پاکستان کا ابتدائی دور
وزارت خارجہ کا پہلا کام تھا نوزائیدہ ملک پاکستان کو دنیا میں متعارف کرانا، جب کہ ہندوستان کو تو ہر کوئی جانتا تھا۔
لاہور:
تقسیم ہند کے بعد دونوں ملکوں کو کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، جب کہ پاکستان کو زیادہ ہی مسائل در پیش آئے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ متحدہ ہندوستان کا دارالحکومت دہلی تھا، جہاں ایک نئے ملک کے لیے سب تو نہیں لیکن کافی سہولیات موجود تھیں۔ گو کہ ہندوستان ایک آزاد ملک نہیں تھا، لیکن برطانیہ کی سب سے بڑی نوآبادی ہونے کے باعث وہاں کام چلانے کے لیے مناسب انتظامات ضرور تھے، جب کہ پاکستان میں ایسا کچھ بھی نہیں تھا، کیونکہ قیام پاکستان کا اعلان 3، جون 1947ء کو ہوا اور صرف 2 مہینے، 11 دن کے بعد، یعنی 14، اگست کو ملک معرض وجود میں آ گیا۔
گو کہ دونوں ملکوں کے لیے آبادی کا تبادلہ سب سے بڑا مسئلہ تھا، لیکن پاکستان ابھی اس مسئلے سے نبرد آزما ہونے کی کوشش کر رہا تھا کہ کشمیر کی جنگ شروع ہو گئی۔ اس کے علاوہ پاکستان کے دو حصے یعنی مغربی اور مشرقی، ایک دوسرے سے 1600 کلو میٹر کے فاصلے پر ہونے کی وجہ سے بھی انتظامی معاملات میں مسائل پیدا ہو رہے تھے۔
ملک کے دونوں حصوں کو صرف صوبائی سطح پر حکومت چلانے کا تجربہ تھا، جب کہ مرکزی حکومت چلانے کے تقاضے کچھ اور ہی ہوتے ہیں، خصوصاً دوسرے ممالک سے تعلقات، یعنی وزارت خارجہ کا قیام۔ مسلم لیگ کے پاس ایسے کوئی تجربہ کار لیڈر یا سیاستدان بھی نہیں تھے، جن کو اس ضمن میں کوئی زیادہ جان بْوجھ ہو اور نہ ہی سرکاری ملازمین میں ایسے لوگ تھے، جو یہ ذمے داری اٹھا سکتے تھے۔ جیسا کہ اوپر عرض کر چکا ہوں، ہندوستان گو کہ ایک آزاد ملک نہیں تھا، لیکن دہلی میں وزارت خارجہ سے متعلق کچھ ذیلی شعبے ضرور تھے۔ وہ تھے 1۔ پولیٹیکل اور اسٹیٹ۔ 2۔ خارجی معاملات۔ 3۔ دولت مشترکہ کے ممالک سے تعلقات کے شعبے۔ لیکن ان میں بھی کوئی مسلمان افسر کلیدی عہدوں پر نہیں تھے کہ وہ پاکستان آ کر وزارت خارجہ کا چارج سنبھال سکتے۔ جن 150 لوگوں نے پاکستان آنے کا آپشن دیا تھا، لیکن ان میں صرف 4 مسلمان 5 برطانوی افسر تھے اور بقیہ کلرک یا چپراسی تھے۔
ویسے تو وزارت خارجہ، وزیر اعظم خان لیاقت علی خان کے پاس تھی، لیکن وہ زیادہ تر حکومت ہندوستان سے تقسیم کے معاملات طے کرنے کی مصروفیت کی وجہ سے وزارت خارجہ کو وقت نہیں دے پا رہے تھے۔ کچھ وقت کے بعد سول سروس سے 2 مسلمان افسر وزارت خارجہ اور دولت مشترکہ والے شعبوں میں کے لیے لیے گئے۔ ان میں ایک صاحب تھے اکرام اللہ خان، جو بھی اپنے محکمے میں ڈپٹی سیکریٹری ہی تھے۔ انھیں فارن سیکریٹری بنایا گیا۔ وہ زیارت جا کر قائداعظم سے وزارت خارجہ کے متعلق ہدایات حاصل کرتے تھے (راقم 1997ء میں زیارت گئے تو دیکھا کہ کوئٹہ سے زیارت جانے والی سڑک مخدوش حالت میں تھی، پتہ نہیں 1947ء میں کیا حالت ہوتی ہو گی)۔ قائداعظم کو تو بذریعہ ہیلی کاپٹر لے جایا ہوتا ہو گا۔
27 دسمبر 1947ء کو سر ظفراللہ خان کو باقاعدہ وزیر خارجہ کا قلمدان سونپا گیا۔ وہ بھی قائد کی زندگی تک زیارت جا کر ان سے ہدایات لیتے تھے۔ اس سے پہلے وہ حکومت ہندوستان کی طرف سے چین میں پولیٹیکل ایجنٹ کے طور پر کام کر رہے تھے۔ ویسے وہ مسلم لیگ کی طرف سے قیام پاکستان کے سلسلے میں کچھ کمیٹیوں میں بھی شامل ہوتے تھے۔
سب سے پہلے کراچی میں خارجی معاملات اور دولت مشترکہ کے شعبوں کے سلسلے میں کلفٹن کے علاقے میں ایک رہائشی مکان میں دفتر قائم کیا گیا، جو بقیہ دفاتر سے کافی فاصلے پر واقع تھی اور ان کے پاس کوئی گاڑی بھی نہیں تھی۔ دونوں شعبوں کے پاس صرف ایک ٹائپ رائٹر تھا۔ اس کے علاوہ اور کوئی سامان بھی نہیں تھا۔ پروٹوکول اور ڈپلومیٹک طور طریقوں کے لیے برطانوی وزارت خارجہ سے رہنمائی حاصل کی جاتی تھی۔
وزارت خارجہ کا پہلا کام تھا نوزائیدہ ملک پاکستان کو دنیا میں متعارف کرانا، جب کہ ہندوستان کو تو ہر کوئی جانتا تھا۔ سب سے پہلے اقوام متحدہ کی ممبرشپ حاصل کرنا تھی، جس کے لیے جو رائے شماری ہوئی اس میں سوائے ہمارے پڑوسی ملک افغانستان کے، پوری دنیا کے سب ممالک نے ہمارے لیے ووٹ دیے (افغانستان کو ہمارے ساتھ پختونستان کا مسئلہ تھا، جو ایک الگ داستان ہے)۔ اس کے بعد پوری دنیا میں سفارتخانے قائم کرنا تھے۔
جس کے لیے تربیت یافتہ عملے اور مالیاتی وسائل کی کمی کی وجہ سے، یہ کام بڑے پیمانے پر ممکن نہیں تھا۔ اس لیے یہ فیصلہ کیا گیا کہ کچھ خاص ملکوں میں ہائی کمشنر اور سفیر مقرر کیے جائیں (ہائی کمشنر اور سفیر میں بال برابر فرق ہوتا ہے۔ ہائی کمشنر صرف برطانیہ اور دولت مشترکہ یعنی وہ ممالک جو تاج برطانیہ کی محبت میں کئی صدیاں گرفتار رہے تھے اور اب یا آیندہ اس محبت سے خلاصی پا رہے تھے، میں ہائی کمشنر مقرر کیے جاتے تھے) اور باقی دنیا میں سفیر مقرر کیے جاتے تھے (تاج برطانیہ نے ہم جیسے ملکوں کو ابھی تک دولت مشترکہ کی لڑی میں پرویا ہوا ہے، تا کہ ہمیں یہ یاد دلایا جاتا رہے کہ جغرافیائی طور پر تو ہم آزاد ہیں، لیکن ذہنی طور غلام، ویسے برطانیہ ہمیں سب ملکوں سے زیادہ امداد بھی دیتا ہے)۔ دولت مشترکہ کا اجلاس ہر سال ہوتا ہے، جس میں ہندوستان اور بہت سارے افریقی ممالک کے وزرائے اعظم یا نمایندے اپنے اپنے ملکوں کے لباس پہن کر شامل ہوتے ہیں، جب کہ ہمارے والے فل سوٹ پہن کر ملکہ کے ساتھ فوٹو کھچواتے ہیں۔
سب سے پہلے دہلی، لندن، واشنگٹن، کابل، قاہرہ اور رنگوں (برما) میں سفارتخانے قائم کیے گئے۔ دہلی میں زاہد حسین، لندن میں حبیب ابراہیم رحمت اللہ، رنگوں (برما) میں سردار اورنگزیب خان کو ہائی کمشنر اور واشنگٹن میں ایم۔اے۔اصفہانی اور کابل میں آئی، آئی، چندریگر کو سفیر مقرر کیا گیا۔ یہ لوگ زیادہ تر بیوپاری تھے، ان میں ایک دو سیاستدان بھی تھے۔
مزے کی بات ہے کہ حبیب ابراہیم رحمت اللہ صاحب کے نام پر کراچی کے ایک مصروف علاقے میں ایک سڑک بھی ہے، لیکن اس سڑک کو لوگ کارساز کے نام سے زیادہ جانتے ہیں۔ ویسے اس سڑک کی فلائی اوور کے ایک کونے پر ان صاحب کے نام کی تختی ضرور لگی ہوئی ہے۔ آئی،آئی، چندریگر صاحب کے نام پر ہمارے کراچی شہر بلکہ پورے ملک کی شہ رگ والی سڑک ہے، جہاں اسٹیٹ بینک، تقریباً تمام بینکوں کے صدر دفاتر، اسٹاک ایکسچینج، کاٹن ایکسچینج وغیرہ واقعہ ہیں، وہ صاحب 1958ء سے پہلے تقریباً ایک مہینے کے لیے پاکستان آ کر وزیر اعظم بھی رہے تھے۔
قاہرہ اور ایران میں فی الفور تو کوئی بھی سفیر مقرر نہیں کیا جا سکا، لیکن بعد میں عبدالستار سیٹھ کو قاہرہ میں اور راجا غضنفر علی خان کو ایران بھیجا گیا (راجہ صاحب کے نام پر کراچی صدر میں ایک سڑک بھی ہے)۔ مالی وسائل کی کمی کے باعث سفارتخانوں کے لیے مناسب جگہیں حاصل کرنا کافی مشکل تھا۔ امریکا جیسے ملک میں سفارتخانہ ایک ہوٹل میں کمروں پر مشتمل دفتر قائم کیا گیا۔ دہلی میں صرف 3 افراد پر مشتمل عملہ تھا اور ان کے پاس بھی صرف ایک ٹائپ رائٹر تھا اور کوئی گاڑی بھی نہیں تھی۔ اسی طرح باقی ممالک میں بھی کوئی خاص انفرا اسٹرکچر مہیا نہیں کیا جا سکا۔
سب سے زیادہ ضرورت تھی پاکستان کو اسلامی ممالک میں متعارف کرانا، جہاں آہستہ آہستہ سفارتخانے کھولے گئے۔ دبئی میں اس زمانے میں ہندوستانی روپیہ چلتا تھا، اس لیے وہاں آج بھی زیادہ تر وہاں لوگ درہم کو روپیہ ہی کہتے ہیں۔ وہاں زیادہ تر ہندوستان کے لوگ کام کرتے تھے اور اب بھی ہندوستان کے لوگ ہی وہاں زیادہ ہیں۔ ان ممالک میں خواہ دنیا کے کافی دیگر ممالک میں پاکستان کو بہت کم جانا جاتا تھا۔ البتہ 1965ء کی جنگ کے بعد وہاں لوگوں کو معلوم ہوا کہ پاکستان، ہندوستان سے الگ ایک ملک ہے۔
پاکستان میں اس جنگ کے بعد ہی ریڈیو سے بی بی سی کی اردو سروس کے متعلق معلوم ہوا۔ اس کے بعد لوگ صبح سویرے ساڑھے 6 بجے اور شام 8 بجے بی بی سی ضرور سنتے تھے۔ اب بھی دبئی میں اگر آپ کسی پاکستانی ٹیکسی میں سوار ہونگے تو ڈرائیور 8 بجے بی بی سی ضرور کھولے گا۔
ایک خاص بات یہ ہے کہ شروع شروع میں ان ہائی کمشنر اور سفراء صاحبان نے خیر سگالی کے طور کوئی بھی مالی معاوضہ نہیں لیا، یہ ان کی وطن سے محبت کا بین ثبوت تھا۔ کاش، ہم میں آج بھی یہی جذبہ اجاگر ہو۔