مذاکرات واحد راستہ
عمران خان فوری طورپرجوڈیشل کمیشن کےقیام پرزوردے رہےہیں اور یہ کمیشن بنناضروری ہےمگرحقیقی حل انتخابی اصلاحات میں مضمرہے
عمران خان نے اپنی تحریک کے تیسرے مرحلے میں فیصل آباد میں دھرنا دیا۔ تحریک انصاف اور مسلم لیگ ن کے کارکنوں میں تصادم ہوا اور دو افراد جاں بحق ہوئے، تحریک انصاف اور مسلم لیگ ن میں فائرنگ کرنے والے کے بارے میں تنازعہ پیدا ہوا۔ رانا ثناء اللہ نے تحریک انصاف کے ایک کارکن کی ہلاکت کا ذمے دار نامعلوم افراد کو قرار دیا۔ دوسرے شخص کے بارے میں بتایا گیا کہ ٹائر کو آگ لگاتے ہوئے شعلوں کی لپیٹ میں آ گیا اور آگ بجھانے کے لیے نہر میں چھلانگ لگا دی مگر زندہ نہ بچ سکا۔
یوں14 اگست سے دھرنے جلسے جلوسوں میں مرنے والے افراد کی تعداد 16 تک پہنچ گئی۔ عمران خان لاہور سمیت دوسرے شہروں کو بھی بند کرائیں گے یوں بقول ان کے حکومت تبدیل نہ ہوئی تو نئے منصوبے کا انکشاف کریں گے، اس سے پہلے حکومت اور تحریک انصاف کے درمیان بات چیت کی امید پیدا ہوئی تھی، عمران خان وزیر اعظم نواز شریف کے استعفیٰ کے مطالبے سے دستبردار ہوئے تھے مگر وہ شہر بند کرنے کے اعلان کو ترک کرنے پر تیار نہیں تھے، حکومت فیصل آباد بند کرانے کے اعلان کے نتیجے کا انتظار کر رہی تھی یوں دونوں قوتیں ٹکرا گئیں۔ اس تصادم سے مذاکرات کے امکانات کم ہو گئے تھے مگر اب مذاکرات کا ہونا ایک خوش آیند امر ہے۔
عمران خان فوری طور پر جوڈیشل کمیشن کے قیام پر زور دے رہے ہیں اور یہ کمیشن بننا ضروری ہے مگر حقیقی حل انتخابی اصلاحات میں مضمرہے۔ یہ حقیقت ہے کہ 2013ء کے انتخابات ماضی میں ہونے والے انتخابات کی طرح شفاف نہیں تھے۔ آئین میں کئی گئی 18 ویں اور 20 ویں ترمیم کے تحت خود مختار الیکشن کمیشن اور نگراں حکومتوں کے قیام سے جو امیدیں وابستہ ہوئی تھیں وہ پوری نہ ہو سکیں، ملک میں انتخابات کا تنقیدی جائزہ لینے والے ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ چیف الیکشن کمشنر اور چاروں صوبوں کے نامزد کردہ اراکین کے یکساں اختیارات تھے۔
سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی بے جا مداخلت، مقناطیسی سیاہی کے معیار کو برقرار نہ رکھنے پر اس کے استعمال کے لیے عملے اور ووٹرز کی تربیت نہ ہونے کی بناء پر انتخابی عمل میں پیچیدگیاں ہوئیں، ان پیچیدگیوں کی بناء پر سندھ میں تحریک انصاف، مسلم لیگ ن، پنجاب میں تحریک انصاف اور پیپلزپارٹی مسلم لیگ ق، خیبرپختونخوا میں عوامی نیشنل پارٹی، پیپلز پارٹی اور بلوچستان میں قوم پرست جماعتیں براہ راست متاثر ہوئیں، طالبان نے اے این پی، پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم کو نشانہ بنا کر انتخابی عمل کو سبوتاژ کیا اس طرح انتخابات سے پہلے دھاندلی شروع ہوئی، عمران خان کا یہ دعویٰ غلط ہے کہ خیبرپختونخوا میں دھاندلی نہیں ہوئی۔
انتخابات کی ان پیچیدگیوں کو دور کرنے اور دنیا بھر میں ہونے والے تجربات سے فائدہ اٹھانے کے لیے ضروری تھا کہ پارلیمنٹ انتخابی اصلاحات کرے، الیکشن کمیشن کے سابق سربراہ جسٹس (ر) فخر الدین جی ابراہیم نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے کر پارلیمنٹ کو یہ موقع فراہم کیا تا کہ انتخابی نظام میں خامیوں پر بحث کی جائے اس وقت تحریک انصاف نے اس اہم نکتے پر توجہ نہیں دی، پیپلز پارٹی فخرالدین جی ابراہیم کے استعفیٰ پر خوش ہوئی یوں یہ موقع ضایع ہو گیا پھر قومی اسمبلی میں انتخابی اصلاحات کا معاملہ اٹھایا گیا، مسلم لیگ ن نے اس مسئلے کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔
عمران خان چار حلقوں کو کھولنے کا شور مچاتے رہے مگر وزیر اعظم اور ان کی کابینہ دوسرے معاملات طے کرتے رہے یوں جب 14 اگست کو عمران خان نے انتخابی دھاندلیوں کے خلاف اسلام آباد میں دھرنا دیا تو وزیر اعظم اور ان کے مشیروں نے اس معاملے کو سنجیدگی سے لیا مگر چھ ماہ گزرنے کے باوجود حکومت نے انتخابی اصلاحات پر کوئی سنجیدہ کارروائی نہیں کی، حکومت اور اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت پیپلز پارٹی نے چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی کے معاملے میں روایتی سستی کا مظاہرہ کیا، مجبوراََ سپریم کورٹ کو مداخلت کرنی پڑی، حکومت اور پیپلز پارٹی نے پہلے مرحلے میں جو نام پیش کیے تھے ان میں سے کئی حضرات چیف الیکشن کمشنر بننے کو تیار نہیں تھے۔ جسٹس (ر) بھگوان داس اور جسٹس تصدق جیلانی اس بارے میں اپنی ناراضگی کا اظہار کر چکے ہیں۔
ان لوگوں کا کہنا ہے کہ اختیار ات سے محروم الیکشن کمشنر انتخابات میں کوئی کردار ادا نہیں کر سکتا، اگر چہ عمران خان اسلام آباد کے دھرنے کے مقاصد حاصل کرنے میں ناکام رہے اس بنا پر انھوں نے شہروں کو بند کرنے کا فیصلہ کیا لیکن اس مرحلے میں ایک تبدیلی یہ آئی کہ عمران خان وزیر اعظم نواز شریف کے استعفیٰ کے مطالبے سے دستبردار ہو گئے اور مذاکرات کے لیے تیار ہو گئے یوں محسوس ہوتا ہے کہ وزیر اعظم کے مشیروں نے عمران خان کو مذاکرات پر آمادہ ہونے کو ان کی کمزوری جانا یوں مذاکرات شروع نہ ہوئے، کچھ مبصرین کا کہنا ہے کہ میاں نواز شریف نے ایمپائر سے مفاہمت کر لی اور مذاکرات کی اہمیت کو محسوس نہیں کیا۔
اس طرح عمران خان عوام کو یہ باور کرانے میں کامیاب ہوئے کہ 2013ء کے انتخابات میں بڑے پیمانے پر دھاندلی ہوئی پھر بجلی گیس کی لوڈشیڈنگ نوجوانوں میں بڑھتی ہوئی بے روزگاری کی شرح نے عمران خان کے مختلف شہروں میں حامیوں کو نئی طاقت فراہم کی۔ فیصل آباد کے واقعات کے جائزے سے محسوس ہوتا ہے کہ مسلم لیگ ن کی قیادت ابھی تک 1999ء کے کلچر کی پاسداری کر رہی ہے یوں عمران خان کے دھرنے کو ناکام بنانے کے لیے مسلم لیگ ن کے کارکنوں اور پولیس کو استعمال کیا۔ رانا ثناء اللہ جو ماڈل ٹاؤن میں متنازعہ ہو چکے تھے پھر ایک دفعہ سامنے آئے، حکومت قوت سے مظاہرین کو کچلنا چاہتی ہے اگر رانا ثناء اللہ اس دن فیصل آباد میں نہیں ہوتے، مسلم لیگ کے کارکن ہڑتال کو روکنے کے لیے مزاحمت نہیں کرتے تو عمران خان مشکل میں ہوتے، ان کے کارکن زبردستی دکانیں بند کرانے، سڑکوں پر ٹائر جلاتے تو الیکٹرانک میڈیا ان واقعات کو اس طرح ٹیلی کاسٹ کرتا جس طرح ڈی چوک جیسے پارلیمنٹ ہاؤس کی طرف مارچ اور پی ٹی وی پر حملے کے واقعات کو ٹیلی کاسٹ کیا گیا۔ یوں سارا ملبہ عمران خان پر گرتا۔ دوسری طرف عمران خان یہ جارحانہ عزائم شیخ رشید کی بڑھکیں سیاسی ماحول مزید پراگندا کر رہی ہیں۔
عمران خان اس ایجی ٹیشن کے ذریعے شفا ف انتخابات کا نظام تو قائم نہیں کر سکتے مگر طالع آزما قوتوں کے لیے راہ ہموار کر سکتے ہیں۔ سپریم کورٹ نے پنجاب اور سندھ کی حکومتوں کو ہدایت کی ہے کہ اگلے سال اپریل تک بلدیاتی انتخابات کرائیں یوں کے پی میں بھی بلدیاتی انتخابات اس وقت تک منعقد ہو سکتے ہیں۔ تحریک انصاف دوسری جماعتیں جامع انتخابی اصلاحات کریں ان اصلاحات میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ذریعے شفا ف انتخابات کو یقینی بنایا جائے تو بلدیاتی انتخابات عوام کی رائے کی عکاسی کریں گے اور اگر تحریک انصاف نے پنجاب میں بلدیاتی انتخابات میں کامیابی حاصل کر لی تو اگلے عام انتخابات میں اس کے لیے نئے راستے کھل جائیں گے۔
جماعت اسلامی کے سربراہ سراج الحق کی قیادت میں سیاسی جرگہ مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کو مذاکرات کے لیے آمادہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے ان کی یہ بات کھلی حقیقت کی نشاندہی کر رہی ہے کہ ملک میں ہونے والی ہنگامہ آرائی طالع آزما قوتوں کے لیے اقتدار کا راستہ کھول دے گی یوں ملک ایک دفعہ پھر 1999ء کی صورتحال میں چلا جائے گا۔ یہ صورتحال وفاق کے لیے سب سے بڑا دھچکا ہو گی، وفاق کو دھچکا لگا تو پھر ریاست بکھرنے لگے گی جس کا فائدہ انتہا پسند قوتوں کو ہو گا، خطے میں بڑی طاقتیں اس صورتحال کو برداشت نہیں کریں گی۔ دونوں جماعتوں کو بامعنی مذاکرات کرنے چاہییں، دوسرا راستہ بند گلی کا راستہ ہے۔
یوں14 اگست سے دھرنے جلسے جلوسوں میں مرنے والے افراد کی تعداد 16 تک پہنچ گئی۔ عمران خان لاہور سمیت دوسرے شہروں کو بھی بند کرائیں گے یوں بقول ان کے حکومت تبدیل نہ ہوئی تو نئے منصوبے کا انکشاف کریں گے، اس سے پہلے حکومت اور تحریک انصاف کے درمیان بات چیت کی امید پیدا ہوئی تھی، عمران خان وزیر اعظم نواز شریف کے استعفیٰ کے مطالبے سے دستبردار ہوئے تھے مگر وہ شہر بند کرنے کے اعلان کو ترک کرنے پر تیار نہیں تھے، حکومت فیصل آباد بند کرانے کے اعلان کے نتیجے کا انتظار کر رہی تھی یوں دونوں قوتیں ٹکرا گئیں۔ اس تصادم سے مذاکرات کے امکانات کم ہو گئے تھے مگر اب مذاکرات کا ہونا ایک خوش آیند امر ہے۔
عمران خان فوری طور پر جوڈیشل کمیشن کے قیام پر زور دے رہے ہیں اور یہ کمیشن بننا ضروری ہے مگر حقیقی حل انتخابی اصلاحات میں مضمرہے۔ یہ حقیقت ہے کہ 2013ء کے انتخابات ماضی میں ہونے والے انتخابات کی طرح شفاف نہیں تھے۔ آئین میں کئی گئی 18 ویں اور 20 ویں ترمیم کے تحت خود مختار الیکشن کمیشن اور نگراں حکومتوں کے قیام سے جو امیدیں وابستہ ہوئی تھیں وہ پوری نہ ہو سکیں، ملک میں انتخابات کا تنقیدی جائزہ لینے والے ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ چیف الیکشن کمشنر اور چاروں صوبوں کے نامزد کردہ اراکین کے یکساں اختیارات تھے۔
سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی بے جا مداخلت، مقناطیسی سیاہی کے معیار کو برقرار نہ رکھنے پر اس کے استعمال کے لیے عملے اور ووٹرز کی تربیت نہ ہونے کی بناء پر انتخابی عمل میں پیچیدگیاں ہوئیں، ان پیچیدگیوں کی بناء پر سندھ میں تحریک انصاف، مسلم لیگ ن، پنجاب میں تحریک انصاف اور پیپلزپارٹی مسلم لیگ ق، خیبرپختونخوا میں عوامی نیشنل پارٹی، پیپلز پارٹی اور بلوچستان میں قوم پرست جماعتیں براہ راست متاثر ہوئیں، طالبان نے اے این پی، پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم کو نشانہ بنا کر انتخابی عمل کو سبوتاژ کیا اس طرح انتخابات سے پہلے دھاندلی شروع ہوئی، عمران خان کا یہ دعویٰ غلط ہے کہ خیبرپختونخوا میں دھاندلی نہیں ہوئی۔
انتخابات کی ان پیچیدگیوں کو دور کرنے اور دنیا بھر میں ہونے والے تجربات سے فائدہ اٹھانے کے لیے ضروری تھا کہ پارلیمنٹ انتخابی اصلاحات کرے، الیکشن کمیشن کے سابق سربراہ جسٹس (ر) فخر الدین جی ابراہیم نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے کر پارلیمنٹ کو یہ موقع فراہم کیا تا کہ انتخابی نظام میں خامیوں پر بحث کی جائے اس وقت تحریک انصاف نے اس اہم نکتے پر توجہ نہیں دی، پیپلز پارٹی فخرالدین جی ابراہیم کے استعفیٰ پر خوش ہوئی یوں یہ موقع ضایع ہو گیا پھر قومی اسمبلی میں انتخابی اصلاحات کا معاملہ اٹھایا گیا، مسلم لیگ ن نے اس مسئلے کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔
عمران خان چار حلقوں کو کھولنے کا شور مچاتے رہے مگر وزیر اعظم اور ان کی کابینہ دوسرے معاملات طے کرتے رہے یوں جب 14 اگست کو عمران خان نے انتخابی دھاندلیوں کے خلاف اسلام آباد میں دھرنا دیا تو وزیر اعظم اور ان کے مشیروں نے اس معاملے کو سنجیدگی سے لیا مگر چھ ماہ گزرنے کے باوجود حکومت نے انتخابی اصلاحات پر کوئی سنجیدہ کارروائی نہیں کی، حکومت اور اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت پیپلز پارٹی نے چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی کے معاملے میں روایتی سستی کا مظاہرہ کیا، مجبوراََ سپریم کورٹ کو مداخلت کرنی پڑی، حکومت اور پیپلز پارٹی نے پہلے مرحلے میں جو نام پیش کیے تھے ان میں سے کئی حضرات چیف الیکشن کمشنر بننے کو تیار نہیں تھے۔ جسٹس (ر) بھگوان داس اور جسٹس تصدق جیلانی اس بارے میں اپنی ناراضگی کا اظہار کر چکے ہیں۔
ان لوگوں کا کہنا ہے کہ اختیار ات سے محروم الیکشن کمشنر انتخابات میں کوئی کردار ادا نہیں کر سکتا، اگر چہ عمران خان اسلام آباد کے دھرنے کے مقاصد حاصل کرنے میں ناکام رہے اس بنا پر انھوں نے شہروں کو بند کرنے کا فیصلہ کیا لیکن اس مرحلے میں ایک تبدیلی یہ آئی کہ عمران خان وزیر اعظم نواز شریف کے استعفیٰ کے مطالبے سے دستبردار ہو گئے اور مذاکرات کے لیے تیار ہو گئے یوں محسوس ہوتا ہے کہ وزیر اعظم کے مشیروں نے عمران خان کو مذاکرات پر آمادہ ہونے کو ان کی کمزوری جانا یوں مذاکرات شروع نہ ہوئے، کچھ مبصرین کا کہنا ہے کہ میاں نواز شریف نے ایمپائر سے مفاہمت کر لی اور مذاکرات کی اہمیت کو محسوس نہیں کیا۔
اس طرح عمران خان عوام کو یہ باور کرانے میں کامیاب ہوئے کہ 2013ء کے انتخابات میں بڑے پیمانے پر دھاندلی ہوئی پھر بجلی گیس کی لوڈشیڈنگ نوجوانوں میں بڑھتی ہوئی بے روزگاری کی شرح نے عمران خان کے مختلف شہروں میں حامیوں کو نئی طاقت فراہم کی۔ فیصل آباد کے واقعات کے جائزے سے محسوس ہوتا ہے کہ مسلم لیگ ن کی قیادت ابھی تک 1999ء کے کلچر کی پاسداری کر رہی ہے یوں عمران خان کے دھرنے کو ناکام بنانے کے لیے مسلم لیگ ن کے کارکنوں اور پولیس کو استعمال کیا۔ رانا ثناء اللہ جو ماڈل ٹاؤن میں متنازعہ ہو چکے تھے پھر ایک دفعہ سامنے آئے، حکومت قوت سے مظاہرین کو کچلنا چاہتی ہے اگر رانا ثناء اللہ اس دن فیصل آباد میں نہیں ہوتے، مسلم لیگ کے کارکن ہڑتال کو روکنے کے لیے مزاحمت نہیں کرتے تو عمران خان مشکل میں ہوتے، ان کے کارکن زبردستی دکانیں بند کرانے، سڑکوں پر ٹائر جلاتے تو الیکٹرانک میڈیا ان واقعات کو اس طرح ٹیلی کاسٹ کرتا جس طرح ڈی چوک جیسے پارلیمنٹ ہاؤس کی طرف مارچ اور پی ٹی وی پر حملے کے واقعات کو ٹیلی کاسٹ کیا گیا۔ یوں سارا ملبہ عمران خان پر گرتا۔ دوسری طرف عمران خان یہ جارحانہ عزائم شیخ رشید کی بڑھکیں سیاسی ماحول مزید پراگندا کر رہی ہیں۔
عمران خان اس ایجی ٹیشن کے ذریعے شفا ف انتخابات کا نظام تو قائم نہیں کر سکتے مگر طالع آزما قوتوں کے لیے راہ ہموار کر سکتے ہیں۔ سپریم کورٹ نے پنجاب اور سندھ کی حکومتوں کو ہدایت کی ہے کہ اگلے سال اپریل تک بلدیاتی انتخابات کرائیں یوں کے پی میں بھی بلدیاتی انتخابات اس وقت تک منعقد ہو سکتے ہیں۔ تحریک انصاف دوسری جماعتیں جامع انتخابی اصلاحات کریں ان اصلاحات میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ذریعے شفا ف انتخابات کو یقینی بنایا جائے تو بلدیاتی انتخابات عوام کی رائے کی عکاسی کریں گے اور اگر تحریک انصاف نے پنجاب میں بلدیاتی انتخابات میں کامیابی حاصل کر لی تو اگلے عام انتخابات میں اس کے لیے نئے راستے کھل جائیں گے۔
جماعت اسلامی کے سربراہ سراج الحق کی قیادت میں سیاسی جرگہ مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کو مذاکرات کے لیے آمادہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے ان کی یہ بات کھلی حقیقت کی نشاندہی کر رہی ہے کہ ملک میں ہونے والی ہنگامہ آرائی طالع آزما قوتوں کے لیے اقتدار کا راستہ کھول دے گی یوں ملک ایک دفعہ پھر 1999ء کی صورتحال میں چلا جائے گا۔ یہ صورتحال وفاق کے لیے سب سے بڑا دھچکا ہو گی، وفاق کو دھچکا لگا تو پھر ریاست بکھرنے لگے گی جس کا فائدہ انتہا پسند قوتوں کو ہو گا، خطے میں بڑی طاقتیں اس صورتحال کو برداشت نہیں کریں گی۔ دونوں جماعتوں کو بامعنی مذاکرات کرنے چاہییں، دوسرا راستہ بند گلی کا راستہ ہے۔