پھر نوبل پرائز پھر وہی کیسے اور کیوں

برصغیر کے مسلمانوں کی تاریخ میں سرسید احمد خاں پہلے شخص تھے جو حصول تعلیم کو ایک مشن کے طور پر اپنا کر گھر سے نکلے۔


Intezar Hussain December 14, 2014
[email protected]

یک نہ شد دو شد۔ پاکستان سے وہ پہلا ہی نوبل پرائز جو اس کی گود میں آ پڑا تھا سنبھالا نہیں جا رہا تھا۔ اوپر سے اب ایک اور نوبل پرائز پھر اس کی گود میں آن پڑا۔ اب پھر ایک مسئلہ کھڑا ہو گیا۔ پھر یاروں کے لیے ایک الجھن کہ اس قند مکرر کو نگلیں یا اگلیں۔ سو سو طرح کی باتیں' سو سو طرح کے شک؎

مجھ تک کب ان کی بزم میں آتا تھا دورِ جام
ساقی نے کچھ ملا نہ دیا ہو شراب میں

پہلے نوبل پرائز کا معاملہ تو سیدھا سیدھا تھا۔ لیجیے ہمیں اس نوبل پرائز کے ذکر سے اشفاق احمد کی ایک بات یاد آ گئی۔ اسٹیج کے تو وہ بادشاہ تھے۔ مغز سے ایسی بات اتار کر لاتے تھے کہ دھری جائے نہ اٹھائی جائے۔ اپنی رو میں باتیں کرتے کرتے بولے کہ پاکستان کو بنے اتنے برس ہو گئے۔ اب تک یہاں آٹھ دس برٹرینڈ رسل پیدا ہو جانے چاہیے تھے۔ پتہ نہیں کیوں پیدا نہیں ہوئے۔ اب ہم سوچ رہے ہیں کہ ایک سائنس داں ہمارے بیچ سے اٹھا تھا۔ اس کے کام کو جب بین الاقوامی سطح پر سراہا گیا اور نوبل پرائز سے نوازا گیا تو ہمارے لیے وہ ایک مسئلہ بن گیا۔ اوچھے کے گھر میں تیتر' باہر رکھوں کہ بھیتر۔ آخر قرار پایا کہ اسے باہر ہی رکھو۔ بھیتر رکھتے ہیں تو پتہ نہیں وہ کیا گل کھلائے۔ اب ہم سوچ رہے ہیں کہ ایک سائنسداں ملک پر اتنا بھاری پڑا۔ آٹھ دس رسل پیدا ہو جاتے تو ہمارا کیا حال ہوتا۔

خیر وہ وقت تو گزر گیا۔ اب ایک اور نوبل پرائز پاکستان کے نام لکھا گیا۔ اور اب کے اس کے نام ایک بڑا ڈرامہ بھی لکھا گیا۔ ایک لڑکی سوات کی رہنے والی۔ ابھی اسکول میں پڑھ رہی تھی کہ ایک ڈرامہ ہو گیا۔ ڈرامہ سا ڈرامہ۔ موت کے منہ میں جاتے جاتے انگلستان کے ڈاکٹروں کی کرامات سے جی اٹھی۔ اس سے بڑھ کر یہ ڈرامہ ہوا کہ ابھی اس نے قد نکالا ہی تھا۔ برس چودھواں یا کہ سولہ کا سن۔ نوبل پرائز جس کے لیے ملک کے عالم فاضل اور خدائی خدمت گار ترستے ترستے دنیا سے گزر جاتے ہیں وہ اس آفت کی پرکالہ کو مل گیا۔ پتہ نہیں وہ کیسا لڑکا تھا جس کے بارے میں اسماعیل میرٹھی نے لکھا تھا کہ ؎

واہ واہ شاباش لڑکے واہ واہ
تو جواں مردوں سے بازی لے گیا

اس زمانے میں جتنی شاباشی ملتی تھی لڑکوں کو ملتی تھی۔ لڑکیاں بیچاری گھروں کے کونوں میں چھپی بیٹھی رہتی تھیں۔ اب زمانہ لڑکیوں کا ہے۔ خود پاکستان میں کیسی کیسی لڑکی کراچی' اسلام آباد اور لاہور ایسے شہروں کی یونیورسٹیوں سے اسناد اور ڈگریاں لے کر نکل رہی ہے اور آسمان میں تھگلی لگا رہی ہے مگر وہ سب منہ دیکھتی رہ گئیں۔ سوات کی ایک اسکول گرل انھیں پیچھے چھوڑ گئی اور آسمان میں کیا تھگلی لگائی کہ نوبل پرائز جیت لیا۔ واہ واہ شاباش لڑکی واہ واہ۔ اسماعیل میرٹھی اب ہوتے تو یہی کہتے نا۔

لیکن ہم ایک اور حوالے سے حیران ہیں۔ ارے تعلیم کو تو ہم نے قابل توجہ مسئلہ سمجھا ہی نہیں تھا۔ برصغیر کے مسلمانوں کی تاریخ میں سرسید احمد خاں پہلے شخص تھے جو حصول تعلیم کو ایک مشن کے طور پر اپنا کر گھر سے نکلے۔ کونسی تعلیم۔ مولانا محمد حسین آزاد کا یہ بیان یاد کیجیے کہ نئے علوم جن صندوقوں میں بند ہیں ان کی کنجیاں انگریزی زبان کے پاس ہیں۔ تو سرسید نے اس مشن پر نکلے ہوئے تھے۔ مسلمان لڑکے انگریزی پڑھیں اور نئے علوم کے صندوقوں کی کنجیاں حاصل کریں۔ ایسا نہ کیا تو رہیں گے وہی موچی کے موچی۔ بقول سلیم احمد

ہو کے سید بنے سلیم چمار

اس پہ کیا کیا ہنگامے ہوئے۔ مولویوں نے دہائی دی کہ ارے اب مسلمانوں کے بچے کافروں کی زبان میں گٹ پٹ کریں گے۔ سرسید پر ہر طرف سے تھو تھو ہوئی۔ اور اکبر الہ آبادی بھی سید کے خلاف رواں ہوگئے

افسوس کہ شیطان کو کالج کی نہ سوجھی

ورنہ سرسید سے پہلے وہ کالج کھولتا اور مسلمان لڑکوں کو اس میں ڈھکیلتا۔

اب سرسید کے کتنے بعد جا کر ایک لڑکی نے ایسا ہی مشن اپنایا ہے۔ بیچ میں کوئی ایسا لیڈر کوئی ایسا مشنری آیا ہی نہیں۔ اب جا کر ایک لڑکی... اے لو بیچ میں جو شیخ عبداللہ آئے تھے انھیں ہم بھولے ہی جا رہے ہیں اور ہاں یہ وہ کشمیری لیڈر شیخ عبداللہ نہیں ہیں' تھے ویسے یہ بھی کشمیری ہی۔ ان کی اپنی کہانی ہے۔ کیسے کشمیر سے نکل کر لاہور پہنچے۔ لاہور سے نکل کر علی گڑھ کی راہ لی۔ پھر سرسید کے مرید بن کر علی گڑھ ہی کے ہو رہے۔ سرسید کے سب مریدوں سے بڑھ کر مرید۔ لیکن جب سرسید علی گڑھ میں مسلمان لڑکوں کے لیے کالج کھولنے میں کامیاب ہو گئے تو انھوں نے لڑکیوں کی تعلیم کا شگوفہ چھوڑا۔ لیجیے ع

ایں گل دیگر شگفت

خود سرسید بھی سٹپٹائے کہ ابھی ایک طوفان سے نبٹے ہیں۔ اب اس عزیز نے دوسرے طوفان سے ہمیں بھڑانے کا سامان کیا ہے۔ انھوں نے اسے سمجھایا بھی۔ مگر اس عزیز نے ایک نہ سنی۔ تعلیم نسواں کو اپنا مشن بنا لیا۔ لیجیے وہ تو دیکھتے دیکھتے ایک تحریک بن گئی۔ علی گڑھ سے بڑھ کر دلی اور لاہور میں یہ تحریک پھیلی پھولی۔ لاہور سے ایک رسالہ نکلا تہذیب نسواں۔ اس کے کرتا دھرتا مولوی ممتاز علی اور ان کی بیگم محمدی بیگم۔ ادھر دلی میں مصور غم مولانا راشد الخیری مظلوم مسلمان عورتوں کے چیمپین بن گئے۔ عصمت کے نام سے ایک نسوانی رسالہ نکالا۔ وہاں بھی ان بیبیوں کی مظلومی کا علاج یہی نظر آیا کہ ان کی تعلیم کا بندوبست کیا جائے ان رسالوں میں کتنی لکھنے والیاں نمودار ہوئیں۔ ایک کے بعد دوسری۔ دوسری کے بعد تیسری۔ اس ایک شعر کو ان کا قومی ترانہ جانئے؎

اصلاح قوم آپ کو منظور ہے اگر
بچوں سے پہلے مائوں کو تعلیم دیجیے

اور لیجیے بالآخر علی گڑھ میں لڑکیوں کا ایک اسکول کھل ہی گیا۔ سب سے پہلے جن گھروں کی گنی چنی لڑکیوں نے ماں باپ کی رضا سے گھر کی دہلیز نانگھی اور اسکول میں پہنچیں ان میں خود شیخ عبداللہ کی بھی شاید تین بیٹیاں تھیں ان میں سے ایک بیٹی ڈاکٹر رشید جہاں بن کر چمکی۔ چھوٹتے ہی 'انگارے' نام کے ایک باغیانہ مجموعہ میں سجاد ظہیر اور پروفیسر احمد علی کے دوش بدوش ایک کہانی لکھی۔ اس کے چھپتے ہی مسلمانوں میں ایک شور پڑ گیا اور بس پھر فوراً ہی وہ مجموعہ ضبط ہو گیا۔

پھر تو گل کھلتے ہی چلے گئے' لاہور میں' دلی میں۔ یہ داستان لمبی ہے۔ اپنے زمانے میں آ جائیے۔ پھر اس کے بعد تعلیم کو کسی مسلمان رہنما' کسی سماجی کارکن نے اپنا مشن نہیں بنایا۔ کتنے زمانے بعد اچانک سوات سے ایک چنگاری نکلی۔ مگر چنگاری تو بعد میں چمکی۔ پہلے تو وہاں لڑکیوں کے اسکول جلنے پھنکنے لگے۔ اسی آگ سے ایک چنگاری نکلی۔ ابھی نکلی ہی تھی کہ گولی کا نشانہ بنی۔ اس کے بعد تو بجھتے بجھتے وہ ایسی بھڑکی کہ شعلہ بن کر بھڑک اٹھی۔ عمر یہی کوئی سترہ کا سن۔ مگر سوات سے بڑھ کر دنیا کی ساری لڑکیوں کی تعلیم کا مشن اپنا لیا ہے

آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا
بات چل نکلی ہے اب دیکھیں کہاں تک پہنچے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں