کھیل سے سیاست کے میدان تک

کرکٹ کے میدان میں عمران خان نے اپنی صلاحیتوں کے جو جوہر دکھائے ہیں اس کا لوہا ماننے پر ان کے حاسد بھی مجبور ہیں۔

S_afarooqi@yahoo.com

کرکٹ کے میدان میں عمران خان کو جو عزت، شہرت اور مقبولیت حاصل ہوئی ہے وہ شاید ہی کسی اور کو نصیب ہو۔ وہ صرف شائقین ہی کے نہیں بلکہ کرکٹ کے ہیروز کے بھی ہیرو رہے ہیں۔ ان کی عظمت کا اعتراف کرنیوالوں میں ان کے حلیف ہی نہیں بلکہ ان کے حریف بھی شامل ہیں۔ اس کا ذاتی مشاہدہ ہمیں آج سے برسوں پہلے اس وقت ہوا تھا جب بھارتی ٹیم مایہ ناز کھلاڑی سنیل گواسکر کی قیادت میں پاکستان کے دورے پر آئی ہوئی تھی۔ مہاراجہ گائیکواڑ بھارتی ٹیم کے منیجر تھے۔

کراچی ٹیسٹ کے آغاز سے قبل ہمیں گواسکر کا ایک تفصیلی اور Exclusive انٹرویو ریڈیو پاکستان کے لیے ریکارڈ کرنا تھا۔ اس انٹرویو کے دوران نہ صرف گواسکر کے کرکٹ کیریئر بلکہ ان کی ذاتی زندگی سے متعلق بھی بڑی دلچسپ اور معلومات افزا گفتگو ہوئی۔ اس کے علاوہ ان سے کئی آڑے ٹیڑھے سوالات بھی کیے گئے جن کے گواسکر نے بڑی خندہ پیشانی کے ساتھ جوابات دیے۔ ان ہی سوالوں میں ایک ایسا سوال بھی شامل تھا جس کی شاید گواسکر کو توقع بھی نہ ہو۔ ہمارا ذاتی خیال یہ تھا کہ وہ اس سوال کے جواب میں آئیں بائیں شائیں کریں گے یا پھر اس کا کوئی گول مول جواب دے کر اپنی جان چھڑائیں گے۔

مگر انھوں نے اس سوال کا برجستہ اور فوری جواب دے کر ہمیں حیران کر دیا۔ سوال یہ تھا کہ ''آپ خود بے شمار لوگوں کے ہیرو ہیں مگر کیا آپ کا بھی کوئی ہیرو ہے؟'' لمحہ بھر کا توقف کیے بغیر گواسکر کا جواب تھا ''عمران خان کے علاوہ بھلا اور کون ہو سکتا ہے۔'' کرکٹ کے میدان میں عمران خان نے اپنی صلاحیتوں کے جو جوہر دکھائے ہیں اس کا لوہا ماننے پر ان کے حاسد بھی مجبور ہیں۔

کرکٹ کے میدان کو خیرباد کہنے کے بعد انھوں نے خدمت خلق کا بِیڑہ اٹھایا جو ان کا Profession نہیں Passion تھا۔ اس کارخیر کا آغاز انھوں نے شوکت خانم اسپتال کی تعمیر سے کیا جو دیکھتے ہی دیکھتے خواب سے حقیقت بن گیا اور اب کینسر کے بے شمار مریض اس صدقہ جاریہ سے فیض یاب ہو رہے ہیں۔ اس کے علاوہ عمران خان کا ایک اور Passion بھی ہے اور وہ ہے ایجوکیشن۔ اس شعبے میں بھی وہ کارہائے نمایاں انجام دینے میں مصروف ہیں اور قدم بہ قدم کامیابی کی منزلیں طے کر رہے ہیں۔ بلاشبہ صحت کے بعد تعلیم ہی وہ سب سے اہم شعبہ ہے جس کی وطن عزیز کو سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ یوں تو پاکستانی کرکٹ بھی عرصہ دراز سے زوال پذیر ہے اور تعمیر نوکے لیے مخلص اور ماہر قیادت کی متلاشی ہے ۔

جس کے لیے عمران خان سے بڑھ کر کوئی اور شخص زیادہ موزوں نہیں ہو سکتا تھا، مگر عمران خان نے اس کے بجائے سیاست کے میدان کا انتخاب کیا جو اگرچہ ان کے بے شمار مداحوں کی توقع کے خلاف تھا مگر ان کی ذاتی پسند کے عین مطابق تھا۔سیاست کے میدان میں عمران خان کا اترنا کوئی حادثہ نہیں بلکہ ایک سوچا سمجھا فیصلہ ہے۔ کیونکہ خان صاحب اندھیرے میں چھلانگ لگا دینے والے شخص نہیں ہیں اور Look before you leap کے قائل ہیں۔ مشکل سے مشکل اور بڑے سے بڑا چیلنج قبول کرنا ان کے مزاج اور فطرت کی نمایاں خصوصیت ہے۔ چنانچہ پاکستان کی سیاست کے میدان سیاست میں اترنا ان کے لیے کھیل کے میدان سے کہیں زیادہ بڑا چیلنج تھا۔ کھیل کے میدان اور سیاست کے میدان میں سب سے بڑا اور واضح فرق یہ ہے کہ اول الذکر کے کچھ قاعدے، قوانین اور ضوابط ہوتے ہیں۔


جن کی پابندی لازمی ہے جب کہ وطن عزیز کی سیاست اس طرح کی قیود اور حدود سے آزاد ہو چکی ہے اور میدان سیاست کے کھلاڑیوں کے نزدیک End justifies the means ہی کامیابی کی کلید ہے۔کرکٹ کی طرح سیاست کے میدان میں بھی عمران خان نے اپنی اننگز کا آغاز اپنے منفرد انداز میں کیا لیکن شروع شروع میں انھیں وہ کامیابی حاصل نہ ہو سکی جس کی ان سے توقع کی جاتی تھی یا جس کی انھیں اپنے آپ سے توقع تھی۔ اس لیے بعض لوگوں کا خیال یہ تھا کہ شاید وہ بہت زیادہ دیر تک کریز پر نہیں ٹھہر پائیں گے اور پویلین کو واپس لوٹ جائیں گے۔

مگر نامساعد حالات سے کبھی ہار نہ ماننے والے عمران خان نے سیاست کے میدان میں بھی حوصلہ نہیں ہارا اور اپنے قدم جمائے رکھے ۔چنانچہ گزشتہ عام انتخابات میں ان کی پارٹی کی کارکردگی ماضی کے مقابلے میں بہتر رہی اور وہ ملک کے ایک صوبے خیبر پختونخوا میں حکومت بنانے میں بھی کامیاب ہو گئے۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ وہ قدرت کے عطا کردہ اس سنہری موقع سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی تمام تر توانائیاں اس صوبے کو ایک ماڈل بنا دینے پر صرف کر دیتے جس کے نتیجے میں آیندہ عام انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کی راہ خود بخود ہموار ہو جاتی۔ مگر انھوں نے یہ راستہ اختیار کرنے کے بجائے چومکھی لڑنے کا فیصلہ کیا، میاں محمد نواز شریف کو مسند اقتدار سے ہٹانے کے لیے انھوں نے ایڑی چوٹی کا زور لگا رکھا ہے۔ خان صاحب کے ''تبدیلی'' کے نعرے کو بھی ابتدا میں زبردست مقبولیت حاصل ہوئی۔ البتہ دھرنوں اور احتجاجی جلسوں کا ایک منفی پہلو بھی ہے اور وہ یہ ہے کہ اس سے معمولات زندگی متاثر ہوتے ہیں اور شہریوں کے لیے خواہ مخواہ کی مشکلات پیدا ہوتی ہیں۔

اس کے علاوہ اس سے پیداواری عمل بھی متاثر ہوتا ہے جس کے باعث ملکی معیشت پر جو پہلے ہی زوال پذیر ہے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ خان صاحب کی سیاسی حکمت عملی کے بعض اور بھی پہلو ہیں جن سے بصد احترام اختلاف کیا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر دہشتگردی سے متعلق ان کی پالیسی میں سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ ان کے ایک حالیہ بیان میں کہا گیا ہے کہ اگر وہ ملک کے وزیر اعظم ہوتے تو انھوں نے فاٹا میں فوجی کارروائی کی اجازت نہ دی ہوتی۔

خان صاحب کی جانب سے یہ بات ایسے موقع پر کہی گئی ہے جب شمالی وزیرستان میں دہشتگردوں کے خلاف ضرب عضب کو مسلسل کامیابیاں حاصل ہو رہی ہیں جس کا اعتراف صرف اندرون ملک ہی نہیں بلکہ بیرونی دنیا میں بھی کھلے عام کیا جا رہا ہے۔خان صاحب کی یہ دلیل بھی ناقابل قبول ہے کہ چونکہ انھیں ان کی شرائط پر انصاف نہیں مل رہا ہے لہٰذا وہ اب بڑے بڑے شہر اور پورا ملک ہی بند کرا دینے میں حق بہ جانب ہیں۔ گستاخی معاف خان صاحب کی یہ حکمت عملی نہ صرف قانون کی حکمرانی سے متصادم ہے بلکہ اس سے خواہ مخواہ نقص امن اور بے امنی کے شعلوں کو بھڑکانیوالی ہوا بھی ملتی ہے۔

اس کی تازہ ترین مثال فیصل آباد کو بند کرانے کے واقعہ سے ملتی ہے۔ وطن عزیز کو اس وقت جن خوفناک اندرونی اور بیرونی چیلنجز کا سامنا ہے ان کا تقاضا تو یہ ہے کہ مذاکرات کی میز پر بیٹھا جائے اور جذباتیت سے قطعاً گریز کرتے ہوئے افہام و تفہیم کے ذریعے تمام مسائل کا حل ملکی مفاد کو بالاتر رکھتے ہوئے اتفاق رائے کے ذریعے تلاش کیا جائے۔عمران خان نے اپنی احتجاجی تحریک کے حوالے سے جو نئی منصوبہ بندی تیار کی ہے اس میں پلان A اور B کے بعد اب پلان C بھی شامل ہے جس کا سب سے خطرناک پہلو یہ ہے کہ لاہور، فیصل آباد اور کراچی میں کاروبار حیات بند کرانے کے بعد ملک گیر شٹ ڈاؤن کا پروگرام بھی شامل ہے۔ ملک گیر شٹ ڈاؤن کے لیے جس تاریخ کا تعین کیا گیا ہے وہ ہے 16 دسمبر۔
Load Next Story