قومیتیں قوم کا مجموعہ ہیں جو مل کر ایک قومی شناخت بنتی ہے ۔ ان کی تاریخ ، رہن سہن ، ثقافت اور زبان ایک دوسرے سے مختلف ہوتی ہیں۔ قوموں کی پہچان خطے کی منڈیوں کی سی ہوتی ہے، مختلف قومیتیں مل کر قومی شناخت بن کر عالمی منڈی اور دنیا میں اپنی پہچان کراتی ہیں۔ کسی بھی ملک کی قومی شناخت تین صورتوں بعد وجود میں آتی ہے، بستی کی شناخت، صوبائی حیثیت اور قومی حیثیت۔
جیسے کہ پاکستان کے صوبہ سندھ میں رہنے والے لوگوں کی قومیتیں ایک دوسرے سے مختلف ہیں، اس کے باوجود سندھی کئی برادریاں اور خاندان مل کر ایک قوم کی صورت بنے، بالکل یہی ترتیب دیگر اقوام کے لئے بھی ہے، جب کوئی بھی شخص دیار غیر میں ہوتا ہے تو اس کی پہچان بحیثیت پاکستانی کی جاتی ہے ۔ ملک میں اس کی پہچان صوبے کے اعتبار اور صوبے میں اس کی پہچان علاقائی اعتبار سے کی جاتی ہے۔ اسی لئے کہا جاتا ہے کہ '' ایک قوم مختلف قومیتوں کا مجموعہ ہوتی ہے'' اور ان کے درمیان بات چیت اور پہچان کے لئے ایک زبان منتخب کی جاتی ہے، جو ان کی مادری اور قومی زبان کہلاتی ہے۔
تقسیم بر صغیر کے بعد پاکستان کی ایک الگ ثقافت دنیا کے سامنے پیش کی گئی ۔ جس میں قومی زبان سے لے کر دیگر تہذیب کو بھی دنیا میں متعارف کروایا گیا ۔ لیکن ہم نے اپنی تاریخ اور ثقافت پر کبھی توجہ نہیں دی، یہی وجہ ہے کہ آج آپ سوائے اہل دانش کے کسی سے پاکستان کے قومی کھیل ، قومی پرندہ اور قومی لباس کے بارے میں سوالات کریں تو وہ جواباً آپ کو سینہ چوڑا کر کے فخر سے بتائے گا کہ وہ ان باتوں سے واقف نہیں اور ساتھ یہ جواب بھی دے گا کہ ہاں میری قومی شناخت پاکستانی ہے۔
اردو پاکستان کی قومی زبان ہے ۔ مگر سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ آج ہمارے ملک کا آئین ، قانون ، دستور تقریبا سب ہی چیزیں انگریزی میں ہیں۔ ہمارے وزراء اعظم سے لے کر عوام تک کوئی بھی اردو بولنا نہیں چاہتا ۔ آج حال یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں خالص اردو جسے اردو ادب بھی کہاجاتا ہے وہ گنتی کے لوگ ہی سمجھنے کے اہل ہیں ۔ بقیہ نجی زندگی سے سوشل میڈیا تک کے لوگ اردو بولنے میں عار محسوس کرتے ہیں، تاہم یہ بھی سچ ہے کہ ایسے لوگوں کو معاشرے میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
کسی بھی قوم کو تباہ کرنے کے لئے یہ کافی ہے کہ اس کی تاریخ اور اس کی ثقافت سے اس ملک کے نوجوان کو دور کر دیا جائے ۔ ایک جگہ یہ بھی ذکر ہے کہ جو قوم اپنی تاریخ اور ثقافت بھول جاتی ہے وہ تباہ و برباد ہوجاتی ہے۔ ان دونوں نظریوں کے تناظر میں اگر بات کی جائے تو آج پاکستان کے نوجوان کا یہی حا ل ہے، انہیں اپنی ملک کی ثقافت کے بارے میں رتی برابر بھی علم نہیں، ہماری یہی سوچ ہماری غلامی کی عکاسی کرتی ہے۔ جبکہ آزادانہ سوچ والے ممالک ہر فارم پر اپنی ثقافت اور قومی زبان کو زندہ رکھتے ہیں۔ آج ہمارے معاشرے میں اپنی صوبائی زبانوں اور برادریوں کی زبانیں بولنے کا رواج عام ہے ۔ لیکن اردو کے ساتھ سوتیلا سلوک کیا جاتا ہے۔
میری اہل دانش سے التماس ہے کہ خدرا اردو کے فروغ کے لئے کام کیجئے ورنہ آنے والے عرصے میں اردو بولنا گالی کے مترادف سمجھا جائے گا ۔ حکمرانوں کو بھی چاہئے کہ اردو کے فروغ کے لئے اداروں کا قیام عمل میں لائیں، اورہر سطح پر ہماری اردو کو فروغ دیتے ہوئے اس کو لازم قرار دیں تاکہ ہماری قومی زبان بھی دنیائے عالم میں ایک الگ پہچان بن کر ابھرے۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔