دھرنا بھی چلتا رہے اور حکومت بھی

کرپشن کی بہت سی قسمیں ہیں، جن میں سے ایک جمہوریت کی جان ’دھاندلی‘ بھی ہے۔

کرپشن اور جمہوریت اس وقت ملک میں سب زیادہ زیر بحث آنے والا موضوع بنا ہوا ہے، کرپشن کی بہت سی قسمیں ہیں، جن میں سے ایک جمہوریت کی جان 'دھاندلی' بھی ہے۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اور ان کے ہمنوا پچھلے ڈیڑھ سال سے2013ء کے عام انتخابات میں ہونے والی دھاندلی کی شفاف تحقیقات کا مطالبہ کرتے آ رہے ہیں۔ اسی مطالبے کے حق میں انھوں نے پچھلے ساڑھے تین ماہ سے اسلام آباد میں دھرنا بھی دے رکھا ہے۔

دھرنا تو دو ماہ میں ہی جواب دے گیا تھا، مگر کپتان نے سر تسلیم خم کرنے کے بجائے اسے 'پلان اے' کا نام دے کر اپنی اس احتجاجی تحریک کو آگے بڑھانے کے لیے 'پلان بی' کے تحت ملک بھر میں جلسے کرنے کا اعلان کیا تھا، جلسے تو خوب رہے مگر جب حاصل وصول کچھ نظر نہ آیا تو 'پلان سی' کے نام سے ملک بند کرنے کا اعلان کیا، جس کی متوقع ناکامی کے پیش نظر کارکنان اور مداحوں کو 'پلان ڈی' کے لیے تیار رہنے کا عندیہ بھی دیا ہے۔

تحریک انصاف کے دھرنوں اور جلسوں کو ملکی معیشت کے لیے خطرناک اور ناقابل تلافی نقصان قرار دیا جاتا رہا ہے، جب کہ عمران خان کو بھی اپنی یہ کوششیں سراسر لایعنی نظر آنے لگی ہیں، مگر وہ نظریات سے زیادہ ضد اور انا کے حصار میں ہیں اور ساتھ ساتھ امید کو بھی زندہ رکھے ہوئے ہیں، اس صورتحال کو ساحر لدھیانوی ایسے بیان کرتے ہیں: ''مجھے معلوم ہے انجام روداد محبت کا مگر، کچھ اور تھوڑی دیر سعی رائیگاں کر لوں''۔

جہاں حکومت، معیشت اور عمران خان کو مسلسل نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے، وہیں ایک اچھی بات یہ بھی ہے کہ حکمرانوں کی توجہ عوام کا خون چوسنے سے ہٹ گئی ہے اور وہ اپنا اقتدار بچانے کے لیے عوام کی حمایت حاصل کرنے کی ضرورت کو محسوس کرنے لگے ہیں، ٹیکسوں پر ٹیکس اور بلوں کے ذریعے بجلی کے جھٹکے، گیس قیمتوں میں اضافے کی آگ، ایکسپورٹ بڑھانے کے نام پر ''اپنی تاجر برادری'' کو ضرورت سے زیادہ رعایتیں، جمہوریت کے نام پر رشتے داریوں میں بندر بانٹ، غیر ملکی سرکاری دوروں میں بڑے بڑے وفود وغیرہ وغیرہ، ان سب مظالم میں اگر کچھ کمی نظر آنے لگے تو میرے سمیت کسی بھی شخص کو عمران خان کی احتجاجی تحریک کی مخالفت نہیں کرنی چاہیے۔

طرز عمل یا طریقہ کار پر حکومت یا عمران خان سے اختلافات اپنی جگہ مگر موقف کے لحاظ سے نہ تو عمران خان غلط ہیں اور نہ ہی حکومت یا اپوزیشن جماعتیں۔ حکومت اس لیے کہ انتخابی دھاندلی سے اس کا کیا تعلق؟، انتخابات تو نگرانوں نے کرائے تھے، اور اس دھاندلی کو کرپشن کہنا حکومت کی نظر میں اس لیے بھی ٹھیک نہیں ہے کہ کوئی بھی غلط العام چیز جب رواج پا جاتی ہے تو اسے درست تصور کر لیا جاتا ہے، اور جمہوریت کے معاملے میں تو قیام پاکستان کے بعد تیس سال تک ہمارے حکمران ویسے ہی 'خود کفیل' رہے، اور اس ''اسلامی جمہوریہ'' میں عام انتخابات کیا ہوتے ہیں کم ہی لوگوں کو پتہ تھا، جو ''انتخابات'' کرائے گئے ان میں کون سا دھاندلا باقی چھوڑا گیا تھا؟، بلکہ الیکشن ہارنے کے انتقام میں تو ایک ڈکٹیٹر نے آدھے ملک کو ''عضو معطل'' قرار دے کر کاٹ پھینکنے کا حکم دے دیا تھا۔


پھر تیس سال بعد جب اس ملک میں جمہوریت آئی تو اس کے علمبردار بھی خود آمریت ہی کی پیداوار تھے، آمریت کی گود میں پرورش پائی اور آمریت ہی کے سہارے اقتدار حاصل کیا۔ اْس 'جمہوریت' سے اِس 'جمہوریت' تک جتنی بھی ''جمہوریتیں'' آئیں وہ سب کی سب کس حد تک ''اسلامی جمہوریتیں'' تھیں اور کس حد تک ''آمرانہ جمہوریتیں'' ، فیصلہ زیادہ مشکل نہیں۔ بنیادی طور پر تو حکومت اور دیگر سیاسی جماعتوں کی یہ ذمے داری بنتی ہے کہ وہ عوام کو ووٹ کی اہمیت سے متعلق مکمل آگہی دیں۔ حکومت تعلیمی نصاب میں بتدریج 'عام انتخابات کے ذریعے حکومت کی تشکیل' میں 'ووٹر کے کردار' سے لے کر 'انتخابی امیدوار کے چناؤ' تک تمام مراحل شامل کرے، مگر افسوس کہ ہماری حکومتیں اور سیاستدان خود ہی کرپشن کی پیداوار ہیں، وہ کیوں چاہیں گے کہ عوام میں یہ شعور اجاگر ہو، صحیح لوگ حکومت میں آئیں۔

ملک سے برائیوں اور ناانصافیوں کا خاتمہ کردیں بلکہ ان چوروں کا صفایا کر دیں؟۔ صرف یہ ہی نہیں، کرپشن اور دھاندلی کا راگ الاپنے والے عمران خان کے ارد گرد بھی کئی لوگ ایسے مل سکتے ہیں جنہوں نے ناجائز ذرایع سے سرکاری املاک اپنے نام کیں، جو کروڑوں کی جائیدادوں کو چند لاکھ کا ظاہر کرتے رہے ہیں، جن کی دولت کے حصول کے ذرایع بھی قابل گرفت ہیں۔ درحقیقت ہمارے ملک میں جمہوریت بھی کرپشن کے کھیل کا ایک نام ہے، اور اسی کے ذریعے ہی حکومتیں بنتی اور ٹوٹتی ہیں، ورنہ ایسی کیا بات ہے کہ ہمارے منتخب نمایندے کسی بھی فلور پر عوام کی امنگوں کی حقیقی ترجمانی کی جرات نہیں کر سکتے۔؟

جمہوریت تو ایک ایسا طرز حکومت ہے جس میں عوام کی رائے کو اہمیت حاصل ہوتی ہے، عوام کے منتخب کردہ لوگ براہ راست حکومت کرتے ہیں یا عوام اپنے نمایندے منتخب کر کے اسمبلیوں میں بھیجتے ہیں، جہاں سے حکمرانوں کا چناؤ کیا جاتا ہے۔ کوئی پوچھے ان جمہوریتوں کے چیمپئنوں سے کہ عوام کے منتخب نمایندوں کے ہوتے ہوئے ''سینیٹ'' کا تصور کہاں سے آیا ہے؟، سینیٹ کے نمایندے عوام سے کیوں نہیں منتخب کرائے جاتے؟، کیا یہ عوامی نمایندگی کے برخلاف اسٹیبلشمنٹ اور بیرونی طاقتوں کا وزن بڑھانے کے لیے عوام کے مسترد کیے ہوئے نام نہاد سیاستدانوں اور بیوروکریٹس کو حکومت اور قانون سازی میں شامل کرنے کا ایک غلط طریقہ نہیں ہے؟

کیا یہ بیوروکریسی اور انتخابات میں ہارے ہوئے لوگوں کی سوچ ملک اور قوم پر مسلط کرنے ایک چور دروازہ نہیں ہے؟، کیا یہی جمہوریت ہوتی ہے؟ اور پھر خصوصی نشستیں؟ کیا خصوصی نشستیں بھی جمہوری ہیں؟، کیا خصوصی نشستیں ان اکثریتی خواتین کے ووٹ کے خلاف ایک منظم سازش نہیں جو خود عورت کو ووٹ نہیں دینا چاہتیں؟، وہ خواتین جن کی اکثریت عورتوں کی حکمرانی کی طرفدار نہیں؟، کیا یہ ان اکثریتی خواتین کے ووٹوں کی توہین نہیں ہے جو اپنے تمام امور کا سربراہ مردوں کو دیکھنا چاہتی ہیں؟، کیا یہ خصوصی نشستوں والی جمہوریت بھی چند لوگوں کی پسند و نا پسند کو مسلط کرنے کا نام نہیں؟، کیا یہ کرپشن نہیں؟، یہ کسی کو کیوں نظر نہیں آتی؟، اس کے خلاف کوئی آواز کیوں نہیں اٹھاتا؟۔

جمہوریت جمہوریت کرنے والوں سے کوئی پوچھ سکتا ہے کہ اگر پاکستان کے اسی فیصد عوام شرعی قوانین کے نفاذ کے حق میں ووٹ دے دیں تو کیا امریکا اور برطانیہ اس عمل کو جمہوری ماننے پر تیار ہو جائیں گے؟، کیا وہ ان قوانین کو ملک میں نافذ ہونے دیں گے؟، پاکستان کے اسی فیصد لوگ اگر مرد کو داڑھی رکھنے کا پابند اور عورت کو باپردہ رکھنے کے لیے قانون سازی کے حق میں ووٹ دے دیں تو کیا عالمی طاقتیں اس قانون کو تسلیم کرنے پر تیار ہوں گی؟، یقینا نہیں، تو کیا پھر جمہوریت وہی ہے جو امریکا یا برطانیہ چاہیں، خواہ وہ کوئی فوجی آمر کی حکومت ہی رائج کرے؟۔

سچ بات بھی یہی ہے کہ پاکستان میں جمہوریت کا درحقیقت عوام کی رائے سے کوئی تعلق نہیں ہے، بلکہ امریکا اور برطانیہ یا ان کے چند چیلوں کی پسند و ناپسند پر عمل درآمد کرانے کا نام ہی جمہوریت ہے۔ سیاستدان تو فقط اس لیے جمہوریت کا رونا روتے ہیں کہ اس نظام کے تحت سامراجی قوتیں اپنی من مانیاں کر سکتی ہیں، وہ اپنی مرضی عوام پر مسلط کر سکتی ہیں، ورنہ پاکستان میں نہ کبھی جمہوریت تھی، نہ ہے اور نہ مستقبل میں اس کے آنے کا کوئی امکان ہے۔ رہے عمران خان، ان کے خیال میں کرپشن صرف ووٹوں اور نوٹوں ہی کی ہوتی ہے، اقتدار پر قبضہ؟ آمریت کے سائے میں جمہوری حکومتیں بنانا۔
Load Next Story