پاکستان ایک نظر میں کیا ہم واقعی خطرناک ہیں
قوم کے ٹیکس سے تنخواہیں وصول کرنیوالے سکیورٹی اداروں اور پولیس کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ شہریوں کے سیکورٹی کا خیال رکھے۔
دو دن پہلے ایک خبر پر نظر پڑی کہ پاکستان دنیا کا آٹھواں بڑا خطرناک ملک ہے۔آپ کو اس خبر سے اختلاف ہوگا لیکن مجھے نہیں ہے۔ہم واقعی ایک خطرناک قوم بن چکے ہیں۔ ہمارے اندر اخلاقیات آہستہ آہستہ ختم ہورہی ہیں ہم میں برداشت کا مادہ تیزی سے ختم ہوتا جارہا ہے جس کی وجہ سے آئے روز قتل وغارت گری کے واقعات میں اضافہ ہوتا جارہا ہے ۔
پاکستان کے کسی بھی کونے میں چلے جائیں آپ کو قتل ، ڈاکہ زنی ، چوری اور رہزنی کی ہزاروں کہانیاں ملیں گی۔پاکستان کا کوئی بھی کونہ محفوظ نہیں ہے۔صوبے سندھ کی بات کی جائے تو وہاں ڈاکووں کا راج ہے ۔۔۔۔ بلکہ وہاں تو ڈاکو یہ اعتراض کرتے ہیں کہ ہم بہت مشکل سے ڈکیتی کرتے ہیں اور پولیس والے ہماری محنت کی کمائی پر رشوت لینے آجاتے ہیں اور اِس ناانصافی کے خلاف احتجاج بھی کیا گیا ۔ اگر صرف سندھ ہی نہیں بلکہ پاکستان کے سب سے بڑے شہری کراچی کی بات کی جائے تو وہاں پر تشدد کے واقعات عام ہیں ۔ کراچی جو کبھی روشنیوں کا شہر کہلاتا تھا اب اندھیر نگری بن چکا ہے۔ اگرچہ حکومت کی جانب سے شروع کردہ آپریشن کے بعد معاملات میں کچھ بہتری تو آئی ہے مگر اب تک مکمل امن قائم نہیں ہو سکا ۔
اِسی طرح خیبر پختونخواہ میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں فوجی آپریشن کے بعد بظاہر تو کچھ کمی آئی ہے لیکن ابھی بھی دہشت گردی کو مکمل طور پر ختم نہیں کیا جاسکا۔سکیورٹی فورسز پر حملے اب بھی جاری ہیں ۔ اور یہ ہونے فطری ہے کہ اِس وقت اِس خطے میں دنیا کی سب سے بڑی جنگ جاری ہے ۔
پنجاب جو پاکستان کا سب سے پُرامن صوبہ سمجھا جاتا ہے مگر وہاں بھی امن وامان کی صورتحال خراب ہے۔واہگہ بارڈر پر حملہ اس بات کا واضح ثبوت ہے۔چوری اور ڈکیتی کی وارداتوں میں بھی اضافہ ہو رہا ہے جوکہ پولیس اور امن وامان قائم کرنے والے اداروں کی کارکردگی پر ایک سوالیہ نشان ہے۔
بلوچستان میں بھی امن وامان کی صورتحال خراب ہے وہاں پر تشدد کاروائیواں میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ علاقائی اور قبائلی فسادات زوروں پر ہیں ۔پنجاب سے جانے والے لوگوں کو قتل کردیا جاتاہے۔ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔مذہبی انتہا پسندی کی وجہ سے ہزاروں قیمتی جانوں کو موت کے منہ میں دھکیل دیا گیا ہے۔ایسے میں حکومتی ادارے خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں اور مناسب سکیورٹی منصوبہ بندی نہ ہونے کی وجہ سے دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوتا جارہا ہے ۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ہمارے ملک کو خطرناک بننے سے کون بچائے گا ؟ اس سوال کا سیدھا سا جواب یہ ہے کہ پاکستان میں امن وامان قائم کرنا اور شہریوں کو انصاف فراہم کرنا حکومت کی ہی ذمہ داری ہے۔پاکستانی قوم کے ٹیکس کے پیسوں سے تنخواہیں وصول کرنے والے سکیورٹی اداروں اور پولیس کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ شہریوں کے امن وامان کا خیال رکھے ۔پاکستانی پولیس اس خطے کی سب سے زیادہ رشوت خور فورس بن چکی ہے چند پیسوں کی خاطر جرائم پیشہ عناصر کو کھلی چھٹی دے دیتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں جرائم کی شرح میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔جرائم پیشہ عناصر کے گروہ پولیس کی پشت پناہی کے باعث اپنی جڑیں پورے پاکستان میں مضبوط کر چکے ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ پولیس کے محکمے میں اصلاحات کی جائیں۔پولیس کو رشوت جیسی لعنت سے مکمل پاک کیا جائے۔جرائم پیشہ عناصر کے خلاف سخت کاروائی کی جائے۔دہشت گردی پر قابو پانے کے مناسب حکمت عملی تیار کی جائے اور اس پر سختی سے عمل کیا جائے ۔اگر ایسانہ کیا گیا تو ہزاروں پاکستانیوں کی قیمتی جانوں کاضیاع ہوتا رہے گا اورہمارے ملک کا نام خطرناک ممالک کی فہرست میں اس سے بھی پہلے آسکتا ہے۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
پاکستان کے کسی بھی کونے میں چلے جائیں آپ کو قتل ، ڈاکہ زنی ، چوری اور رہزنی کی ہزاروں کہانیاں ملیں گی۔پاکستان کا کوئی بھی کونہ محفوظ نہیں ہے۔صوبے سندھ کی بات کی جائے تو وہاں ڈاکووں کا راج ہے ۔۔۔۔ بلکہ وہاں تو ڈاکو یہ اعتراض کرتے ہیں کہ ہم بہت مشکل سے ڈکیتی کرتے ہیں اور پولیس والے ہماری محنت کی کمائی پر رشوت لینے آجاتے ہیں اور اِس ناانصافی کے خلاف احتجاج بھی کیا گیا ۔ اگر صرف سندھ ہی نہیں بلکہ پاکستان کے سب سے بڑے شہری کراچی کی بات کی جائے تو وہاں پر تشدد کے واقعات عام ہیں ۔ کراچی جو کبھی روشنیوں کا شہر کہلاتا تھا اب اندھیر نگری بن چکا ہے۔ اگرچہ حکومت کی جانب سے شروع کردہ آپریشن کے بعد معاملات میں کچھ بہتری تو آئی ہے مگر اب تک مکمل امن قائم نہیں ہو سکا ۔
اِسی طرح خیبر پختونخواہ میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں فوجی آپریشن کے بعد بظاہر تو کچھ کمی آئی ہے لیکن ابھی بھی دہشت گردی کو مکمل طور پر ختم نہیں کیا جاسکا۔سکیورٹی فورسز پر حملے اب بھی جاری ہیں ۔ اور یہ ہونے فطری ہے کہ اِس وقت اِس خطے میں دنیا کی سب سے بڑی جنگ جاری ہے ۔
پنجاب جو پاکستان کا سب سے پُرامن صوبہ سمجھا جاتا ہے مگر وہاں بھی امن وامان کی صورتحال خراب ہے۔واہگہ بارڈر پر حملہ اس بات کا واضح ثبوت ہے۔چوری اور ڈکیتی کی وارداتوں میں بھی اضافہ ہو رہا ہے جوکہ پولیس اور امن وامان قائم کرنے والے اداروں کی کارکردگی پر ایک سوالیہ نشان ہے۔
بلوچستان میں بھی امن وامان کی صورتحال خراب ہے وہاں پر تشدد کاروائیواں میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ علاقائی اور قبائلی فسادات زوروں پر ہیں ۔پنجاب سے جانے والے لوگوں کو قتل کردیا جاتاہے۔ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔مذہبی انتہا پسندی کی وجہ سے ہزاروں قیمتی جانوں کو موت کے منہ میں دھکیل دیا گیا ہے۔ایسے میں حکومتی ادارے خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں اور مناسب سکیورٹی منصوبہ بندی نہ ہونے کی وجہ سے دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوتا جارہا ہے ۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ہمارے ملک کو خطرناک بننے سے کون بچائے گا ؟ اس سوال کا سیدھا سا جواب یہ ہے کہ پاکستان میں امن وامان قائم کرنا اور شہریوں کو انصاف فراہم کرنا حکومت کی ہی ذمہ داری ہے۔پاکستانی قوم کے ٹیکس کے پیسوں سے تنخواہیں وصول کرنے والے سکیورٹی اداروں اور پولیس کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ شہریوں کے امن وامان کا خیال رکھے ۔پاکستانی پولیس اس خطے کی سب سے زیادہ رشوت خور فورس بن چکی ہے چند پیسوں کی خاطر جرائم پیشہ عناصر کو کھلی چھٹی دے دیتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں جرائم کی شرح میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔جرائم پیشہ عناصر کے گروہ پولیس کی پشت پناہی کے باعث اپنی جڑیں پورے پاکستان میں مضبوط کر چکے ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ پولیس کے محکمے میں اصلاحات کی جائیں۔پولیس کو رشوت جیسی لعنت سے مکمل پاک کیا جائے۔جرائم پیشہ عناصر کے خلاف سخت کاروائی کی جائے۔دہشت گردی پر قابو پانے کے مناسب حکمت عملی تیار کی جائے اور اس پر سختی سے عمل کیا جائے ۔اگر ایسانہ کیا گیا تو ہزاروں پاکستانیوں کی قیمتی جانوں کاضیاع ہوتا رہے گا اورہمارے ملک کا نام خطرناک ممالک کی فہرست میں اس سے بھی پہلے آسکتا ہے۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔