پولیو کا عفریت…

پولیو کے خاتمے کی ویکسین کی مہم میں سے صرف ایک چوتھائی حصہ 80 فیصد کامیابی کے عالمی معیار کو چھو پایا۔


Abdul Waris1 December 14, 2014

عالمی ادارہ صحت کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان دنیا بھر کے پولیو کے مرض کا 80 فیصد مسکن ہے اور آئے دن پولیو کیسز کے دریافت ہونے کے بعد اس مسئلے کی سنگینی میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ان اعداد و شمار کے مطابق 2014 کے شروع کے دس مہینوں میں رپورٹ ہونے والے 209 کیسز میں سے 6 نائیجیریا میں،10 وسطی افریقا میں،6 افریقا میں،10 افغانستان میں، 3 مشرق وسطیٰ میں اور 174 کیسز صرف پاکستان میں رپورٹ ہوئے ہیں۔

2013 کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ پوری دنیا میں سوائے پاکستان کے 248 کیسز رپورٹ ہوئے جب کہ پاکستان میں محض 36 کیسز رپورٹ ہوئے۔ جب کہ 2014 میں پوری دنیا میں ماسوائے پاکستان صرف 35 کیسز سامنے آئے جب کہ پاکستان میں 124 کیسز سامنے آئے یعنی پاکستان میں ان کیسز کی شرح میں پانچ گنا سے زیادہ اضافہ ہوا۔ صرف جولائی سے ستمبر تک پاکستان میں پوری دنیا سے 8 گنا زیادہ بچے معذور ہوئے۔ اگر پاکستان بھارت کی تقلید کرتے ہوئے اس معاملے میں بہتری کی کوشش کرتا تو صرف 35 بچے معذور ہوتے اور اتنی بڑی تعداد پولیو کا شکار نہیں ہوتی۔

پولیو کے خاتمے کی ویکسین کی مہم میں سے صرف ایک چوتھائی حصہ 80 فیصد کامیابی کے عالمی معیار کو چھو پایا۔ جس سے اس پوری مہم کی افادیت کے زائل ہونے کا پتا چلتا ہے۔ ان کیسز میں سے 121 کیسز فاٹا میں رپورٹ ہوئے جب کہ خیبرپختونخوا میں 31، سندھ میں 15 کیسز سامنے آئے۔ اگرچہ پنجاب اس بیماری سے سب سے کم متاثر ہوا لیکن یہ وائرس لاہور میں بھی موجود ہے۔ ملک میں جاری کامیاب آپریشن ضرب عضب کی وجہ سے ہزاروں بچوں کو پولیو ویکسین پلانے کا نادر موقع میسر آچکا ہے۔ جس کو استعمال کرنا ازحد ضروری ہے۔

اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ نائیجیریا میں 2012 میں 22 کیسز، 2013 میں 53 کیسز جب کہ 2014 میں صرف 6 کیسز سامنے آئے۔ پاکستان اس وقت دنیا کے ان ملکوں میں شامل کرلیا گیا ہے جہاں سے سفر کرتے وقت پولیو ویکسینیشن کا سرٹیفکیٹ ہونا لازمی قرار دیا گیا ہے۔ ان ممالک میں ہمارے علاوہ افغانستان، کیمرون، گنی، شام، نائیجیریا اور عراق شامل ہیں۔ پاکستان کے علاوہ تقریباً یہ سارے ہی ممالک شورش اور جنگ زدہ ہیں۔

انسداد پولیو مہم کو جن مسائل کا سامنا ہے ان میں حکومتی نااہلی اور سردمہری کے علاوہ مذہبی انتہا پسندوں کی طرف سے اس ویکسین کی مخالفت اور ڈاکٹر شکیل آفریدی کی طرف سے اس مہم کو اسامہ بن لادن کو ڈھونڈنے کے لیے استعمال کرنے کے مسائل وغیرہ شامل ہیں کچھ مذہبی حلقے اس مہم کو مسلمانوں کے خلاف سازش سے تعبیر کرتے ہیں۔ یقیناً اس سوچ کو تبدیل کرنا حکومتی حلقوں کے لیے اتنا آسان کام نہیں ہوگا۔ ملک کے مختلف علاقوں میں پولیو ٹیموں پر ہونے والے حملوں نے اس بحران کو مزید سنگین بنادیا۔

پچھلے مہینے میں بلوچستان میں پولیو ٹیم پر ہونے والے حملے میں 3 خواتین کارکنان کی شہادت نے پورے ملک کو سوگوار کردیا۔ اس سے پہلے بھی ملک کے مختلف شہروں میں ان ٹیموں پر جان لیوا حملوں نے اس مہم کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ اگرچہ وزیراعظم کی طرف سے پولیو ٹاسک فورس کے چیئرمین کو فرائض سے غفلت برتنے پر ملازمت سے فارغ کردیا گیا۔ ملک میں افسران اور اہلکاروں کو فارغ کرنے کی یہ روایت نئی نہیں ہے۔ لیکن اس وقت اس بحران سے نمٹنے کے لیے ایک مربوط پالیسی اور حکمت عملی کا فقدان نظر آتا ہے۔

اس مسئلے کے سنگین ہونے پر حکومتی اکابرین شاید ہزاروں دلیلیں دینے میں کامیاب ہوجائیں لیکن اب یہ وقت دلیلیں دینے اور ان کو صحیح ثابت کرنے کا نہیں بلکہ اس بحران کے حل نکالنے کا ہے، وفاقی حکومت کے ساتھ ساتھ ساری صوبائی حکومتیں اور مقامی انتظامیہ بھی اس بحران میں برابر کی ذمے دار ہیں۔ ہماری سیاسی قیادت اس وقت ایک دوسرے سے نبرد آزما ہے اور کسی کی نظر اس سنگین مسئلے پر نہیں ہے جوکہ پوری دنیا میں ہمارے لیے کلنک کا ٹیکا ثابت ہو رہا ہے اور ہماری عالمی جگ ہنسائی کا سبب بن رہا ہے۔ یہ وقت نہ تو پوائنٹ اسکورنگ کا ہے اور نہ ہی ایک دوسرے پر الزام لگانے اور نیچا دکھانے کا ہے۔

اس وقت ملک کو بہتر گورننس کی ضرورت ہے۔ میڈیا ہاؤسز اور اخبارات کو بھی اس مسئلے کو موثر طور پر اٹھانے اور اس پر زور دینے کی اشد ضرورت ہے۔ اگرچہ حکومت نے اس مسئلے پر پائے جانے والے ابہام اور خدشات کو دور کرنے کے لیے مختلف مکتبہ فکر کے علما اور اکابرین کے خیالات اشتہاروں کے ذریعے عوام تک پہنچانے کا بندوبست کیا ہے، لیکن شاید اب یہ مسئلہ اپنی سنگینی میں بہت آگے جاچکا، جس کے لیے ہنگامی طور پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔

لوگوں میں پائے جانے والے خدشات کو دور کرنے کے لیے بہت کچھ کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ جس میں مشہور سماجی اور مذہبی شخصیات کے علاوہ دانشور، ماہرین تعلیم اور اساتذہ کی خدمات بھی ناگزیر ہیں اور جہاں ضروری ہو ان ویکسین کو پلانے کے لیے طاقت کا استعمال بھی بجا ہوگا۔ کیونکہ ملک میں موجود ایک مخصوص اور چھوٹا سا طبقہ یقینا پورے ملک کے مفاد کو یرغمال نہیں بناسکتا۔

ہماری زیادہ تر آبادی بچوں اور نوجوانوں پر مشتمل ہے جوکہ ملک کا بہت بڑا اثاثہ ہیں اس کو معذوری سے بچانے کے لیے اور ملک کے مستقبل کو محفوظ کرنے کے لیے تمام تر وسائل بروئے کار لانے کی ضرورت اب ناگزیر ہے۔ فی الحال ایسا کچھ ہوتا نظر نہیں آرہا۔ اس مسئلے سے نمٹنے میں تاخیر صرف اس کی سنگینی میں اضافہ کرے گی جوکہ یقینا قومی اور ملی مفاد میں نہیں۔ کاش کہ ہماری حکومتیں، سیاسی جماعتیں اور میڈیا بلاوجہ کی سیاسی بحث و تمحیص سے نکل کر ملک کے اصل مسائل پر توجہ دیں جن کے حل سے ملک کا مستقبل وابستہ ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں