مصافحہ تو دست ناتواں نے خوب کیا مگر

’’مصافحہ‘‘ہمارےہاں کتنا ہی اہم کیوں نہ ہو لیکن دوسری طرف اس کا سرے سےرواج ہی نہیں ہےبل کہ دورہی سے’’پرنام‘‘ کیاجاتاہے۔

barq@email.com

آخر ہم کسی سے کس بات میں کم ہیں مانا کہ ہم اس کیٹگری کے کالم نگار نہیں جن کی ''ہائی فائی اقسام'' ان دنوں مارکیٹ میں ڈھیروں ڈھیر دستیاب ہیں جن کے کالم ''میں میں'' سے شروع ہو کر ''میں میں'' پر ختم اور اپنے کالموں میں نہایت ہی فدویانہ، خاکسارانہ اور فن کارانہ طریقہ پر اپنے مجاہدانہ کارنامے بیان کرتے ہیں یا بڑے بڑے سلطانوں کے آگے اپنے کلمہ حق بلند کرنے کے قصے سناتے ہیں یا ہفتے میں نو دن غیر ممالک کے دوروں پر یا سفیروں مشیروں اور وزیروں کی صبحت میں رہتے ہیں لیکن پھر بھی کچھ نہ کچھ تو ہیں ''شاہین'' نہیں ہیں لیکن اپنے کنجشک فرومایہ کو شاہین سے لڑوا کر اس کے پر پرزے تو اڑا سکتے ہیں بقول
خوشحال خان خٹک
وہ ہر سو کہ د مغل راتہ ڈنگ ڈنگ دے
زہ ہم خہ یم زما ھم ''برغو'' ترسنگ دے

یعنی ہر چند کے مغلوں کے نقارے بہت ''ڈنگ ڈنگ'' کر رہے ہیں لیکن میں بھی اتنا گیا گزرا نہیں ہوں میری بغل میں بھی اپنا ''برغو'' (سنکھ) ہے، برغو یا سنکھ کسی جانور کی سینگ سے بنا ہوا وہ قرنا جسے پرانے زمانے میں دوران جنگ بگل کی طرح بجاتے تھے ہندی اساطیر میں ''شنکھ'' کی آبی جانور کا خول ہوتا ہے ان دونوں کو بجانے کے لیے بہت زیادہ قوت اور سٹمنا درکار ہوتا ہے جب کہ نقارے بجانا نہایت آسان ہوتا ہے، مطلب یہ کہ اگر آج ''صحافت'' میں ''مصافحے'' کے موضوع پر لوگ بڑے بڑے صفحات سیاہ کر رہے ہیں اور مصافحے کی تاریخ اور جغرافیے سے لے کر اس کے حدود اربعہ اور موسم تک کے بارے میں ''صحف'' رہے ہیں تو خدا نے ہم کو بھی دو ہاتھ ایک زبان اور ایک قلم دیا ہوا ہے اورہم بھی اپنی صحافت میں مصافحے ایک پودا ''مصحف'' عرض کر سکتے ہیں آخر اپنے دور کے انشاء اللہ خان انشاء نہ سہی ''مصحفی'' تو ہم بھی ہیں

مصحفی ہم تو سمجھتے تھے کہ ہو گا کوئی زخم
ترے دل میں تو بڑا کام رفو کا نکلا

دراصل مصافحے یا مصاحف پر اعلیٰ کیٹگری کی جتنی صحافت آج کل اخباروں کے صفحے صفحے پر ہو رہی ہے اس نے ہمیں بھی انگیخت کیا کہ ٹھیک ہے بڑے بڑے ''شغوں اور تکون'' جتنی اونچی ڈشیں تو ہم تیار نہیں کر سکتے ہیں لیکن کچھ دال ساگ کا اہتمام تو کر ہی سکتے ہیں بلکہ آپ یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ مصر کے بازار میں ہم جواہرات اور سیم و زر کی تھیلیاں تو نہیں رکھتے ہیں لیکن ایک ''سوت کی انٹی'' تو ہمارے پاس بھی ہے یوسف نہ بھی ملے تو خریداروں کی فہرست میں اپنا اندراج تو کر لیں گے کل کلاں کو ہمارے پڑھنے والے بھی چار لوگوں میں بیٹھ کر کہہ سکیں گے کہ مصافحے پر صحافت کے صفحے پر ہم بھی ''صحفے'' ہیں

کچھ تو لکھئے کہ لوگ کہتے ہیں
آج غالب ''صحف'' سرا نہ ہوا

ہماری طرح چوں کہ ہمارے پڑھنے والے بھی خدا کے سادہ دل بندے ہیں اس لیے صحافت، سیاست اور ساہ ست کے اسرار و رموز سے زیادہ واقف نہیں ہیں، خاص طور پر ''مصافحے'' کی اہمیت اور قدر و قیمت تو بالکل نہیں جانتے ورنہ یوں بات بات پر ہر کسی سے ۔۔۔۔ حتیٰ کہ سیاسی لیڈروں تک ''مصافحہ'' نہ کرتے پھرتے، حالاں کہ مصافحاتی ادب کے سب سے بڑے دانشور احمد فراز نے سمجھایا بھی ہے کہ

دوست ہوتا نہیں ہر ہاتھ ملانے والا
پرانے زمانے میں مصافحہ بلکہ معانقہ تک کوئی خاص چیزیں نہیں تھیں لوگ بے خیالی میں بھی ایسے ایسے لوگوں سے مصافحے اور معانقے تک کر لیتے تھے جن کو جانتے تک نہیں ہوتے تھے بلکہ دور کیوں جائیں ہم نے خود کئی بار ایسی سرکاری تقریبات میں جہاں مہمان خصوصی وزیر امیر یا شہیر ہوتے تھے ایسے ایسے لوگوں سے مصافحے اور معانقے کیے ہیں کہ اگر وہ ہماری آنکھوں اور ہم ان کی آنکھوں میں دیکھ لیتے تو چاروں آنکھوں میں ایک دوسرے کے لیے خون کی پیاس صاف نظر آجاتی لیکن زمانے نے بڑی ترقی کر لی ہے دنیا بیت الخلاء سے لیٹرین، غسل خانے باتھ روم سے ہوتے ہوئے ''واش روم'' تک آپہنچی، پرانے لوگ سینما فلم یا بائیسکوپ یا فلم دیکھتے ہیں آج کل ''مووی'' دیکھ رہے ہیں تجارت بیوپار اور دکانداری نے ترقی کر کے ''سیاست'' کی شکل اختیار کر لی ہے۔

صحافی اور اخبار نویس آج کل جرنلسٹ تجزیہ نگار اور دانشور کہلاتے ہیں، کالے چوروں یعنی بلیک میلروں کو آج کل ''رہنماء'' کہا جاتا ہے، شورش اور فتنہ و فساد کو انقلاب اور دھرنا کہا جانے لگا ہے، اس لیے ''مصافحہ'' بھی صرف وہی دو ہاتھوں کے ملن والا مصافحہ نہیں رہا ہے بلکہ ایک بہت بڑا دھماکا ہو گیا ہے۔ مصافحے کی شکل کے دھماکے پاکستان نے دو مرتبہ کیے ہیں ٹھیک ویسے ہی جیسے امریکا نے جاپان پر ایٹم بم گرائے تھے یا پاکستان نے چاغی میں دھماکے کیے تھے، ہمیں یاد آیا کہ ایک مصافحہ کئی سال پہلے مرد آہن جنرل پرویز مشرف نے اپنا ''آہنی ہاتھ'' باجپائی کے لجلجے ہاتھ سے ملایا تھا جسے اس مصافحے کو پاکستان کی صحافت نے پاکستان کی عظیم الشان اخلاقی سیاسی اور سفارتی فتح عظیم سے تعبیر کیا تھا کیونکہ جنرل مشرف اس وقت ''باوردی'' بھی تھا اور ''بارودی'' بھی، لیکن صرف خبر ہی گرم ہوئی تماشا کوئی نہ ہوا، دراصل ہماری نگاہ کچھ موٹی اور سرسری سی ہے۔


اس لیے قطرے میں دجلہ دیکھ نہیں پاتے لیکن نکتہ رس نکتہ شناس اور نکتہ آفریں ''دانشوروں'' نے بھی اس ''جزو'' میں ''کل'' دیکھ لیا تھا اور لگے مصافحے کی صحافت میں صحف سازی کے مظاہرے کرنے، اب یاد نہیں کہ وہ پہلا پہلا پیار پہلا پہلا نشہ یا پہلا پہلا ''خمار'' بھی اسی نیپال میں ہوا تھا یا کہیں اور ' لیکن وہ مصافحہ بھی ''باجپا'' کے ساتھ تھا اور یہ بمقام نیپال والا مصافحہ بھی ''واجپا'' کے ساتھ ہوا ہے، لیکن یہ سارے صفحے صفحے کے صحافی بھول جاتے ہیں کہ ''مصافحہ'' ہمارے ہاں کتنا ہی اہم کیوں نہ ہو لیکن دوسری طرف اس کا سرے سے رواج ہی نہیں ہے بل کہ دور ہی سے ''پرنام'' کیا جاتا ہے جو خوش آمدید اور خدا حافظ دونوں کا اظہار ہوتا ہے۔

اس پر ہمیں پشتو کی ایک کہاوتی کہانی یاد آتی ہے کہ ایک دیہاتی نے مسجد میں مولوی صاحب سے ''سلام'' کی بڑی فضلیت سنی اور بتایا کہ جو سلام کرنے میں پہل کرتا ہے اسے ثواب دارین حاصل ہوتا ہے، ''دیہاتی'' نے سوچا کوئی اور کام تو ثواب کا مجھ سے ہو نہیں سکا ہے چلو سلام کرنے میں ہمارا کیا جاتا ہے مولوی صاحب سے اس نے ''السلام علیکم'' کی پوری قرأت بھی سیکھ لی، پہلا شخص جو نظر آیا دیہاتی نے سلام ٹھونک دیا اس شخص نے کوئی تعرض نہیں کیا تو اس نے والیوم بڑھا کر ''السلام علیکم'' خوب زور سے مار دیا دوسرے شخص نے پھر بھی کچھ نہیں کہا تو اس نے سوچا کہ شاید کچھ اونچا سنتا ہو گا اس لیے پوری شد و مد کے ساتھ سلام کیا۔

دوسرا شخص جو بدقسمتی سے ہندو تھا کچھ بھی سمجھ نہیں پایا لیکن اتنا سمجھ گیا کہ یہ شخص مجھ سے کچھ کہنا چاہتا ہے اس لیے دونوں ہاتھ جوڑ کر پرنام کیا، دیہاتی کو بڑی کوفت ہوئی پہلا فائر ہی خطا ہو گیا تھا چناں چہ وہ لوگوں کو اکثر اپنی بدقسمتی کے بارے میں بتاتا تھا کہ ہم نے سلام کیا اور وہ کم بخت ہندو نکلا، اس کے بعد پشتو میں یہ ایک مشہور کہاوت بن گئی کہ جو بھی کوئی لاحاصل کام کر لیتا ہے توقعات تہس نہس ہو جاتی ہیں اور امیدیں پوری نہیں ہوتیں، تو یہی کہا جاتا ہے کہ ہم نے سلام بھی ڈالا تو ہندو پر

ہم کو ان سے وفا کی ہے امید
جو نہیں جانتے وفا کیا ہے

ایک تو یہ ہندو بچے ویسے ہی گانٹھ کے پکے ہوتے ہیں اوپر سے ہم بھی میر تقی میر سے زیادہ خوش فہم ہیں کہ اسی عطار کے لونڈے کے پاس علاج کرانے جاتے ہیں جو ہمارے سارے امراض کی جڑ ہے، دراصل ہم کچھ زیادہ ہی رجائی ہیں اوباما کے ایک فون پر لاج کے مارے سرخ ہو جاتے ہیں یعنی

بک جاتے ہیں ہم آپ متاع سخن کے ساتھ

لیکن عیار طبع خریدار کو دیکھے بغیر ہی ریشہ خطمی ہو جاتے ہیں پہلے ہم نے بھی سوچا کہ چلو تم ادھر کو ' ہوا ہو جدھر کی ' یعنی جب سارے صحافی دانشور یعنی شاعر و صورت گر و افسانہ نویس مصافحہ مصافحہ کر رہے ہیں تو چلیے ہم بھی مصافحے کی رائی کو پہاڑ بنا ڈالتے ہیں، لیکن برا ہو اپنی اس قنوطی طبیعت کا کہ ایک مصافحے کے بخیے سے وہ چاک کیسے سل پائیں گے جو ہمارے گریباں سے دامن تک لٹک رہے ہیں، غالب نے کہا تھا کہ

نکالا چاہتا ہے کام کیا طعنوں سے تو غالب
ترے بے مہر کہنے سے وہ تجھ پر مہربان کیوں ہو

اور پھر مصافحے کے لیے دونوں ہاتھوں کا بھرپور گرم جوش اور مضبوط ہونا بھی تو ضروری ہوتا ہے اگر ایک ہاتھ ''من'' بھر کا ہو اور دوسرا چھٹانک بھر کا ہو تو اس ہاتھ کے پیچھے سوا ارب کی طاقت ہے اور اس ہاتھ میں دھرنوں اور انقلابوں کی لرزش اور رعشہ

وحشت میں کوئی ساتھ ہمارا نہ دے سکا
دامن کی فکر کی تو گریباں نکل گیا
Load Next Story