دنیا کے مشہور ترین ٹورنامنٹ آئی پی ایل نے کرکٹ کوداغ دار کر ڈالا
بھارت میں ُشرفا کا کھیل جوئے بازی اور ہوس سے لت پت ہوکے غلاظت میں لتھڑ چکا
یہ اپریل 2008ء کی بات ہے جب آئی پی ایل (انڈین پرئمیر لیگ) کی بنیاد رکھی گئی۔ مقصد کرکٹ کی نئی قسم، ٹی ٹوئنٹی کو بھارت بلکہ دنیا بھر میں مقبول بنانا تھا۔ آئی پی ایل کی ٹیموں نے کھلاڑیوں کو معقول معاوضے دے کر بھی عمدہ مثال قائم کی۔ مگر رفتہ رفتہ یہ ٹورنامنٹ لالچ، ہوس اور عیاشی کا مرکز بن گیا۔ میچ فکسنگ اور اسپاٹ فکسنگ معمول بن گئی۔ لوگ تو یہی سمجھتے کہ وہ بڑا زوردار مقابلہ دیکھ رہے ہیں، حقیقت میں میچ کی تقریباً ہر گیندو شاٹ طے شدہ منصوبے کے مطابق کرائی اور کھیلی جاتی۔
لالچ و ہوس کا یہ گھناؤنا کھیل بہت پہلے شروع ہوا۔ دراصل اولیّں آئی پی ایل ٹورنامنٹ (اپریل تا جون 2008ء) کو زبردست کامیابی ملی، تو نارائن سوامی سری نواسن کی رال ٹپکنے لگی۔ یہ شخص تب بھارتی کرکٹ بورڈ کا خزانچی تھا۔
سری نواسن کاروباری آدمی ہے اور کئی کمپنیوں کا مالک۔ اس نے بنیادی طور پر جوڑ توڑ اور سازشوں کے ذریعے اپنی کاروباری سلطنت کھڑی کی تھی۔ یہی روش اس نے بھارتی کرکٹ بورڈ میں بھی اپنائے رکھی۔ مثال کے طور پر 2005ء میں اس نے بورڈ کے صدر ، جگ موہن ڈالمیا کے خلاف سازش کی۔ سیاست داں شردپوار کو اپنے محسن کے خلاف ابھارا اور انہیں بورڈ سے نکلوا دیا۔ چناں چہ شرد پوار بورڈ کا صدر بن گیا۔
سری نواسن خزانچی بننے میں کامیاب رہا۔ ستمبر 2008ء میں بھی جوڑ توڑ کے ذریعے سری نواسن سیکرٹری بورڈ بننے میں کامیاب رہا۔ سیکرٹری بنتے ہی موصوف نے کرکٹ بورڈ کے آئین میں ترمیم کروالی... اب بورڈ کے عہدے دار بھی آئی پی ایل، چیمپئنز لیگ اور ٹی 20 کے دیگر ٹورنامنٹوں کی ٹیموں کے مالک بن سکتے تھے۔ چناں چہ سری نواسن آئی پی ایل کی کامیاب ترین ٹیم، چینائے سپر کنگز کا مالک بن گیا۔
دیکھتے ہی دیکھتے آئی پی ایل دنیائے کرکٹ کا مہنگا ترین اور مقبول ٹورنامنٹ بن کر ابھرا۔ ایک سیزن میں کھیلنے کی خاطر مشہور کھلاڑیوں کو کروڑوں روپے دیئے جاتے۔ لیکن پیسے کی فراوانی اور شہرت اپنے ساتھ خرابیاں بھی لائی۔ راتوں رات امیر بننے کے چکر میں کئی کھلاڑی رقم کے بدلے بکیوں کے اشاروں پہ ناچنے لگے۔ وہ خراب گیندیں کراتے تاکہ رن بن سکیں، جلد آؤٹ ہوجاتے یا پھر چوکے چھکے مارتے۔ گویا وہ پیسے کے پجاری اور جواریوں کے ہاتھوں میں روبوٹ بن گئے۔
جواری کھلاڑیوں کو رجھانے کی خاطر ان کے اعزاز میں دعوتیں کرتے جہاں لڑکیاں بھی دستیاب ہوتیں۔ وہاں شراب و کباب کے دور چلتے اور کھل کر عیاشی ہوتی۔ مگر بھارتی کرکٹ بورڈ کے کرتا دھرتا ان رنگ رلیوں کو دیکھ کر خاموش رہتے۔ یوں آئی پی ایل نے شرفا کے کھیل، کرکٹ کو جواریوں، کاروباریوں، عیاش مردو زن اور ہوس کاروں کے سپرد کردیا...اب اچھا کھیل دکھانا نہیں زیادہ سے زیادہ پیسا کمانا کھلاڑیوں کا مطمع نظر بن گیا۔
لیکن شر اپنا کھیل سدا جاری نہیں رکھ سکتا، خیر اپنا جلوہ ضرور دکھاتا ہے۔ چناں چہ قانون کے لمبے ہاتھوں نے ڈیرھ سال قبل پنڈورا کا پٹارا کھول دیا اور آئی پی ایل کی ایک ایک خباثت دنیا والوں کے سامنے آنے لگی۔ تب ان پر صحیح طرح منکشف ہوا کہ آئی پی ایل لالچ و ہوس کا گورکھ دھندا بن چکی۔
16 مئی 2013ء کو آئی پی ایل کی ٹیم، راجھستان رائلز کے تین کھلاڑی، سری سنتھ، انکیت چاون اور اجیت چنڈیلا اسپاٹ فکسنگ کے جرم میں پکڑے گئے۔ ان تینوں بالروں نے مختلف میچوں میں جواریوں کی فرمائش پر اپنی گیندوں پر رن دیئے تھے۔ پولیس کھلاڑیوں اور جواریوں کی ٹیلیفونک گفتگو ریکارڈ کرنے میں کامیاب رہی تھی۔ سری سنتھ بھارتی قومی کرکٹ ٹیم کا معروف بالر تھا لیکن لالچ کا غلام بن کے اپنا کیریئر اپنے ہاتھوں تباہ کر ڈالا۔
جب تینوں کھلاڑیوں سے پوچھ گچھ ہوئی، تو بڑی شارکوں کے نام آنے لگے۔ پہلے بالی وڈ فلموں کا معمولی اداکار ونود دارا سنگھ گرفتار ہوا۔ یہ مشہور بھارتی پہاوان، دارا سنگھ کا بیٹا ہے۔ اس نے انکشاف کیا کہ وہ گروناتھ میّاپن کی ایما پر جواریوں سے رابطہ کرتا اور ان کے ساتھ اسپاٹ حتیٰ کہ میچ فکسنگ کرتا ہے۔ یہ گروناتھ سری نواسن کا داماد تھا جو 2011ء سے بھارتی کرکٹ بورڈ کا صدر بن چکا تھا۔ پولیس نے گروناتھ کو گرفتار کرلیا۔
گروناتھ میاپن چینائے سپرکنگز کا ٹیم پرنسپل یا اس کا انتظامی سربراہ تھا۔ وہ قانون کی گرفت میں آیا،تو سری نواسن منظرعام سے غائب ہوگیا۔ چوبیس گھنٹے تک اس کا کچھ اتا پتا نہ چل سکا۔ اس دوران چینائے سپرکنگز نے اپنی تمام دستاویزات سے گروناتھ کا نام غائب کردیا۔ یہ کام انجام کو پہنچا، تو سری نواسن نے پریس کانفرنس بلائی اور دنیا والوں کو بتایا :''میرا داماد بے گناہ ہے۔اس کا چینائے سپرکنگز سے کوئی تعلق نہیں۔ وہ بس کرکٹ سے محبت رکھنے کے باعث اس کے معاملات میں دخل دیتا تھا۔''
گویا بھارتی کرکٹ بورڈ کا سربراہ اور بھارت کی امیر ترین شخصیات میں شامل سری نواسن جھوٹ بول کر داماد کو بچانے کی سعی کرنے لگا۔ وہ اگر داماد کو قانون کے حوالے کردیتا تو اسے عزت و احترام مل جاتا۔ مگر سری نواسن نے خاندان کو سچ بولنے اور قانون کی حکمرانی پر ترجیح دی۔سری نواسن نے سارے سیکنڈل کا جائزہ لینے کے لیے بورڈ میں ایک کمیٹی بٹھا ئی۔ اس دوران پولیس اور صحافیوں کی چھان بین سے مزید سنسنی خیز انکشافات دنیا والوں کے سامنے آتے رہے۔
ونود دارا سنگھ نے ایک ٹی وی ''اسٹنگ آپریشن'' میں صحافیوں کو بتایا :''آئی پی ایل میں ''100 فیصد'' میچ فکس ہوتے ہیں۔ ہر سیزن میں جوا کھیل کر تقریباً تمام بڑے کھلاڑی چودہ پندرہ کروڑ روپے کمالیتے ہیں۔ اس جوئے بازی میں راجھستان رائلز کا مالک، وجے ملیہ بھی شریک ہے۔ وہ اب تک جوا کھیل کر تقریباً 100 تا 200 کروڑ روپے کے درمیان رقم کماچکا ۔''
28 جولائی 2013ء کو بھارتی بورڈ کی اندرونی کمیٹی نے کرشماتی طور پر سیکنڈل میں ملوث گروناتھ اور دیگر بڑی مچھلیوں کو ''بے گناہ'' قرار دے ڈالا۔ اس فیصلے کے خلاف سری نواسن کے مخالف، بہار کرکٹ ایسوسی ایشن کا سربراہ ادیتہ ورما ممبئی ہائی کورٹ پہنچ گیا۔ ہائی کورٹ نے کمیٹی کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا۔
سری نواسن نے 5 اگست کو ہائی کورٹ کے فیصلے پر نظرثانی کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کیا۔ سری نواسن کا استدلال تھا کہ بھارتی کرکٹ بورڈ خود مختار ادارہ ہے، لہٰذا اس کی کمیٹی کے فیصلے کو کوئی چیلنج نہیں کرسکتا۔ تاہم سپریم کورٹ نے اس دلیل سے اتفاق نہیں کیا۔ اس نے آئی پی ایل سکینڈل کا جائزہ لینے کی خاطر اپنی کمیٹی تشکیل دے ڈالی جس کے سربراہ ہریانہ ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس مکل مدگل مقرر ہوئے۔
10 فروری 2014ء کو مکل مدگل کمیٹی نے رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کی۔ اس میں گروناتھ کو جوئے بازی کا مرتکب قرار دیا گیا۔ ارکان کمیٹی نے یہ بھی لکھا کہ ممکن ہے، چینائے سپرکنگز کا کپتان، مہندرا سنگھ دھونی بھی جوا کھیلتا ہو۔ انہوں نے سفارش کی کہ چینائے سپرکنگز اور راجھستان رائلز کی ٹیموں پر پابندی لگادی جائے۔ یاد رہے ،دھونی سری نواسن کی کمپنی ،انڈیا سیمنٹس کا نائب صدر بھی ہے۔
دلچسپ بات یہ کہ آئی پی ایل سکینڈل کے دوران سری نواسن بدستور بھارتی کرکٹ بورڈ کی صدارتی کرسی پر براجمان رہا۔ آخر مارچ 2014ء میں سپریم کورٹ نے اسے سرزنش کی کہ وہ عہدہ صدارت چھوڑ دے تاکہ اپنے اثرورسوخ سے چھان بین پر اثر انداز نہ ہوسکے۔ لیکن بھارتی کرکٹ بورڈ میں سری نواسن کے کئی کارندے و چمچے بیٹھے تھے۔ سری نواسن برسوں سے انہیں کھلا پلا رہا تھا۔ لہٰذا ان کی یہی کوشش رہی کہ ''مالک'' پر کوئی آنچ نہ آنے پائے۔
سپریم کورٹ میں فی الوقت آئی پی ایل سیکنڈل کا مقدمہ زیر سماعت ہے۔ سری نواسن مسلسل یہی راگ الاپ رہا ہے کہ وہ بے قصور ہے، کرکٹ کا کھیل داغ دار نہیں ہوا اور آئی پی ایل میں ''سب اچھا'' ہے۔ گویا موصوف پہلے جھوٹ کو نبھانے کے لیے مسلسل جھوٹ بولے جارہا ہے۔
حیرت انگیز بات یہ کہ جوڑ توڑ کے رسیا اور شہرت کے لالچی ،سری نواسن کو جون 2014ء میں انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کا چیئرمین بنادیا گیا۔ سمجھ میں نہیں آیا، کرکٹ کی اس عالمی تنظیم نے اپنا اہم ترین عہدہ ایسے شخص کو کیونکر سونپ دیا جس کا امیج اپنے ہی ملک میں مسخ ہوچکا؟ جو بھارت میں جھوٹے، سازشی اور کرپٹ شخص کی حیثیت سے جانا جاتا ہے۔ یہ اس امر کی دلیل ہے کہ اب آئی سی سی میں بھی اہلیت، دیانت داری اور قابلیت نہیں بلکہ ''پیسا بولتا ہے۔''پاکستان میں آئی پی ایل سکینڈل جنم لیتا تو عالمی میڈیا طوفان اٹھادیتا۔ مگر بھارت کے معاملے میں عالمی میڈیا نے چپ سادھ لی۔ یہ منافقت کی انتہا ہے۔
بھارتی سپریم کورٹ نے تادم تحریر سری نواسن کو مجرم قرار نہیں دیا، تاہم مکل مدگل کمیٹی کی رپورٹ میں یہ ضرور درج ہے: ''آئی پی ایل میں جاری جوئے بازی روکنے کے لیے سری نواسن نے کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا۔'' لہٰذا لگتا یہی ہے کہ شاید سری نواسن بے گناہ قرار پائے، مگر اب وہ کبھی بھارتی کرکٹ بورڈ کا صدر نہیں بن سکے گا۔
بشن سنگھ بیدی ممتاز بھارتی اسپنر رہے ہیں۔ بھارتی کرکٹ کی موجودہ حالت زار دیکھ کر ان کا سر شرم سے جھک جاتا ہے۔ وہ کھلے عام کسی کو مجرم نہیں ٹھہراتے، بس ان کا کہنا ہے: ''اقتدار کی غیر معمولی بھوک اور پیسے کے لامحدود لالچ نے بھارتی کرکٹ کو نہ صرف تباہ کیا بلکہ پوری دنیا میں بدنام کردیا۔''افسوس سری نواسن جیسے کچھ لوگوں کی ہوس زر نے ایک عمدہ تفریحی کھیل سے لوگوں کا اعتماد متزلزل کرا دیا۔
یوراج سنگھ فکسر نکلا
مکل مدگل کمیٹی کئی ماہ آئی پی ایل کے معاملات کی چھان بین میں مصروف رہی۔ اس دوران بی سی سی آئی کے اعلیٰ افسروں سمیت قومی بھارتی ٹیم کے کئی کھلاڑی بھی کمیٹی کے سامنے پیش ہوئے۔ بھارتی اخبارات وقتاً فوقتاً سنسنی خیز انکشاف سامنے لاتے رہے۔بی سی سی آئی کے سابق سربراہ، آئی کے بندرا نے کمیٹی کو بتایا کہ 2010ء میں جب سری لنکا میں ایشیاء کپ کھیلا گیا، تو ایک رات ہوٹل میں سریش رائنا کے کمرے سے برہنہ لڑکی برآمد ہوئی۔ تاہم یہ معاملہ دبا دیا گیا کیونکہ سریش رائنا طاقتور سری نواسن کی ٹیم، چنائے سپرکنگز کا رکن تھا۔
اسی طرح ایک انکشاف یہ ہوا کہ بھارتی ٹیم کا مشہور کھلاڑی بکیوں کے ساتھ مل کر میچ فکس کراتا تھا۔ یہ انکشاف بکیوں اور کھلاڑیوں کی بات چیت ریکارڈ کرنے سے ہوا۔ کمیٹی نے کھلاڑی کا نام آشکار نہیں کیا تاہم بھارتی صحافیوں و عوام کی رائے میں وہ یوراج سنگھ ہے۔ یاد رہے، حالیہ ٹی ٹوئنٹی کرکٹ کپ کے فائنل میں جب سری لنکا نے بھارت کو شکست دی، تو یوراج سنگھ پر میچ فکس کرنے کا الزام لگا کیونکہ اس نے نہایت سست رفتار بیٹنگ کی تھی۔ لوگوں نے یوراج کے گھر پتھراؤ بھی کیا۔
مکل مدگل کمیٹی نے آئی پی ایل اسکینڈل میں سری نواسن، گروناتھ میاپن، راجھستان رائلز کے شریک مالک، راج کنڈیرا اور آئی پی ایل کے چیف آپریٹنگ آفیسر ،سندر رامن کو قصور وار ٹھہرایا ۔ میاپن اور راج کنڈیرا تو جوئے بازی میں ملوث پائے گئے۔ سری نواسن اور سندر رامن پر یہ الزام ہے کہ انہیں خوب علم تھا، آئی پی ایل میں کون لوگ جوا کھیلتے ہیں، مگر ان کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا۔30 نومبر 2014ء کو مقدمے کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے یہ رائے دی کہ چینائے سپرکنگز پر پابندی لگادینی چاہیے۔ اس بیان پر کاروباری حلقوں میں ہلچل مچ گئی اور انہیں آئی پی ایل کا مستقبل خطرے میں نظر آنے لگا۔ ظاہر ہے مشہور کھلاڑیوں کی عدم موجودگی میں کون آئی پی ایل کے میچ دیکھنے آئے گا؟
بھارتی کرکٹ بورڈ کے لیے آئی پی ایل سونے کا انڈہ دینے والی مرغی بن چکی۔ اس لیے کرپشن سے لتھڑ جانے کے باوجود بھارتی سپریم کورٹ اسے کالعدم قرار نہیں دے سکتا۔ البتہ یہ ممکن ہے کہ سری نواسن کو گھر بھیج دیا جائے۔ جب تک بڑی مچھلیوں کو سزا نہیں ملتی، عوام کو آئی پی ایل کے تمام میچ فکس ہی نظر آئیں گے۔
آئی پی ایل کا قیام اس لیے عمل میں آیا تھاکہ یوں لوگوں کو برق رفتار کرکٹ کے سنسنی خیز میچ دیکھنے کو مل سکیں ۔ پھر ان میچوں کی بدولت ابھرتے کھلاڑی بھی اپنی صلاحیتوں کا اظہار کرسکتے تھے۔ لیکن بی سی سی آئی اور آئی پی ایل کی لالچی و ہوس پرست قیادت نے ٹورنامنٹ کو پیسا کمانے کی مشین بنالیا۔ جلد ہی زر پرستی سے منسلک تمام برائیاں آئی پی ایل کا حصہ بن گئیں۔ اس میں کھیلے گئے میچ اب کرکٹ کا شریفانہ، سادگی اور متانت سے پُر روپ نہیں دکھاتے بلکہ ایسے اڈوں کی صورت اختیار کر چکے جہاں جوئے بازی سے لے کر عصمت فروشی تک ہر برائی کا دور دورہ ہے۔
لالچ و ہوس کا یہ گھناؤنا کھیل بہت پہلے شروع ہوا۔ دراصل اولیّں آئی پی ایل ٹورنامنٹ (اپریل تا جون 2008ء) کو زبردست کامیابی ملی، تو نارائن سوامی سری نواسن کی رال ٹپکنے لگی۔ یہ شخص تب بھارتی کرکٹ بورڈ کا خزانچی تھا۔
سری نواسن کاروباری آدمی ہے اور کئی کمپنیوں کا مالک۔ اس نے بنیادی طور پر جوڑ توڑ اور سازشوں کے ذریعے اپنی کاروباری سلطنت کھڑی کی تھی۔ یہی روش اس نے بھارتی کرکٹ بورڈ میں بھی اپنائے رکھی۔ مثال کے طور پر 2005ء میں اس نے بورڈ کے صدر ، جگ موہن ڈالمیا کے خلاف سازش کی۔ سیاست داں شردپوار کو اپنے محسن کے خلاف ابھارا اور انہیں بورڈ سے نکلوا دیا۔ چناں چہ شرد پوار بورڈ کا صدر بن گیا۔
سری نواسن خزانچی بننے میں کامیاب رہا۔ ستمبر 2008ء میں بھی جوڑ توڑ کے ذریعے سری نواسن سیکرٹری بورڈ بننے میں کامیاب رہا۔ سیکرٹری بنتے ہی موصوف نے کرکٹ بورڈ کے آئین میں ترمیم کروالی... اب بورڈ کے عہدے دار بھی آئی پی ایل، چیمپئنز لیگ اور ٹی 20 کے دیگر ٹورنامنٹوں کی ٹیموں کے مالک بن سکتے تھے۔ چناں چہ سری نواسن آئی پی ایل کی کامیاب ترین ٹیم، چینائے سپر کنگز کا مالک بن گیا۔
دیکھتے ہی دیکھتے آئی پی ایل دنیائے کرکٹ کا مہنگا ترین اور مقبول ٹورنامنٹ بن کر ابھرا۔ ایک سیزن میں کھیلنے کی خاطر مشہور کھلاڑیوں کو کروڑوں روپے دیئے جاتے۔ لیکن پیسے کی فراوانی اور شہرت اپنے ساتھ خرابیاں بھی لائی۔ راتوں رات امیر بننے کے چکر میں کئی کھلاڑی رقم کے بدلے بکیوں کے اشاروں پہ ناچنے لگے۔ وہ خراب گیندیں کراتے تاکہ رن بن سکیں، جلد آؤٹ ہوجاتے یا پھر چوکے چھکے مارتے۔ گویا وہ پیسے کے پجاری اور جواریوں کے ہاتھوں میں روبوٹ بن گئے۔
جواری کھلاڑیوں کو رجھانے کی خاطر ان کے اعزاز میں دعوتیں کرتے جہاں لڑکیاں بھی دستیاب ہوتیں۔ وہاں شراب و کباب کے دور چلتے اور کھل کر عیاشی ہوتی۔ مگر بھارتی کرکٹ بورڈ کے کرتا دھرتا ان رنگ رلیوں کو دیکھ کر خاموش رہتے۔ یوں آئی پی ایل نے شرفا کے کھیل، کرکٹ کو جواریوں، کاروباریوں، عیاش مردو زن اور ہوس کاروں کے سپرد کردیا...اب اچھا کھیل دکھانا نہیں زیادہ سے زیادہ پیسا کمانا کھلاڑیوں کا مطمع نظر بن گیا۔
لیکن شر اپنا کھیل سدا جاری نہیں رکھ سکتا، خیر اپنا جلوہ ضرور دکھاتا ہے۔ چناں چہ قانون کے لمبے ہاتھوں نے ڈیرھ سال قبل پنڈورا کا پٹارا کھول دیا اور آئی پی ایل کی ایک ایک خباثت دنیا والوں کے سامنے آنے لگی۔ تب ان پر صحیح طرح منکشف ہوا کہ آئی پی ایل لالچ و ہوس کا گورکھ دھندا بن چکی۔
16 مئی 2013ء کو آئی پی ایل کی ٹیم، راجھستان رائلز کے تین کھلاڑی، سری سنتھ، انکیت چاون اور اجیت چنڈیلا اسپاٹ فکسنگ کے جرم میں پکڑے گئے۔ ان تینوں بالروں نے مختلف میچوں میں جواریوں کی فرمائش پر اپنی گیندوں پر رن دیئے تھے۔ پولیس کھلاڑیوں اور جواریوں کی ٹیلیفونک گفتگو ریکارڈ کرنے میں کامیاب رہی تھی۔ سری سنتھ بھارتی قومی کرکٹ ٹیم کا معروف بالر تھا لیکن لالچ کا غلام بن کے اپنا کیریئر اپنے ہاتھوں تباہ کر ڈالا۔
جب تینوں کھلاڑیوں سے پوچھ گچھ ہوئی، تو بڑی شارکوں کے نام آنے لگے۔ پہلے بالی وڈ فلموں کا معمولی اداکار ونود دارا سنگھ گرفتار ہوا۔ یہ مشہور بھارتی پہاوان، دارا سنگھ کا بیٹا ہے۔ اس نے انکشاف کیا کہ وہ گروناتھ میّاپن کی ایما پر جواریوں سے رابطہ کرتا اور ان کے ساتھ اسپاٹ حتیٰ کہ میچ فکسنگ کرتا ہے۔ یہ گروناتھ سری نواسن کا داماد تھا جو 2011ء سے بھارتی کرکٹ بورڈ کا صدر بن چکا تھا۔ پولیس نے گروناتھ کو گرفتار کرلیا۔
گروناتھ میاپن چینائے سپرکنگز کا ٹیم پرنسپل یا اس کا انتظامی سربراہ تھا۔ وہ قانون کی گرفت میں آیا،تو سری نواسن منظرعام سے غائب ہوگیا۔ چوبیس گھنٹے تک اس کا کچھ اتا پتا نہ چل سکا۔ اس دوران چینائے سپرکنگز نے اپنی تمام دستاویزات سے گروناتھ کا نام غائب کردیا۔ یہ کام انجام کو پہنچا، تو سری نواسن نے پریس کانفرنس بلائی اور دنیا والوں کو بتایا :''میرا داماد بے گناہ ہے۔اس کا چینائے سپرکنگز سے کوئی تعلق نہیں۔ وہ بس کرکٹ سے محبت رکھنے کے باعث اس کے معاملات میں دخل دیتا تھا۔''
گویا بھارتی کرکٹ بورڈ کا سربراہ اور بھارت کی امیر ترین شخصیات میں شامل سری نواسن جھوٹ بول کر داماد کو بچانے کی سعی کرنے لگا۔ وہ اگر داماد کو قانون کے حوالے کردیتا تو اسے عزت و احترام مل جاتا۔ مگر سری نواسن نے خاندان کو سچ بولنے اور قانون کی حکمرانی پر ترجیح دی۔سری نواسن نے سارے سیکنڈل کا جائزہ لینے کے لیے بورڈ میں ایک کمیٹی بٹھا ئی۔ اس دوران پولیس اور صحافیوں کی چھان بین سے مزید سنسنی خیز انکشافات دنیا والوں کے سامنے آتے رہے۔
ونود دارا سنگھ نے ایک ٹی وی ''اسٹنگ آپریشن'' میں صحافیوں کو بتایا :''آئی پی ایل میں ''100 فیصد'' میچ فکس ہوتے ہیں۔ ہر سیزن میں جوا کھیل کر تقریباً تمام بڑے کھلاڑی چودہ پندرہ کروڑ روپے کمالیتے ہیں۔ اس جوئے بازی میں راجھستان رائلز کا مالک، وجے ملیہ بھی شریک ہے۔ وہ اب تک جوا کھیل کر تقریباً 100 تا 200 کروڑ روپے کے درمیان رقم کماچکا ۔''
28 جولائی 2013ء کو بھارتی بورڈ کی اندرونی کمیٹی نے کرشماتی طور پر سیکنڈل میں ملوث گروناتھ اور دیگر بڑی مچھلیوں کو ''بے گناہ'' قرار دے ڈالا۔ اس فیصلے کے خلاف سری نواسن کے مخالف، بہار کرکٹ ایسوسی ایشن کا سربراہ ادیتہ ورما ممبئی ہائی کورٹ پہنچ گیا۔ ہائی کورٹ نے کمیٹی کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا۔
سری نواسن نے 5 اگست کو ہائی کورٹ کے فیصلے پر نظرثانی کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کیا۔ سری نواسن کا استدلال تھا کہ بھارتی کرکٹ بورڈ خود مختار ادارہ ہے، لہٰذا اس کی کمیٹی کے فیصلے کو کوئی چیلنج نہیں کرسکتا۔ تاہم سپریم کورٹ نے اس دلیل سے اتفاق نہیں کیا۔ اس نے آئی پی ایل سکینڈل کا جائزہ لینے کی خاطر اپنی کمیٹی تشکیل دے ڈالی جس کے سربراہ ہریانہ ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس مکل مدگل مقرر ہوئے۔
10 فروری 2014ء کو مکل مدگل کمیٹی نے رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کی۔ اس میں گروناتھ کو جوئے بازی کا مرتکب قرار دیا گیا۔ ارکان کمیٹی نے یہ بھی لکھا کہ ممکن ہے، چینائے سپرکنگز کا کپتان، مہندرا سنگھ دھونی بھی جوا کھیلتا ہو۔ انہوں نے سفارش کی کہ چینائے سپرکنگز اور راجھستان رائلز کی ٹیموں پر پابندی لگادی جائے۔ یاد رہے ،دھونی سری نواسن کی کمپنی ،انڈیا سیمنٹس کا نائب صدر بھی ہے۔
دلچسپ بات یہ کہ آئی پی ایل سکینڈل کے دوران سری نواسن بدستور بھارتی کرکٹ بورڈ کی صدارتی کرسی پر براجمان رہا۔ آخر مارچ 2014ء میں سپریم کورٹ نے اسے سرزنش کی کہ وہ عہدہ صدارت چھوڑ دے تاکہ اپنے اثرورسوخ سے چھان بین پر اثر انداز نہ ہوسکے۔ لیکن بھارتی کرکٹ بورڈ میں سری نواسن کے کئی کارندے و چمچے بیٹھے تھے۔ سری نواسن برسوں سے انہیں کھلا پلا رہا تھا۔ لہٰذا ان کی یہی کوشش رہی کہ ''مالک'' پر کوئی آنچ نہ آنے پائے۔
سپریم کورٹ میں فی الوقت آئی پی ایل سیکنڈل کا مقدمہ زیر سماعت ہے۔ سری نواسن مسلسل یہی راگ الاپ رہا ہے کہ وہ بے قصور ہے، کرکٹ کا کھیل داغ دار نہیں ہوا اور آئی پی ایل میں ''سب اچھا'' ہے۔ گویا موصوف پہلے جھوٹ کو نبھانے کے لیے مسلسل جھوٹ بولے جارہا ہے۔
حیرت انگیز بات یہ کہ جوڑ توڑ کے رسیا اور شہرت کے لالچی ،سری نواسن کو جون 2014ء میں انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کا چیئرمین بنادیا گیا۔ سمجھ میں نہیں آیا، کرکٹ کی اس عالمی تنظیم نے اپنا اہم ترین عہدہ ایسے شخص کو کیونکر سونپ دیا جس کا امیج اپنے ہی ملک میں مسخ ہوچکا؟ جو بھارت میں جھوٹے، سازشی اور کرپٹ شخص کی حیثیت سے جانا جاتا ہے۔ یہ اس امر کی دلیل ہے کہ اب آئی سی سی میں بھی اہلیت، دیانت داری اور قابلیت نہیں بلکہ ''پیسا بولتا ہے۔''پاکستان میں آئی پی ایل سکینڈل جنم لیتا تو عالمی میڈیا طوفان اٹھادیتا۔ مگر بھارت کے معاملے میں عالمی میڈیا نے چپ سادھ لی۔ یہ منافقت کی انتہا ہے۔
بھارتی سپریم کورٹ نے تادم تحریر سری نواسن کو مجرم قرار نہیں دیا، تاہم مکل مدگل کمیٹی کی رپورٹ میں یہ ضرور درج ہے: ''آئی پی ایل میں جاری جوئے بازی روکنے کے لیے سری نواسن نے کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا۔'' لہٰذا لگتا یہی ہے کہ شاید سری نواسن بے گناہ قرار پائے، مگر اب وہ کبھی بھارتی کرکٹ بورڈ کا صدر نہیں بن سکے گا۔
بشن سنگھ بیدی ممتاز بھارتی اسپنر رہے ہیں۔ بھارتی کرکٹ کی موجودہ حالت زار دیکھ کر ان کا سر شرم سے جھک جاتا ہے۔ وہ کھلے عام کسی کو مجرم نہیں ٹھہراتے، بس ان کا کہنا ہے: ''اقتدار کی غیر معمولی بھوک اور پیسے کے لامحدود لالچ نے بھارتی کرکٹ کو نہ صرف تباہ کیا بلکہ پوری دنیا میں بدنام کردیا۔''افسوس سری نواسن جیسے کچھ لوگوں کی ہوس زر نے ایک عمدہ تفریحی کھیل سے لوگوں کا اعتماد متزلزل کرا دیا۔
یوراج سنگھ فکسر نکلا
مکل مدگل کمیٹی کئی ماہ آئی پی ایل کے معاملات کی چھان بین میں مصروف رہی۔ اس دوران بی سی سی آئی کے اعلیٰ افسروں سمیت قومی بھارتی ٹیم کے کئی کھلاڑی بھی کمیٹی کے سامنے پیش ہوئے۔ بھارتی اخبارات وقتاً فوقتاً سنسنی خیز انکشاف سامنے لاتے رہے۔بی سی سی آئی کے سابق سربراہ، آئی کے بندرا نے کمیٹی کو بتایا کہ 2010ء میں جب سری لنکا میں ایشیاء کپ کھیلا گیا، تو ایک رات ہوٹل میں سریش رائنا کے کمرے سے برہنہ لڑکی برآمد ہوئی۔ تاہم یہ معاملہ دبا دیا گیا کیونکہ سریش رائنا طاقتور سری نواسن کی ٹیم، چنائے سپرکنگز کا رکن تھا۔
اسی طرح ایک انکشاف یہ ہوا کہ بھارتی ٹیم کا مشہور کھلاڑی بکیوں کے ساتھ مل کر میچ فکس کراتا تھا۔ یہ انکشاف بکیوں اور کھلاڑیوں کی بات چیت ریکارڈ کرنے سے ہوا۔ کمیٹی نے کھلاڑی کا نام آشکار نہیں کیا تاہم بھارتی صحافیوں و عوام کی رائے میں وہ یوراج سنگھ ہے۔ یاد رہے، حالیہ ٹی ٹوئنٹی کرکٹ کپ کے فائنل میں جب سری لنکا نے بھارت کو شکست دی، تو یوراج سنگھ پر میچ فکس کرنے کا الزام لگا کیونکہ اس نے نہایت سست رفتار بیٹنگ کی تھی۔ لوگوں نے یوراج کے گھر پتھراؤ بھی کیا۔
مکل مدگل کمیٹی نے آئی پی ایل اسکینڈل میں سری نواسن، گروناتھ میاپن، راجھستان رائلز کے شریک مالک، راج کنڈیرا اور آئی پی ایل کے چیف آپریٹنگ آفیسر ،سندر رامن کو قصور وار ٹھہرایا ۔ میاپن اور راج کنڈیرا تو جوئے بازی میں ملوث پائے گئے۔ سری نواسن اور سندر رامن پر یہ الزام ہے کہ انہیں خوب علم تھا، آئی پی ایل میں کون لوگ جوا کھیلتے ہیں، مگر ان کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا۔30 نومبر 2014ء کو مقدمے کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے یہ رائے دی کہ چینائے سپرکنگز پر پابندی لگادینی چاہیے۔ اس بیان پر کاروباری حلقوں میں ہلچل مچ گئی اور انہیں آئی پی ایل کا مستقبل خطرے میں نظر آنے لگا۔ ظاہر ہے مشہور کھلاڑیوں کی عدم موجودگی میں کون آئی پی ایل کے میچ دیکھنے آئے گا؟
بھارتی کرکٹ بورڈ کے لیے آئی پی ایل سونے کا انڈہ دینے والی مرغی بن چکی۔ اس لیے کرپشن سے لتھڑ جانے کے باوجود بھارتی سپریم کورٹ اسے کالعدم قرار نہیں دے سکتا۔ البتہ یہ ممکن ہے کہ سری نواسن کو گھر بھیج دیا جائے۔ جب تک بڑی مچھلیوں کو سزا نہیں ملتی، عوام کو آئی پی ایل کے تمام میچ فکس ہی نظر آئیں گے۔
آئی پی ایل کا قیام اس لیے عمل میں آیا تھاکہ یوں لوگوں کو برق رفتار کرکٹ کے سنسنی خیز میچ دیکھنے کو مل سکیں ۔ پھر ان میچوں کی بدولت ابھرتے کھلاڑی بھی اپنی صلاحیتوں کا اظہار کرسکتے تھے۔ لیکن بی سی سی آئی اور آئی پی ایل کی لالچی و ہوس پرست قیادت نے ٹورنامنٹ کو پیسا کمانے کی مشین بنالیا۔ جلد ہی زر پرستی سے منسلک تمام برائیاں آئی پی ایل کا حصہ بن گئیں۔ اس میں کھیلے گئے میچ اب کرکٹ کا شریفانہ، سادگی اور متانت سے پُر روپ نہیں دکھاتے بلکہ ایسے اڈوں کی صورت اختیار کر چکے جہاں جوئے بازی سے لے کر عصمت فروشی تک ہر برائی کا دور دورہ ہے۔