رویہ بدلنا ہو گا
مردوں کو قدرتی طور پر عورتوں کا محافظ اور معاون بنایا گیا ہے، یہ بات صد فیصد درست ہے۔
لاہور:
پاکستان جس معاشی بدحالی کا شکار ہے وہاں ایک عام خاندان کے لیے اپنا پیٹ پالنا بہت مشکل ہو گیا ہے۔ اب ایک کمائے اور دس کھائیں، ایسا ممکن ہی نہیں۔ ہمارے ملک کے حالات جس ڈگر پر ہیں ان میں گھر کی خواتین کو بھی فکر روزگار میں شامل ہونا ہی پڑتا ہے اور یہ مجبوری ہے۔
ایسے میں یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ ہمارے معاشرتی رویے ہماری معاشی ضرورتوں کے برعکس ہیں۔ ہمارے یہاں لڑکوں کو یوں پروان چڑھایا جاتا ہے کہ وہ بوجھ اور ذمے داریاں اٹھانے والے بنیں، مضبوط ہوں، خاندان کی کفالت کریں، بیوی بچوں کی ضروریات پوری کرنے کے قابل ہو جائیں، کمزوری کا مظاہرہ نہ کریں۔ اس کے برخلاف لڑکیوں کو یہ باور کرایا جاتا ہے کہ وہ نازک ہیں اور انھیں کوئی بھی ذمے داری دینے سے گریز کیا جاتا ہے۔
چنانچہ لڑکوں کے ذہنوں میں یہ تصور بیٹھ جاتا ہے کہ فیملی کی ضروریات پوری کرنا، گھر کی سربراہی، معاشی خودکفالت انھی تک محدود ہے۔ لہٰذا بڑے ہونے کے بعد وہ اپنی بہن، بیٹی، بیوی سے نوکری کروانا برا تصّور کرتے ہیں۔ اکثر تو یہ بات دیکھنے میں آئی ہے کہ اگر گھر کی خواتین کو ملازمت پر جانے دے دیا جائے تو ایسا رویہ برتا جاتا ہے گویا اُن پر احسان کیا جا رہا ہو۔ حالانکہ عورت ہو یا مرد بحیثیت انسان دونوں ہی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، اگر ایک مرد اپنے خاندان کو بہتر زندگی دینے کے لیے محنت کرتا ہے تو ٹھیک اسی طرح ایک عورت بھی اپنے گھر والوں کو بہتر معیار زندگی دینا چاہتی ہے۔
مردوں کو قدرتی طور پر عورتوں کا محافظ اور معاون بنایا گیا ہے، یہ بات صد فیصد درست ہے۔ لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ قدرت نے عورت کو کم صلاحیتوں سے نوازا ہے۔ دراصل عورت کو اپنی اولاد اور گھر کے لیے قربانی کے ثمر کے طور پر یہ تحفہ دیا گیا ہے کہ مرد اس کا محافظ اور معاون بن کر رہے۔
مولانا سید جلال الدین عمری اپنی کتاب عورت اور اسلام میں لکھتے ہیں ''اسلام کے اس موقف پر کہ عورت کا دائرہ کار گھر اور خاندان ہے عام طور پر دو اعتراضات کیے جاتے ہیں ایک یہ کہ عورت پر گھر کی ذمے داری ڈالنے سے وہ معاشی جدوجہد نہیں کر سکتی اور اس پہلو سے معاشرے میں اس کی حیثیت مستقل کمزور ہے۔''
اس سلسلے میں پہلے تو یہ بات واضح ہونی چاہیے کہ اسلام نے عورت کو معاشی جدوجہد سے باز نہیں رکھا۔ البتہ اس کے لیے بعض حدود متعین کی ہیں ۔ ان حدود کے اندر وہ کوئی بھی ذریعہ معاش اختیار کر سکتی ہے۔ اس میں شک نہیں کہ خانگی مصروفیات کی وجہ سے عورت کی معاشی جدوجہد پر اثر پڑ سکتا ہے اور وہ مرد کی طر ح اپنا وقت اور توانائی اس کے لیے صَرف نہیں کر سکتی۔ اس کا حل اسلام نے یہ نکالا ہے کہ مرد کو قانوناً اس امر کا پابند بنایا کہ وہ عورت کو معاشی ضمانت فراہم کرے اور اس کی کفالت کا بوجھ اٹھائے۔ دوسرا اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ عورت پر گھر کی ذمے داری ڈالنے سے وہ اس کی چہار دیواری میں محصور ہو کر رہ جاتی ہے۔
زندگی کے اور گوشوں میں نہ تو اس کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے اور نہ وہ خود فائدہ پہچانے کے لیے تیار ہوتی ہے۔ یہ اعتراض بھی صحیح نہیں ہے۔ اسلام کی منشاء ہرگز یہ نہیں ہے کہ امور خانہ داری کے سوا سارے کام عورت کے لیے ممنوع ہیں۔ اس کا مقصد صرف یہ ہے کہ وہ اصلاً گھر کی مالکہ اور منتظمہ ہے۔ اسے باہر کی دنیا کو آباد کرنے کی فکر میں اپنا گھر اجاڑ نہیں دینا چاہیے۔
اس کے اوقات کار اور توانائیوں پر باہر کی دلچسپیوں اور مشغولیتوں کا اس طرح قبضہ نہ ہو جائے کہ گھر اس کے کے لیے محض ایک قیام گاہ اور سستانے اور تھوڑی دیر آرام کرنے کی جگہ بن کر رہ جائے۔ ہاں خانگی ذمے داریوں کو پورا کرنے کے بعد وہ معاشی جدوجہد بھی کر سکتی ہے اور اپنے حالات، ذوق اور رحجان کے لحاظ سے زندگی کے دوسرے میدانوں میں دل چسپی بھی لے سکتی ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ مسلمان خواتین نے اپنے فطری دائرے میں رہتے ہوئے اجتماعی زندگی کے مختلف شعبوں میں دل چسپی لی اور نمایاں کارنامے انجام دیے۔''
یہ اقتباس اسلام میں عورت کے مقام اور اس کی ذمے داریوں کا صحیح تصور ہمارے سامنے لاتا ہے۔
ہم اگر ترقی یافتہ قوموں پر نظر دوڑائیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ عورت ملک کی معاشی ترقی میں مردوں کے شانہ بشانہ اپنا کردار ادا کرتی ہے۔ وہ تعلیم، تحقیق، سیاسی معاملات میں ہر سطح پر ایک ذمے دار شہری کی حیثیت سے حصہ لیتی ہے جب کہ ہمارے معاشرے میں خواتین کے حوالے سے صورت حال حوصلہ افزاء نہیں ہے۔ ان کی اکثریت کو اپنی صلاحیتیں بھرپور طریقے سے بروئے کار لانے کے مواقعے باہم نہیں ملتے۔
اس صورت حال میں تبدیلی کے لیے سب سے پہلے معاشرے کی سوچ بدلنا ہوگی۔ معاشرہ کی روایتی سوچ تبدیلی کے لیے ابھی اور وقت مانگ رہی ہے۔ سوال دراصل نچلے اور متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والی خواتین کا ہے۔ منہگائی جس تواتر سے بڑھ رہی ہے اس میں خاندان کے ا ایک فرد کی کمائی سے گزارا ممکن نہیں۔ خواہشات تو درکنار ایک متوسط گھرانا اپنی ضروریات بھی پوری نہیں کر پاتا۔ بات یہیں ختم نہیں ہوتی اس مستقل صورت حال سے لوگ جن معاشی مسائل کا شکار ہو رہے ہیں۔
ان کے سبب نفسیاتی عوارض اور ان کے شکار افراد کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔ ہر شخص جھنجھلاہٹ اور جلدی میں نظر آتا ہے۔ بات بے بات غصّہ ہونا، چھوٹی سی بات پر لڑائی جھگڑا لوگوں کے مزاج کا حصّہ بن گیا ہے۔ اس کی سب سے اہم وجہ وہ معاشی بدحالی ہے جو ہر گھر پر آہستہ آہستہ اپنا قبضہ جما رہی ہے اور اس حقیقت سے انکار خود فریبی ہے۔
ان حالات میں روایتی سوچ ترک کرکے عورت کی معاشی جدوجہد کا، اس کا حق تسلیم کرنا ہوگا اور اس جدوجہد میں مصروف خواتین کو گھر میں اور گھر سے باہر باعزت مقام دینا ہوگا۔ حالات سازگار ہوں تو شادی شدہ خواتین ہوں یا غیر شادی شدہ اپنے ہنر، تعلیم اور صلاحیتوں سے بھر پور فائدہ اُٹھا سکتی ہیں۔ ایک پڑھی لکھی برسرِروزگار عورت نہ صرف اپنے خاندان کے لیے بلکہ مجموعی طور پر پورے معاشرے اور قوم کے لیے کرامت ثابت ہوتی ہے۔
ہمارے یہاں خواتین پڑھی لکھی باہنر، باصلاحیت ہی کیوں نہ ہوں اُن کی ملازمت کو کشادہ سوچ کے ساتھ قبول نہیں کیا جاتا۔ ایک سروے کے مطابق نوّے فی صد افراد خواتین کی ملازمت کے حق میں نہیں جب کہ متوسط طبقے کی ملازمت کرنے والی خواتین سے جب اس سلسلے میں بات کی گئی تو تقریباً سب کا جواب یہ تھا کہ ''ہم اپنے گھر والوں کو بہتر معیارِ زندگی دینا چاہتی ہیں۔ اپنے خاندان کو مالی طور پر مستحکم دیکھنا چاہتی ہیں لیکن قدم قدم پر ہمارے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہے۔ کبھی معاشرہ اور کبھی اپنے گھر والے ہمیں ایسی نظروں سے دیکھتے ہیں کہ جیسے ہم کسی گناہ کے مرتکب ہو رہی ہوں، جب کہ ہم گھر اور ملازمت کی ذمے داری دونوں کو ساتھ لے کر چلتی ہیں۔''
گھریلو معاملات سنبھالنا خواتین کی اولین ترجیح ضرور ہے۔ گھر کی اہمیت سب سے پہلے ہے، لیکن اگر معاشی طور پر خاندان کی ضرورت ہو تو نوکری ضرور کرنی چاہیے۔ اس طرح نہ صرف گھر کی ضروریات پوری ہوتی ہیں بل کہ انھیں اپنی تعلیم اور صلاحیتوں سے فائدہ اُٹھانے اور ان میں مزید نکھار پیدا کرنے کا موقع بھی ملتا ہے۔