نئے بدلیاتی نظام کا بل بھاری اکثریت سے منظور 13ارکان کی مخالفت

اپوزیشن ارکان زمین پر بیٹھ کر نعرے لگاتے رہے،آرڈیننس اور ایجنڈے کی کاپیاں پھاڑ دیں


Staff Reporter October 02, 2012
کراچی:سندھ اسمبلی میں نئے بلدیاتی نظام کے بل کی منظوری کے موقع پر اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے ارکان احتجاجاً نیچے بیٹھے ہوئے ہیں (فوٹو : ایکسپریس)

سندھ اسمبلی نے پیر کو نیا بلدیاتی آرڈیننس بل کی صورت میں بھاری اکثریت سے منظور کر لیا۔

13ارکان نے مخالفت کی اور وہ اپنی نشتیں چھوڑ کر زمین پر بیٹھ کر احتجاج اور شور شرابہ کرتے رہے اس دوران بل منظور کر لیا گیا اسپیکر نے کہا کہ آرڈیننس کی مخالفت کرنے والے ارکان چونکہ اپنی نشستوں پر نہیں تھے لہذا ان کی مخالفت اسمبلی کی کارروائی کا حصہ نہیں ہے اور بل اتفاق رائے سے منظور کر لیا گیا۔ وزیر قانون ایا ز سومرو نے اسے ضمنی ایجنڈے کے طور پر شامل کرنے کے لیے ایوان کی اجازت حاصل کی اور شور شرابے میں یہ آرڈیننس بل کی صورت میں منظور کرلیا گیا۔ آرڈیننس پر رائے شماری کے دوران ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کے ارکان ہاں کہتے رہے۔

ایم کیو ایم کے ارکان کے چہروں سے خوشی جھلک رہی تھی۔ پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والی وزیر ثقافت سسی پلیجو سمیت متعدد ارکان بوجوہ اسمبلی کے اجلاس میں شریک نہیں ہوئے۔ پاکستان مسلم لیگ فنکشنل، نیشنل پیپلز پارٹی (این پی پی) ، عوامی نیشنل پارٹی ، مسلم لیگ ہم خیال اور مسلم لیگ (ق) کے ایک منحرف رکن سمیت13 ارکان اپوزیشن کی نشستیں نہ ملنے پر احتجاجاً زمین پر دھرنا دے کر بیٹھ گئے اور آرڈیننس کی منظوری کے دوران انھوں نے وہیں کھڑے ہو کر احتجاج کیا۔

وہ سندھ کی تقسیم نامنظور ، سندھ دشمن آرڈیننس نامنظور اور دیگر نعرے لگاتے رہے۔ انھوں نے آرڈیننس اور ایجنڈے کی کاپیاں پھاڑدیں۔ آرڈیننس کی منظوری کے بعد یہ ارکان سندھ کی تقسیم نامنظور کے نعرے لگاتے ہوئے ایوان سے باہر چلے گئے۔ سندھ اسمبلی کا اجلاس پیر کو دن کے پونے 12 بجے شروع ہوا۔ تلاوت، نعت اور فاتحہ خوانی کے بعد مسلم لیگ کے مستعفی وزیر جام مدد علی نے پوائنٹ آف آرڈر پر کھڑے ہو کر اسپیکر سے کہا کہ ہم نے اپوزیشن کی نشستیں الاٹ کرانے کے لیے درخواستیں دی ہیں لیکن ہمیں نشستیں الاٹ نہیں کی گئیں۔ جب تک ہمیں نشستیں الاٹ نہیں کی جائیں گی تب تک ہم زمین پر بیٹھیں گے ۔ ان ارکان نے بازوئوں پر سیاہ پٹیاں بھی باندھی ہوئی تھیں۔

پیپلز پارٹی کے وزراء پیر مظہرالحق، سید مراد علی شاہ، ایاز سومرو اور شرجیل میمن نے اعتراض کیا کہ ان میں سے متعدد ارکان صوبائی وزیر کے عہدے پر موجود ہیں۔ اب بھی ان کے استعفیٰ منظور نہیں ہوئے جب تک استعفے منظور نہیں ہوتے یہ حکومت کا حصہ ہیں۔ جام مدد علی نے کہا کہ ہم نے بہت پہلے استعفے وزیراعلیٰ سندھ کو پیش کردیے تھے لیکن انھوں نے آگے نہیں بھیجے۔ آج ہم نے گورنر سندھ کو بھی استعفے دیدیے۔ اسپیکر نثار احمد کھوڑو نے ان ارکان سے کہا کہ جب تک ان کے استعفے منظور نہیں ہوتے تب تک وہ اپنی نشستوں پر بیٹھیں۔ زمین پر بیٹھنا اچھا نہیں لگ رہا۔

اگر انھیں حکومت کی کسی بات کی مخالفت کرنی ہے تو اپنی نشستوں پر کریں۔ جب استعفے منظور ہوجائیں گے تو مجھے نشستیں الاٹ کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ مسلم لیگ فنکشنل کی خاتون رکن نصرت سحر عباسی نے اسپیکر سے کہا کہ وہ اسمبلی کی کارروائی چلائیں۔ ہم زمین پر بیٹھ کر کارروائی میں حصہ لیں گے۔ اسپیکر نے کہا کہ ان کی کوئی بات اسمبلی ریکارڈ اور کارروائی کا حصہ نہیں ہوگی۔ اس دوران وزیر اطلاعات شرجیل میمن بھی ان ارکان کے پاس گئے اور انھیں منانے کی کوشش کی لیکن ان کی کوششیں کامیاب نہ ہوئیں۔

اسی بحث اور شور شرابے میں تقریباً ایک گھنٹے تک اسمبلی کی کارروائی معطل رہی۔ اس دوران مسلم لیگ فنکشنل کی خاتون رکن ماروی راشدی اور سینئر وزیر پیر مظہرالحق کے دوران تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا۔ پیر مظہر نے انتہائی غصے میں یہ ریمارکس دیے کہ جو خاندانی لوگ ہوتے ہیں وہ اس طرح کی غیر مہذب باتیں نہیں کرتے۔ میں نے پہلی مرتبہ ایک لیڈی جوکر دیکھی۔ اس پر اپوزیشن کے ارکان نے احتجاج کیا ۔ ان ارکان کے دھرنے کے دوران وقفہ سوالات مکمل ہوا اور ایس پی ایل جی او2012ء سمیت 4 آرڈیننس ایوان میں پیش کیے گئے۔ وزیر قانون نے ضمنی ایجنڈے کے طور پر ایس پی ایل جی او کو متعارف کرانے اور اس پر غور کرنے کی اجازت طلب کی۔ اس پر اپوزیشن ارکان کھڑے ہوگئے اور انھوں نے زبردست احتجاج کیا اور نعرے بازی کی۔

ان ارکان نے پلے کارڈز بھی اٹھائے ہوئے تھے جن پر احتجاجی نعرے درج تھے۔ اس احتجاج اور نعرے بازی میں مذکورہ آرڈیننس منظور کرلیا گیا۔ اپوزیشن ارکان نعرے بازی کرتے ہوئے بعدازاں ایوان سے باہر چلے گئے۔ پیر مظہرالحق نے ان ارکان کے واک آئوٹ کے بعد کہا کہ ارکان نے گستاخانہ فلم کے خلاف تحریک التواء کی کاپی بھی پھاڑ دی جس پر اللہ اور رسولﷺ کے نام لکھے ہوئے تھے۔ یہ ارکان کاغذوں کو پائوں تلے روندتے ہوئے باہر نکل گئے۔ ان کی مذمت کرنی چاہیے۔ وزیر اطلاعات شرجیل میمن نے کہا کہ آج جو لوگ سندھ کے ٹھیکیدار بن رہے ہیں۔

یہ پرویز مشرف والے ضلعی حکومتوں کے نظام کا حصہ رہے ہیں۔ قبل ازیں سندھ سول سروس ترمیمی آرڈیننس، سندھ سول سرونٹس دوسرا ترمیمی آرڈیننس، انسانی اعضاء اور بافتوں کی پیوند کاری سے متعلق آرڈیننس بھی ایوان میں پیش کیے گئے جبکہ جناح سندھ میڈیکل یونیورسٹی بل 2012ء پر غور مؤخر کردیا گیا۔ نیا بلدیاتی آرڈیننس سندھ اسمبلی سے منظور ہونے کے بعد سندھ میں نیا بلدیاتی نظام اب باقاعدہ طور پر رائج ہوگیا ہے۔ واضح رہے کہ گورنر سندھ نے7 ستمبر 2012ء کو یہ آرڈیننس جاری کیا تھا اور اسے90 روز کے اندر یعنی چار دسمبر2012 ء سے پہلے اسمبلی سے منظور کرانا تھا لیکن یہ آرڈی ننس اپنے اجرا کے 25 دن بعد اسمبلی سے بھی منظور ہوگیا ہے۔

بعدازاں سندھ کے وزیر اطلاعات شرجیل انعام میمن نے وزیر ایکسائز مکیش کمار چاولہ، اراکین سندھ اسمبلی امداد پتافی اور عمران ظفر لغاری کے ہمراہ میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے منشور کے مطابق ہے پرائمری تعلیم اور پرائمری ہیلتھ، میٹروپولیٹن کارپوریشنز کے میئرز کے حوالے کی گئی ہیں۔ پولیس اور ریونیو صوبائی حکومت کے پاس ہیں۔ اگر کسی کو اعتراض ہے تو وہ اسمبلی میں ترامیم لائے ۔

سندھ کی طرف میلی آنکھ سے دیکھنے والوں کی آنکھیں نکالنا ہم جانتے ہیں۔ ہم سے بڑا قوم پرست کوئی نہیں ہے۔ آرڈیننس کی مخالفت وہ لوگ کررہے ہیں جو کسی زمانے میں کالا باغ ڈیم کے حق میں ریلیاں نکالتے تھے۔ پیپلز پارٹی نے ہی کالا باغ ڈیم سمیت سندھ دشمن منصوبوں کو ختم کیا اور پیپلز پارٹی نے ہی ضلعی حکومتوں کا پرویز مشرف والا کالا قانون بھی ختم کیا ۔ انھوں نے کہا کہ میاں نواز شریف کو آرڈیننس پر بولنے کا کوئی حق نہیں ۔ وہ کالا باغ ڈیم کے حامی ہیں اور انھوں نے جاگ پنجابی جاگ کے نعرے لگائے۔

نواز شریف سندھ کے بارے میں بدنیت ہیں اور سندھ کے خلاف سازشیں کر رہے ہیں ۔ وہ بتائیں کہ انھیں آرڈیننس کی کس شق پر اعتراض ہے ۔ پنجاب میں آج بھی مشرف کا ضلعی حکومتوں والا نظام چل رہا ہے ۔ یہ پروپیگنڈہ بھی کیا جاتا رہا کہ آرڈیننس رات کے اندھیرے میں لایا گیا ، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ آرڈیننس ایک دن یا ایک رات میں نہیں بنا ۔ ساڑھے تین سال تک اس پر مشاورت کی گئی۔ احتجاج کرنیوالے دوستوں کے پاس گیا اور انہیں کہا کہ وہ اپنی نشستوں پر آکر اپنا مؤقف بیان کریں لیکن انھوں نے اسمبلی میں اپنا مؤقف بیان کرنے کا موقع گنوا دیا ۔

شاید وہ آرڈیننس پڑھ کر نہیں آئے تھے یا انھیں آرڈیننس پر کوئی اعتراض نہیں تھا۔ دریں اثناء متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) سے تعلق رکھنے والے سندھ کے صوبائی وزراء سید فیصل علی سبزواری اور رضا ہارون ، صوبائی مشیر خواجہ اظہار الحسن نے بعض حلقوں کے اس تاثر کو غلط قرار دیا ہے کہ سندھ پیپلز لوکل گورنمنٹ آرڈی ننس (ایس پی ایل جی او) 2012ء سندھ کو تقسیم کرنے کی سازش ہے اور کہا ہے کہ سندھ کا نیا بلدیاتی نظام کراچی سے کشمور تک ایک ہی نظام ہے، جس سے لوگوں کو ان کی دہلیز تک سہولتیں میسر آئیں گی۔

انہوں نے آرڈی ننس کے مخالفین سے کہا ہے کہ اگر انھیں کوئی اعتراض ہے کہ وہ اسمبلی میں آکر ترامیم پیش کرسکتے ہیں ، اگر وہ ترامیم سندھ کے عوام کے حق میں ہوئیں تو ایم کیو ایم ان کی حمایت کرے گی ۔ سید فیصل علی سبزواری نے کہا کہ سندھ کے خلاف ماضی میں ہونے والی ہر سازش کو ایم کیو ایم نے مسترد کیا اور سندھ کے حقوق کی جدوجہد میں سب کا ساتھ دیا ۔ہم جہاں رہتے ہیں اور جہاں ہمیں رہنا ہے اس جگہ کا ہر قیمت پر تحفظ کریں گے ۔ انھوں نے کہا کہ مذکورہ آرڈیننس سندھ کے باسیوں کا تحفظ ہے ۔ لوگوں کو بتانا چاہیے ۔

کشمور کے لوگوں کو کراچی کے دفاتر میں آکر یہاں کیوں پریشان ہونا پڑے ۔ ان کے مسئلے وہیں حل ہونے چاہئیں ۔ آرڈیننس کی منظوری پر سندھ اسمبلی اور سیاسی قیادت مبارک باد کی مستحق ہے ۔ اس سوال پر کہ آرڈیننس کے خلاف احتجاج کے طور پر پورا سندھ بند ہے ۔ فیصل سبزواری نے کہا کہ کراچی سندھ کا دارالحکومت ہے جہاں سرگرمیاں ہو رہی ہیں ۔ اسٹاک مارکیٹ سے لے کر تمام کاروباری سرگرمیاں جاری ہیں ۔ رضا ہارون نے کہا کہ جمہوریت میں ضروری نہیں کہ ہر کوئی ہر فیصلے سے متفق ہو، ہم اختلاف رائے کا احترام کرتے ہیں ۔

دریںا ثنا صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے اسپیکر نثار کھوڑو نے کہا کہ قانون پاس کرنا اسمبلی کا حق ہے، فیصلہ درست ہے یا نہیں اس کا فیصلہ عوام نے کرنا ہے۔ عوام نے آرڈیننس منظور کرنیوالوں کو ووٹ دیا تو سمجھا جائیگا کہ بلدیاتی نظام عوام نے قبول کرلیا ہے۔ اسپیکر نے کہا کہ آرڈیننس کی حمایت کرنے والی پارٹیوں نے اس پر طویل مشاورت کی تھی لہٰذا آرڈیننس پر بحث کی ضرورت پیش نہیں آئی ہوگی ۔ قبل ازیں وقفہ سوالات کے دوران سندھ کے وزیر برائے اقلیتی امور ڈاکٹر موہن لال نے اقلیتی رکن سلیم خورشید کھوکھر کے ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ سندھ میں یکم مارچ 2008ء سے 30 نومبر2011ء تک اقلیتی برادریوں سے تعلق رکھنے والے143افراد اغوا ہوئے۔

انھوں نے کہا کہ اغواء ہونے والے زیادہ تر لوگ بازیاب ہوچکے ہیں۔ قبل ازیں سندھ اسمبلی میں پیر کو پیپلز پارٹی کی خاتون رکن حمیرا علوانی کی تحریک استحقاق اسمبلی کی استحقاق کمیٹی کے سپرد کردی گئی ۔ حمیرا علوانی نے اپنی تحریک استحقاق میں کہا کہ مجھے اور میرے خاندان کو دھمکی آمیز فون موصول ہو رہے ہیں۔ میں نے ڈی آئی جی سائوتھ کراچی مشتاق مہر کو دو ماہ قبل ایک لیٹر لکھا تھا اور انھیں صورت حال سے آگاہ کیا تھا لیکن مشتاق مہر نے نہ تو مجھ سے کوئی رابطہ کیا اور نہ ہی میرے لیٹر کا کوئی جواب دیا ۔ ابھی تک مجھے اور میرے خاندان کو سیکیورٹی فراہم نہیں کی گئی ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں