پاکستان ایک نظر میں ملالہ اور پاکستانی وزیراعظم

ملالہ کو مشورہ دینے کو دل چاہتا ہے مگر پھرخیال آتا ہے جہاں اتنے وزارت عظمیٰ کے امید وارپھررہے ہیں تو ایک یہ بھی سہی۔


محمود فیاض December 13, 2014
ملالہ شاید اس لئے بھی پاکستان کی وزیر اعظم بننا چاہتی ہے کہ یہی وہ عہدہ ہے جس کے لئے کوئی خاص طریقہ یا لمبی مدت تک سیاست کرنے کی ضرورت نہیں، کسی بھی وقت ملک و قوم کے مفاد میں کسی کو بھی وزیر اعظم بنا یا جا سکتا ہے۔ فوٹو: فائل

ملالہ کو نوبیل ایوارڈ کیوں ملا ؟ نوبیل صاحب خود کیا کرتے رہے ساری زندگی ؟ مجھے اس سے کوئی خاص دلچسپی نہیں اور نہ ہی مجھے مغرب کی اس سازش پر گفتگو کرنا ہے جس کے تحت ہر اس شخص کو اہمیت یا شہرت دی جاتی ہے جس کا پاکستان کی بدنامی میں کچھ بھی حصہ ہو۔ لیکن کبھی آپ سوچئے گا کہ مختاراں مائی مشہور کیوں ہوجا تی ہے اور جیوتی سنگھ پانڈے صرف وکی پیڈیا میں کیوں رہ جاتی ہے؟

خیر اس جملہ معترضہ کے بعد اصل موضوع کی طرف آتے ہیں۔ ملالہ نے ایوارڈ لیتے ہی اپنے اس عزم کا اعادہ بھی کیا ہے کہ وہ تعلیم عام کرنے کی کوشش کرے گی۔ دوسری دلچسپ بات جو میرے اس بلاگ کا موضوع ہے ملالہ نے یہ کہی کہ وہ وزیر اعظم بن کر پاکستان کی خدمت کرنا چاہے گی۔ ملالہ نے ایک اور انٹرویو میں یہ بھی کہا کہ وہ بینظیر بھٹو سے بہت متاثر ہے ۔

بات یہ ہے کہ چاہے نوبیل ایوارڈ یافتہ ہی سہی، ہے تو وہ ایک کمسنی سے نکلتی ہوئی ایک بچی ہی ؟ اسکی خواہش چاہے چاند پر جانے کی ہو وہ'میں بڑی ہو کر کیا بنوں گی ؟' کے مضمون میں ہی دیکھی جائے گی - لیکن اسکی اس معصوم خواہش سے مجھے ایک اور طرح کا خیال آ گیا۔ بات یہ ہے کہ بچے وہی کرتے ہیں یا سمجھتے ہیں جو وہ اپنے بڑوں کو کرتے دیکھتے ہیں۔ تو ملالہ کی اس بچگانہ خواہش کا تجزیہ کریں تو کیا یہ نتیجہ نہیں نکلتا کہ پاکستانی وزیر اعظم بننا ایک ایسی جاب ہے جس کے بغیر پاکستان کی خدمت ہو ہی نہیں سکتی۔ یعنی جو جو بھی پاکستان کی خدمت کرنے کا دعویدار ہو اسے پاکستانی وزیر اعظم بننا چاہئے ؟

پاکستان کی خدمت کے اور طریقے جو ایدھی صاحب اور دیگر اصحاب نے اختیار کیے وہ اب پرانے ہو گئے ہیں۔ نیا اور بہتر طریقہ یہی ہے کہ پاکستان کا وزیر اعظم بنا جائے اور پھر پاکستان کی خدمت کی جائے۔ ایک اور لحاظ سے ملالہ نے صحیح کہا کہ وہ سیاست میں آ کر وزیر اعظم بننا چاہتی ہے کیونکہ ہماری سیاست میں صرف ایک ہی عہدہ ہے اور وہ ہے وزیر اعظم کا ، باقی سب تو خانہ پری کیلئے ہیں -

ملالہ شاید اس لئے بھی پاکستان کی وزیر اعظم بننا چاہتی ہے کہ یہی وہ عہدہ ہے جس کے لئے کوئی خاص طریقہ یا لمبی مدت تک سیاست کرنے کی ضرورت نہیں، کسی بھی وقت ملک و قوم کے مفاد میں کسی کو بھی وزیر اعظم بنا یا جا سکتا ہے۔ دیکھیں ناں ! ملک کی اکانومی ٹھیک کرنی ہو تو اچھا وزیر مالیات و تجارت لگانے کی بجائے کسی بینک کا سابقہ ملازم بلا کر ڈائیرکٹ حوالدار .. اوہ سوری، میرا مطلب ہے وزیر اعظم لگا دیا جاتا ہے۔ کبھی کسی کی 'فوج دارانہ' نگاہ کسی قابل رتن پر جا پڑتی ہے اور بیٹھ بٹھائے ہما اسکے سر پر بیٹھا دیا جاتا ہے۔

ملالہ بینظیر سے متاثر ہو کر انکی طرح وزیر اعظم بننا چاہتی ہیں۔ کاش وہ ایک دفعہ بلاول سے مل لیں اور اپنی اس خواہش پر ان سے رائے لے لیں۔ بلاول ان سے ضرور کہے گا کہ'اب امی کے زمانے والی باتیں نہیں رہیں'۔ روٹی ، کپڑا مکان کے نعرے والی پارٹی بی بی ، با با ، اور بے بی کی پارٹی بن گئی ہے ۔ بینظیر اچھے وقتوں میں باپ کی پارٹی سنبھالنے آ گئیں اور پھر گو بابا گو کے نعرے لگا ، اپنی پارٹی کے انکلوں کو کھڈے لائن کر کے وزیر اعظم بن گئیں۔ اب لوگ سیانے ہو گئے ہیں۔ وہ کہتے ہیں ... خیر بتانے کی ضرورت نہیں وہ جو کہتے ہیں، سوشل میڈیا پر سرچ کر لیں۔ ہیں جی !

ملالہ کو چھوٹی بچی سمجھ کر مشورہ دینے کو بہت دل چاہتا ہے مگر پھر خیال آتا ہے جہاں اتنے بہت سے وزارت عظمیٰ کے امید وار پھر رہے ہیں پاکستان میں، ایک وہ بھی سہی ۔ پھر پاکستانی اس بات پر بھی فخر کر سکیں گے کہ انکی وزیر اعظم دنیا کی سب سے چھوٹی نوبیل ایوارڈ یافتہ خاتون ہے اور گولی جس کے سر کے آر پار ہو گئی لیکن اسکا کچھ نہیں بگاڑ سکی۔ ویسے میں دعوے سے کہہ سکتا ہوں ہمارے موجودہ وزیر اعظم کے سر کے آر پار بھی ، کچھ بھی گزار دیں ، ان کا کچھ نہیں بگڑ سکتا ۔کیونکہ کچھ لوگ اس دنیا میں زندہ رہنے کے لئے اپنے سر کے محتاج نہیں ہوتے۔ سنا ہے کاکروچ کا سر کاٹ کر الگ بھی کر دیں تو وہ نو دن تک زندہ رہ سکتا ہے۔ اب اس بات کا ہمارے وزیر اعظم کی بات سے کوئی تعلق نہیں -

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں