ثبات اک تغیر کو ہے

تبدیلی ناگزیر ہے یہ ظالمانہ نظام اور استحصالی قوتیں یقینا اپنے انجام سے دوچار ہوں گی۔

ترقی کے بے پناہ امکانات، بے شمار قدرتی وسائل کی ملک گیر موجودگی کے باوجود ایک روبہ زوال نظام حکومت کی طرف گامزن ریاست اور حکمرانوں کی یکے بعد دیگرے ناکامیوں کا سبب ان کی نااہلی، بد دیانتی اور مفاداتی سیاست کے علاوہ اور کیا ہوسکتا ہے؟ رہے عوام تو ان کی خوئے غلامی (قوت برداشت) کا پیمانہ اب لبریز ہونے کو ہے۔ تازہ سیاسی ابھار ان کی اس خواہش کا بے پناہ اظہار کرتا ہے کہ وہ اس نظام کہنہ سے بے زار اور ایک ایسے نظام حکومت کے آرزو مند ہیں جہاں ان کی زندگیاں ایسے معاشی اور سیاسی نظام کے تابع ہوں جو آزادی افکار، معاشی جد وجہد میں برابری اور ہر شعبۂ زندگی میں انصاف کا علم بردار ہو۔

پاکستانی معاشرے میں جاری جاگیرداری، سرداری، مذہبی، فرقہ پرستی، لسانی اورگروہی درجہ بندی نے جو افراتفری، انتشار اور کرپشن کے پہاڑ کھڑے کردیے ہیں اس نے معاشرتی روایات، رسوم و رواج اور باہمی بھائی چارے کی دھجیاں بکھیر کر رکھ دی ہیں۔ حکمران اشرافیہ کی مضبوط گرفت کے سائے میں یہ عفریت جس طرح روبہ عمل ہیں کیا اس کا سد باب صرف عوامی بیداری اور بڑھتے ہوئے سیاسی شعور سے کیا جاسکتا ہے؟ بلاشبہ عمران خان اور علامہ طاہر القادری نے اس عوامی بیداری اور نظام کہنہ کے جمود کو توڑنے میں اور عام آدمی کے سیاسی شعور میں اضافہ کرنے میں ایک بڑا کردار ادا کیا ہے مگر کیا وہ اس کوہ گراں کی چوٹی کو صرف اپنے جذبوں اور عوام کے بے ضابطہ ہجوم کے ساتھ سر کرسکیں گے؟

تاریخ بتاتی ہے کہ ایک نظام کہنہ کوگرانے اور نئے ترقی یافتہ معاشرے کو قائم کرنے کے لیے مخلص، بے خوف اور بے لوث کارکنوں کی منظم پارٹی جو بھرپور عوامی جد وجہد کو چلانے اور آگے بڑھانے کی صلاحیت رکھتی ہو اور عوامی امنگوں اور صلاحیتوں کو استعمال کرنے کی مہارت رکھتی ہو خشت اول کی حیثیت رکھتی ہے، اس کے علاوہ ایک مربوط اور شفاف انتظامی اور شعبہ جاتی ادراک کی حامل متبادل انتظامیہ جس کے سامنے درجہ بہ درجہ تبدیلی اور قومی اور بین الاقوامی قوتوں کے ساتھ اشتراک عمل اور قومی مفاد کی اولیت کے ساتھ ساتھ دیگر شعبہ جات میں معروضی حقائق کی روشنی میں تبدیلی کو روبہ عمل لاسکنے کی قوت عمل ہو کیوں کہ موجودہ نظام کے علمبرداروں نے ہر شعبہ زندگی میں جو بگاڑ خوفناک حد تک پیدا کردیا ہے اسے صرف صحیح راستے پر لانے اور نئے نظام کی ابتدا کرنے کے لیے بہت بڑی اور طویل منظم جد وجہد کی ضرورت ہے۔

تبدیلی ناگزیر ہے یہ ظالمانہ نظام اور استحصالی قوتیں یقینا اپنے انجام سے دوچار ہوں گی، لوٹ کھسوٹ کا یہ نظام تا دیر نہیں چل سکتا، تاریخ کا سفر جاری رہتا ہے۔

ثبات اک تغیر کو ہے زمانے میں


مگر وہ سیاہ بخت جو اس نظام کو قائم اور اپنے مضموم مقاصد کو تادیر قائم رکھنا چاہتے ہیں وہ آخری حربوں تک اپنے مفاد میں ناجائز طریقوں سے اپنی بقا کی جد وجہد میں مصروف رہتے ہیں۔ اس کا توڑ صرف ایک بے لوث، مجاہدانہ اور انتھک منظم جد وجہد کے ساتھ آخری دم تک، فتح یابی تک جدوجہد کرتے رہنا ہے جس میں مزدور، کسان، دانشور، قومی سرمایہ دار اور درمیانی اور متوسط طبقے کی بھرپور حمایت اور بھرپور شرکت لازم ہے۔

ہمیں شخصیات سے بلند ہوکر اداروں اور نظام کی تشکیل نو کرنی ہے۔ اسلام محکوموں، مظلوموں اور معاشرے کے تمام پسے ہوئے طبقوں کو ان کے جائز حقوق اور برابری دلانے کا داعی ہے۔ حضورؐ کی ساری زندگی اس جد وجہد میں گزری مگر آج طبقہ اشرافیہ، حاکم، استحصالی اور علماء سوء اسے عوام کو کچلنے، ان کے جائز حقوق کی پامالی اور تفرقہ بازی پیدا کرنے کے لیے استعمال کررہے ہیں جب کہ تقلید کے بجائے تحقیق اور اجتہاد کے طریقے اختیار کرکے نشاۃ الثانیہ کا دور شروع کیا جاسکتا ہے۔

جس کے لیے علما حق نے ہر دور میں استبدادی قوتوں سے ٹکر لے کر عوام الناس کا ساتھ دیا اور جد وجہد کی تاریخ رقم کی مگر آج عالمی استعماری قوتیں تمام عالم اسلام میں انتشار اور افتراق پیدا کررہی ہیں اور بڑی کامیابی سے ان کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھاکر ہر ملک کو نشانہ بناکر اس کے قدرتی وسائل اور اجتماعی طاقت کو ہڑپ کررہی ہیں ان ممالک کا یہ حشر مسلمان معاشروں کا فکری جمود اور تحقیق کے بجائے تقلید پر قائم رہنا اور حقائق دنیا سے فرار کا نتیجہ ہے۔ اب پاکستان ان کے نشانے پر ہے کیا یہاں بھی استعماری قوتیں اپنے مکروہ عزائم میں کامیاب ہوسکیںگی؟ اس کا انحصار بد عنوان حکمرانوں پر نہیں بلکہ عوام کے باشعور اور باہمت طبقوں پر ہے، ملک کو معاشی طور پر عالمی مالیاتی اداروں کے چنگل میں پھنسا دیا گیا ہے جس کی وجہ سے اس کی آزادانہ سیاسی حیثیت مفلوج ہوگئی ہے ملکی وسائل کی ہمہ گیر موجودگی کے باوجود یہ دن دیکھنا حیرت کا مقام ہے۔ اسے صرف ایک منظم اور با شعور عوامی جد وجہد کے ذریعے ہی بدلا جاسکتا ہے اور یہ ناممکن نہیں ہے اندر سے کمزور مفاداتی حکمران اور استعمار کے آلہ کار اس بھرپور جد وجہد کی تاب نہیں لاسکتے اور ملک کی حقیقی آزادی معاشی خود انحصاری کے بغیر ممکن نہیں۔

استعماری قوتیں نئے نئے پینترے بدل کر مسلمان معاشروں کے تار و پود بکھیرنے میں مصروف ہیں۔ وہ اسلام کے نام پر ایسی جعلی تنظیمیں اور گروہ کھڑے کررہے ہیں جو فرقہ بازی اور اسلام کی خود ساختہ تشریح کے ذریعے قتل و غارت کا بازار گرم کررہے ہیں اور اس عمل میں ان کو ہر قسم کی مادی اور مالی امداد میسر ہے اور اس پر مستزاد وہ ان کا ہوا دکھاکر خود مسلمان ممالک سے مالی اور دفاعی مفادات سمیٹ رہے ہیں جب یہ گروہ اور متشدد جماعتیں ان کے مقاصد پورے کرلیتی ہیں اور ایک حد سے تجاوز کرنے لگتی ہیں ان کی بیخ کنی کے نام پر ساری دنیا میں مسلمانوں کے خلاف دہشت گردی اور قتل و غارت کا الزام لگاکر ان کو ہر قسم کی جارحیت کا علم بردار ثابت کیا جاتا ہے۔

اسلام امن و سلامتی کا پیغام لے کر آیا تھا۔ خود حضورؐ کی مکی اور مدنی زندگی اس کی شاہد ہے وہ مظلوموں، محکوموں اور پسے ہوئے طبقوں کو اس وقت کی استعماری قوتوں سے نجات دلانے آیا تھا۔ وہ علم و حکمت کے ذریعے انسانیت کو امن اور سلامتی کی ضمانت دینے آیا تھا اور ایک وقت تھا جب اس نے یہ سب کرکے بھی دکھا دیا۔

اب اگر مدت ہوئی ہم نے اپنے دروازے علم و حکمت، تحقیق و تخلیق کے لیے بند کردیے تو اس میں قصور کس کا ہے؟ کیا آج دنیا کے مسلمان ممالک کے پاس قدرتی وسائل اور نوجوان افرادی قوت کا فقدان ہے؟ کیا وہ اپنی بے عملی اور فکری انتشار اور استعمار کی دیوزہ گری سے دستبردار نہیں ہوسکتے؟ کیا ان کے پاس بحیثیت مجموعی دولت کے انبار موجود نہیں جو اپنی قوم کو ذہنی اور مادی افلاس سے نجات دلاسکیں؟ اگر وہ یہ سب نہ کرسکے تو ان کا مقام تاریخ کا کوڑے دان ہے اور مستقبل ان نوجوانوں کا ہے جو حقیقی طور پر انسانیت کی خدمت اپنے علم و عمل کے ذریعے انجام دے سکیں۔
Load Next Story