بات کچھ اِدھر اُدھر کی جائیں تو جائیں کہاں

ہم اپنی مرضی سے تو چھینک بھی نہیں مار سکتے کسی بندے پر لاٹھی چلانا یا گولی چلانا تو دور کی بات ہے۔

ہم اپنی مرضی سے تو چھینک بھی نہیں مار سکتے کسی بندے پر لاٹھی چلانا یا گولی چلانا تو دور کی بات ہے۔ فوٹو رائٹرز

میری اور عامر ندیم ایڈووکیٹ کی دوستی کی بہت سی وجوہات ہو سکتی ہیں مگر سب سے اہم وجہ میری صبح کی پہلی چائے تھی جو میں ان کے چیمبر میں جا کر پیتا تھااور پھر وہاں سے اپنے آفس کی طرف رخ کرتا، آج جب میں ا ن کے چیمبر میں داخل ہوا تو وہاں پہلے سے سر جوڑے ایک پولیس کی جوڑی بیٹھی تھی۔پولیس کی یونیفارم اور ان کے کندھوں پر لگے پھول بتا رہے تھے کہ ایک کسی تھانے کا سپاہی ہے اور دوسرا بڑا تھانیدار۔میرے بیٹھتے ہی چائے آگئی، جیسے ہی میں نے ان سے پوچھا کہ آج کل کیا چل رہا ہے؟ تو دونوں جیسے بھڑک گئے۔ تھانیدار صاحب نے کھینچ کر با آواز بلند چائے کی چسکی بھری اور کہا کہ " چلنا چلانا کیا ہے، کچھ دن سے دو پارٹیز کے درمیان کوئی مالی معاملہ چل رہاتھا، ایک نے دوسرے فریق پر پرچہ کروا دیا،دونوں فریقین اس شہر کے نامی گرامی ہیں مجھ پر دونوں پارٹیز کی طرف سے شدید دبائو تھا ایک کہتا کہ فلاں کی گرفتاری ڈالو جبکہ دوسرا ٓتا تو اپنی لسٹ تھما دیتا۔میں کچھ دن تو دونوں کو گھماتا رہا مگرآخر میں ایک فریق تخت لاہور کا پایہ پکڑ کر بیٹھ گیا اور دوسرا اس کا بھی ماما نکلا۔ نتیجہ یہ کہ میں معطل ہو گیا اور اب عدالت میں آکر صفائیاں دے رہا ہوں کہ سروس بحال ہو۔اب آپ ہی بتائیں کہ ہم جائیں تو جائیں کہاں۔

اب جناب ابھی پچھلے ماہ ایک پھٹی ہوئی جینز پہنے ایک ہپی ٹپی 15 یا 16 سال کے لڑکے نے مجھے اپنی کار کے نیچے دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی، میں نے پکڑ لیا ، بلا لائسنس کے جو تھا، کار سے اترتے ہی لگا رعب جمانے لگا ، میں نے دو چار تھپڑ جڑ دئیے اور کار بھی بند کر دی لیکن اگلے ہی گھنٹے میں ان کے سامنے گھٹنے ٹیک رہا تھا کہ میری سروس بچ جائے۔ظاہر ہے وہ کافی بڑے باپ کی اولاد جو تھا،ان کے پورے خاندان ہر جگہ چھائے پڑے ہیں ۔

اب یہی دیکھ لیں کہ ہم نے عرصہ ہوا چور اچکوں کو خود سے پکڑنا چھوڑ دیا ہے۔ لوگ پکڑ کر لے آئیں تو بسم اللہ، ورنہ ہم تو حکمرانوں کے دربانوں کے فرائض کی ادائیگی میں ہی خوش ہیں، بس جب ان کے باہر نکلنے کا وقت ہوتا ہے بینڈ باجے بجاتے آگے آگے ان کی راہوں سے انہی لوگوں کو دور رکھتے ہیں جن کے ووٹوں نے انہیں اقتدار کی سیڑھیاں چڑھائی ہیں۔


میں نے ان سے کہا کہ مجھے آپ کے دکھوں کا اندازہ ہے مگر آ پ بھی تو بعض معاملات میں حد کر دیتے ہیں اب لاہور والے واقعہ کو ہی لے لیں۔اسی دوران اس کے دوسرے ساتھی نے پہلی بار زبان کھولی اور کہا " سر جی اگر تو سچ میں ان کی ہلکی پھلکی ٹھکائی ہوئی ہے تو یہ ہمارے پیٹی بھایئوں کی زیادتی ہے"۔ اچانک تھانیدار صاحب نے اسے ڈانٹتے ہوئے کہا کہ اوئے تم چپ کرو تم پولیس میں اس لئے بھرتی ہو گئے کہ تمہارا باپ بھی پولیس میں تھا،کانسٹیبل بھرتی ہوئے ہو کانسٹیبل ہی مرجاؤ گے۔ یہ پولیس کی نوکری چھوڑو تو لگ پتہ جائے گا ،یہی بیوی جو تمہیں دن میں پیکج لے کر فون کرتی ہے تمہاری بوٹیاں کھا جائے گی غریب ہی مر گئے تو اولاد کہے گی کہ باپ کچھ چھوڑ کر بھی نہیں گیا،اوئے پولیس کی نوکری کرنا آسان کام تھوڑی ہے، بات اتنی سی ہے کہ بد اچھا بدنام برا۔

ہم اپنی مرضی سے تو چھینک بھی نہیں مار سکتے کسی بندے پر لاٹھی چلانا یا گولی چلانا تو دور کی بات ہے۔ پتہ نہیں کہاں سے میڈیا والے کیمرے لئے بھاگتے آتے ہیں اور پھر وہ جو کچھ دکھا رہے ہوتے ہیں وہ آدھا سچ ہوتا ہے آدھا جھوٹ ۔ خان صاحب کی یہ بات سچ ہے کہ سارا سسٹم ہی گل سڑ چکا ہے، اصلاحات کی ضرورت ہمارے محکمہ میں بھی ہر سطح پر ہے مگر آخر یہ کرنا کس کی ذمہ داری ہے؟وہ انگریزوں کا دور تھا جب پولیس عوام کے لئے ہوتی تھی اب تو یہ سرکار کے لیے ہے۔آپ ایک خود مختار ادارہ بنائیں جو پولیس کے ما تحت نہ ہوبلکہ اس میں مختلف محکموں سے ایماندار اور محنتی آفیسرز بھرتی کیے جائیں جب بھی کوئی ایسا واقعہ ہو تو وہ نہ صرف تحقیقات کریں بلکہ ان کے پاس سزا دینے اور اسے پورا کروانے کا بھی اختیار بھی ہو۔

اب بھلا یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ میرے محکمہ کے ہی کسی بندے پر الزام ہو اور میں ہی اس کی تحقیقات کر کے اسے سزا بھی دوں۔ ابھی ہماری گفتگو اور بھی جاری رہتی مگر اتنے میں ان کے کیس کی پکار لگ گئی اور وہ ایک دم اٹھ کھڑے ہوئے اور ڈھیلی ڈھالی پینٹں سنبھالتے عدالت کی طرف بھاگے۔ وہ چلے گئے لیکن کچھ باتیں انکی بھی سچ تھیں کہ سب سے پہلے تو اس خاندانی جمہوریت کے تسلسل کو روکنا ہوگا تب ہی یہ ادارہ انصاف کے تقاضوں کو پوراکر کے مظلوم کو اس کا حق اور قاتل کو سزا دلوا سکے گا ورنہ خالی ڈھول ڈھمکے سے کچھ بدلنے والا نہیں ہے۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔
Load Next Story