سوبھو اور صبح
دس دسمبر سے بڑا دن دنیا بھر کے لیے کوئی بھی نہیں جب عزم دہرایا جاتا ہے کہ انسان ایک آزاد شہری ہے۔
عجیب ہے یہ دسمبر کا مہینہ، ہم کم نصیبوں کے لیے موسم کے اعتبار سے اچھا مہینہ، چھوٹے دن اور بڑی راتیں، بہت سے باتیں جو گرد کی چادر اوڑھ کر کھلے میدان میں کچھ لکڑیاں جلاکر یاروں سے بیٹھ کر کی جاتی ہیں، مگر جب بھی آیا کچھ نہ کچھ چرا کے لے گیا، کبھی میرا شیخ ایاز، کبھی بے نظیر، کبھی سرمد (گلوکار) تو کبھی کامریڈ سوبھو گیان چندانی۔ یوں گماں ہوتا ہے کہ اب کی بار جب بھی آئے تو میں دروازے کی چوکھٹ بند کردوں اور اسے آنے نہ دوں۔
یہ خوبصورت چالاک مکار بھی ہے کہیں ہوا اور چرا کے نہ لے جائے۔ اور پھر سے میں غم سے چور و نڈھال بستر پکڑ کر کمبل اوڑھ کر رونے بیٹھ جاؤں۔ آپ کے لیے سوبھو سندھ کی بات ہوگی، برصغیر کا افسانہ ہوگا، میرے لیے یہ گھر کی بات ہے۔ بڑی آپا سے بہت سنا ہے کہ کیسے وہ انڈر گراؤنڈ ہوا تھا جب راولپنڈی سازش کیس کے زمانے تھے، اور آکر ہمارے گھر میں پناہ لی، بڑی آپا کے ذمے تھا سوبھو کی دیکھ بھال کے وقت سے اسے کھانا چائے وغیرہ ضرور پہنچے۔
بڑی آپا کو سوبھو نے اپنی بیٹی بنا دیا اور رشتہ آخر تک قائم رہا۔ جب شیخ عبدالمجید سندھی جس سندھ محاذ پارٹی کے صدر تھے تو اس کے جنرل سیکریٹری قاضی فیض محمد تھے یہ وہ زمانے تھے جب حاکم علی زرداری بھی براہ راست نہ سہی بالواسطہ اس کی حمایت کرتے تھے مگر سیاسی افق پر اتنا نام نہیں تھے جب سوبھو نوابشاہ سے 1953 کے صوبائی الیکشن میں سندھ محاذ کی نشست سے کھڑے ہوئے تھے تو ہمارا گھر ان کے الیکشن کا مرکز تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب سندھ کے وڈیروں نے ابھی اتنا گٹھ جوڑ نہیں بنایا تھا۔ سوبھو تو خیر اس الیکشن میں ہار گئے مگر قومی محاذ نے کچھ نشستیں جیتی تھیں۔
یوں نہ تھا یہ دسمبر کچھ چرا کے لیے گیا، اس میں اوسلو میں جب برصغیر کے محکوموں کی آوازیں دنیا نے سن لیں، عالمی ضمیر جب جاگ اٹھا۔ جب سرحدیں امن کی بہتی گنگا میں ثانوی پڑ گئیں جب سندھو اور گنگا کے پانی نے ملالہ اور کیلاش بابو کو ایک کردیا۔ اس بار جب خزاں دسمبر میں اپنے تازیانے لائی تو شاہ لطیف کا عرس بھی تھا، صوفی شاہ عنایت تو داتا گنج بخش کا بھی۔ شاہ عنایت صوفی دہقانوں کی تحریک کے علمبردار تھے۔ ابھی جب کارل مارکس پیدا بھی نہیں ہوئے تھے اس سے پہلے، پیرس کمیون کے انقلاب سے پہلے، برصغیر میں سب سے پہلے کمیون انقلاب کی کسی نے بات کی تھی تو وہ شاہ عنایت صوفی تھے۔
یہ سب انسانی حقوق کا نعرہ لگایا ۔ دس دسمبر سے بڑا دن دنیا بھر کے لیے کوئی بھی نہیں جب عزم دہرایا جاتا ہے کہ انسان ایک آزاد شہری ہے ریاست اس کی آزادی کے تابع ہے ناکہ ریاست کے وہ زیر ہے۔ وہ مجرم ہے تو اسے قانون کے کٹہرے میں لاؤ اور ایسے قوانین بناؤ جو اقوام متحدہ کے مانے ہوئے بنیادی حقوق سے متصادم نہ ہوں ۔ سوبھو اس صبح کی خاطر جیتے اور مرتے رہے۔ میں نے پہلی مرتبہ اسے انجمن ترقی پسند مصنفین کی گولڈن جوبلی کانفرنس میں دیکھا تھا غالباً1985 کا زمانہ تھا۔
اتنے بڑے نام دیکھے، سبط حسن، حبیب جالب، اصغر علی انجینئر، بہت سے ہندوستان سے بھی آئے تھے، جب میں نے سوبھو کو اپنا تعارف کرایا تو بغل گیر ہوگئے اور پھر یوں سوبھو سے ایک تعلق رہا۔ جب ابا کی سوانح حیات چھپوانے کے زمانے آئے تو سوبھو سے اس کا تعارفی صفحہ لکھوایا تو خود والد کی برسی کی صدارت کرنے پر اپنے لیے اسے اعزاز سمجھا۔ ابا کمیونسٹ نہ تھے مگر کمیونسٹوں سے روادارانہ طور پر وابستہ تھے ۔ ایک ایسا دور بھی آیا کہ ہاری کمیٹی چھوڑ کر اپنی جدا اصلاحی ہاری کمیٹی بنائی اور پھر واپس آگئے اور کہنے لگے کہ یہ کمیونسٹ اللہ کے بندوں سے پیار کرتے ہیں اور یقیناً اللہ کے پیارے بندے ہیں۔
آج سندھ میں کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ سوبھو دیہانت کرگئے اور مجھ جیسے لوگ کہتے ہیں کہ سوبھو رحلت کرگئے، مگر سوبھو تو ایسے نہیں کہتے تھے۔ وہ ایک انسان تھے اور انسان ہونے میں وہ پاکستان تو کیا برصغیر سے بھی وسیع تناظر میں دیکھتے تھے۔ یہ جی ایم سید کے بھی ہم عمر تھے تو شیخ ایاز و حیدر بخش جتوئی کے بھی مگر ہندوستان سے آئے ہوئے ترقی پسند لوگوں میں جیساکہ سجاد ظہیر ، امام علی نازش ہوں یا اور بہت سے سرخ انقلاب سے جڑے ہوئے لوگ ۔ڈاکٹر ہارون ہوں، پروفیسر جمال نقوی ہوں، سوبھو سے سب بہت قریب تھے۔
ابھی چند مہینے پہلے جب سندھ میں مندر توڑنے کی رسم چلی اور انتہا پرستی صوفیوں کی اس زمین پر گل کھلانے لگی ، جب لاڑکانہ کا مندر ٹوٹا تو مجھ سے رہا نہ گیا ، یار لوگوں کو راضی کرکے ہم جاکے سوبھو کے دیس پہنچے کہ ہم اقلیت کو لگتی ہوئی اس آگ پر اپنا بھرپور موقف پیش کر سکیں، ان کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرسکیں اور ان کا اعتماد بحال کرائیں ۔ میرے دل میں شاید بات اس سے بھی بڑی تھی، یوں لگتا تھا کہ کوئی بہانہ بنے، کسی نہ کسی طرح میں سوبھو کے پاس پہنچ جاؤں ان کی عمر 85 برس تھی، وہ بیمار بھی رہنے لگے تھے اس کا بیٹا میرا بھی دوست تھا، جب خودکشی کی تو نہ جاسکا۔ جب سوبھو کی زوجہ کا دیہانت ہوا میں نہیں گیا۔
وہ اکثر کہتے گلہ شکوہ بھی کرتے کہ میں اپنے ابا کے یاروں کو بالکل بھول گیا ہوں۔ میں نے اس مرتبہ جب سوبھو کو دیکھا تو اس کا حافظہ شاید اتنا مضبوط اب نہیں رہا تھا۔ میں نے ان کے پاؤں چھوئے والد سمجھ کر ہاتھ چومے۔ کیا خبر تھی کہ یہ اس سے میری آخری ملاقات ثابت ہوگی۔ ایک خلش سی رہ گئی کہ سوبھو کو میں اتنا نہیں مل پایا جتنا میرا دل کہتا تھا اور اس کا حق بھی تھا۔ ملا بھی تو ایک ایسی نسبت سے کہ ایک پشیمانی تھی ، سوچتا رہا کہ اس سندھ میں اب ہندوؤں کے لیے رہا کیا ہے۔ کبھی رنگل کماری، کبھی انجلی اور کبھی کولہی، میگھواڑوں کی لڑکیاں، جب فاقے آئے تو وہ بھی ان کے لیے اور آج پورا تھر ان کی امواتوں سے بھرا پڑا ہے۔
ان کی خواہش یہ تھی کہ میں اپنے والد کی طرح ان محکوموں کے لیے آگے آؤں، مگر میں صرف ایک چھوٹا سا قلم پکڑ سکا اور باقی جو مجھے کرنا تھا وہ نہ کرسکا۔ یوں تو کسی اور کے لیے قدرے آسان ہو سوبھو کے لیے لکھنا لیکن میرے لیے بہت ہی مشکل ہے ۔ کام عشق کے آڑے آتا رہا اور عشق کام سے الجھتا رہا۔ ایک طرف یہ برصغیر کی شخصیت اور دوسری طرف میرا ان سے جذباتی لگاؤ۔
بہرکیف بڑے سالوں کے بعد سندھ میں ایک ایسی موت واقع ہوئی جس نے پورے سندھ میں غم کی لہر دوڑا دی ۔ سندھ کے دانشور طبقے کے لیے یہ موت شیخ ایاز کے بعد دوسری بڑی موت ہے ۔ شیخ ایاز سے سوبھو کی بہت جگری یاری تھی ۔
واحد شاگرد تھے جو سندھ سے بہت دور کلکتہ رابندر ناتھ ٹیگور کے شانتی نکیتن پڑھنے گئے تھے، جب نہرو کو اپنی بیٹی یورپ بھیجنے سے بہتر لگا کہ اسے رابندر ناتھ ٹیگور کے پاس بھیج دے۔ رابندر ناتھ کے والد کا نام اربندر ناتھ تھا اور ان کے والد کے والد کا نام دبیندر ناتھ تھا۔ فلسفہ ان کے گھر کی یوں کہیے تلسی تھی۔ یہ لوگ دراوڑ تھے یعنی ہزاروں ماہ پہلے موئن جو دڑو کے مکین تھے ۔
1920 کا پیدا ہوا سوبھو جب آنکھ کھولتا ہے تو بالکل دو میل کے فاصلے پر موئن جو دڑو کے کھنڈرات دریافت ہوئے تھے ۔ یہ خبر سوبھو کے لیے حیران کن تھی۔ وہ موئن جو دڑو اپنی آنکھوں میں سما کے بیٹھ گیا تو رابندر ناتھ جب بھی اسے بلاتے تو موئن جو دڑو کے شخص کہہ کر چلاتے اور پورا لاڑکانہ جب بھٹو بھٹو ہوگیا مگر سوبھو نہیں ہوا وہ اپنی شناخت آخیر تک قائم رکھ کر بیٹھا رہا ۔ جیل کی صعوبتیں کاٹیں، زیر زمین ہوا، گھر میں نظر بند بھی، مگر جلاوطن ہونے سے ہمیشہ کترایا ۔
یوں گمان ہوتا ہے جیسے سوبھو کے جانے سے وہ سارے باب بند ہوئے جنھیں ہم ابھی تک کھلا ہوا محسوس کرتے تھے کہ جیسے ایاز اب شعر لکھتے لکھتے سو گیا۔ وہ کامریڈ حیدر بخش جتوئی دہقانوں کی بیل گاڑیوں پر سفر کرتا کرتا نہ جانے کہاں کو چل دیا کہ جیسے سبط حسن نے اب کے ماضی کے مزار میں اپنے آپ کو سمو دیا، سجاد ظہیر چلے گئے ، امام علی نازش کھانستے کھانستے کمبل اوڑھ بیٹھے ، ایک پوری صدی سوبھو اپنے ساتھ لے گیا، دہقانوں کی تحریک، سندھ کے شاگردوں کی تحریک، بٹوارے میں ہجرت کا درد اور مجھ بدنصیب سے یہ احساس بھی لے گئے کہ میرے والد سوبھو کی شکل میں زندہ ہیں اور اگر فیض صاحب ہوتے تو میرے اس رنج کو اس طرح سموتے۔
مجھ کو شکوہ ہے مرے بھائی کہ تم جاتے ہوئے
لے گئے ساتھ میری عمر گزشتہ کی کتاب
اس کے بدلے مجھے تم دے گئے جاتے جاتے
اپنے غم کا یہ دہکتا ہوا خوں رنگ گلاب
آکے لے جاؤ تم اپنا یہ دمکتا ہوا پھول
مجھ کو لوٹا دو مری عمر گزشتہ کی کتاب
وہ بھائی نہیں تھے چچا تھے میرے، رہبر بھی تھے تو استاد بھی تھے اور ایسے ہزاروں آپ کو اس سندھ میں ملیں گے جو اس رشتے سے سوبھو سے جڑے ہوئے تھے ۔ یقیناً ہم سب اس غم میں کبیر کے کاٹھ کی مالا کی طرح پروئے ہوئے ہیں ۔