بات کچھ اِدھر اُدھر کی ہم فیس بکی لوگ

جیسے ہم لوگ عام زندگی میں مختلف رویے، عادات اور کردار کے مالک ہوتے ہیں، اسی طرح ہمارے فیس بکی ’کردار‘ بھی ہوتا ہے،

ہم فیس بک پر کتنے 'نیک' نظر آتے ہیں، بہترین چیزیں شئیر کرتے ہیں، اچھے اچھے کومنٹ کرتے ہیں، یعنی 'راوی' کم از کم فیس بک پر چین ہی چین لکھتا ہے۔ تو پھرمعا شرے میں شدید بگاڑ ہے اور اخلاقی و معاشرتی حالت بد سے بدترین ہونے کی وجہ کیا ہے؟ فوٹو: فائل

ہم فیس بک پر کتنے 'نیک' نظر آتے ہیں، اپنی طرف سے بہترین چیزیں شئیر کرتے ہیں، 'تباہی' قسم کی تصویریں لگاتے ہیں، لوگوں کو اچھے اچھے کومنٹ کرتے ہیں، یعنی 'راوی' کم از کم فیس بک پر مکمل چین ہی چین لکھتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ تو یہ جو معا شرے میں شدید بگاڑ ہے اور ہماری اخلاقی و معاشرتی حالت بد سے بدترین ہوئے جا رہی ہے اس کی وجہ کیا ہے؟ یا ایسے 'فساد انگیز' عناصرفیس بک استعمال ہی نہیں کرتے ہونگے، ٹویٹر جیسے بے رنگ ذرائع پر آوارہ گردی کرتے ہونگے یا پھر المشہور 'امریکی سازش' ہے ۔

جیسے ہم لوگ عام زندگی میں مختلف رویے، عادات اور کردار کے مالک ہوتے ہیں، اسی طرح ہمارے فیس بکی 'کردار' بھی ہوتا ہے، یعنی اگرصرف فیس بک پر موجود کسی کی 'برقی سرگرمیوں' پر طائرانہ سی نظر ڈالی جائے اور ملتے جلتے مزاج کے لوگوں کو ایک جیسے گروپوں میں تقسیم کیا جائے، تو جو دلچسپ صورتحال سامنے آتی ہے، 'میرے مطابق' وہ کچھ یوں ہوگی۔
اسلامی بھائی

اس گروہ میں کچھ لوگ واقعی بہت محنت سے مواد بناتے یا ڈھونڈ کر لگاتے ہیں جو مستند حوالوں کے ساتھ، ہم جیسے نالائقوں اور سست الوجود نابغوں کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں ہوتے، جو اسی بہانے کچھ قرآنی آیات اور احادیث پڑھ لیتے ہیں۔ مگر اسلامی پوسٹ لگانے والے اکثر لوگ صرف 'ثواب دارین' کے لیے ہر اسلامی نظر آنے والی چیز کو شیئر کرتے چلے جاتے ہیں، تاکہ موصوف کی اسلامی شخصیت نکھر کر سامنے آسکے اور پتہ چلے کہ وہ کتنے 'پکے' مسلمان ہیں، چاہے شیئر کی گئی چیز کا کوئی حوالہ نہ دیا گیا ہو یا بالکل من گھڑت بات ہی کیوں نہ ہو۔
جہادی بھائی

یہ لوگ دنیا، خاص طور پر مسلم دنیا، کے ہر مسئلے کا ذمہ دار ہنود، یہود، امریکہ، اسرائیل، انڈیا، ان سب یا کچھ کا گٹھ جوڑ یا انہی میں سے کسی کی خفیہ ایجنسی کو ٹھہراتے ہیں اور ان سب مسائل کا حل 'کلانشکوف جہاد' ہے، یہ الگ بات کہ اسلحہ بھی انہی دشمنوں کا استعمال کرنا پڑتا ہے۔ بات کریں گے تو اسرائیل کو تباہ کرنے کی، دہلی کو فتح کرنے کی مگر یہ نہیں بتاتے کہ بھائی اٹھارہ کروڑ سنبھالے نہیں جا رہے، ایک ارب اٹھارہ کروڑ کیسے سنبھالنے ہیں۔

ہمارے زیادہ ترفیس بکی اسلامی اور جہادی بھائیوں کو طالبان اپنے نظریات کا 'گراونڈ ورژن' نظر آتے ہیں، اسی لیے کبھی ڈرون حملوں اور کبھی افغانستان میں امریکی فوج کی موجودگی کو، طالبان کی سفاک ترین کاروائیوں کا جواز بنانے کی گھٹیا کوشش کرتے ہیں، جبکہ خود انکو اگر امریکی شہریت کی آفر کی جائے تو فوراً رال ٹپکنے لگے گی۔ ہمارا جہاد صرف باتوں تک ہے، معاشرے میں پھیلی انگنت برائیوں کے خلاف ہم کم ہی عملی جہاد کرتے ہیں، جہالت کے خلاف جہاد بھی چونکہ تھوڑا محنت طلب ہے سو کون درد بدر خوار ہو اور جہاد اکبر، یعنی اپنے نفس کے خلاف جہاد ۔۔۔ توبہ توبہ اتنا مشکل کام، آخر کس دل چاہتا ہے دنیا کی رنگینیوں سے منہ موڑنے کو۔۔۔۔
سیاسی چھوٹے


ان میں ہماری نو وارد سیاسی جماعت کی بہتات ہے، کہیں کبھی پرانی سیاسی جماعتوں کے حق میں کوئی بات کر دے تو کووّں کی طرح سارے مل کر پیچھے پڑ جائیں گے۔ ان میں زیادہ تر کا سب سے بڑا 'کارنامہ' یہ ہے کہ انہوں نے ہزاروں کی تعداد میں 'شیئر' کا بٹن دبایا ہے، مخالف سیاسی جماعتوں اور خاص طور پر انکے حامیوں کواپنی طرف سے 'بے عزت' کرنے کے لیے، چاہے شیئر کیا گیا مواد کتنا ہی فضول، بے تکا اور جھوٹا کیوں نہ ہو۔ مخالف سیا سی جماعت کی ہر چھوٹی برائی بھی قابل مذمت ہے مگر اپنی بڑی سے بڑی بونگی بھی 'ذہانت' کا شہکار۔ مزے کی بات یہ ہے کہ جو جو برائی یہ پچھلی حکومتوں میں بتاتے بلکہ جتلاتے تھے، انکی اپنی نئی نویلی حکومت اس سے بڑھ کر نالائیک ثابت ہو رہی ہے اور اب سمجھ نہیں آ رہا کہ 'دل کو تھاموں تو کھلتا ہے زخم جگر'۔
چپکو

جناب ایسے شیدائی لوگ ہوتے ہیں کہ پانی پینے سے پہلے بھی اپنا سٹیٹس اپڈیٹ کرنا نہیں بھولتے اور زیادہ جگر قسم کے لوگ ساتھ تصویر بھی چسپاں کردیں گے کہ کیسے پانی پیتے ہیں۔ شاید ان لوگوں نے فیس بک کی بات کو زیادہ سنجیدہ لے لیا ہے کہ 'آپ کے دماغ میں کیا چل رہا ہے'، جبکہ میں سوچتا ہوں اگر ہم واقعی بتا دیں کہ ہمارے دماغ میں کیا کیا چل رہا ہے تو بہت جلد فیس بک ویران ہو جائے گا۔

ہمارے چپکو حضرات کی ہر سرگرمی سے سب لوگ آگاہ ہوتے ہیں، کہاں گئے تھے، کہاں سے آرہے ہیں، ماہانہ کونسے ریسٹورنٹ میں کھانا کھاتے ہیں، چاہے مانگ تانگ کر ہی سہی۔ اپنی ہر ہر زاویے کی تصویر، چاہے جتنی بھی دھندلی اور خوفناک آئے، لگا دینگے۔
فلاسفی

اگر آپ نے ان جناب سے کسی سیاسی، مذہبی یا عالمی مسئلہ پر بحث کرلی تو بس ایسے ایسے 'عمیق' اور عجیب نظریات پیش کریں گے کہ آپ کے دماغ کی چولیں ہل جایئں گی اور آپکو لگے گا کہ آپ نے ابتک زندگی میں جھگ ہی ماری ہے۔ ان حضرات کے پاس عالمی، قومی، دینی، سیاسی، تاریخی، سائنسی، ثقافتی، معاشرتی، جسمانی، روحانی ۔۔۔ نیز ہر مسئلے کا شافی حل موجود ہوتا ہے اور انکو دکھ یہی ہوتا ہے کہ 'قوم' ان کی غیر معمولی صلاحیتوں کو جان کر فائدہ کیوں نہیں اٹھا رہی۔
میسنے

یہ فیس بکی لوگوں کی وہ قسم ہے جو اپنا آپ بلکل ظاہر نہیں کریں گے، بس چپ چاپ آپ کی اور آپکے دوستوں کی شیئرنگ، کومنٹس اور خاص طور پر تصویروں کو دیکھتے رہیں گے، اور یہ بناتے کی ضرورت نہیں ہونی چاہیئے کہ تصویریں مرد دوستوں کی بلکل نہیں دیکھیں گے۔ آپ کی کسی بھی پوسٹ کو زیادہ سے زیادہ لائیک کر لیں گے یا ماشا اللہ کا کومنٹ کردیں گے اور بس۔ بار بار ریفریش کرتے رہیں گے صرف دوسروں کی ٹو لگانے کے لیے کے کون کیا کر رہا ہے۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔
Load Next Story