آگ کا انصاف
اسلامی مملکت کے صوبے بلوچستان میں قبائلی انصاف کے مطابق انگاروں سے بھرے ایک گڑھے کو منصف بنایا جاتا ہے۔
پاکستان کے علاقے چوٹی زیریں میں ''آس آپ رسم'' کے ذریعے چوری کے مبینہ ملزم کی بے گناہی ثابت ہونے پر فورٹ منرو کے مریدانی ، لغاری قبیلے کے دو گروپوں میں تصادم کا خطرہ ٹل گیا ، بتایا یہ جاتا ہے کہ موٹر سائیکل چوری کے شبے پر فرید مریدانی کی مقامی پنچایت نے بے گناہی ثابت کرنے کے لیے دہکتے انگاروں پر چلنے کا حکم سنایا تو ملزم دہکتے انگاروں سے گزر کر دوسرے کنارے تک پہنچ گیا ۔ مولوی یار محمد بگٹی نے نصف گھنٹے بعد ملزم کے پائوں کا معائنہ کیا تو جلنے کے نشانات اور چھالے نہیں تھے یہ رسم بلوچستان کے علاقوں جعفر آباد ، جھل مگسی ، سبی ، بولان ، ڈیرہ بگٹی ،کوہلو،کہان، ڈیرہ مراد جمالی اور متعلقہ علاقوں میں کی جا رہی ہے اور بتایا جارہا ہے کہ اب بھی45 افراد کو اس رسم سے گذرا جائے گا۔
اس سے قبل ہم سنتے رہے ہیں کہ رام کی سیتا نے اپنی بے گناہی ثبات کرنے کے لیے بھی آگ پر چلنے کا امتحان دیا تھا۔اسلامی مملکت کے صوبے بلوچستان میں قبائلی انصاف کے مطابق انگاروں سے بھرے ایک گڑھے کو منصف بنایا جاتا ہے جس میں بلوچی زبان میں'آس آپ 'یعنی'' آگ اور پانی'' یا 'چربیلی کا' نام دیا جاتا ہے اس رسم میں چور کو کھولتے پانی میں بھی ڈال دیاجاتا ہے اگر وہ اس میں سے نکل آتا ہے تو بے گناہ قرار پاتا ہے، چربیلی کی رسم بگٹی قبائل میں زیادہ مقبول ہے ۔
یہ رسم قبیلے کے رواج کے مطابق چوری ، کاروکاری یا قتل کے فیصلے کرنے کے لیے چربیلی کی جاتی ہے، جس کے تحت بارہ فٹ لمبا ، آڑھائی فٹ چوڑا اور دو فٹ گہرا گڑھا کھودا جاتا ہے جس کو لکڑیوں سے بھر کر آگ لگا دی جاتی ہے ، آگ کے شعلے ختم ہونے کے بعد جب انگار تازہ ہوجاتے ہیں تو ایک آدمی قرآن کی تلاوت کرتے ہوئے انگاروں کی کھائی کو قسم دیتا ہے کہ جو شخص مجرم ہو اس کو پکڑنا اور جو بے گناہ ہو اس کو معاف کرنا ، انصاف غلط کیا تو اس قیامت کے دن تم ( آگ) ذمے دار ہوگی۔اس قسم کے حلف دینے کے بعد ملزم کو انگاروں پر ننگے پائوں چلنے کے لیے کہا جاتا ہے انگاروں سے بھرے گڑھے کی دوسری طرف ان کے رشتے دار تازہ ذبح کیے ہوئے بکرے کے خون سے بھرا برتن لیے کھڑے ہوتے ہیں جس میں ملزم کے پائوں چند منٹ کے لیے رکھے جاتے ہیں، بعد میں جرگے کے امین ملزم کے پائوں دیکھ کر اس کی بے گناہی یا گناہ گار ہونے کا اعلان کیا جاتا ہے ، بلوچی میں اس قبائلی رسم کو آگ اور پانی کا انصاف کہتے ہیں ۔
بلوچ قوم کے رہنما اکبر بگٹی اس رسم کے فیصلے کرنے کے ماہر سمجھے جاتے تھے ان کے مقرر کردہ بنگل بگٹی کو قرآن پڑھنے کا اختیار ہوتا تھا مگر ان کی ہلاکت کے بعد اب کے بیٹے حاجی عمر خان بگٹی یہ رسم انجام دیتے رہے۔ ایک دل چسپ بات یہ ہے کہ اخراجات کے نام پر فریقین سے پچیس پچیس ہزار طلب کرتے ہیں مگر بعض بگٹی اس بات سے قطعی انکارکرتے ہیں۔عام طور پر اسے جلد اور سستا انصاف کہا جاتا ہے کہ عدالتوں میں طویل مقدمات کے بجائے اس رسم سے انصاف جلد مہیا ہوجاتا ہے۔بلوچوں کی رسومات اور روایات پر عام بلوچوں کو یقین ہے اس لیے قبائلی انصاف کی یہ رسومات تاحال زندہ ہیں۔
بلوچستان کے علاوہ یہ رسم سندھ کے کچھ حصوں میں بھی ابھی جاری ہے ۔ اس رسم کی بڑی تقاریب کی ابتدا میںسابق وزیر میر منظور پنہور کے گائوں میں منعقد کی جاتی تھی جب کہ پی پی پی کے اعجاز جاکھرانی کے خاندان کے افراد بھی چربیلی کے فیصلے کرنے میںبڑی شہرت رکھتے ہیں ۔لیکن سندھ میں اس رسم کی ادائیگی میں قرآن کی تلاوت کے لیے بگٹی قبیلے سے ہی فرد کو طلب کیا جاتا ہے ۔اس رسم کا سب سے بڑا نفسیاتی ایک پہلو یہ بھی لیا جاتاہے کہ گناہ گار انسان اس رسم کو دیکھتے اور گزرنے کا سوچ کر ہی اقرار جرم کر لیتا ہے اور بے گناہ انسان آگ پر امتحان دینے کے لیے ہر وقت تیار رہتا ہے ، پائوں کیوں نہیں جلتے اس کی توجہیہ بیان نہیں کی جاسکتی ، قرآن کریم میں آگ پر حیات موجودہ میں آگ پر سزا دینے کا کوئی تصور نہیں ہے لیکن بعد از مرگ بُرے اعمال کی سزا کے طور پر آگ کی سزائوں کا بڑی شدت سے تذکرہ ملتا ہے ۔
اس کے لیے لیکن تاریخ انسانی میں سب سے بڑا واقعہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ہے جس میں نمرود نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو دنیا کی پہلی منجنیق کے ذریعے آگ میں ڈال کر نعوذ باللہ جلانے کی جسارت کی تھی لیکن اللہ تعالی نے اس آگ ٹھنڈا کردیا تھا ، کچھ مفکرین اسے نفرت کی آگ کی تاویل بھی لیتے ہیں لیکن یہ ہمارا موضوع نہیں ہے ، دیکھنا یہ ہے کہ غصے کی آگ کو پی جانے والے کو سب سے بڑا بہادر کیوں کہا گیا ہے ، اور حسد کی آگ میں جلنے والوں کی نیکیوں کا 'ضبط اعمال' کے تذکرے کا کیا مقصد ہے یہ بھی تو آگ کی اقسام ہیں ، اسی طرح آتش پرستوں کی سرزمین میں قبل از اسلام آگ کی ہزاروں سال سے پوجا ہوتی تھی جو حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے حکم سے بجھا دی گئی، جس کے انتقام میں ناپاک انسان نے غصے اور انتقام کی آگ میں حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو شہید کردیا تھا ۔ اسی طرح ہندو مت میں شوہر کے انتقال کے بعد اس کی بیوی کو زندہ جلا دیا جاتا تھا، یہ بھی ان کی رسومات میں ہے ۔
ہم یہ دیکھتے ہیں کہ ہندومت میں آج بھی آگ جلا کرشوہر کی آرتھی اتاری جاتی ہے تو بعض مسلمانوں میں بھی یہ رسم آئی ہے کہ اگربتیاں جلاکر نظر بد اتاری جاتی ہے ، یہ رسومات ہیں اس پر اسلامی نقطہ نظر جاننے کی ضرورت مسلمانوں کو ہے کہ کیا وہ درست کر رہے ہیں کہ انصاف کے لیے کسی کو آگ میں جلنے پر مجبور کیا جاتا ہے ۔ نظر بد کے لیے آگ اس کے جسم کے گرد سات مرتبہ پھیری جاتی ہے وغیرہ وغیرہ ۔ قرآن کریم میں آگ سے جلانے کا متعدد بار تذکرہ ہے لیکن وہ اُس انسان کے مرنے کے بعد اس کے بد اعمال کی سزا کی طور پر آیا ہے ۔ ملائیشیا کے علاقے بیناگ میں، نوشہنشاہوں خدائوں کا میلہ منعقد ہوتا ہے جس میں ننگے پائوں انگاروں پر چلنے کی رسم ادا کی جاتی ہے ان کا عقیدہ ہے آگ پر جلنے سے انسان شیطانی اثرات سے پاک ہوجاتا ہے اور آگ پر چلنا کسی آدمی کی عظمت اور شیطان سے خود کو آزاد کروانے کی نشانی ہے ۔
سیکڑوں عقیدت مند اپنے دیوتائوں کو خوش کرنے کے لیے دہکتے انگاروں پر چلنے کا مظاہرہ کرتے ہیں۔اسی طرح امیزون کے جنگلوں میں یانومامی کے قبائل دنیا کے قدیم ترین قبائل میں شمارکیے جاتے ہیں ان کے نزدیک موت کوئی قدرتی رجحان نہیں ہے ، وہ لاش کو جلاتے ہیں اور لاش کی راکھ کو کیلے کے خمیر میں ملا دیتے ہیں اس مرکب کو قبیلے کے لوگوں میں تقسیم کردیا جاتا ہے اس کو کھانے کا مطلب ہوتا ہے کہ مرنیوالے کی روح قبیلے والوں کے درمیان ہمیشہ کے لیے موجود رہے گی اور ان کے درمیان زندگی گذارنا شروع کردے گی۔ دراصل ہمارے ارد گرد ماحول میں ایسی رسومات ہیں انھیں مخصوص عقیدہ ، سوچ اور مذہبی کیفیت میں مقدس سمجھا جاتا ہے۔
ان کی ادائیگی نسل در نسل سے خاص ایام میں کی جاتی ہے انھیں مقدس قرار دے کر اجتہاد کا راستہ روک دیا جاتا ہے۔گو کہ یہ درد ناک اور پرتشدد رسومات اجتماعی شکل میں بھی ادا کی جاتی ہے لیکن ان میں روایتی گرم جوشی کا عنصر اس قدر زیادہ ہوتا ہے وہی شخص کسی بھی عام دن میں یہ رسم ادا نہیں کرسکتا۔ پاکستان اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا تھا اور اسلام کے نام پر ہی اس کا وجود باقی ہے ، قبائلی رسم و رواج و دیگر روایات اپنی جگہ لیکن اسلام اور قرآن ہمیں ان رسومات کی اجازت نہیں دیتا تو اس کی پابندی یقینی طور پر تمام قبائل یا ان پر تشدد رسومات ماننے والوں پر عائد کردی جانی چاہیے۔اسلام سلامتی، صلہ رحمی اور محبت امن و آشتی کا دین عظیم ہے ۔