پھانسی پرعملدرآمد صدر نے روکا چیلنج نہیں کیا جاسکتا حکومت کا ہائیکورٹ میں جواب

کسی ملزم کی سزا معطل یا معاف کرنا صدر کا صوابدیدی اختیار ہے، اس اختیار کے خلاف رٹ ناقابل سماعت ہے، وفاق


Qaiser Sherazi December 15, 2014
صدرنے رحم کی78 اپیلیں خارج کیں، صرف ایک ملزم شعیب سرور کے بارے میں الگ فیصلہ نہیں ہوسکتا، تحریری جواب کا متن۔ فوٹو: فائل

وفاقی حکومت نے ملک بھر کی جیلوں میں پھانسی کی سزاؤں پر عملدرآمد کے منتظر1000سے زائد قیدیوں کو عدالتی احکام کے تحت پھانسی دینے کی مخالفت کرتے ہوئے ہائیکورٹ راولپنڈی بینچ میں باقاعدہ تحریری بیان داخل کرادیا۔

وفاقی وزارت قانون کے سیکشن آفیسر قانون انتخاب احمد کی طرف سے پھانسی کی سزاؤں پر عملدرآمد کیلئے دائر پٹیشن میں جواب جمع کراتے ہوئے موقف اختیار کیا گیا کہ پھانسی کی سزاؤں پر فی الحال عملدرآمد نہ کرنے کا فیصلہ صدر اور وزیر اعظم کے درمیان15اگست2013کو ہونے والی ملاقات میں کیا گیا۔

آئین کے آرٹیکل45کے تحت صدرمملکت کا یہ صوابدیدی اختیار ہے کہ وہ کسی بھی ملزم کو کسی بھی عدالت، ٹریبونل یا کسی بھی اتھارٹی کی طرف سے سنائی گئی کوئی بھی سزا ختم کر دے یا معطل کر دے، ملزم کو کلی طور پر معاف کر دے، سزا پر عملدرآمد روک دے، اس صوابدیدی اختیار کو کسی بھی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جاسکتا نہ ہی زیر بحث لایا جاسکتا ہے۔ اس اختیار کے خلاف دائر پٹیشن ناقابل سماعت ہے اسے خارج کیا جائے۔

جواب میں کہا گیاکہ صدر مملکت نے پھانسی کی سزاؤں کے 78مجرمان کی رحم کی اپیلیں خارج کی ہیں ان سب کے بارے میں کوئی بھی فیصلہ صدر مملکت ہی کریں گے، اس میں سے صرف ایک ملزم شعیب سرور کے بارے میں الگ فیصلہ نہیں ہوسکتا۔

جواب میں یہ بھی کہا گیا کہ قانون کی تشریح عدالتوں کا آئینی اختیار ہے، اس پٹیشن میں ملزم شعیب سرور کو سنائی گئی پھانسی کی سزا پر عملدرآمد کی استدعا کی گئی ہے، یہ قتل1996 میں تھانہ واہ کینٹ کی حدود میں ہوا، ملزم کو98 میں پھانسی کی سزا دی گئی، سپریم کورٹ سے اپیل 2011میں مسترد ہوئی، ملزم اس وقت ہری پور جیل میں قید ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں