خیالی پلاؤ نظم ’’کوشش‘‘

میں تو پڑھ نہیں سکی نہ سہی، اپنی بیٹی کو میں خوب پڑھاؤنگی


ثمینہ فیاض December 14, 2014
میں تو پڑھ نہیں سکی نہ سہی، اپنی بیٹی کو میں خوب پڑھاؤنگی۔ فوٹو اے پی

وہ جو سوچتی تھی
میں کچھ کر دکھاوں گی
زمانے کی سوچ کو
بدل کر دکھاوں گی
میں تو پڑھ نہیں سکی نہ سہی
اپنی بیٹی کو میں خوب پڑھاؤنگی
خواب میرے
دل میں بسے تھے کبھی
ان کی تعبیر اپنی بیٹی کی
صورت پاوں گی
اس کی خاطرہر رسم ورواج سے لڑ جاؤنگی
روایات کی ہر حد
ہر دیوار پار کر جاؤنگی
سوچا نہ تھا
دل و دنیا کہ بیچ پس جاؤنگی
ہو کہ مجبور دنیا سے
دلہن اسے بناونگی
اپنے ماضی کی اک یاد
پھر دہراوں گی
اپنی بیٹی کو نہ سہی
اس کی بیٹی کو پڑھاؤنگی
امید کا دیا اپنے دل میں
پھر جلاؤنگی
سمجھے نہ یہ دنیا کہ
میں ہار جاؤںگی

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے نظم لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور اپنی تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں