پلاسٹک سے پیدا ہونیوالی آلودگی سمندر کے قدرتی حسن اور آبی حیات کو ختم کر رہی ہیں تحقیق
سمندری آلودگی سے مچھیلیاں اور دیگر سمندری حیات مر رہی ہیں اور ایکو سسٹم کی بقا کو شدید خطرات لاحق ہوگئے ہیں،ماہرین
سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ لاکھوں ٹن پلاسٹک کچرا سمندروں میں پھینکا جا رہا ہے جو نہ صرف سمندروں کے پانی کو آلودہ کر رہا ہے بلکہ آبی حیات کی بقا کے لیے تباہ کن ثابت ہورہا ہے۔
امریکا میں کی جانے والی تحقیق میں کہا گیا ہے کہ شاپنگ بیگ، بوتلیں، کھلونے، ڈھکنے، شوز، چھتریوں کے ہینڈل، اور ٹوائلٹ سیٹس کے علاوہ تمام پلاسٹک کا سامان سمندر کی غذا بن رہا ہے جس سے گذشتہ 6 سال میں حاصل کئے گئے ڈیٹا کے مطابق 2 لاکھ 69 ہزار ٹن پلاسٹک کچرا سمندر میں پھینکا جا چکا ہے، لاس اینجلس کے 5 گائرز انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر اور اس تحقیق کے سربراہ کا کہنا تھا کہ سمندروں میں اس سے بھی کہیں زیادہ آلودگی موجود ہے جو جمع کئے گئے ڈیٹا سے سامنے آئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ 92 فیصد پلاسٹک آلودگی مائیکرو پلاسٹک ذرات کے ذریعے پھیلتی ہے جو جب سمندر میں رہتے ہیں تو سورج کی روشنی، شارک یا دیگر مچھلیوں کے کاٹنے اور موجوں کی وجہ سے ٹکڑوں میں تقسیم ہو جاتے ہیں، ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اس آلودگی سے سمندری پرندے، مچھیلیاں اور دیگر سمندری حیات مر رہی ہیں اور ایکو سسٹم کی بقا کو شدید خطرات لاحق ہوگئے ہیں۔
تحقیق کے مطابق استعمال شدہ فشنگ نیٹ کی وجہ سے ڈولفنز، کچھوے اور دیگر سمندری جانورہلاک ہوجاتے ہیں جب کہ گلے ہوئے پلاسٹک سے اٹھنے والی بدبو سے سمندری جانور سانس اور پیٹ کی بیماریوں کا شکار ہیں۔ پلاسٹک کا کچرا دریاؤں، ساحلوں اور بحری جہازوں کے ذریعے سمندر میں داخل ہوتا ہے جب کہ پلاسٹک کی بڑی اشیاء عام طور پر سمندروں میں تیرتی رہتی ہیں جو کئی مقامات ہر کچروں کے بڑے بڑے ڈھیر میں بدل جاتی ہیں اور کئی جگہ سے سمندر کے پانی کے بہاؤ میں رکاوٹ کا باعث بن جاتی ہے۔
انسٹی ٹیوٹ کے سربراہ کا کہنا تھا کہ آسٹریلیا کی ساحلی پٹی، بے آف بنگال اور بحیرہ روم سے حاصل کئے گئے ڈیٹا کے مطابق ان سمندروں میں 5.25 کھرب پلاسٹک کے ذرات پائے گئے ہیں جو سائز میں ریت کے ذرات کے برابر ہوتے ہیں۔ یہ ذرات سمندرمیں سفر کرتے ہوئے قطبی علاقوں تک بھی پہنچ گئے ہیں جو انتہائی خطرناک ہے۔ ان ذرات میں پی سی بیز، ڈی ڈی ٹی اور دیگر زہریلے عناصر موجود ہوتے ہیں جو سمندری حیات کی غذا میں شامل ہوکر ان کی موت کا سبب بن جاتے ہیں۔
امریکا میں کی جانے والی تحقیق میں کہا گیا ہے کہ شاپنگ بیگ، بوتلیں، کھلونے، ڈھکنے، شوز، چھتریوں کے ہینڈل، اور ٹوائلٹ سیٹس کے علاوہ تمام پلاسٹک کا سامان سمندر کی غذا بن رہا ہے جس سے گذشتہ 6 سال میں حاصل کئے گئے ڈیٹا کے مطابق 2 لاکھ 69 ہزار ٹن پلاسٹک کچرا سمندر میں پھینکا جا چکا ہے، لاس اینجلس کے 5 گائرز انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر اور اس تحقیق کے سربراہ کا کہنا تھا کہ سمندروں میں اس سے بھی کہیں زیادہ آلودگی موجود ہے جو جمع کئے گئے ڈیٹا سے سامنے آئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ 92 فیصد پلاسٹک آلودگی مائیکرو پلاسٹک ذرات کے ذریعے پھیلتی ہے جو جب سمندر میں رہتے ہیں تو سورج کی روشنی، شارک یا دیگر مچھلیوں کے کاٹنے اور موجوں کی وجہ سے ٹکڑوں میں تقسیم ہو جاتے ہیں، ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اس آلودگی سے سمندری پرندے، مچھیلیاں اور دیگر سمندری حیات مر رہی ہیں اور ایکو سسٹم کی بقا کو شدید خطرات لاحق ہوگئے ہیں۔
تحقیق کے مطابق استعمال شدہ فشنگ نیٹ کی وجہ سے ڈولفنز، کچھوے اور دیگر سمندری جانورہلاک ہوجاتے ہیں جب کہ گلے ہوئے پلاسٹک سے اٹھنے والی بدبو سے سمندری جانور سانس اور پیٹ کی بیماریوں کا شکار ہیں۔ پلاسٹک کا کچرا دریاؤں، ساحلوں اور بحری جہازوں کے ذریعے سمندر میں داخل ہوتا ہے جب کہ پلاسٹک کی بڑی اشیاء عام طور پر سمندروں میں تیرتی رہتی ہیں جو کئی مقامات ہر کچروں کے بڑے بڑے ڈھیر میں بدل جاتی ہیں اور کئی جگہ سے سمندر کے پانی کے بہاؤ میں رکاوٹ کا باعث بن جاتی ہے۔
انسٹی ٹیوٹ کے سربراہ کا کہنا تھا کہ آسٹریلیا کی ساحلی پٹی، بے آف بنگال اور بحیرہ روم سے حاصل کئے گئے ڈیٹا کے مطابق ان سمندروں میں 5.25 کھرب پلاسٹک کے ذرات پائے گئے ہیں جو سائز میں ریت کے ذرات کے برابر ہوتے ہیں۔ یہ ذرات سمندرمیں سفر کرتے ہوئے قطبی علاقوں تک بھی پہنچ گئے ہیں جو انتہائی خطرناک ہے۔ ان ذرات میں پی سی بیز، ڈی ڈی ٹی اور دیگر زہریلے عناصر موجود ہوتے ہیں جو سمندری حیات کی غذا میں شامل ہوکر ان کی موت کا سبب بن جاتے ہیں۔