فنکار گلی

اکثر فلموں میں اور اسٹیج ڈراموں میں یہ جملہ بڑا استعمال ہوتا رہا ہے نکل جا پتلی گلی سے۔


یونس ہمدم December 13, 2014
[email protected]

اکثر فلموں میں اور اسٹیج ڈراموں میں یہ جملہ بڑا استعمال ہوتا رہا ہے نکل جا پتلی گلی سے۔ آج میں ایک ایسی ہی پتلی گلی کا احوال بتاؤں گا اور اس پتلی گلی سے متعلق کچھ یادیں تازہ کروں گا اس پتلی گلی کو ''فنکار گلی'' بھی کہا جاتا ہے۔ ریڈیو پاکستان کراچی کی خوبصورت عمارت جو بندر روڈ پر واقع ہے اس عمارت سے ملحق ایک پتلی سی گلی ہے جس میں کسی بھی گاڑی کا کم ہی گزر ہوتا ہے اور اگر کوئی ایک گاڑی اس گلی میں آجاتی ہے تو پھر دوسری گاڑی کا گزرنا مشکل ہوجاتا ہے۔

یہی گلی ''فنکار گلی'' کے نام سے بڑی شہرت رکھتی ہے اور اس گلی میں بڑے بڑے نامور فن کاروں نے اپنی زندگی کے گمنامی کے دن دیکھے ہیں اور اس گلی میں کھڑے کھڑے اپنے حسین مستقبل کے خواب بنے ہیں۔ ریڈیو اسٹیشن کے بڑے گیٹ سے یہ گلی شروع ہوتی ہے اور گلی کی ابتدا ہی میں بائیں طرف موسیقی کے پرانے اور ٹوٹے پھوٹے آلات ٹھیک کرنے کی دکان بھی رہی ہے۔ جہاں بہت کم معاوضے میں موسیقی کے سازوسامان کی مرمت کی جاتی تھی۔

جن میں ہارمونیم، طبلہ، ڈھولک، بانسری، تان پورا، مینڈولن اور سر منڈل تک ہر ساز کو سدھارا جاتا تھا۔ اور یہاں بڑے بڑے فنکار اپنے سازوں کی درستگی کے لیے آتے تھے اسی دکان پر ایک نوجوان ساز ٹھیک کرتے کرتے اپنے بڑھاپے تک پہنچ گیا تھا زیادہ تر فنکار اسے بھائی میاں کہہ کر پکارتے تھے۔ اور ان صاحب کی تمام نامور فنکاروں سے بڑی بے تکلفی ہوگئی تھی۔

اسی گلی کے بائیں طرف آخر میں ایک غریبانہ قسم کی ہوٹل بھی تھی جہاں دن بھر فنکاروں کا ہجوم رہتا تھا۔ ادھار چائے اور کھانا بھی مل جایا کرتا تھا پھر جب کسی فنکار کو کوئی اچھا فنکشن مل جاتا تھا تو وہ اپنا سارا ادھار بھی اتار دیا کرتا تھا اس ہوٹل کا اپنا تو کوئی نام نہیں تھا مگر اسے 'فنکار ہوٹل' کہا جاتا تھا چھوٹے موٹے فنکاروں کی شام کو ملاقات بھی اسی فنکار ہوٹل میں ہوا کرتی تھی۔ شادی بیاہ کے فنکشنوں میں B کلاس اور سی کلاس کے فنکاروں کی اسی فنکار ہوٹل سے بکنگ بھی ہوجاتی تھی۔

ساز بجانے والوں سے لے کر گیت اور غزل گانے والے ہر کیٹیگری کے فنکار اسی گلی میں کھڑے ہوئے یا فنکار ہوٹل میں بیٹھے ہوئے ملتے تھے۔ اسی گلی کے آس پاس چند فنکاروں کی ہنڈا ففٹی اور یاماہا موٹر سائیکلیں بھی کھڑی ہوتی تھیں اور تالوں سے بے نیاز ہوتی تھیں کیونکہ اس زمانے میں چوری چکاری کا رواج عام نہیں ہوا تھا کبھی کبھی شام کو اسی فنکار گلی کے نکڑ پر چند ایک بڑے فنکاروں کی گاڑیاں بھی نظر آجاتی تھیں اور وہ رات دس بجے موسیقی کے آخری پروگرام کے ختم ہونے کا انتظار کرتے تھے۔ اور پروگرام کے بعد اپنے من پسند طبلہ نوازوں کو ساتھ لے کر اپنے رات کے فنکشنوں کی محفلوں کو سجاتے تھے۔

میں نے اسی فنکار گلی کے نکڑ پہ ساز ٹھیک کرنے والے بھائی میاں کی دکان پر مہدی حسن، استاد امراؤ بندو خان، نہال عبداللہ، مشہور طبلہ نواز استاد نتھو خان(جاوید اللہ دتہ اور قمراللہ دتہ کے والد) بھی اکثر آتے تھے اور فالتو وقت میں یہاں گپ شپ کیا کرتے تھے اور اپنے ساز بھی ٹھیک کرواتے تھے اس دکان پر داس کے ہارمونیم اور پرانے طبلوں کی خریدوفروخت بھی ہوتی تھی۔ اسی فنکار گلی میں مشہور گلوکار احمد رشدی، ایم ۔کلیم اور ایس۔جی جون بھی اپنے پرستاروں کے درمیان گفتگو کرتے ہوئے نظر آتے تھے۔ اسی فنکار گلی سے موسیقی کی محفلوں کے لیے تحسین جاوید، حسن جہانگیر، محمد علی شہکی، ایم افراہیم اور گلوکار اخلاق احمد کی تلاش رہتی تھی۔

جس طرح سورج ڈوبنے کے بعد آسمان پر ستارے روشن ہوجاتے ہیں اسی طرح ہر شام اس فنکار گلی میں چھوٹے بڑے فنکاروں کی آمد ہوتی تھی اور یہ فنکار رات گئے تک اسی گلی میں اٹکھیلیاں کرتے نظر آتے تھے بعض اوقات فائیو اسٹار ہوٹلز اور ڈیفنس کے علاقے میں بڑے بڑے فنکشنوں کے لیے اسی فنکار گلی سے فنکار اٹھائے جاتے تھے ۔ اس فنکار گلی کا لاہور کے فنکاروں میں بھی بڑا چرچا تھا۔ جب کبھی لاہور سے نامور غزل گائک غلام علی، شوکت علی، فریدہ خانم اور تصور خانم کراچی آتی تھیں تو وہ ریڈیو پاکستان بھی ضرور آتی تھیں۔

ان لاہور کے فنکاروں کے کراچی ریڈیو سے بھی پروگرام ہوا کرتے تھے۔ اور ان دنوں فنکارگلی کا حسن دوبالا ہوجاتا تھا، ان بڑے بڑے فنکاروں کو دیکھنے کے لیے فنکارگلی کے آس پاس، پرستاروں کی بھی ایک بھیڑ جمع ہوجاتی تھی اور اکثر بڑے بڑے فنکار اپنی گاڑیوں سے اتر کر اپنے پرستاروں کو آٹو گراف بھی دیا کرتے تھے۔ اسی فنکار گلی سے موسیقی سے تعلق رکھنے والے فنکاروں کے علاوہ کراچی، اسٹیج اور ٹی وی کے فنکاروں کی بھی بہت سی پرانی یادیں جڑی ہوئی ہیں، بے شمار فنکاروں کی ابتدا اسی فن کار گلی میں آمد سے ہوئی۔ اور ملک کے بیشتر نامور فنکاروں جیسے معین اختر، عمر شریف، خالد نظامی، فرید خان، ماجد جہانگیر، شہزاد رضا، رزاق راجو، لیاقت سولجر اور اسمٰعیل تارا جیسے اسٹیج کے فنکاروں کے بے شمار شب و روز اسی فنکار گلی میں گزرے ہیں۔

اسی گلی کے ہوٹل میں برسوں وہ ''کڑک چائے'' پیتے رہے ہیں، کھانے میں سستے میں سستی چنے کی دال اور قیمہ گھٹالہ کھاتے رہے ہیں، ان میں کئی فنکار تو ایسے ہیں جنھیں نہ صرف سارے پاکستان میں بے پناہ عزت، شہرت نصیب ہوئی بلکہ معین اختر، عمر شریف جیسے فنکاروں کو ہندوستان کے لوگوں نے بھی اپنے سروں پر بٹھایا دلیپ کمار جیسے انڈیا کے سپر اسٹار نے معین اختر کو جب اپنے گھر دعوت دی تو وہ خود معین اختر کو گھر کے دروازے پر ریسیو کرنے آئے ۔

اس فنکارگلی کی ہارمونیم کی دکان پر کھڑے رہنے والے گلوکار مہدی حسن کو جب قدرت نے شہرت کے آسمان پر پہنچادیا اور جب ان کی گائی ہوئی غزل ''گلو میں رنگ بھرے باد نو بہار چلے'' کی برصغیر میں دھوم مچی تو مہدی حسن کو دیکھنے کے لیے اسی فنکار گلی میں پرستاروں کا ایک ہجوم جمع ہوجاتا تھا۔ اور لوگ اپنے پسندیدہ غزل سنگر مہدی حسن کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے بے قرار رہتے تھے۔ جب محمد علی حیدرآباد سے کراچی آئے اور انھیں فضلی صاحب نے اپنی فلم ''چراغ جلتا رہا'' میں کاسٹ کیا تو فلم کی نمائش کے بعد فلم کے ہیرو عارف تو گمنامی میں چلے گئے مگر سائیڈ ہیرو محمد علی اپنی فنکارانہ صلاحیتوں کے طفیل شہرت کی بلندیوں پر آگئے۔

پھر جب محمد علی ریڈیو اسٹیشن آتے تھے تو ریڈیو کی عمارت کے باہر فنکار گلی تک لوگوں کا ٹھٹ ٹھٹ جمع ہوجاتا تھا۔ اور ریڈیو پاکستان کے باہر سیکیورٹی اسٹاف کے ساتھ پولیس بھی کھڑی کردی جاتی تھی۔محمد علی ریڈیو کی عمارت سے باہر آتے تھے تو پرستاروں کی آنکھیں اداکار محمد علی کے لیے فرش راہ ہوجاتی تھیں۔ اس فنکار گلی میں فن کے کیسے کیسے نگینے نظر آتے رہے ہیں۔ گمنامی اور شہرت، فاقہ کشی اور دولت مندی کی بے شمار کہانیاں اس فنکار گلی سے وابستہ ہیں۔ کراچی اک ہر بڑا فنکار اس فنکار گلی کا کسی نہ کسی طرح ایک حصہ رہا ہے اور اس فنکار گلی میں بے شمار عظیم فنکاروں کا ماضی چھپا ہوا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔