اٹھارہ کروڑ والا پاکستان
عمران خان خود بھی اپنی پارٹی کی مقبولیت میں کمی بیشی کا حساب لگاتے رہتے ہیں
پچھلے ایک سال سے ملک کی تمام چھوٹی بڑی سیاسی جماعتیں اپنے اپنے انداز میں الیکشن کی تیاریاں کر رہی ہیں۔
عمران خان نے پچھلے سال 30 اکتوبر کو لاہور میں مینار پاکستان کے سائے تلے اپنا پہلا سونامی جلسہ کیا اور پھر 25 دسمبر کو کراچی میں دوسرا سونامی برپا کیا۔ درمیان میں مختلف شہروں میں کئی چھوٹے بڑے سونامی منعقد کیے۔ کوئی ڈیڑھ دو ہفتے پہلے میں نے انھیں ایک ٹی وی پروگرام میں یہ کہتے سنا تھا کہ تحریک انصاف عام انتخابات میں کلین سویپ کرے گی اور وفاق کے علاوہ چاروں صوبوں میں حکومتیں بنائے گی۔
کہا جاتا ہے کہ امریکی تھنک ٹینکس دنیا کے مختلف ملکوں میں رائے عامہ بنانے سمیت کئی خفیہ کھیل کھیلتے رہتے ہیں۔ ان میں خاص موقعوں پر خاص قسم کے سروے جاری کرنا بھی شامل ہے۔ اس حوالے سے انٹرنیشنل ری پبلیکن انسٹی ٹیوٹ (آئی آر آئی) کو خاصا معتبر سمجھا جاتا ہے۔ چند روز پہلے اس ادارے نے اپنا تازہ سروے جاری کیا ہے، جس کے مطابق مسلم لیگ (ن) کی مقبولیت میں حیرت انگیز اضافہ ہو گیا ہے اور وہ تحریک انصاف کی سخت تنقید کے باوجود قومی اسمبلی کی سب سے بڑی جماعت بن کر سامنے آئے گی۔
سروے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگرچہ تحریک انصاف کو خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی نشستوں پر برتری حاصل ہے لیکن اس کے باوجود مسلم لیگ (ن) صرف پنجاب کے بل بوتے پر قومی اسمبلی میں سب سے زیادہ نشستیں حاصل کر لے گی۔ تحریک انصاف کے زیادہ تر سونامی پنجاب سے برآمد ہوئے لیکن آئی آر آئی نے اسے خیبرپختونخوا اور بلوچستان بدر کر کے پنجاب کا ''بل بوتا'' صرف ن لیگ کے کھاتے میں ڈال دیا ہے۔ عمران خان نے اس سروے کا تفصیلی تجزیہ تو کیا لیکن یہ کہہ کر آئی آر آئی کی ''کریڈیبلٹی'' جزوی طور پر مان لی ہے کہ ان کی جماعت کی مقبولیت میں 22.6 فیصد کمی تو نہیں صرف دس فیصد کمی ہوئی ہے۔ لگتا ہے کہ عمران خان خود بھی اپنی پارٹی کی مقبولیت میں کمی بیشی کا حساب لگاتے رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ 10 فیصد کمی ماننے کے ساتھ ساتھ انھوں نے یہ بھی کہہ دیا ہے کہ ''تحریک انصاف کو کوئی پارٹی نہیں ہرا سکتی۔''
عمران خان نے مقبولیت سروے کی ''جزوی منظوری'' دی ہے، باقی تمام جماعتوں نے اسے مسترد کر دیا ہے۔ مسلم لیگ (ن) واحد جماعت ہے جس نے سروے کے اعداد وشمار کو پوری طرح تسلیم کیا ہے کیونکہ آئی آر آئی اسی نتیجے پر پہنچی ہے جو مسلم لیگ (ن) کا اپنا ہے۔ پیپلز پارٹی نے اس سروے کو مضحکہ خیز قرار دیا ہے کیونکہ اس کی مقبولیت پچھلے سروے کے مقابلے میں آدھی رہ گئی ہے۔ پنجاب میں تو اس کا پتہ بالکل صاف کر دیا گیا ہے۔
پنجاب میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ق) کے اتحاد کے متوقع لیڈر چوہدری پرویز الٰہی نے کہا ہے کہ سیاسی جماعتوں کی مقبولیت کے اندازے سروے رپورٹوں سے نہیں لگائے جاتے۔ پنجاب کے مختلف علاقوں میں سیاسی جوڑ توڑ اور عوامی رابطے میں مصروف سابق وزیر اعلیٰ پنجاب نے یہ بھی کہا ہے کہ ''عوام سروے رپورٹیں نہیں کارکردگی دیکھ کر ووٹ دیتے ہیں۔''
الیکشن میں نا انصافی کی شکایت ہو تو الیکشن ٹریبونل میں جایا جا سکتا ہے لیکن کوئی سروے کمیٹی الیکشن سے پہلے نتائج سنا دے تو اس کے خلاف اپیل کے لیے کوئی فورم یا ایسا کوئی پلیٹ فارم موجود نہیں جس سے رجوع کیا جا سکے۔ اب سوال یہ ہے کہ ان حالات میں متاثرہ پارٹیاں کیا کر سکتی ہیں؟ مسئلے کا حل سوچنا ان کا کام ہے بہرحال میں ایک تجویز دینا چاہتا ہوں جو انھیں کسی نتیجے پر پہنچنے میں مدد دے سکتی ہے۔ وہ تیربہدف تجویز یہ ہے کہ جس طرح ہر سیاسی جماعت امریکا میں لابنگ کے لیے کسی نہ کسی فرم کی خدمات حاصل کرتی ہے۔
اسی طرح ہر جماعت اپنا الگ سروے ادارہ حاصل کرے جو اپنے طریقے سے سروے مرتب کرے، جس کے نتائج میں اسی جماعت کو اکثریتی دکھایا جائے لیکن سروے کرنے والے ادارے کی تشکیل بہت سوچ سمجھ کر کرنی ہو گی، ایسا نہ ہو کہ ادارہ اپنے نتائج میں 90 فیصد سے زیادہ ووٹروں کی حمایت اپنی کلائنٹ پارٹی کی جیب میں ڈال دے اور باقی سب جماعتوں کے لیے صرف دس فیصد ووٹر باقی رہ جائیں۔ ایسا سروے فوراً ہی مشکوک قرار پائے گا، اس لیے احتیاط کا تقاضا ہے کہ ہر پارٹی اپنے سروے ادارے کو یہ ہدایت کر دے کہ وہ دوسری پارٹیوں کو خواہ کتنا بھی غیر مقبول ظاہر کرے لیکن اپنی پارٹی کی مقبولیت 30سے 35 فیصد کے درمیان ہی رکھے۔
اس حکمت عملی کا یہ فائدہ ہو گا کہ پاکستان کی ہر سیاسی جماعت مطمئن ہو جائے گی اور سروے کی کریڈیبلٹی خراب نہیں ہو گی ۔واضح رہے کہ بڑے شہروں میں جب بھی کوئی سیاسی جماعت جلسہ کرتی ہے، اس کے لیڈر اپنی تقریروں میں علاقے کے عوام کے جذبات کی یوں عکاسی کرتے ہیں۔ ''اس شہر نے فیصلہ سنا دیا ہے کہ عوام ہمارے ساتھ ہیں۔'' لاہور میں پہلے میاں شہباز شریف نے ایک جلسے میں یہ اعلان کیا کہ ''لاہور نے ہمارے حق میں فیصلہ سنا دیا ہے۔'' اس سے اگلے روز عمران خان نے بڑا جلسہ کیا اور بالکل وہی بیان دیا کہ ''لاہور نے اپنی رائے دے دی ہے۔'' یہی کچھ کراچی میں ہوا، وہاں شہریوں نے باری باری متحدہ، عمران خان، اے این پی اور فضل الرحمٰن کی حمایت کرنے کا اعلان کیا۔ جلسہ کتنا بھی بڑا ہو، آخر اس کی زیادہ سے زیادہ گنتی کیا ہو سکتی ہے۔؟
مثال کے طور پر لاہور کی آبادی پون کروڑ اور کراچی کی دو کروڑ کے قریب بتائی جاتی ہے، یہاں بڑے سے بڑے جلسے کی حاضری ایک یا دو لاکھ ہو سکتی ہے۔ اس ایک دو لاکھ کی بنیاد پر ہر جلسہ کرنے والی جماعت یہ فیصلہ سنا دیتی ہے کہ پون کروڑ یا 2 کروڑ کی پوری آبادی اس کے ساتھ ہے۔ اسی روایت کو آگے بڑھاتے ہوئے ہر جماعت کوئی نہ کوئی سروے ادارہ قائم کر کے یا کرائے پر لے کر یہ دعویٰ کرنے میں حق بجانب سمجھی جائے گی کہ ملک کے 18 کروڑ عوام اس کے ساتھ ہیں۔
ماضی میں جب لیڈر قسم کے لوگ پارٹیاں بدلتے تھے، ان کی خبریں کچھ یوں چھپا کرتی تھیں۔ پیر صاحب جھولا شریف اپنے لاکھوں مریدوں کے ہمراہ فلاں پارٹی میں شامل ہو گئے یا چوہدری خلقت دین نے اپنے لاکھوں ووٹروں سمیت فلاں پارٹی میں شمولیت اختیار کر لی۔ سال بھر کے اعلانات میں دی گئی تعداد کو اس لیے جمع نہیں کیا جاتا تھا کہ پارٹیوں میں آنے جانے والوں کی تعداد بر اعظم ایشیا کی ساری آبادی سے بھی بڑھ سکتی تھی۔
خلاصہ یہ ہے کہ جس ملک میں ضیا الحق اور جنرل مشرف اپنے اپنے ریفرنڈم 90 فیصد ووٹوں سے جیت جائیں اور جہاں ہر پارٹی 18 کروڑ عوام کی نمائندگی کرتی ہو اور جہاں ہر وفاداری بدلنے والا اپنے ساتھ لاکھوں ووٹر بھی لے آئے، وہاں ہر سیاسی جماعت کو یہ حق کیوں نہیں دیا جا سکتا کہ وہ اپنا سروے ادارہ قائم کر کے خود کو 35 فیصد مقبولیت والی جماعت قرار دلوا دے۔ یہ محض ایک تجویز ہے ورنہ یہاں ہر پارٹی کے پاس اپنا اپنا اٹھارہ اٹھارہ کروڑ والا پاکستان تو ہے ہی۔