سیاسی کارکنوں کا امتحان

سیاسی کارکن اگر باشعور ہوں تو ان کی نظر پختہ پارٹی کے منشور کے ساتھ پارٹی کے رہنماؤں کے کردار پر ہوتی ہے.


Zaheer Akhter Bedari December 14, 2014
[email protected]

سیاسی کارکن سیاسی جماعتوں کا بہت بڑا سرمایہ ہوتے ہیں۔ جماعتوں کو عوام میں مقبول بنانا، قیادت کو شہرت کے میناروں پر پہنچانا، جلسوں جلوسوں کو کامیاب بنانا، انتخابی مہم کو بام عروج پر پہنچانا اور ضرورت کے وقت جانی اور مالی قربانیاں دینا سیاسی کارکنوں کے وہ کارنامے ہیں جن کی بنیادوں پر پارٹیوں کی عمارت کھڑی ہوتی ہے جن کی کوششوں سے پارٹی اقتدار میں آتی ہے۔ لیکن ہماری سیاست چونکہ ابھی تک فیوڈلز سماج میں محصور ہے اس لیے سیاسی کارکنوں کو ہاری اور کسان بنا کر رکھا گیا ہے۔

سیاسی کارکن اگر باشعور ہوں تو ان کی نظر پختہ پارٹی کے منشور کے ساتھ پارٹی کے رہنماؤں کے کردار پر ہوتی ہے جس پارٹی کے کارکن باشعور اور عوام سے مخلص ہوتے ہیں وہ اپنی قیادت کو پارٹی منشور کے تابع رکھتے ہیں، جن پارٹیوں کے کارکن مفاد پرست ہوں ان کی قیادت کارکنوں کے دباؤ اور کنٹرول سے آزاد ہوتی ہے عموماً کرپٹ قیادت کارکنوں کو چھوٹی موٹی مراعات دے کر اپنے قابو میں رکھتی ہے اور خود بے لگام کرپشن کا ارتکاب کرتی ہے۔

سیاسی کارکن جس کا تعلق خواہ کسی پارٹی سے ہو غریب طبقات ہی سے ہوتا ہے اور اس کی ذمے داری ہوتی ہے کہ وہ غریب طبقات کے مفادات کو ہمیشہ پیش نظر رکھے۔ ہمارے ملک کی سیاست چونکہ عموماً کرپٹ ہے اس لیے اس کی نظر ہمیشہ اپنے ذاتی مفادات پر رہتی ہے اس قسم کی قیادت کے مفادات کا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے سیاسی کارکنوں کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرے اپنے کارکنوں کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کرنے کا ایک طریقہ یہ ہوتا ہے کہ انھیں ایسی سیاسی پارٹیوں کے خلاف استعمال کرے جو عوام سے نسبتاً مخلص اور اس کے اقتدار کے لیے خطرہ بن جاتی ہیں۔

اس استعمال سے بچنے کے لیے سیاسی کارکنوں کا فرض ہے کہ وہ اپنی پارٹی اور دوسری پارٹیوں کے منشور کا مطالعہ کریں ان کی سیاسی سرگرمیوں پر نظر رکھیں۔ پارٹی کی قیادت خاص طور پر حکمران پارٹیوں کی قیادت ان پارٹیوں اور ان رہنماؤں کے خلاف پروپیگنڈے کا ایک طوفان اٹھا دیتی ہے جن سے ان کے اقتدار کو خطرہ لاحق ہوتا ہے اور جو عوامی مفادات کے لیے سرگرم رہتی ہیں۔

ماضی میں اس حوالے سے مفاد پرست سیاسی جماعتوں کے پروپیگنڈے کا سب سے زیادہ شکار بائیں بازو کی وہ سیاسی جماعتیں رہیں جو عوام کی زندگیوں، ان کی معاشی حالت کو بہتر بنانے اور انھیں طبقاتی استحصال سے بچانے کے لیے سوشلسٹ نظام معیشت کو ناگزیر سمجھتی تھیں۔ اس نظام معیشت سے نہ صرف مقامی اور ملکی بورژوا سیاسی جماعتوں کو خطرات لاحق تھے بلکہ اصل خطرہ اس سرمایہ دارانہ نظام کو تھا جس کی پوری عمارت طبقاتی استحصال کی بنیادوں پر کھڑی ہوئی ہے۔

اس خطرے سے نمٹنے کے لیے سرمایہ داروں کی پروردہ سیاسی جماعتوں نے سوشلسٹ نظام معیشت کو مذاہب سے متصادم اور ان جماعتوں کے کارکنوں اور رہنماؤں کو لادین قرار دے کر عوام اور سیاسی کارکنوں میں بدظن کرنے کی بھرپور کوشش کی اور ان کوششوں میں وہ بڑی حد تک اس لیے کامیاب بھی ہوئے کہ عوام اپنے قائد سے محبت اور اس کی حرمت میں اس قدر اندھے ہو جاتے ہیں کہ وہ پروپیگنڈے اور حقیقت میں امتیاز نہیں کر پاتے۔

سیاسی مخالفت سیاسی اختلافات سیاسی مخاصمت کبھی اصولوں اور اخلاقی قدروں سے مطابقت نہیں رکھتی بلکہ یہ ذاتی اور جماعتی مفادات پر منحصر ہوتی ہے۔ 1970ء میں ہونے والے انتخابات میں ذوالفقار علی بھٹو کے منشور پر شدید تنقید کی گئی جب کہ بھٹو نہ ترقی پسند تھے نہ بھٹو کسی ایسے نظام کے علمبردار تھے جس کے حوالے سے مخالفانہ مہم چلائی جائے۔ بھٹو کا تعلق ایک جاگیردار خاندان سے تھا۔

وہ عوام کو متحرک کرنے کی واحد صلاحیت رکھتے تھے اور اسی صلاحیت کو ان کی مخالف جماعتیں اپنے لیے بہت بڑا خطرہ سمجھتی تھیں اور ان پر طرح طرح کے الزام لگاکر عوام کو ان سے بدظن کرنے کی کوشش کر رہی تھیں۔ لیکن بھٹو پر اعتماد کرنے والے عوام پر اس پروپیگنڈے کا کوئی اثر نہ ہوا اور مغربی پاکستان میں پیپلز پارٹی بھاری اکثریت سے جیت گئی۔ یہ الگ بات ہے کہ اقتدار میں آنے کے بعد بھٹو نے اپنے وعدے پورے نہیں کیے۔

اس پس منظر کا ذکر یوں ضروری تھا کہ آج ملک بھر میں ایک سیاسی تناؤ کی کیفیت موجود ہے۔ ابھی 8 دسمبر کو فیصل آباد میں مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کے کارکنوں کے درمیان تناؤ نے تصادم کی شکل اختیار کر لی۔ کہا جا رہا ہے کہ تحریک انصاف کے کارکنوں پر گولیاں چلانے والوں کا تعلق مسلم لیگ (ن) سے ہے ۔چینلوں پر جن لوگوں کو ہجوم پر گولیاں چلاتے دیکھا جا رہا ہے ان کے بارے میں یہ کہا جا رہا ہے کہ یہ رانا ثنا اللہ کے کارکن ہیں۔ اگرچہ کہ رانا ثنا اللہ اس کی تردید کر رہے ہیں لیکن عمومی تاثر یہی ہے کہ گولیاں چلانے والے حکومتی جماعت سے تعلق رکھتے ہیں۔

مسلم لیگ (ن) چونکہ اقتدار میں ہے لہٰذا اسے یہ سہولت حاصل ہے کہ ریاست مشنری اس کے حکم کے تابع رہتی ہے اور حکومت اس مشنری کو جس میں پولیس رینجرز شامل ہیں کو استعمال کر سکتی ہے۔ اس حوالے سے کہا جا رہا ہے کہ جس وقت تحریک انصاف کے کارکنوں پر گولیاں چلائی جا رہی تھیں اس وقت پولیس وہاں موجود تھی لیکن نہ اس نے گولیاں چلانے والوں کو روکا نہ گرفتار کیا۔فیصل آباد میں چلائی جانے والی گولیوں سے تحریک انصاف کا ایک کارکن جاں بحق ہوگیا۔

بدقسمتی یا المیہ یہ ہے کہ گولیاں چلانے والا اور گولیوں سے ہلاک ہونے والا دونوں ہی غریب طبقے سے تعلق رکھتے تھے۔ سیاسی کارکن اگر اس حقیقت کو سمجھ لیں کہ وہ اشرافیہ کے مفادات کے لیے استعمال ہو رہے ہیں اور مرنے اور مارنے والوں کا تعلق غریب طبقات ہی سے ہے تو یقیناً انھیں اپنے طبقاتی بھائیوں پر گولیاں چلانے کی غلطی کا احساس ہوگا۔

پاکستان ہی نہیں پسماندہ جمہوری ملکوں میں جہاں بھی سیاسی پارٹیوں کے درمیان تصادم ہوتا ہے تو اس کا نشانہ غریب سیاسی کارکن ہی بنتے ہیں سرمایہ دارانہ جمہوریت میں پولیس سمیت تمام ریاستی مشنری حکومت کی تحویل میں ہوتی ہے اور حکومتیں ریاستی مشنری کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کرتی ہیں، عوام کے خلاف گولیاں چلانا لاٹھی چارج کرنا، آنسو گیس استعمال کرنا، واٹر کینن کا استعمال۔

یہ ریاستی مشنری کا اگرچہ غلط استعمال ہے لیکن چونکہ ریاستی مشنری قانوناً حکومتوں کی تحویل میں ہوتی ہے اس لیے اسے وہی کرنا پڑتا ہے جس کا حکم حکام دیتے ہیں لیکن سیاسی کارکن ریاستی مشنری کا حصہ نہیں ہوتے سیاسی کارکن خواہ ان کا تعلق کسی سیاسی جماعت سے ہو عوامی مفادات کے محافظ ہوتے ہیں اور ان کا تعلق بھی عوام ہی سے ہوتا ہے لہٰذا انھیں اس بات کا شعور ہونا چاہیے کہ وہ ریاستی مشنری کا حصہ نہیں ہیں بلکہ باشعور سیاسی کارکن ہیں انھیں اس بات کا احساس ہونا چاہیے کہ سرمایہ دارانہ اور فیوڈل نظام میں حکمران طبقات اور سیاسی رہنما سیاسی کارکنوں کو اپنے سیاسی مفادات کے لیے ریاستی مشنری کی طرح استعمال کرتے ہیں۔

سیاسی کارکن سیاسی اخلاقیات کے مطابق اپنی پارٹی کے تابع ہوتا ہے لیکن سیاسی کارکنوں کو اتنی سمجھ ہونی چاہیے کہ پارٹی سے ان کی وفاداری کا مطلب پارٹی کی قیادت کے ذاتی اور سیاسی مفادات سے وفاداری نہیں ہوتا نہ ہی مخالف پارٹیوں کے کارکنوں پر حملے کرنا اور ان کی جانیں لینا سیاسی کارکنوں کی اخلاقیات میں شامل ہے۔

بورژوا سیاست کے وڈیرے سیاسی کارکنوں کو ہاریوں کی طرح استعمال کرتے ہیں۔ سیاسی کارکنوں کو یہ احساس ہونا چاہیے کہ وہ ہاری یا غلام نہیں کہ سیاسی وڈیروں کے ہر حکم کی تعمیل کریں وہ صرف پارٹی کے منشور کے وفادار ہوتے ہیں اور مخالف پارٹیوں کے کارکنوں کا احترام کرنا ان کا فرض ہوتا ہے۔ پاکستان اس وقت ایک بامعنی تبدیلیوں کے دور سے گزر رہا ہے ''اسٹیٹس کو'' کی حامی طاقتیں تبدیلیوں کو روکنے کے لیے ریاستی مشنری کے ساتھ ساتھ اپنے کارکنوں کو بھی استعمال کرنا چاہتے ہیں جس کا سیاسی کارکنوں کو ادراک ہونا چاہیے یہ کارکنوں کا امتحان ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں