستقل وکالت کرتی رہتی ہیں یہاں تک کہ اس کی موت کے بعد بھی۔
یہ ہے وہ تمام پس منظر جس میں ماڈل ٹاؤن میں مرنے والے افراد ہوں یا فیصل آباد میں سنسناتی گولیوں کا نشانہ بننے والا حق نواز۔ آج اس ان مظالم کی دلیل دینے والے بھی موجود ہیں اور اپنے رہنماؤں کو پاک صاف اور معصوم ثابت کرنے والے بھی۔ یہ صرف اسی جمہوری نظام کا ہی خاصہ ہے کہ تعصبات کو اس سطح پر لے جایا جاتا ہے کہ کراچی میں سیاست دانوں کے مداحین کو بخوبی علم ہوتا ہے کہ ہمارے لیڈروں کے اشارے پر افراد قتل کرتے ہیں ، تشدد کرتے ہیں،اغوا برائے تاوان میں شریک ہوتے ہیں لیکن پھر بھی وہ انھی کا دفاع کرتے ہیں، انھی سے محبت کرتے ہیں، انھی پر جان نچھاور کرنے کو تیار ہوتے ہیں۔
یہی حال باقی تمام ملک اور صوبوں کا بھی ہے۔ کوئی سیاسی پارٹی کا کارکن کبھی بھی اپنے لیڈر کو اس لیے چھوڑ کر علیحدہ نہیں ہوا کہ اس کے لیڈرنے اپنے مخالفین کو قتل کروایا تھا۔ ان پر مقدمے بنائے اور ان کا جینا دوبھر کر دیا تھا۔ وہ کارکن سب جانتا ہوتا ہے لیکن اسے محلے ، گلی، شہر، اخبار یا ٹیلی ویژن پروگرام میں جہاں کہیں بھی موقع مل جائے اپنے لیڈر کا دفاع کرتا ہے، اس کی کرپشن، بددیانتی، مخالفین پر ظلم و تشدد سب کے باوجود بس یہی کہتا ہے میری جان بھی اپنے لیڈر پر نثار ہے۔
یہ سب بیسویں صدی کے آغاز کی باتیں ہیں۔ وہی آغاز جس کی پہلی دہائی ایک عالمی جنگِ عظیم میں صرف ہوئی اور کروڑوں لوگوں کی جان لے گئی۔لیکن اس پہلی جنگ عظیم میں وہ عالمی طاقتوں جنہوں نے پوری دنیا کو اپنی کالونی بنا رکھا تھا، انھوں نے باقی ماندہ دنیا کو بھی فتح کر لیا اور پھر اسے اپنی بادشاہت میں شامل نہ کیا، بلکہ اس کے حصے بخرے کر دیے۔ یہ حصے بخرے انھوں نے رنگ، نسل، زبان اور علاقے کی بنیاد پر کیے۔
یہ باقی ماندہ دنیا کون سی تھی؟ یہ باقی ماندہ دنیا مسلمانوں کی حکومتِ عثمانیہ، افریقہ کا براعظم، جنوبی امریکا اور مشرقِ بعید تھا۔ جو عالمی طاقتیں اس وقت بامِ عروج پر تھیں، ان میں برطانیہ، فرانس، جرمنی، اٹلی، اسپین، ہالینڈ اور پرتگال شامل تھے۔ امریکا عالمی طاقت تھا مگر دور دراز بھی تھا اور اس جنگ سے نسبتاً الگ بھی۔ اس جنگ کے بعد دنیا کا بیشتر حصہ قومی ریاستوں میں تقسیم کر دیا گیا اور ایک عالمی تنظیم بنائی گئی جس کا نام تھا ''لیگ آف نیشنز'' یعنی'' جمعّیتِ اقوام''۔ دنیا کو قومی ریاستوں میں تقسیم کر کے بنی نوع انسان کو ایک دوسرے کے خون کا پیاسا بنانے کا تصور چونکہ اسلام کی بنیادی روح کے منافی تھا اسی لیے اس تصور کے خلاف جو طاقتور ترین آواز بلند ہوئی وہ علامہ اقبال کی تھی۔ انھوں نے کہا کہ اسلام کا پیغام انسانوں کی وحدت اور یگانگت ہے ، اقوام کی جمعیت کا نہیں۔
اس دور میں اقوام کی صحبت بھی ہوئی عام
پوشیدہ نگاہوں سے رہی وحدتِ آدم
تفریقِ ملّل، حکمتِ افرنگ کا مقصود
اسلام کا مقصود فقط ملتِ آدم
مکّے نے دیا، خاکِ جنیوا کو یہ پیغام
جمعّیتِ اقوام کہ جمعّیتِ آدم
انسانوں کو رنگ ، نسل، زبان اور علاقے میں تقسیم کر کے ان کو آپس میں لڑانے کا یہ قومی ریاستوں کا کھیل صرف تیس سال بعد ہی دنیا کو ایک اورخونی عالمگیر جنگ کا تحفہ دے گیا۔ یہ جنگ تو خوفناک بھی تھی اور تباہ کن بھی۔ وہ جنگ جس میں پہلی دفعہ دو شہروں پر ایٹم بم برسائے گئے۔ دنیا کا کون سا خطہ تھا جو اس کی لپیٹ میں نہ آیا ہو۔ لیکن1915سے1945 ان تیس سالوں میں ان قومی ریاستوں کو خونخوار بنانے اور اپنی اپنی سرحدوں میں خونی پنجوں کو تیز کرنے میں جس تصور نے جلتی پر تیل کا کام کیا وہ جمہوریت تھی۔
لوگوں کے اندر چھپی عصبیت اس جمہوری نظام میں کھل کر سامنے آ گئی۔ جرمنی کی جنگِ عظیم اول کی شکست نے ہٹلر کے جذبۂ انتقام کو عوام میں بے حد مقبول کیا اور وہ اپنی قوم کے دلوں کی دھڑکن بن گیا۔ الیکشنوں میں وہ عوام کی واضح اکثریت سے جیتا اور اس نے جمہوریت کی روح یعنی '' اکثریت کی آمریت'' کا کریہہ چہرہ دنیا کے سامنے پیش کر دیا۔ یہودی اقلیت پر جس وقت پوری جرمن قوم اپنے جمہوری قائد ہٹلر کی سربراہی میں بھیڑیوں کی طرح ٹوٹ پڑی تھی تو اس وقت ہٹلر کے اس ظلم کا دفاع کرنے والی ایک واضح اکثریت اس قوم میں موجود تھی جو چیخ چیخ کر کہتی تھی اس یہودی اقلیت کو نیست ونابود کر دو۔ اکثریت کی آمریت کا یہ روپ دنیا کی ہر جمہوریت میں نظر آتا ہے۔
امریکا میں پولیس کے ہاتھوں سیاہ فام افراد کی ہلاکت اور اس پر سیاسی قیادتوں اور میڈیا کی المناک خاموشی کیا اکیسویں صدی کا تازہ ترین المیہ نہیں ہے کہ دو سو کے قریب سیاہ فام امریکی اسی اکثریت کی آمریت میں پولیس کے تشدد کی وجہ سے جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں اور وہاں اس بات کا رونا بھی سیاہ فاموں کو خود ہی رونا پڑ رہا ہے۔ برطانیہ کی برٹش نیشنل پارٹی کے ہاتھوں اقلیتوں پر تشدد ہو یا بھارت کی بی جے پی کے ہاتھوں پورے ملک کے مسلمان اور عیسائی خوفزدہ ہوں ، یہ سب اس جمہوری نظام کے تحائف ہیں جو دنیا کو مل رہے ہیں۔پورے کا پورا نظام صرف ایک فقرے پر قائم ہے۔ ''Majority is authority '' یعنی '' اکثریت ہی حق ہے''۔ اقلیت میں جو بھی چیخے ، چلائے ، شور مچائے اسے کہا جائے کہ جاؤ اپنی اکثریت ثابت کرو اور پھر جو چاہے کر لینا۔ ابھی تو ہم اکثریت میں ہیں اورہماری ہی بات چلے گی۔ اس جمہوری تصورِ حکومت ہی کے خلاف سب سے توانا آواز علامہ اقبال کی تھی۔
تو نے کیا دیکھا نہیں مغرب کا جمہوری نظام
چہرہ روشن، اندروں چنگیز سے تاریک تر
اس پورے نظام کی خرابی یہ ہے کہ اس میں جمہوری طور پر اکثریت سے جیتنے والے رہنما کا دفاع کرنے والے دیوانے اور فرزانے اس کے ہر ظلم کا دفاع دیدہ دلیری سے کرتے ہیں اور اس کی ہر زیادتی کے حق میں دلیلیں لے کر آتے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو جب بلوچستان میں اپنی ذاتی انا کی تسکین کے لیے عطا اللہ مینگل کی مخالف حکومت ختم کرکے آرمی آپریشن شروع کرواتے ہیں، ہزاروں بلوچوں کا قتل عام کرتے ہیں، تو اس کا دفاع کرنے والے 1973 سے لے کر آج تک اسی جوش اور جذبے کے ساتھ ان کے ہر عمل کو جائز قرار دیتے ہیں۔ ان کے دور میں تیس کے قریب سیاسی رہنماؤں کا قتل ہو یا پاکستان میں پہلی دفعہ لاپتہ افرادکی رسم کا آغاز دلائی کیمپ کے ذریعے کیا جائے، پیپلز پارٹی کے جیالوں کے لیے یہ سب سراہنے کی باتیں ہیں۔
کسی بھی آمر یا ڈکٹیٹر کے ظلم کو صرف چند ہی دفاع کرنے والے میسر آتے ہیں اور وہ بھی اس کی زندگی تک یا اقتدار تک اس کا دم بھرتے ہیں۔ لیکن جمہوری ڈکٹیٹروں یا '' اکثریت کی آمریت'' کے ذریعے برسر اقتدار آنے والے رہنماؤں کا دفاع کرنے والے تو ہر دور میں میسر آتے ہیں اور وہ مسلسل اس طرح اس کا دفاع کرتے رہتے ہیں کہ انصاف کے تمام معیارات زمین بوس ہو جاتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں جو بھی فوجی آمر آیا اس نے اپنی ایک سیاسی جماعت بنائی تاکہ اس کا جمہوری طور پر دفاع کرنے والے بھی موجود رہیں۔ ایوب خان نے کنونشن مسلم لیگ بنائی، جس کا جنرل سیکریٹری ذوالفقار علی بھٹو تھا، ضیاالحق کی مسلم لیگ کو نواز شریف، اور جونیجو میسر آئے اور پرویز مشرف کی مسلم لیگ کو چوہدری شجاعت اور پرویز الٰہی۔ لیکن فوجی آمر اور سیاسی رہنماؤں کا یہ تعلق اقتدار کی چوکھٹ تک رہتا ہے جیسے ہی آمر گیا یہ اس کا نام تک نہیں لیتے۔ مگر جمہوری سیاسی نظام میں سیاسی پارٹیاں اپنے لیڈروں کی مدح سرائی میں اپنے رہنماؤں کے ظلم اور بربریت کی مسلسل اور مستقل وکالت کرتی رہتی ہیں یہاں تک کہ اس کی موت کے بعد بھی۔
یہ ہے وہ تمام پس منظر جس میں ماڈل ٹاؤن میں مرنے والے افراد ہوں یا فیصل آباد میں سنسناتی گولیوں کا نشانہ بننے والا حق نواز۔ آج اس ان مظالم کی دلیل دینے والے بھی موجود ہیں اور اپنے رہنماؤں کو پاک صاف اور معصوم ثابت کرنے والے بھی۔ یہ صرف اسی جمہوری نظام کا ہی خاصہ ہے کہ تعصبات کو اس سطح پر لے جایا جاتا ہے کہ کراچی میں سیاست دانوں کے مداحین کو بخوبی علم ہوتا ہے کہ ہمارے لیڈروں کے اشارے پر افراد قتل کرتے ہیں ، تشدد کرتے ہیں،اغوا برائے تاوان میں شریک ہوتے ہیں لیکن پھر بھی وہ انھی کا دفاع کرتے ہیں، انھی سے محبت کرتے ہیں، انھی پر جان نچھاور کرنے کو تیار ہوتے ہیں۔
یہی حال باقی تمام ملک اور صوبوں کا بھی ہے۔ کوئی سیاسی پارٹی کا کارکن کبھی بھی اپنے لیڈر کو اس لیے چھوڑ کر علیحدہ نہیں ہوا کہ اس کے لیڈرنے اپنے مخالفین کو قتل کروایا تھا۔ ان پر مقدمے بنائے اور ان کا جینا دوبھر کر دیا تھا۔ وہ کارکن سب جانتا ہوتا ہے لیکن اسے محلے ، گلی، شہر، اخبار یا ٹیلی ویژن پروگرام میں جہاں کہیں بھی موقع مل جائے اپنے لیڈر کا دفاع کرتا ہے، اس کی کرپشن، بددیانتی، مخالفین پر ظلم و تشدد سب کے باوجود بس یہی کہتا ہے میری جان بھی اپنے لیڈر پر نثار ہے۔