نفع نقصان
۔دنیا بھر میں جمہوریت کے علمبردار امریکا نے نہ صرف بدترین فوجی آمر ضیا الحق کی حکومت کو ٹھنڈے پیٹ برداشت کیا۔
تحریک انصاف کی طرف سے مختلف شہروں میں ہڑتالوں کا سلسلہ جاری ہے۔ فیصل آباد اور کراچی کی ہڑتالیں اور اس کے نتائج ہمارے سامنے ہیں۔ اس حوالے سے جمہوریت پسند طاقتوں کا خواہ وہ حکومت میں ہیں یا حکومت سے باہر، سب سے بڑا اعتراض یہ ہے کہ اس طرح شہروں کو بند کرنے سے تاجروں اور مزدوروں کے علاوہ ملکی معیشت کا نقصان ہوتا ہے۔
یہ اعتراض درست بھی ہے منطقی بھی لیکن جو لوگ آج یہ اعتراض کر رہے ہیں کیا ان کے بزرگوں نے 1977ء کی ناجائز غیر منطقی ہڑتالیں نہیں کیں اور نتائج کے حوالے سے خطرناک ترین ہڑتالوں سے ناواقف ہیں؟ 1977ء میں پی این اے نے جو تحریک چلائی تھی وہ اس اعتراض پر چلائی تھی کہ پیپلز پارٹی نے پنجاب کی چند نشستوں پر دھاندلی کی ہے۔ جب کہ تحریک چلانے والے اور عام حلقے اس بات سے اتفاق کرتے تھے کہ پیپلز پارٹی مجموعی طور پر 1977ء کے انتخابات جیت چکی تھی۔ اس سیاسی جواز کے علاوہ 1977ء کی تباہ کن ہڑتالوں کا ایک سب سے بڑا سبب بھٹو سے امریکا کی ناراضگی تھا۔ امریکا کے وزیر خارجہ نے بھٹو کو ایٹمی پروگرام سے دستبردار ہونے کا حکم دیا تھا لیکن بھٹو نے کسنجر کا حکم ماننے سے انکار کر دیا تھا۔
اس گستاخی کے جواب میں امریکی وزیر خارجہ نے بھٹو کو نشان عبرت بنانے کی دھمکی دی تھی اور اس دھمکی پر عملدرآمد پی این اے کر رہی تھی۔ کیا پی این اے کے بزرگ امریکی دھمکی سے ناواقف تھے؟ کیا پی این اے کی قیادت نہیں چاہتی تھی کہ پاکستان ایٹمی طاقت بنے؟ ان دو سوالوں کے پس منظر میں 1977ء کی تباہ کن تحریک کا جائزہ لیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ یہ تحریک داخلی اور خارجی طور پر پاکستان کے لیے سخت نقصان دہ ثابت ہوئی۔
داخلی طور پر یہ تحریک اس طرح تباہ کن ثابت ہوئی کہ چند سیٹوں پر ہونے والی ممکنہ دھاندلی کے خلاف چلائی جانے والی اس تحریک کے نتیجے میں ضیا الحق جیسے پاکستانی تاریخ کے بدترین آمر کو اقتدار پر قبضہ کرنے کا موقع ملا اور پاکستان ضیا الحق کی بدترین آمریت کے پنجوں میں 11 سال جکڑا رہا۔دنیا بھر میں جمہوریت کے علمبردار امریکا نے نہ صرف بدترین فوجی آمر ضیا الحق کی حکومت کو ٹھنڈے پیٹ برداشت کیا بلکہ اس سے روس کو افغانستان سے نکالنے کا وہ خطرناک کام لیا جس کی سزا پاکستان آج تک بھگت رہا ہے۔
اس تحریک کی وجہ ہفتوں تک پورا ملک سخت انارکی قتل و غارت اور لوٹ مار کا شکار رہا جس میں ملک کو کھربوں روپوں کا نقصان ہوا یہ داخلی نقصان تھا۔ خارجی حوالے سے ملک کو روس کی دشمنی مول لینی پڑی اور پاکستان پر امریکا کی گرفت مضبوط ہوئی۔ امریکا نے روس کو افغانستان سے نکالنے کے لیے پاکستان کے دینی مدرسوں میں اربوں ڈالر خرچ کر کے جن مذہبی انتہا پسندوں کی کاشت کی آج اس انتہا پسندی کی فصل لہلہا رہی ہے اور اس فعل نے اب تک 50 ہزار بے گناہ پاکستانیوں کی جان لے لی ہے۔ کیا یہ پاکستانی عوام تاجروں صنعتکاروں کا نقصان تھا یا نفع؟ اگر نقصان تھا تو آج کی جائز تحریکوں کو نفع نقصان کی عینک لگا کر دیکھنے والے 1977ء کے بڑوں کے چھوٹے 1977ء کی تحریک کی مذمت کیوں نہیں کرتے؟
1977ء کی تحریک اصل معنوں میں ایک جمہوری حکومت کے خلاف کھلی بغاوت تھی جو امریکی ڈالروں کی طاقت پر کی جا رہی تھی کیا پی این اے کی قیادت امریکا کی غلام تھی؟ اگر نہیں تھی تو اس نے بالواسطہ یا بلاواسطہ امریکا کے مقاصد کیوں پورے کیے؟ 1977ء کی تحریک اس قدر منظم اور منصوبہ بند طریقوں سے چلائی گئی کہ اس کی کامیابی میں کسی شک و شبے کی گنجائش نہ تھی لیکن اس تحریک کا المیہ یہ تھا کہ اس میں عوام کو تو فریب دے کر گھسیٹا گیا۔پی این اے کی وہ جماعتیں جو منظم تھیں اور جس کے کارکن ''نظریاتی'' تھے انتہائی منظم انداز میں شہر بھر میں جلاؤ گھیراؤ کی خدمات انجام دے رہے تھے۔
ایک دن ہم صدر میں ایک میڈیکل اسٹور پر دوائیں خریدنے کھڑے تھے کہ ایک مسافروں سے بھری بس اسٹاپ پر آ کر رکی اچانک دو چھوٹے چھوٹے قد کے مقدس کارکن ہاتھوں میں پٹرول کے ڈبے لے کر اسٹاپ پر آئے اور بس کے مسافروں سے چیخ کر کہنے لگے کہ ''جلدی سے باہر نکلو، ہم بس کو آگ لگا رہے ہیں۔'' بے چارے خوفزدہ مسافر ایک دوسرے کو دھکے دیتے ہوئے بس سے باہر نکلنے لگے دیکھتے ہی دیکھتے بس خالی ہو گئی اور دونوں محترم نظریاتی کارکن بس کے اندر گئے بس میں پٹرول چھڑکا اور باہر نکل کر ماچس کی تیلی بس کے اندر پھینک دی بس کو آگ لگ گئی سارے صدر میں بھگدڑ مچ گئی۔
یہی طریقہ بڑے منظم انداز میں سارے شہر میں اختیار کیا گیا اور سارا شہر دنوں نہیں ہفتوں بند رہا۔اس تحریک میں ایک عنصر وہ تھا جو بینکوں اور دکانوں کو لوٹ رہا تھا اور آگ لگا رہا تھا۔ اور سارا شہر خوف و ہراس کی چادر میں لپٹا ہوا تھا اور جلاؤ گھیراؤ کا کام عوام کی اکثریت نہیں بلکہ ''سیاسی کارکنوں'' کی ایک چھوٹی سی تعداد کر رہی تھی چونکہ یہ نیک اور جمہوری کام انتہائی منظم اور منصوبہ بند طریقے سے کیا جا رہا تھا اس لیے سارا ملک اس کی زد میں تھا۔ اور ہر طرف ہڑتال ہی ہڑتال نظر آتی تھی۔ اس غیر منطقی تحریک میں نقصان ہی نقصان تھا تاجر، دکاندار، دیہاڑی والے، مزدور ہفتوں تک نقصان اٹھا رہے تھے لیکن جمہوریت کے ان پرستاروں کو نفع نقصان کی ذرہ برابر پرواہ نہ تھی۔
انھیں اس پریشانی کا ذرہ برابر احساس نہ تھا کہ دکانیں مارکیٹیں بند ہونے سے گھروں کے چولہے بند ہو گئے تھے۔ دیہاڑی دار مزدوروں کے گھروں میں فاقے ہو رہے تھے اور تاجروں، دکانداروں کا بے حد و حساب نقصان ہو رہا تھا۔ دلچسپ بات یہ تھی کہ یہ سب امریکا کی ضد پوری کرنے کے لیے کیا جا رہا تھا خواہ بالواسطہ ہی سہی۔ہم نے 1977ء کی اس انارکی کا مختصر ذکر اس لیے کیا ہے کہ آج فیصل آباد یا کراچی میں ہونے والے ایک روزہ احتجاج کے خلاف آسمان سر پر اٹھانے والوں کی اکثریت ان چھوٹوں کی ہے جن کے بڑے 1977ء کی امریکی تحریک کی قیادت کر رہے تھے جس کے نتیجے میں ملک کو، تاجروں کو، صنعتکاروں کو، اربوں روپوں کا نقصان ہوا۔
عوام ہفتوں اپنے گھروں کے اندر محصور رہے اور ملکی معیشت کا ستیا ناس ہوا۔ فائدہ صرف یہ ہوا کہ 11 سال تک ملک ایک جنونی کے قبضے میں چلا گیا اور امریکا بہادر کی انا کو تسکین حاصل ہوئی۔1977ء کی تحریک، جس میں جانی کے علاوہ بے حد و حساب مالی نقصان ہوا، اس سے عوامی مفادات کا کوئی تعلق تھا نہ قومی مفادات کا۔ یہ تحریک صرف چہروں کی تبدیلی کی تحریک تھی جس میں جمہوریت کے پرستار فوجی آمر کی حکومت کا حصہ بن گئے۔ موجودہ تحریک چہروں کی تبدیلی کی تحریک نہیں بلکہ سسٹم اور ''اسٹیٹس کو'' کی تبدیلی کی تحریک کہی جا رہی ہے۔
اگر یہ دعویٰ درست ہے تو پھر نفع نقصان کا خیال اس لیے بے معنی ہے کہ جس تحریک سے ملک و قوم کا مستقبل بہتر ہو سکتا ہے اس تحریک کے لیے مالی نقصان بے معنی ہوتے ہیں۔ حکمران طبقات اور ان کے پیٹی بند بھائی جس نقصان کی دہائی دے رہے ہیں کیا یہ نقصان ہر روز ہونے والی 7 ارب کی اور عمومی طور پر ہونے والی کھربوں روپوں کی کرپشن سے زیادہ ہو گا؟ اس سوال پر تاجر برادری، صنعتکار طبقے اور دیہاڑی دار طبقے کو غور کرنا چاہیے۔ اور قوم کو ہونے والے مجموعی نفع و نقصان پر نظر ڈالنی چاہیے۔