سانحہ بابری مسجد سے متعلق کچھ پوشیدہ حقائق

بابری مسجد کی پہلی شہادت 23 دسمبر 1949ء کو ہوئی اور اسی روز سے مسجد پر قبضے کی کوششیں جاری ہے

بابری مسجد کی شہادت اور 2002ء کے گجرات کے فسادات ہندوستانی مسلمان بھول ہی نہیں سکتے۔ فوٹو : فائل

ہندوستان کے بزرگ صحافی رشید انصاری، قومی وبین الاقوامی امور پر برَوقت ، تحقیقی نگارشات کے لیے بھارت کی اردو صحافت میں معروف ہیں۔ ان کی تحریر میں دردمندی کے ساتھ ساتھ موضوع پر تحقیقی مواد بھی شامل ہوتا ہے۔ بابری مسجد کی شہادت پر ان کی اس سانحے کے حوالے سے بہت سے حقائق سامنے لاتی چشم کشا تحریر ملاحظہ فرمائیں۔

6؍دسمبر بابری مسجد کی شہادت ہی کو یاد نہیں دلاتا ہے بلکہ اس سلسلے میں ہونے والی تمام زیادتیوں اور دھاندلیوں کو بھی یاد دلاتا ہے۔ بابری مسجد کی شہادت اور 2002ء کے گجرات کے فسادات ہندوستانی مسلمان بھول ہی نہیں سکتے۔ یوں تو بابری مسجد عملاً 1992ء میں شہید ہوئی تھی لیکن یہ بابری مسجد کی تیسری اور آخری شہادت تھی۔ جب مسجد کا نام و نشان مٹادیا گیا۔ اس سے قبل بابری مسجد کی دوسری شہادت وہ تھی جب 1986میں راجیوگاندھی نے بہ حیثیت وزیراعظم عدل و انصاف اور قانون کی دھجیاں اڑانے والے عدالتی حکم کا انتظام کیا اور مسجد کے مقفل دروازے عام پوجا پاٹ کے لیے کھول دیے گئے تھے اور مسجد مندر بنادی گئی تھی۔

بابری مسجد کی پہلی شہادت 23، دسمبر 1949ء کو ہوئی تھی، جب رات کے اندھیرے میں بابری مسجد میں رام چندر جی کی مورتیاں ہندومہاسبھا کے قائدین اور مقامی انتظامیہ کے عہدے داروں کی مشترکہ سازش کے ذریعہ مسجد کی حیثیت تبدیل کردی گئی تھی اور مختصر یہ کہ رام جنم بھومی پر رام مندر بنانے کے لیے 1949ء میں ہی نہ صرف راہ ہموار کی گئی بلکہ ایسا پختہ انتظام کیا گیا تھا کہ مسجد سے مسلمانوں کا واسطہ ہی نہ رہے۔ اس طرح 23؍دسمبر 1949ء کو مسجد کی پہلی شہادت ہوئی تھی۔

1949ء میں مسجد پر قبضے کی ساری کارروائی اس دور کے یوپی کے وزیر اعلیٰ پنڈت گووند ولبھ پنت کی مرضی اور سرپرستی میں ہوئی تھی اور پنڈت پنت کو اس قسم کے ہر معاملے میں سردار ولبھ بھائی پٹیل کی مکمل حمایت اور تائید حاصل رہا کرتی تھی۔ گوکہ اصل سازش ہندومہاسبھا کی تھی لیکن فیض آباد کے اس وقت کے ڈپٹی کمشنر اور ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے کرشن کمار نائر کی مرضی ہی نہیں بلکہ عملی مدد کے بغیر ہندومہاسبھا کچھ نہیں کرسکتی تھی اور اگر پنت کی مرضی اور حمایت کے کے کے نائر کو حاصل نہ ہوتی تو نائر کے لیے مسجد کی بحالی کے لیے دباؤ برداشت کرنا ممکن نہ ہوتا اور پنت میں پٹیل کی حمایت کے بغیر اتنی ہمت نہ تھی کہ وہ اس سلسلے میں پنڈت نہرو کے اصرار کو نظر انداز کرکے ان کو اس طرح دھوکا دیتے جس طرح انہوں نے جواہر لال نہرو کو دیا تھا۔



تقسیم ہند کے بعد کے پُرآشوب حالات میں بل کہ گاندھی جی کے قتل کے بعد اس دور کے ہندتووادیوں (جو اس وقت ہندو مہاسبھا اور آر ایس ایس سے متعلق ہوا کرتے تھے) ہندومہاسبھا والوں نے جن سنگھ کو جنم دیا اور بعد میں جن سنگھ کو بی جے پی کا نام دیا گیا۔ عام مسلمان ہی نہیں مسلم قیادت بھی مایوسی اور خوف اور خاصی حد تک مرعوبیت اور مصلحتوں کا شکار تھی۔ سردار پٹیل کا ایسا دبدبہ تھا کہ پنڈت نہرو بھی پٹیل کے آگے بے بس نظر آتے تھے۔ ان حالات کا فرقہ پرستوں نے بھر پور فائدہ اٹھایا جس طرح دسمبر 1992ء میں بابری مسجد اچانک نہیں شہید کی گئی تھی بلکہ باضابطہ سازشی منصوبے پر عمل کیا گیا تھا، اسی طرح دسمبر 1949ء میں بھی ہوا۔

مسجد میں مورتیوں کی تنصیب کی باضابطہ منصوبہ بندی کی گئی تھی ماحول کو فرقہ واریت کے زہر سے مسموم کرکے کشیدہ کردیا گیا تھا۔ ایودھیا اور فیض آباد میں اس دور کے تمام پولیس افسران (آج کل کے افسران کی طرح) فرقہ پرست تھے گوکہ یوپی کے وزیرداخلہ لال بہادر شاستری تھے۔ شاستری جی کے بابری مسجد کے بارے میں کسی مثبت یا منفی رول کا پتا نہیں چلتا ہے، کیوںکہ بہ حیثیت وزیراعلیٰ پنت ہی سب کچھ تھے۔

بابری مسجد میں بتوں کی تنصیب سے قبل کے حالات کا پتا ان خطوط سے چلتا ہے، جو یوپی کے ایک ممتاز کانگریسی قائد اکشے برہما چاری نے وزیرداخلہ شاستری جی کو لکھے تھے۔ اکشے برہماچاری ضلع فیض آباد کی ڈسٹرکٹ کانگریس کمیٹی کے معتمد ہونے کے علاوہ ریاستی کانگریس کمیٹی کے رکن بھی تھے۔

ان خطوط میں ایودھیا اور فیض آباد کے مقامی حکام کی فرقہ واریت کا ذکر ہے۔ فرقہ پرست قائدین کو فرقہ واریت پھیلانے کی اجازت دینے، مسلمانوں کو دہشت زدہ کرنے بابری مسجد کے قریب واقع قبریں کھودنے وہاں چبوترہ بناکر نو (9) دن تک رامائن کیرتن کیا جانا اور اکشے برہما چاری پر مسلمانوں سے ہم دردی کی سزا میں دو تین بار حملے، ان کا گھر لوٹ لینا اور اکشے کو زدوکوب کیے جانے کا ذکر ہے۔ اس کشیدہ ماحول کو خوش گوار بنانے اور فرقہ پرستوں پر شکنجہ کسنے کے لیے پنڈت پنت نے کچھ نہیں کیا اور ان ہی حالات میں مسجد میں مورتیاں رکھی گئی تھی۔

مسجد میں مورتیاں رکھے جانے کے بعد ڈپٹی کمشنر کے نائر نے اس خبر کو دیر تک چھپانے، مسجد کے سامنے لوگوں کو جمع کرنے اور جشن مناکر ایسا ماحول بنانے میں کہ مسجد سے مورتیاں ہٹانا ناممکن ہوجائے، سرکاری عہدے داروں کی اس دھاندلی پر مجرمانہ خاموشی اختیار کی اور پنت نے کے نائر کی ہر رپورٹ پر یقین کرکے بے عملی کا مظاہرہ وقت گزارنے کے لیے کرکے پنڈت جواہر لال نہرو کو دھوکا دیا تھا۔

مورتیاں ہٹانے پر خون خرابے اور تشدد کے جھوٹے بے بنیاد اور مفروضہ اندیشوں سے پنت نے سب کو دھوکا دیا تھا، کیوںکہ پنت بھی چاہتے تھے کہ بابری مسجد میں نصب کردہ مورتیاں نہ ہٹائی جائیں اور پنت کو سردار پٹیل کی سرپرستی حاصل تھی۔ پٹیل کے ذکر سے پہلے اس بارے میں پنڈت جواہر لال نہرو کا ذکر کرنا ضروری ہے، کیوں کہ اسی سے پنت اور سردار پٹیل کی حرکات کا پتا چلتا ہے۔


پنڈت جواہر لال نہرو نے ڈاکٹر بی سی رائے وزیر اعلیٰ مغربی بنگال کو18؍مئی 1950ء کے اپنے خط میںلکھا تھا،''ایودھیا میں ایک قدیم مسجد (جس کو بابر نے تعمیر کیا تھا) پر مقامی سادھوؤں اور پانڈوں نے قبضہ کرلیا ہے۔ میں افسوس کے ساتھ بتارہا ہوں کہ اس معاملے میں یوپی کی حکومت نے اس معاملے سے نمٹنے میں بڑی کم زوری دکھائی ہے۔ (ص97۔ ایودھیا۔ دی ڈارک نائٹAyodhya The Cark Night کرشنا جھا اور دھربندرجھا)

اسی کتاب کے (ص96) کے مطابق 17؍اپریل کو پنڈت جواہر لال نے پنڈت پنت کو لکھا تھا،''میں اپنے پرانے ساتھیوں سے تنازعات میں الجھنا نہیں چاہتا ہوں۔ میں اس بات سے سخت مضطرب ہوں کہ فرقہ پرستی ان لوگوں کے ذہن اور دل پر چھا گئی ہے جو ماضی میں کانگریس کے اہم ستون مانے جاتے تھے۔ ایودھیا میں جو ہوا وہ بے حد خراب تھا، لیکن اس سے بھی بدتر یہ بات ہے کہ ایسی چیزیں ہمارے ہی لوگوں کی مرضی سے ہوں اور اسے جاری رہنے دیا جائے۔''

اسی کتاب کے مطابق پنڈت جواہر لال نہرو کو پنڈت پنت کی نیت اور عزائم پر شبہ تھا۔ وہ پنت کے تاخیری حربوں کو سمجھ چکے تھے۔ بابری مسجد پر ناجائز قبضہ سے نہرو بے حد مایوس اور مضطرب تھے۔ پنت نے جس طرح کا رویہ اختیار کیا تھا وہ ظاہر کرتا تھا کہ وہ مسئلہ حل کرنا نہیں چاہتے اور جواہر لال یہ بات بخوبی سمجھ گئے تھے۔

پنڈت نہرو کے ان خیالات سے ہی بابری مسجد میں مورتیوں کے رکھے جانے میں اور دسمبر 1949ء کے بعد انتظامیہ، سادھو سنتوں اور پنڈت پنت کی حکمت عملی اور اقدامات میں ان کی بدنیتی اور فرقہ پرستی کے بارے میں کسی ثبوت کی ضرورت نہیں ہے۔

بابری مسجد کے حل کے سلسلے میں سنگھ پریوار کو عدالتی کارروائیوں سے زیادہ بات چیت اور مذاکرات سے دل چسپی رہی ہے۔ عام طور پر مانا جاتا ہے کہ یہ ایڈوانی اور دوسرے قائدین کا حربہ ہے، کیوںکہ بابری مسجد کو رام جنم بھومی قرار دینے والوں کا قانونی موقف کم زور تھا۔ مذاکرات اور بات چیت سے مسئلے کے حل سے واحد مقصد یہ تھا کہ مسلمان بابری مسجد خاموشی سے رام مندر بنانے کے لیے حوالے کردیں، لیکن یہ حربہ تو سنگھ پریوار کے مردآہن سردار پٹیل کا ہے جو کہ انہوں نے پنڈت پنت کو اپنے مراسلے مورخہ 9؍جنوری 1950ء کو لکھا تھا،''میرا خیال ہے کہ یہ ایسا تنازعہ ہے جس کا حل باہمی طور پر دونوں فرقوں کی باہمی خیرسگالی اور رواداری کے جذبے سے نکالا جانا چاہیے مجھ کو احساس ہے کہ جو قدم اٹھایا گیا ہے۔



اس میں جذبات کا زیادہ دخل ہے اس کے ساتھ ساتھ ایسے معاملات کو اس صورت میں نمٹایا جاسکتا ہے کہ ہم کو مسلم فرقہ کی رضامندی حاصل ہوجائے۔ سردار پٹیل کا مکمل خط ''بابری مسجد۔ شہادت کے بعد'' مرتبہ محمد عارف اقبال (ص457,456) بہ حوالہ اے جی نورانی ''بین اسٹریم'' 4؍اگست 1990۔ بات چیت سے مسئلہ کو حل کرنے کی اختراع کے علاوہ پٹیل نے غاصبانہ قبضہ کو بھی تنازعہ بتایا۔ کسی کارروائی پر پٹیل نے زور نہیں دیا، بل کہ غیرقانونی وناجائز کارروائی پر سزا کی جگہ تصفیہ کی منطق سردار پٹیل کی اس ذہنیت کو ظاہر کرتی ہے جس کے لیے وہ بدنام ہیں۔

23؍دسمبر کے بعد کے نائر اور ان کی بیوی شکنتلا نائر نے ماحول نہ صرف گرمادیا بل کہ یوں ظاہر کیا کہ مندر سے مورتیاں ہٹانا عملاً ناممکن ہے، حد تو یہ ہے کہ 26دسمبر کو پنت کے نام پنڈت نہرو کا وہ ٹیلی گرام جس میں کہا گیا تھا کہ مورتیاں فوراً ہٹاؤ بے اثر ہوکر رہ گیا۔ اس میں نائر سے زیادہ غلطی پنت کی ہے جس نے عمداً بے عملی کا مظاہرہ کیا۔ اس مسئلے پر نہرو کی بے چینی اس سے بھی ظاہر ہے کہ ایک مرحلہ پر انھوں نے اپنے خط مورخہ 5؍فروری میں پیشکش کی کہ وہ ایودھیا آنا چاہتے ہیں، لیکن پنت نے انھیں روک دیا۔ پنت فی الحقیقت کچھ کرنا نہیں چاہتے تھے۔ اسی پالیسی پر نرسمہا راؤ نے مسجد کی شہادت کے وقت عمل کیا تھا۔

پنت کی بے عملی کی وجہ ان کو سردار پٹیل سے ملی حمایت اور تائید تھی اور نہرو پٹیل کے خلاف کچھ نہیں کرسکتے تھے۔ پنت کو اس سلسلے میں نائر کے علاوہ سٹی مجسٹریٹ فیض آباد گرودت اور سول جج فیض آباد، بیرسنگھ (جو اس سازش میں انتظامیہ کے مہرے تھے) سے بڑی مدد ملی تھی۔ مسجد میں مورتیاں بٹھانے والے بابا ابھی رام داس، جن کا نام ایف آئی آر میں درج تھا، کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ مورتیاں ہٹانے کے سلسلے میں ہندومہاسبھا کے قائدین کے خلاف کوئی تحقیقات نہیں ہوئی۔ ڈپٹی کمشنر فیض آباد کرشن کمار نائر نے پولیس کی ابتدائی کارروائی میں سٹی مجسٹریٹ گرودت اور بعد میں سول جج فیض آباد بیرسنگھ کی مدد سے بابری مسجد کا سارا مقدمہ ہی بگاڑ دیا تھا۔

مسجد کو قرق کرکے تالا ڈالنے کا کوئی جواز نہ تھا۔ 23دسمبر کی اصل ایف آئی آر میں شامل دفعہ 145جس کا تعلق جائز اور ناجائز قبضہ سے ہے، کے ذریعے بابری مسجد پر ناجائز قبضہ مجسٹریٹ برخواست کرسکتا تھا۔ اس دفعہ کو نظرانداز کرکے اس کو حق ملکیت کا مقدمہ بنادیا گیا، جس کے نتائج آج تک مسلمان بھگت رہے ہیں۔ دفعہ 145کا ہٹانا زبردست بے قاعدگی تھی۔ ان بے قاعدگیوں کو وزیر اعلیٰ پنت نے نظر انداز کیا، کیوںکہ انھیں سردار پٹیل کی حمایت حاصل تھی۔

جب جواہر لال نہرو کچھ نہ کرسکے اور مولانا حسین احمد مدنی، ابوالکلام آزاد اور رفیع قدوائی خاموش رہے، تو جو بھی نہ ہوتا وہ کم تھا۔ تاہم یہ بات حیرت انگیز ہے کہ 1980ء کی دہائی کے ابتدائی سالوں تک ملک کے عوام بابری مسجد اور رام مندر کے سلسلے میں خاموش رہے۔ پنڈت پنت، سردار پٹیل، راجیو گاندھی اور نرسمہا راؤ کے رویوں کو مورخ ہرگز معاف نہ کرے گا۔ ساتھ ہی مسلمان زعماء، اکابرین، قائدین، علماء قانون دانوں اور دانشوروں کا رویہ بھی شروع سے آج تک تسلی بخش نہیں رہا۔
Load Next Story