تحریک کا ایندھن

قائد اعظم کے پاکستان کا خواب حقیقت بنائیے، باہر نکلیے، جب آپ باہر نکلیں گی تو پاکستانی قوم باہر نکلے گی۔


Anis Baqar December 12, 2014
[email protected]

مجھے یاد ہے کہ مغربی پاکستان کے تمام لیڈروں نے زور لگایا لیکن محترمہ فاطمہ جناح دسمبر1964کو ایوب خان کے خلاف الیکشن لڑنے کو بالکل تیار نہ تھیں۔ مگر مشرقی پاکستان کی نیشنل عوامی پارٹی کے لیڈر مولانا عبدالحمید خان بھاشانی نے جب ان سے ملاقات کی اور کہا کہ آپ کو آپ کے مرحوم بھائی محمد علی جناح کی قسم پاکستان کو آمریت اور شہنشاہیت سے بچائیے، جمہوریت لائیے، قائد اعظم کے پاکستان کا خواب حقیقت بنائیے، باہر نکلیے، جب آپ باہر نکلیں گی تو پاکستانی قوم باہر نکلے گی۔

اگر آپ کو گولی ماری گئی تو میں آپ کی لاش کو صدارتی محل کے باہر رکھوں گا اور انقلاب لاؤں گا آپ الیکشن لڑئیے جلسہ کیجیے جلوس نکالیے، ہم آپ کے ساتھ ہیں، ظاہر ہے اچھا ہوا جو زندگی نے قائد سے وفا نہ کی ورنہ وہ بھی ایسے پاکستان میں مجبور کر دیے جاتے کہ ان کی مثالی ریاست شہنشاہیت کی بھینٹ چڑھ چکی ہے۔ حکمران طبقات اربوں کے محلات میں رہتے ہیں اور عام لوگوں کے لیے رہائش ندی اور نالوں کے در پر، یہ ان کا پاکستان ہے جہاں نونہال بھوک سے دم توڑ دیتے ہیں قائد کی روح ضرور شرمندہ ہوگی۔ بہت سے لوگوں نے ملک کے حالات بدلنے چاہے مگر وہ ناکام رہے۔

14 اگست کو لاہور سے دو قافلے چلے ایک انقلاب مارچ دوسرا آزادی مارچ۔ مارچ کو سخت مشکلات اٹھانی پڑیں سیکڑوں زخمی درجنوں شہید کیے گئے مگر طاہر القادری کا قافلہ عمران خان کے ساتھ ڈی چوک پہنچنے میں کامیاب ہوا۔ یہاں بھی علامہ طاہر القادری نے عمران خان کی پارٹی کی نہ صرف حفاظت کی بلکہ مضبوط کردیا اور خود محرم کی آمد سے قبل دھرنا ختم کر بیٹھے۔ علامہ طاہر القادری نے جمہوریت اور قانون کے لیے آگہی پھیلانے میں زبردست کام کیا مگر عمران خان کی یہ سبقت کہ وہ دھرنے میں ثابت قدم رہے اور 120 دن گزرنے کے بعد بھی ان کا عزم کمزور نہ ہوا۔ اور ملک کے شہروں میں تبدیلی کی حرارت پیدا کرنے کا جو عزم دکھایا اس کو (ن)لیگ کی حکومت ہینڈل نہ کرسکی اور پہلے ہی مرحلے میں فیصل آباد 10 دسمبر کو جس طرح معاملات کو چلانے کی کوشش کی وہ بالکل ایسی ہی تھی۔

جیساکہ ایوب خان نے گوہر ایوب کے ذریعے سے کراچی کو ہینڈل کرنے کی کوشش کی اور گوجر نالے کی چورنگی کے قریب جھگیوں میں آگ لگا دی گئی ظاہر ہے اس عمل کے ردعمل میں کراچی میں بدامنی کی ابتدا ہوگئی طلبا، مزدور اور عام لوگ ایوبی حکومت کے خلاف مزاحمت کے لیے تیار ہوگئے۔ بالکل کچھ ایسا ہی فیصل آباد میں ہوا۔ تحریک انصاف کے خلاف مزاحمت کروانے کا راستہ نہایت غیر مناسب تھا کیونکہ یہ خانہ جنگی کی طرف پہلا قدم ہے۔ ایسی صورت میں برسر اقتدار پارٹیاں حکومتی مشنری استعمال کرتی ہیں نہ کہ اپنی پارٹی کے کارکنوں کو، جس کا نتیجہ (ن) لیگ کی چوراہوں پر پسپائی اور ایک نوجوان کی شہادت کی شکل میں ہوا۔

یہ نون لیگ کی سیاسی پسپائی ہے اور عمران خان کی تحریک کو نوجوان خون کا نذرانہ ملا جس نے فیصل آباد کو شعلہ تند بنا دیا جہاں 7 دسمبر کی صبح بین بین تھی کہ ہڑتال ہوگی یا نہیں۔ (ن)لیگ کے کارکنوں نے پورے ماحول کو گرم کردیا۔ جس نے تحریک انصاف کے کارکنوں کو اور پرجوش کردیا تحریکیں خون اور آگ سے حرارت پاتی ہیں اب رات کو فیصل آباد میں شمعیں فروزاں ہیں یہ حق نواز کی شمعیں ہیں جو اس کی قربانی منور کر رہی ہیں۔ اگر نون لیگ کے کارکن درمیان میں نہ ہوتے تو حکومت کو ہزیمت نہ اٹھانی پڑتی اور فیصل آباد کا شو اس قدر پراثر نہ ہوتا ۔اگر آپ کو یاد ہو تو ایوب خان کے خلاف ابتدائی دور میں حکومت کی غلطیوں سے تحریک چلی۔

اس وقت بھی چینی کا بحران تھا اور آج شوگر مل کے مالکان نے کسانوں پر مظالم ڈھانے شروع کردیے ہیں، تحریک انصاف کے چند بڑے لیڈر شاہ محمود قریشی، جہانگیر ترین اور شیریں مزاری (ن)لیگ سے مذاکرات پر یقین رکھتے ہیں اور وہ کسی تحریک کے حق میں نہیں ہیں۔ مگر عمران خان اور کچھ ان کے دیگر شہروں کے نئے لیڈران کا تحریک کو منطقی انجام کی جانب لے جانے کا عزم ہے۔ جتنا عرصہ گزرے گا کارکنوں کا دائرہ وسیع ہوگا اور پھر تحریک انصاف مراعات یافتہ لیڈروں کی باندی بن کر نہیں رہے گی۔ دوسری جانب تحریک انصاف کے پلیٹ فارم سے شیخ رشید کا انداز بیاں بالکل ایسا ہی ہے جیساکہ مولانا بھاشانی کا 1970 کی دہائی میں تھا انھیں معلوم ہے کہ مذاکرات کی میز پر قومی اسمبلی تحلیل ہونے سے رہی اور وہ اہداف جن کا وعدہ عمران خان نے ملک کے عوام سے کر رکھا ہے پورا نہ ہوگا ۔

اب اگر تیل کے نرخ کو دیکھا جائے تو عالمی سطح پر تیل کی قیمتیں کم ترین سطح پر آچکی ہیں تو کیا مزید پیٹرول اور دیگر مصنوعات 30 فیصد کم ہوجائیں گی اور عوام کو مزید ریلیف ملے گا، اس کے امکانات بالکل نہیں ہیں۔ عمران خان کی ذہانت پر کوئی شک نہیں وہ اس وقت شدید دباؤ کا شکار ہیں ایک طرف (ن) لیگ کا سامنا دوسری جانب اپنی پارٹی میں دو اقسام کے لیڈران، ایک وہ جو فوری طور پر طویل دھرنوں کا خاتمہ چاہتے ہیں مگر عمران خان کو اس کا ادراک ہے کہ تحریک روک کے گفتگو نہیں کی جاسکتی کیونکہ اگر تحریک کی چابی ہاتھ سے نکل گئی تو پھر تحریک دھکا اسٹارٹ ہوجائے گی اور حکومت پر دباؤ ختم ہوجائے گا۔

اس لیے وہ گفتگو کے ساتھ دھرنے اور جلسوں جلوسوں کو جاری رکھنا چاہتے ہیں۔ لہٰذا (ن) لیگ جس حکمت عملی پر چل رہی ہے اس کو اپنی روش چھوڑنی ہوگی شہنشاہی سے دوری اور مزاج میں نرمی اور سادگی اختیار کرنا ہوگی، ایک غریب ملک کے امیر ترین حکمران کا تصور دور کرنا ہوگا جو نعرہ عمران خان لگا رہے ہیں اس کو سمجھنے کی ضرورت ہے، میرٹ کو حقیقی بنانا ہوگا چائنا جاکر من مانے کنٹریکٹ سائن کرنے اور غیر متعلقہ لوگوں کو شامل کرنے کی روش ترک کرنی ہوگی۔ اس وقت چین کی معیشت فرسٹ ورلڈ کے آرڈر کی بنیاد پر کھڑی ہے اور وہ ہر صورت میں آرڈر پکڑ رہی ہے خواہ اس میں کک بیک ہی پوشیدہ کیوں نہ ہو جن لوگوں کو چینی تجارتی عہدے داروں سے سابقہ پڑا ہے وہ سب چین کی موجودہ پالیسی سے واقف ہیں ان کو اتنا بڑا ملک چلانا ہے ہر کوالٹی کی چیزیں بنانی اور فراہم کرنی ہیں۔

اس لیے آرڈر لینا ان کی اولین ترجیح ہے۔ کیا عمران خان کے تمام الزامات بے سروپا ہیں، کیا حقیقت میں کوئی حزب مخالف موجود ہے؟ واقعی ملک میں باری لگی ہوئی ہے۔ عمران خان کی اس تگ و دو نے عوام میں ایک نئی سوچ پیدا کردی ہے ملک کی 60 فیصد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے، ان کو اعلیٰ تعلیم، فنی تعلیم درکار ہونے کے ساتھ ساتھ نوکریاں درکار ہیں۔ کرپشن کا بول بالا ہے یہ مسائل لیپ ٹاپ کی تقسیم، رکشوں کو قسطوں پر دینے سے مسئلہ کیسے حل ہوگا مسافر کہاں سے ملیں گے عوام کی جیب کمزور ہے رکشہ والے گھنٹوں کھڑے رہتے ہیں کوئی منصوبہ بندی نہیں ہے لہٰذا تحریک ہر روز تیز تر ہوتی جائے گی۔ عمران خان نے اب جو روش اختیار کی ہے اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ان کی پارٹی کی گفتگو والی اسکیم کامیاب نہ ہوگی اور ان لیڈروں کو مایوسی کا سامنا کرنا پڑے گا جو (ن)لیگ سے گفتگو کرنا چاہتے ہیں۔

ابھی تو دونوں طرف سے شرائط کے انبار ہیں اور عدم اعتماد کی فضا ہے فیصل آباد کے بعد لاہور و کراچی کا قصد کراچی کا مڈل کلاس اور لوئر مڈل کلاس کا جوان عمران خان کی آمد کا منتظر ہے کلفٹن، نارتھ ناظم آباد، پی ای سی ایچ ایس اور ملیر کے بعض علاقے بشمول ڈرگ کالونی میں عمران خان کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے، عمران خان کی گفتگو کا انداز نوجوانوں سے دوستانہ ہے اور وہ ان کے مستقل کی تصویریں دکھا رہے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں