آرمی چیف کا غیر متزلزل عزم
دہشت گردوں سے عالمی امن کو خطرات لاحق ہیں اور بدلتے حالات کے ساتھ دفاعی ضروریات بھی تبدیل ہو رہی ہیں۔
حال ہی میں آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے کراچی میں بین الاقوامی دفاعی نمائش کا دورہ کرتے ہوئے جن خیالات کا اظہار کیا وہ آنکھیں کھول دینے والے ہیں۔ پاکستان کو ایسے خیالات اپنانے کی بہت پہلے ضرورت تھی۔ یہاں یہ تو نہیں کہا جا سکتا کہ سب کچھ لٹا کے ہوش میں آئے تو کیا کیا۔ یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ دیر آید درست آید۔ اپنی تقریر میں انھوں نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف ہم پورے خلوص سے جنگ جاری رکھے ہوئے ہیں اور اس کے خاتمے کے لیے ہمارا عزم غیر متزلزل ہے۔ اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہونا چاہیے۔
اپنی کارروائی اس وقت تک بلا امتیاز جاری رکھیں گے جب تک دہشت گردی کی تمام شکلوں سے نجات حاصل نہیں کر لیتے۔ سیمینار سے خطاب میں انھوں نے کہا کہ دہشت گردی کی تمام اقسام اور نظریات کو عوام کی مدد سے خاتمہ کر کے دم لیں گے۔ غیر ریاستی عناصر کی وجہ سے اندرونی سیکیورٹی متاثر ہو رہی ہے۔ ان پر قابو نہ پایا گیا تو صورت حال گمبھیر ہو سکتی ہے۔ خطے میں پائیدار امن کے لیے مسئلہ کشمیر اور فلسطین کا حل ضروری ہے۔
جنرل راحیل شریف نے کہا کہ معاشرے کو دہشت گردوں کے نظریات سے محفوظ رکھنے کے لیے تمام محاذوں پر کردار ادا کرنا ہو گا۔ ملکی سیکیورٹی کو این جی اوز اور ملٹی نیشنل کمپنیوں سے بھی خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔ دہشت گرد کسی ضابطہ اخلاق کے پابند نہیں ہوتے تاہم جمہوری ممالک کی افواج کو اخلاقی و قانونی اقدار کا خیال رکھنا ہوتا ہے۔ پاکستان دنیا کے لیے ایک مثال ہے جو گزشتہ 35 سال سے حالت جنگ میں ہے جس نے امن کی خاطر بیش بہا قربانیاں دیں اور اب دنیا ہماری کامیابی دیکھے گی۔
دہشت گردوں سے عالمی امن کو خطرات لاحق ہیں اور بدلتے حالات کے ساتھ دفاعی ضروریات بھی تبدیل ہو رہی ہیں۔ اندرونی سیکیورٹی کی نسبت بیرونی خطرات سے نمٹنا آسان ہوتا ہے اور صرف بارڈر سیکیورٹی سے اندرونی سیکیورٹی ممکن نہیں۔ ہم ایک مشکل وقت میں زندگی گزار رہے ہیں۔ جس میں غربت بیروزگاری فوڈ سیکیورٹی اور پانی کی کمی بھی نئے سیکیورٹی چیلنج ہیں۔ مذہبی اور گروہی شناخت بھی جنگوں کی نئی وجوہات بن رہی ہیں۔
آرمی چیف نے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے اپنے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی کے خاتمے تک دہشت گردوں کے خلاف بلا تفریق کارروائی جاری رہے گی۔ دہشت گرد اپنی سوچ مسلط کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ تنازعات اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیے حقیقت پسندانہ کردار ادا کرنا ہو گا۔ مہاجرین کا دوسرے ملک جانا خطرے کا باعث ہے۔ ہماری سیکیورٹی ہمسایہ ملکوں کی سیکیورٹی پر منحصر ہے۔ اپنے نظریات اور ثقافت کے تحفظ کے لیے کام کرنا ہو گا۔ موجودہ میکانزم انتہا پسندوں اور غیر ریاستی عناصر سے نمٹنے کے لیے ناکافی ہے۔
گلوبلائزیشن سے جہاں دنیا قریب آئی وہاں غیر ریاستی عناصر بھی اکٹھے ہو گئے۔ آزادی اظہار کے دور میں ترقی پذیر ملکوں میں سب کو جوابدہ ہونا پڑتا ہے۔ آرمی چیف نے کہا کہ سیکیورٹی کی موجودہ پیچیدہ صورت حال میں قومی سلامتی یقینی بنانا ریاست کے ہر ادارے کی ذمے داری ہے۔ اس کو سمجھنا آسان ہے لیکن اس پر عملدرآمد نہایت مشکل۔ پاکستان کو دفاعی حوالے سے پیچیدہ صورت حال کا سامنا ہے کیونکہ ہمارا دشمن ہم جیسا اور ہم میں ہی موجود ہے۔
سوچ میں تبدیلی کا آغاز آج سے دو سال پہلے شروع ہوا جب کہا گیا کہ ہمیں بیرونی سے زیادہ اندرونی دشمن سے خطرہ ہے۔ آرمی چیف نے ایک بڑی سچائی اس طرح بیان کی کہ ہم اس وقت تک محفوظ ہیں جب ہمارے ہمسایہ ممالک بھی محفوظ ہوں اور ایک دوسرے کی خود مختاری کا خیال رکھیں۔ اس کے ساتھ انھوں نے یہ حقیقت بھی بیان کی کہ جہاں گلوبلائزیشن کے فائدے ہوئے وہاں اس گلوبلائزیشن نے پوری دنیا کے دہشت گردوں کو ایک دوسرے کے قریب آنے اور متحد ہونے کا موقعہ فراہم کیا۔ جس کی وجہ سے وہ اتنے طاقتور ہو گئے کہ وہ ریاستوں کے لیے خطرہ بن گئے۔ جس کا سامنا اس وقت پاکستان کو ہے۔
اس طرح ان دہشت گرد گروہوں نے طاقت اور وسائل کی بنیاد پر اپنی سوچ و نظریہ مسلط کرنے کی کوشش جس کا نظارہ داعش، القاعدہ، طالبان کی شکل میں دنیا کے مختلف حصوں میں ہم کر رہے ہیں۔ غیر ریاستی عناصر ایک ایسا فتنہ ہیں جس کا تاریخ نے کم ہی مشاہدہ کیا ہے۔ ابتدائے اسلام کی تاریخ ہو یا اس کے بعد، انسانوں کو ایک ہولناک تباہی کا سامنا کرنا پڑا۔ غیر ریاستی عناصر کے چنگل سے نکلنا آسان کام نہیں کیونکہ ان کا سب سے بڑا اسلحہ نظریہ ہے اور یہ اپنے نظریے کے ذریعے سادہ لوح، کم علم، بے خبر لوگوں کے اذہان کو فتح کر لیتے ہیں جس کے اثرات مدتوں برقرار رہتے ہیں۔
دہشت گردوں سے تنہا نمٹنا آسان کام نہیں'' بین الاقوامی برادری کی سپورٹ کے بغیر ان کا خاتمہ نہیں ہو سکتا۔ وہ بین الاقوامی برادری جنہوں نے اپنے مفادات (سوویت یونین کے خاتمے) کے لیے انھیں جنم دیا۔ پاکستان گزشتہ تین سے زائد دہائیوں سے حالت جنگ میں ہے اس کے باوجود آرمی چیف پر عزم ہیں کہ دنیا بہت جلد ہماری کامیابیاں دہشت گردی کے خاتمے کی شکل میں دیکھے گی اور پاکستان پھر سے پر امن ملک بن جائے گا۔ دہشت گردوں کے خلاف جتنے بڑے پیمانے پر کامیابیاں ہو رہی ہیں وہ دنیا کے سامنے ایک بڑا ثبوت ہیں۔ اس کی تعریف تو چینی سیکیورٹی وزیر نے پاکستان آ کر کی۔
کئی دہائیوں کے بعد خطے کے لیے بہت بڑی خوش خبری ہے کہ پاکستان افغانستان دونوں دہشت گردی کے خاتمے کے لیے متحد ہو گئے ہیں۔ پاکستانی فوج دہشت گردوں کے خلاف مسلسل آپریشن کررہی ہے۔ جس کے نتیجے میں القاعدہ کا ایک بڑا لیڈر مارا گیا جو شمالی وزیرستان سے روپوش ہو کر جنوبی وزیرستان ایک گھر میں چھپا ہوا تھا۔ یہ حالت ہے کہ ان کی بہادری کی جب پاکستانی فوج نے نہیں گردن سے پکڑ لیا تو ان کے پاؤں کے نیچے سے زمین نکل گئی۔ دہشت گردوں کے حمایتی و ترجمان جو ان کی شجاعت کے بارے میں رطب اللسان رہتے تھے۔
اب کیا کہتے ہیں ان سلیپنگ سلز جن کا ڈراوا اور پاکستانی عوام کو دیا جاتا تھا۔ وہ کہاں ہیں، بہ حیثیت قوم ہماری کمزوریاں ہی ہیں کہ دنیا بھر کا دہشت گرد منہ اٹھائے پاکستان کو دہشت گردوں کی جنت سمجھتے ہوئے یہاں پہنچ جاتا ہے کیونکہ ہمارے ہاں ایک بڑی تعداد ایسے لوگوں کی ہے جو ان جنگجوؤں کی مدد کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ چاہے اس کے نتیجے میں پاکستان تباہ برباد ہی ہوجائے۔
آپ پوری دنیا کو دیکھ لیں دہشت گردوں کے مدد گار اس بدقسمت ملک پاکستان میں ہی پائے جاتے ہیں۔ کہیں اور نہیں۔ اس سے بڑی ہماری بدقسمتی اور کیا ہو سکتی ہے۔ اسی حقیقت کو آرمی چیف نے اس طرح بیان کیا کہ دوسرے ملکوں کے مقابلے میں پاکستان کا دہشت گردی کے خلاف لڑنا اور جیتنا آسان نہیں کیونکہ یہ دہشت گرد ہم جیسے ہیں اور ہم ہی میں موجود ہیں۔
یہی وہ بات ہے جو سب کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہیں۔ پاکستان کی بقا ہی اس میں ہے کہ ہم اپنے ان دشمنوں کو بھی پہچان لیں جو ہمارے درمیان میں ہی ہیں۔ مزیدتاخیر کا وقت نہیں ہے۔
رواں موسم سرما میں شدید سردی کا ریکارڈ ٹوٹ جائے گا۔
سیل فون:۔0346-4527997
اپنی کارروائی اس وقت تک بلا امتیاز جاری رکھیں گے جب تک دہشت گردی کی تمام شکلوں سے نجات حاصل نہیں کر لیتے۔ سیمینار سے خطاب میں انھوں نے کہا کہ دہشت گردی کی تمام اقسام اور نظریات کو عوام کی مدد سے خاتمہ کر کے دم لیں گے۔ غیر ریاستی عناصر کی وجہ سے اندرونی سیکیورٹی متاثر ہو رہی ہے۔ ان پر قابو نہ پایا گیا تو صورت حال گمبھیر ہو سکتی ہے۔ خطے میں پائیدار امن کے لیے مسئلہ کشمیر اور فلسطین کا حل ضروری ہے۔
جنرل راحیل شریف نے کہا کہ معاشرے کو دہشت گردوں کے نظریات سے محفوظ رکھنے کے لیے تمام محاذوں پر کردار ادا کرنا ہو گا۔ ملکی سیکیورٹی کو این جی اوز اور ملٹی نیشنل کمپنیوں سے بھی خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔ دہشت گرد کسی ضابطہ اخلاق کے پابند نہیں ہوتے تاہم جمہوری ممالک کی افواج کو اخلاقی و قانونی اقدار کا خیال رکھنا ہوتا ہے۔ پاکستان دنیا کے لیے ایک مثال ہے جو گزشتہ 35 سال سے حالت جنگ میں ہے جس نے امن کی خاطر بیش بہا قربانیاں دیں اور اب دنیا ہماری کامیابی دیکھے گی۔
دہشت گردوں سے عالمی امن کو خطرات لاحق ہیں اور بدلتے حالات کے ساتھ دفاعی ضروریات بھی تبدیل ہو رہی ہیں۔ اندرونی سیکیورٹی کی نسبت بیرونی خطرات سے نمٹنا آسان ہوتا ہے اور صرف بارڈر سیکیورٹی سے اندرونی سیکیورٹی ممکن نہیں۔ ہم ایک مشکل وقت میں زندگی گزار رہے ہیں۔ جس میں غربت بیروزگاری فوڈ سیکیورٹی اور پانی کی کمی بھی نئے سیکیورٹی چیلنج ہیں۔ مذہبی اور گروہی شناخت بھی جنگوں کی نئی وجوہات بن رہی ہیں۔
آرمی چیف نے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے اپنے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی کے خاتمے تک دہشت گردوں کے خلاف بلا تفریق کارروائی جاری رہے گی۔ دہشت گرد اپنی سوچ مسلط کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ تنازعات اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیے حقیقت پسندانہ کردار ادا کرنا ہو گا۔ مہاجرین کا دوسرے ملک جانا خطرے کا باعث ہے۔ ہماری سیکیورٹی ہمسایہ ملکوں کی سیکیورٹی پر منحصر ہے۔ اپنے نظریات اور ثقافت کے تحفظ کے لیے کام کرنا ہو گا۔ موجودہ میکانزم انتہا پسندوں اور غیر ریاستی عناصر سے نمٹنے کے لیے ناکافی ہے۔
گلوبلائزیشن سے جہاں دنیا قریب آئی وہاں غیر ریاستی عناصر بھی اکٹھے ہو گئے۔ آزادی اظہار کے دور میں ترقی پذیر ملکوں میں سب کو جوابدہ ہونا پڑتا ہے۔ آرمی چیف نے کہا کہ سیکیورٹی کی موجودہ پیچیدہ صورت حال میں قومی سلامتی یقینی بنانا ریاست کے ہر ادارے کی ذمے داری ہے۔ اس کو سمجھنا آسان ہے لیکن اس پر عملدرآمد نہایت مشکل۔ پاکستان کو دفاعی حوالے سے پیچیدہ صورت حال کا سامنا ہے کیونکہ ہمارا دشمن ہم جیسا اور ہم میں ہی موجود ہے۔
سوچ میں تبدیلی کا آغاز آج سے دو سال پہلے شروع ہوا جب کہا گیا کہ ہمیں بیرونی سے زیادہ اندرونی دشمن سے خطرہ ہے۔ آرمی چیف نے ایک بڑی سچائی اس طرح بیان کی کہ ہم اس وقت تک محفوظ ہیں جب ہمارے ہمسایہ ممالک بھی محفوظ ہوں اور ایک دوسرے کی خود مختاری کا خیال رکھیں۔ اس کے ساتھ انھوں نے یہ حقیقت بھی بیان کی کہ جہاں گلوبلائزیشن کے فائدے ہوئے وہاں اس گلوبلائزیشن نے پوری دنیا کے دہشت گردوں کو ایک دوسرے کے قریب آنے اور متحد ہونے کا موقعہ فراہم کیا۔ جس کی وجہ سے وہ اتنے طاقتور ہو گئے کہ وہ ریاستوں کے لیے خطرہ بن گئے۔ جس کا سامنا اس وقت پاکستان کو ہے۔
اس طرح ان دہشت گرد گروہوں نے طاقت اور وسائل کی بنیاد پر اپنی سوچ و نظریہ مسلط کرنے کی کوشش جس کا نظارہ داعش، القاعدہ، طالبان کی شکل میں دنیا کے مختلف حصوں میں ہم کر رہے ہیں۔ غیر ریاستی عناصر ایک ایسا فتنہ ہیں جس کا تاریخ نے کم ہی مشاہدہ کیا ہے۔ ابتدائے اسلام کی تاریخ ہو یا اس کے بعد، انسانوں کو ایک ہولناک تباہی کا سامنا کرنا پڑا۔ غیر ریاستی عناصر کے چنگل سے نکلنا آسان کام نہیں کیونکہ ان کا سب سے بڑا اسلحہ نظریہ ہے اور یہ اپنے نظریے کے ذریعے سادہ لوح، کم علم، بے خبر لوگوں کے اذہان کو فتح کر لیتے ہیں جس کے اثرات مدتوں برقرار رہتے ہیں۔
دہشت گردوں سے تنہا نمٹنا آسان کام نہیں'' بین الاقوامی برادری کی سپورٹ کے بغیر ان کا خاتمہ نہیں ہو سکتا۔ وہ بین الاقوامی برادری جنہوں نے اپنے مفادات (سوویت یونین کے خاتمے) کے لیے انھیں جنم دیا۔ پاکستان گزشتہ تین سے زائد دہائیوں سے حالت جنگ میں ہے اس کے باوجود آرمی چیف پر عزم ہیں کہ دنیا بہت جلد ہماری کامیابیاں دہشت گردی کے خاتمے کی شکل میں دیکھے گی اور پاکستان پھر سے پر امن ملک بن جائے گا۔ دہشت گردوں کے خلاف جتنے بڑے پیمانے پر کامیابیاں ہو رہی ہیں وہ دنیا کے سامنے ایک بڑا ثبوت ہیں۔ اس کی تعریف تو چینی سیکیورٹی وزیر نے پاکستان آ کر کی۔
کئی دہائیوں کے بعد خطے کے لیے بہت بڑی خوش خبری ہے کہ پاکستان افغانستان دونوں دہشت گردی کے خاتمے کے لیے متحد ہو گئے ہیں۔ پاکستانی فوج دہشت گردوں کے خلاف مسلسل آپریشن کررہی ہے۔ جس کے نتیجے میں القاعدہ کا ایک بڑا لیڈر مارا گیا جو شمالی وزیرستان سے روپوش ہو کر جنوبی وزیرستان ایک گھر میں چھپا ہوا تھا۔ یہ حالت ہے کہ ان کی بہادری کی جب پاکستانی فوج نے نہیں گردن سے پکڑ لیا تو ان کے پاؤں کے نیچے سے زمین نکل گئی۔ دہشت گردوں کے حمایتی و ترجمان جو ان کی شجاعت کے بارے میں رطب اللسان رہتے تھے۔
اب کیا کہتے ہیں ان سلیپنگ سلز جن کا ڈراوا اور پاکستانی عوام کو دیا جاتا تھا۔ وہ کہاں ہیں، بہ حیثیت قوم ہماری کمزوریاں ہی ہیں کہ دنیا بھر کا دہشت گرد منہ اٹھائے پاکستان کو دہشت گردوں کی جنت سمجھتے ہوئے یہاں پہنچ جاتا ہے کیونکہ ہمارے ہاں ایک بڑی تعداد ایسے لوگوں کی ہے جو ان جنگجوؤں کی مدد کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ چاہے اس کے نتیجے میں پاکستان تباہ برباد ہی ہوجائے۔
آپ پوری دنیا کو دیکھ لیں دہشت گردوں کے مدد گار اس بدقسمت ملک پاکستان میں ہی پائے جاتے ہیں۔ کہیں اور نہیں۔ اس سے بڑی ہماری بدقسمتی اور کیا ہو سکتی ہے۔ اسی حقیقت کو آرمی چیف نے اس طرح بیان کیا کہ دوسرے ملکوں کے مقابلے میں پاکستان کا دہشت گردی کے خلاف لڑنا اور جیتنا آسان نہیں کیونکہ یہ دہشت گرد ہم جیسے ہیں اور ہم ہی میں موجود ہیں۔
یہی وہ بات ہے جو سب کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہیں۔ پاکستان کی بقا ہی اس میں ہے کہ ہم اپنے ان دشمنوں کو بھی پہچان لیں جو ہمارے درمیان میں ہی ہیں۔ مزیدتاخیر کا وقت نہیں ہے۔
رواں موسم سرما میں شدید سردی کا ریکارڈ ٹوٹ جائے گا۔
سیل فون:۔0346-4527997