پاکستان ایک نظر میں پُر امن احتجاج

کچھ لوگوں کے مطابق پی ٹی آئی کے کارکنان حفاظتی اقدام کے طور اسلحہ سے بھی لیس تھے۔

کچھ لوگوں کے مطابق پی ٹی آئی کے کارکنان حفاظتی اقدام کے طور اسلحہ سے بھی لیس تھے۔ فوٹو اے ایف پی

عمران خان احتجاج کی کال واپس لیں ہم مذاکرات کرنے کے لئے تیار ہیں، 48 گھنٹے میں جوڈیشل کمیشن بنادیا جائے تو احتجاج روک دیا جائے گا۔ گذشتہ دو تین روز سے حکومت اور خان صاحب کی جانب سے اسی طرز کی بیانات کی آمدورفت جاری ہے، اور اب مذاکرات کی ڈور لاہور میں ہونے والے احتجاج سے بندھی ہوئی ہے۔ خیر کیا ہوتا ہے، کیا ہونا چاہیئے؟ اور کیا ہونے والا ہے؟ اس بارے میں اگر تجزیہ شروع کیا تو بات صرف 14 اگست سے شروع ہونے والے احتجاج تک محدود نہیں رہے گی۔ ویسے بھی حالیہ بیانات کے مطابق احتجاج کرنا عمران خان کا آئینی اور جمہوری حق ہے۔



خیر احتجاج ہوا، شہر کراچی کو بند کیا گیا جس پر عمران خان نے معذرت کے ساتھ ساتھ کراچی والوں کا ساتھ دینے پر بھی شکریہ ادا کیا۔ خان صاحب آپ کی معذرت کراچی کے عوام نے کھلے دل سے قبول کی ہے کیونکہ شہر بند ہونا ان کے لئے نیا نہیں۔ البتہ کراچی کے عوام فیصل آباد کے حالیہ احتجاج کو مدنظر رکھتے ہوئے شہر میں امن و امان قائم رکھنے کے لئے پریشان ضرور تھے، لیکن جب انکشاف ہوا کہ آپ کو شام 7 بجے تک سامان سمیٹنے اور کراچی کو چھوڑنے کی ہدایات پہلے ہی دی جاچکی ہیں تو لوگوں نے سکون کا سانس لیا۔




دن کے اختتام پر ہر نیوز چینل خان صاحب سمیت ان کی پارٹی کے تمام وزرا ایک دوسرے کو پرامن احتجاج پر مبارکبادیں دیتے ہوئے نظر آئے، لیکن اگر یہ واقعی پر امن احتجاج تھا تو پھر یہ کون لوگ ہیں جنھوں نے جگہ جگہ ٹائر نذر آتش کئے، لوگوں کی گاڑیوں کو زبردستی روک کر آگ لگائی، پتھراؤ کیا، ڈنڈے برسائے، صحافیوں بلکہ خصوصا خواتین رپورٹرز کی ساتھ بدتمیزیاں کیں، جبکہ کچھ لوگوں کے مطابق تو پی ٹی آئی کے کارکنان حفاظتی اقدام کے طور اسلحہ سے بھی لیس تھے۔





لگتا ہے یہ سب ''پر امن'' لفظ کو بدنام کرنے کی ایک سازش تھی، کیونکہ تحریک انصاف کے رہنما اس بات کو ماننے کے لئے قطعی تیار نہیں کہ یہ لوگ ان کی پارٹی کے حامی ہیں، اب بچ گئے بچارے نامعلوم افراد جن کے سر پر ہر طرح کے الزامات کا تاج ہمہ وقت سجا رہتا ہے۔



تحریک انصاف ہو یا کوئی اور سیاسی جماعت یہاں سب ہی اپنے اپنے مفاد کی سیاست کرتے ہیں۔ کسی کو نیا پاکستان بنانا ہے، تو کسی کو جمہوریت کا تاج بچانا ہے۔ احتجاج، دھرنوں، جلسے جلوسوں، جلاؤ گھیراؤ ان سب چیزوں سے نہ کبھی پہلے اس ملک اور عوام کو کچھ حاصل ہوا اور نہ ہی آنے والے وقتوں میں ہوگا۔



عمران خان کا مطالبہ اپنی جگہ جائز ہے، دھاندلی ہوئی ہے، ہمیشہ سے ہوتی چلی آرہی ہے، اور ہمیں ایک شفاف انتخابی نظام کی ضرورت بھی ہے، کیونکہ ہم گذشتہ 67 سالوں سے خاندانی سیاست کے زیر تسلط اپنی زندگیاں گزار رہے ہیں، حکمران دیکھاوے کے لئے بڑے بڑے منصوبوں پر کام کررہے ہیں لیکن جب غریب عوام کے پاس کھانے کے لئے دو وقت کی روٹی ہی موجود نہ ہو تو پھر کس کام کی یہ جمہوریت؟ اور کی کام کی دھرنوں کی سیاست؟


نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔
Load Next Story