22

پاکستان سےقبل اوردرجنوں قیام پاکستان کےبعد اس بات کی غمازی کرتی ہیں کہ وہ اسلام کواس خطےمیں سیاست کی بنیاد سمجھتےتھے۔


Muhammad Ibrahim Azmi Advocate December 14, 2014
[email protected]

اصغر خان پاکستان میں ایئر فورس کا سب سے بڑا نام تھا۔ قائداعظم کے ساتھ ان کی تصویر اور اس سے قبل برٹش دور میں پیر پگارا کے قافلے پر بمباری نہ کرنے کا اصولی فیصلہ۔ پی آئی اے میں گئے تو اسے نکھاردیا۔ سیاست میں آئے تو ایوب خان کو للکارا، یہ اصغر خان ہی تھے جن کے ساتھ ایئر مارشل لگتا تھا اور وہ سیاست بھی کررہے تھے۔ یہ خوف تھا جس نے ایوب خان کو مجبور کیا کہ اصغر خان کے نام کے ساتھ ریٹائرڈ لکھا جائے۔

اس لفظ کی پہچان پاکستان میں کیوں کر آئی ورنہ امریکا میں ہر صدر کو مسٹر پریذیڈنٹ کہا جاتا ہے۔ لوگ واقف ہوتے ہیں کہ کون عہدے پر ہے اور کون رخصت ہوگیا ہے۔ یہی اصغر خان تھے جس کا مذاق اڑانے کے لیے ایوب خان نے ''ہوائی مارشل'' کی اصطلاح ایجاد کی۔ وہ دور تھا جب بھٹو اور اصغر خان میں مغربی پاکستان میں مقبولیت کے حصول کی جنگ جاری تھی۔ اصغر خان میدان سیاست میں کیوں کر ناکام ہوئے؟ عمران خان سے ان کا موازنہ کرنا کس قدر درست ہے؟

ایوب خان کے جانے کے بعد بھٹو اور اصغر خان کو آگے بڑھنے کے برابر کے مواقع تھے۔ پہلے نواب زادہ نصر اﷲ خان کی پارٹی میں شامل ہونا اور پھر جسٹس پارٹی اور بعد میں تحریک استقلال، یہ وہ کنفیوژن تھا جو ہمیں عمران کی ذات میں نظر نہیں آیا۔ انھوں نے پاکستان تحریک انصاف کے نام سے پارٹی بنائی اور ایک سمت میں آگے بڑھتے رہے۔ ایک غلطی پرویز مشرف کے ریفرنڈم کی حمایت تھی جس کی معافی مانگ کر تلافی کی کوشش کی گئی۔ انیس و دبیر کی طرح اصغر و عمران کے موازنے میں آگے کئی مراحل بلکہ یوں کہیے دلچسپ مراحل آئیںگے۔

بھٹو کیوں کر کامیاب ہوگئے؟ عوام نے ان پر اپنے اعتماد کا اظہار کیوں کیا؟ بھٹو نے عوام کی نفسیات کو سمجھ کر اور ان کے دکھوں کو جان کر نعرے دیے۔ روٹی، کپڑا، مکان کے علاوہ اسلام ہمارا دین ہے، جمہوریت ہماری سیاست ہے، سوشلزم ہماری معیشت ہے۔ کے نعرے دیے بعد میں عوام کو طاقت کا سر چشمہ قرار دیا گیا۔ اصغر خان صرف ایک بات کہتے رہے کہ ''چہرے نہیں نظام کو بدلو''

قائد اعظم، بھٹو اور عمران نے بیرون ملک تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ اس بات کو سمجھا کہ مذہب اسلام اس خطے کے مسلمانوں کی رگ رگ میں سمایا ہواہے۔ گنہگار سے گنہگار مسلمان بھی اسلام کا دیوانہ ہے۔ قائد اعظم نے اپنی صاحبزادی سے پارسی کے ساتھ شادی کرنے پر قطع تعلق کرلیا۔ ان کی سیکڑوں تقریریں قیام پاکستان سے قبل اور درجنوں قیام پاکستان کے بعد اس بات کی غمازی کرتی ہیں کہ وہ اسلام کو اس خطے میں سیاست کی بنیاد سمجھتے تھے، بھٹو کے منشور کی پہلی بنیاد ''اسلام ہمارا دین ہے'' قرار پائی۔

جب سوشلزم پر مذہبی طبقے نے اعتراض کیا تو اسے ''مساوات محمدیؐ'' قرار دے کر اپنا تعلق مدینے سے جوڑا اور ماسکو سے منقطع کیا۔ بے نظیر بھٹو کا سر پر دوپٹہ لینے کا فیصلہ بھی اس بات کا غماز تھا۔ عمران خان کو جس انداز سے جماعت اسلامی سے قریب تر اور طالبان خان قرار دیاگیا وہ اب تاریخ کا حصہ ہے۔ انھیں دائیں بازو کا یا اس سے قریب تر سیاست دان سمجھا گیا۔ اصغر خان اس بات کو نہ سمجھ سکے بلکہ وہ تو بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے جواب میں تجربے کے بھی خلاف تھے۔ سیکولرازم کی رٹ انھیں لے ڈوبی۔

اصغر خان 1965 میں ایئر فورس سے ریٹائرڈ ہوئے اور دو عشروں کی سیاست کے باوجود ذاتی حیثیت میں مقبولیت کبھی حاصل نہ کرسکے۔ پی این اے کی تحریک میں کراچی میں نکلنے والے جلوس نے انھیں غلط فہمی میں مبتلا کردیا یہی وجہ جلسہ تھا جس میں انھوں نے ''بھٹو کو ہالا کے پل پر پھانسی'' دینے کی بات کی تھی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب وہ اپنی سیاست کا پہلا عشرہ مکمل کرچکے تھے، قومی اتحاد میں ان کی حیثیت کا یہ عالم تھا کہ نہ انھیں اتحاد کا سربراہ بنایاگیا اور نہ مذاکراتی ٹیم میں شامل کیا گیا۔

عمران کی چند ماہ کی پارٹی کو نواز شریف نے درجن بھر نشستوں کی پیش کش کی جسے انھوں نے مسترد کردیا۔ تمام تر مشکلات کے باوجود وہ کسی اتحاد کا حصہ نہ بنے جب کہ اصغر خان اپنی ذاتی حیثیت میں کبھی عوامی پذیرائی حاصل نہ کرسکے۔ پی این اے سے علیحدگی کے بعد لاکھوں کے جلسے سے خطاب کرنے والے کو دو ہزار سامعین بھی نہ مل سکے جب وہ برنس روڈ کراچی پر آئے۔

عمران خان نے سیاست کے پندرھویں برس میں مینار پاکستان پر لاکھوں کا جلسہ کیا اور دو سال بعد 75 لاکھ ووٹ حاصل کیے۔ اصغر خان بھٹو کی غیر موجودگی کے باوجود وہ خلا پر نہ کرسکے جو عمران نے نواز شریف اور آصف زرداری کی موجودگی میں پر کردیا۔ ایک مقبول پارٹی کی موجودگی میں دوسری بنانا آسان تھا۔ دو پارٹی سسٹم میں جگہ بنانا بہت مشکل ہوتا ہے۔

85 کے انتخابات تک اصغر خان اپنے آپ کو منواسکتے تھے لیکن وہ موقع ضایع ہوگیا۔ جب بے نظیر کے ساتھ اتحاد میں انھیں دو ٹکٹوں کی پیش کش کی گئی تو انھیں اپنے علاوہ اپنا صاحبزادہ ہی نظر آیا۔ عوام بعض سیاستدانوں کو ایسی اقربا پروری پر مسترد کرچکے ہیں۔ عمران نے بطور کپتان اپنے کزن ماجد خان کو فارم میں نہ ہونے پر ٹیم سے نکال دیا اور سیاست میں اپنے بہنوئی و رشتے دار پر شیر افگن کے صاحبزادے کو ترجیح دی یہ وہ بنیادی فرق تھا عمران و اصغر خان میں۔

اصغر خان کا جادو کبھی سرچڑھ کر نہیں بولا۔ ان کے مقابل بھٹو، بے نظیر اور نواز شریف نے دیکھتے ہی دیکھتے عوامی مقبولیت حاصل کی لیکن پاکستانیوں نے کبھی اصغرخان کو تن تنہا کسی ایک نشست کا حق دار نہیں جانا۔ کراچی و ایبٹ آباد میں دونوں نشستوں سے کامیابی قومی اتحاد کی مرہون منت تھی۔ اب ذرا اس منظر کی جانب آئیں۔ بے نظیر بھٹو جب شاہنواز کی تدفین کے لیے آئیں تو ہزاروں کا پرجوش مجمع تھا اور جب اپریل 86 میں آئیں تو لاکھوں لوگ ان کے استقبال کو آگئے۔ ایسی مقبولیت اصغر خان کو کیوں نہ مل سکی کہ ایک خلا موجود تھا۔

عوام نے اصغر خان کو کبھی سنجیدگی سے لیا ہی نہیں۔ بڑے اور چھوٹے خان میں ایک بڑا واضح فرق یہ ہے کہ اصغر خان اپنے دور کے مقبول ترین بھٹواور ان کی صاحبزادی کے ووٹ بینک کو نہ توڑسکے۔ عمران خان نے نواز شریف کے مضبوط قلعے پنجاب میں اپنی جگہ بنائی۔ ایک بڑا فرق یہ ہے کہ اصغر خان اپنے حریف کو امریکا کی مدد سے ختم کرنا چاہتے تھے، عمران تمام طاقتوں کو مسترد کرتے ہوئے عوامی طاقت پر اعتماد کررہے ہیں۔

سن گیارہ کے مینار پاکستان کے جلسے اور سن تیرہ کے انتخابات میں 75 لاکھ ووٹ لینے کے بعد عمران خان تاریخ میں بہت آگے نکل گئے ہیں۔ ان کا موازنہ اب اصغر خان سے نہیں کیا جاسکتا۔ کہا جاسکتا ہے کہ نہ صرف یہ کہ پاکستان کے دو مقبول ترین رہنمائوں کو ایسے حالات پیدا نہیں کرنے چاہئیں کہ غیر آئینی راستے کا جواز نکلے۔ خیبر پختونخوا میں حکومت، مہینوں کے دھرنے، درجنوں شہروں میں لاکھوں کے جلسوں نے کپتان کو بھٹو، بے نظیر اور نواز شریف کی صف میں لاکھڑا کیا ہے۔

پاکستانیوں کی بڑی اکثریت کہے گی کہ اب کپتان اورحکومت کو سمجھایا جاسکتا ہے کہ وہ سمجھ داری کا ثبوت دیں اور بھٹو و اصغر خان کے نقش قدم پر نہ چلیں۔ ایک ایوان وزیر اعظم سے دھاندلی کے الزام پر رخصت ہوا اور دوسرا کبھی وہاں جا نہ سکا۔ ایک جان سے گیا اور دوسرا پریشان رہا کہ سیاست میں کیوں آیا۔ اب تجزیہ (دو جمع دو) شخصیات کا ہوگا نہ کہ موازنہ صرف اصغر خان اور عمران خان کا ہو۔ مسلم لیگ ن کی قیادت کو بھٹو اور عمران کو اصغر خان کی تاریخ سے سبق لینا ہوگا۔ یوں موازنہ ہوگا 2+2۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں