16 دسمبر 1971ء سقوط مشرقی پاکستان کے سبق جنھیں سیکھنے کو آج بھی ہم تیار نہیں
پاکستانی حکومت بھارتی پراپیگنڈا کا توڑ کرنے کی باب میں بری طرح ناکام رہی
ISLAMABAD:
لیفٹیننٹ جنرل امیر عبداللہ خان نیازی دعویٰ کیا کرتے تھے کہ بھارتی افواج اْن کی لاش پر سے گزر کر ہی ڈھاکا میں داخل ہوسکتی ہیں لیکن پھر اگلے ہی دن 16دسمبر1971ء کو جنرل نیازی نے نہایت ذلت آمیز طریقے سے دشمن افواج کے سامنے ہتھیار ڈال دئیے اور شکست تسلیم کرلی!
دوسری طرف پاکستانی افواج کے کمانڈر انچیف اور خود ساختہ صدر پاکستان جنرل یحییٰ خان نے اس ذلت آمیز شکست کو محض ایک خطے میں جنگ ہارنے سے تعبیر کرتے ہوئے اس عزم کا اعادہ کیا کہ مغربی محاذ پر یہ جنگ جاری رہے گی! اگلے روز ہی انہوں نے اعتراف شکست کرلیا۔
سقوط مشرقی پاکستان کا تجزیہ کرنے کے لئے قائم حمود الرحمن کمیشن نے جو رپورٹ جاری کی ، اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ تقسیم کے بعد مشرقی پاکستان میں موجود ڈیڑھ کروڑ ہندو پہلے دن ہی سے وہاں انتشار پیداکرنے میں لگ گئے تھے۔ مشرقی پاکستان میں خدمات انجام دینے والے سینئر سرکاری اہلکار اور حکام کی بڑی تعداد کا تعلق پنجاب سے تھا یا یوپی سے جن کی اکثریت بنگالی زبان سے ناآشنا تھی۔ ہندو آبادی سیاسی طور پر سرگرم ہوکر حکومت کی مخالف سیاسی جماعتوں میں شامل ہوگئی۔
بالخصوص عوامی مسلم لیگ میں جس کا نام تبدیل کرکے عوامی لیگ رکھ دیا گیا تھا تاکہ ہندوؤں کو بھی اس کا حصہ بنایاجائے۔ ہندو مشرقی پاکستان کا سیاسی موسم گرم کرنے میں کامیاب رہے، رہی سہی کسر حکمران مسلم لیگ کے اندرونی اختلافات نے پوری کردی۔ یہ کہنے کی بات نہیںہے کہ آنے والے دنوں میں روزمرہ ضرورت کی اشیاء مثلاً نمک ، سرسوں کا تیل، کپڑے اور اناج جیسی بنیادی ضرورت کی اشیاء کو مارکیٹ سے غائب کرنے میں بھی انہی ہندوؤں کا کردار شامل تھا۔
غرضیکہ انھوں نے ہروہ حربہ اختیارکیا جس سے بنگالیوں میں احساس محرومی پیدا ہو۔ ہندودانشور اور ماہرین معاشیات مشرقی اور مغربی پاکستان کا تقابل کرنے لگے۔ یقیناً تقابل سمیت سب کچھ درست تھا لیکن ہم کیوں ہندؤں ہی پر الزام عائد کریں کہ انھوں نے بھارت کے اشاروں پر یہ مذموم کھیل کھیلا۔ دشمن کاکام ہی دشمنی ہوتا ہے، افسوس اس بات کا ہے کہ ہمارے حکمران دشمن کی دشمنی کے سامنے بند باندھنے کے بجائے دشمن کو ایندھن فراہم کرتے رہے۔ مثلاً پنجاب میں 1951ء میں انتخابات ہوئے لیکن مشرقی پاکستان میں نہ ہوئے کیونکہ وہاں حکمران جماعت کو اپنی کامیابی کا یقین نہ تھا۔
بنگالی کو قومی زبان قراردینے کی تحریک شروع ہوئی تو مظاہرین پر بدترین تشدد کرتے ہوئے طلبہ کو ہلاک کردیا گیا۔ بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کھوٹے سکوں پر مشتمل انتظامیہ نے جلتی پر کیسے تیل ڈالا۔آنے والے دنوں میں بھی معاملات کو ایسے سرانجام دینے کی کوشش کی گئی تاہم ہربار سو پیاز بھی کھانا پڑے اور سو جوتے بھی۔
اپوزیشن کے خلاف سخت گیر اقدامات اور 'پروڈا' قانون کے تحت پرانے مسلم لیگیوں کے خلاف کارروائیوں کے نتیجے میں پیدا ہونے والا بحران سنگین ہواتو گورنرجنرل غلام محمد نے فائدہ اٹھالیا۔ انھوں نے خواجہ ناظم الدین کی حکومت کو برطرف کردیا حالانکہ انھیں اسمبلی کی اکثریت کا اعتماد حاصل تھا۔اس کے بعد غلام محمد نے ایسا سیاسی نظام تشکیل دینے کی کوشش کی جس میں انھیں زیادہ سے زیادہ اختیار حاصل ہو۔ امریکہ میں متعین سفیر محمد علی بوگراکی سربراہی میں ایسی کابینہ بنائی جس میں تمام پارلیمانی روایات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے فوج کے کمانڈر انچیف جنرل ایوب خان کو وزیر دفاع بنایاگیا۔ ملاحظہ فرمائیے کہ ہمارے سیاست دان کس قسم کی حرکتیں کررہے تھے!!
خداخدا کرے 54ء میں انتخابات ہوئے، جگتو فرنٹ کے ہاتھوں مسلم لیگ بری طرح ہار گئی، بعدازاں ایک طرف نئی فاتح جماعت کے مسٹر فضل الحق کوحکومت بنانے کی دعوت دی گئی، دوسری طرف ڈھاکہ، نارائن گنج اور کھلنا میں بہاریوں کے خلاف سنگین فسادات شروع ہوگئے۔ نتیجتاً گورنر راج نافذ کردیا گیا، گورنر تھے میجر جنرل سکندر مرزا۔ انھوں نے فوراً فوج بلا کرصوبائی کابینہ کے چند وزرا کو گرفتار کرلیا۔ اتنا کچھ کرنے کے بعد اسی جگتوفرنٹ سے تصفیہ ہوا۔ عوامی لیگ کے مسٹر عطاالرحمن کی قیادت میں نئی حکومت تشکیل دی گئی، ان کی کابینہ میں شیخ مجیب الرحمن بھی شامل تھے۔
جب کسی ملک میں حکمرانی اور سیاست کا یہ عالم ہوگا، پھر وہاں وہ سب کچھ ہوگا، جسے سوچنے سے قوم سو بار ڈرتی ہے۔ مثلاً مشرقی پاکستان میں ہندو کانگریس پارٹی قائم ہوئی۔ اس پارٹی نے مسلمان جماعتوں کی کمزوریوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے فیصلہ کن حیثیت حاصل کرلی۔ وہ حاکمانہ اندازمیں شرائط پیش کرتی اور اپنی باتیں منواتی۔ مثلاًجب عطا الرحمن خان نے مشرقی پاکستان میں فوج کی مدد سے سمگلنگ روکنے کی کوشش کی تو ہندو کمیونٹی نے اس کوشش کو ناکام بنادیا۔
سیاسی خلفشار کا ایک اور نتیجہ ایوب خان کے مارشل لا کی صورت میں سامنے آیا، لوگوں کو باور کرایا گیا کہ حالات میں بہتری آتے ہی مارشل لاختم کردیاجائے گا، تاہم ایسا نہ ہوسکا۔ مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والے ایوب خان اپنے اقتدار کو دوام دینے پر تل گئے۔ مشرقی پاکستان کے ایک سابق وزیراعلیٰ ، مسٹر نورالامین نے کہا تھا کہ جب مارشل لا کا نفاذ ہوا اور تین برس گزرنے کے باوجود کوئی آئین تشکیل نہ دیا جاسکا تو مشرقی پاکستان کے عوام میں اس احساسِ محرومی نے جنم لیا کہ ملکی اْمور اور انتظام میں اْن کا کوئی حصہ یا کردار نہیں رہا۔
جب ایوب خان نے 1962ء کا دستورنافذ کیا تو سابق وزیراعظم حسین شہید سہروردی کی قیادت میں اس کے خلاف ملک گیر مہم شروع ہوگئی، پہلے تو اس مخالفت کو سختی سے کچل دیا گیا، سہروردی گرفتار کر لیے گئے جس کے خلاف شدید عوامی ردعمل ہوا۔ ایوب دور میں ہونے والی تیز رفتار صنعتی ترقی کے نتیجے میں ملک کی دولت رفتہ رفتہ مغربی پاکستان کے چند گھرانوں تک ہی محدود ہوگئی۔ سبب یہ تھا کہ مغربی پاکستان میں ترقی اور خوشحالی کی رفتار نسبتاَ َ زیادہ تیز تھی۔
چنانچہ مشرقی پاکستان کے عوام نے ان صنعتکار خاندانوں کو تمام تر استحصال اور حق تلفی کا ذمہ دار قرار دیا، ایوب حکومت کو جن مسلح افواج کی حمایت حاصل تھی، ان کی اکثریت کا تعلق بھی مغربی پاکستان سے تھا۔ حمودالرحمن کمیشن رپورٹ میں لکھاگیا کہ ایوب خان تمام اختیارات اپنی ذات میں مرکوز نہ کر لیتے اور سیاسی فہم و فراست کا مظاہرہ کرتے ہوئے عوام کو حکومت میں شرکت کا حقیقی احساس دلانے میں کامیاب ہوجاتے تو اس بدقسمت ملک کی تاریخ مختلف ہوتی اور تاریخ میں ان کا نام پاکستان کے عظیم( سپاہی مدبر) کی حیثیت سے ہمیشہ کے لیے محفوظ ہوجاتا۔
سقوط مشرقی پاکستان کی کہانی جب بھی بیان ہوگی تو شیخ مجیب الرحمن کے چھ نکات کا ذکر ضرور ہوگا۔ چھ نکات کیسے وجود میں آئے؟ ان کا خالق اصل میں کون تھا؟ اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ شیخ مجیب الرحمٰن ہر گز اس ذہانت کے مالک نہ تھے کہ یہ نکات تیار کرتے جبکہ مسٹر نورالامین کا خیال تھا کہ ان کے پیچھے کسی غیر ملکی طاقت کا ہاتھ تھا! بعض لوگوں کا کہنا تھا کہ ان نکات کو مشرقی پاکستان کے سی ایس پی افسران کے ایک گروپ نے کسی بینکار سے مل کر ترتیب دیا تاہم ایک گواہ اے کے رفیق الحسن نے مسٹر الطاف گوہر کو چھ نکات کا خالق قرار دیتے ہوئے انکشاف کیا کہ انہیں مذکورہ بالا بینکار کے توسط سے شیخ مجیب الرحمن کو بھیجا گیا تھا۔
انھوں نے یہ انکشاف بھی کیا کہ یہ سب کچھ صدر ایوب کی رضا مندی سے کیا گیا تھا، دراصل وہ شیخ مجیب کو اپنا آلہ کار بناناچاہتے تھے۔ رفیق الحسن کو اس بات کا علم کانفرس شروع ہونے سے ذرا پہلے اس وقت ہوا جب شیخ مجیب الرحمٰن نے ان نکات کی ایک نقل روزنامہ اتفاق کے ایڈیٹر مانک میاں کے حوالے کی جو خود بھی عوامی لیگ کے ممبر تھے۔
جب یہ سوال پیدا ہوا کہ شیخ مجیب کے چھ نکات مانے جائیں یا نہ مانے جائیں تو شیخ مجیب سے مذاکرات کی باتیں ہونے لگیں، اسی اثنا میں دو واقعات رونما ہوئے۔ پہلا واقعہ یہ ہے کہ مرکزی حکومت کے دو وزرا یعنی خواجہ شہاب الدین اور ایڈمرل اے آر خان ڈھاکہ پہنچے اور شیخ مجیب سے ملاقات کی۔
کہا گیا کہ اس ملاقات کا مقصد درحقیقت انہیں اپوزیشن لیڈر نواب زادہ نصراللہ خان کی طرف سے بلائی گئی آل پارٹیز کانفرنس میں شرکت سے روکنا تھا۔ بتایا جاتا ہے کہ ایڈمرل اے آر خان جنرل یحیٰی کے انتہائی قریبی اور گہرے دوست تھے جس کا واضح مطلب یہ ہوا کہ یحییٰ خان چاہتے تھے کہ اس مرحلے پر مجیب الرحمٰن اپنے مطالبات میں شدت اور وسعت پیدا کر لیں جس کا فوری اور دوررس مقصد اس امر کو یقینی بنانا تھا کہ راولپنڈی میں منعقد ہونے والی راؤنڈ ٹیبل کانفرنس بالآخر ناکامی سے دوچار ہو جائے۔
دوسرا واقعہ جس نے شیخ مجیب الرحمن کے طرز عمل کو متاثر کیا وہ اگر تلا سازش کیس کے ایک ملزم سارجنٹ ظہورالحق کا 17 فروری 1969ء کو قتل تھا۔ کہا گیا کہ سارجنٹ ظہور الحق لیویٹری سے واپس آتے ہوئے فرار ہونے کی کوشش میں مارا گیا۔دراصل ایک ایسا موقع آچکا تھا جب ٹریبونل کو یہ یقین ہوگیا تھا کہ کچھ ملزمان کے خلاف ایسے ثبوت موجود نہیں ہیں کہ انہیں سزا دی جاسکے اوراس واقعے سے پہلے پراسیکیوٹر اس بات پر رضا مند ہوگئے تھے کہ وہ ان لوگوں کے ناموں کا اعلان کردیں گے جن کے خلاف حکومت کا مقدمہ چلانے کا ارادہ نہیں ہے۔
سارجنٹ ظہور الحق بھی ان لوگوں میں سے ایک تھا، اس کے وکیلِ صفائی کو بھی معلوم ہوگیا تھا کہ فہرست میں اس کا نام آنے کا امکان ہے۔ ایسے میں ظہور الحق کیوں فرارہوتا بھلا؟ جب وہ مارا گیا تو اس کی لاش اس کے رشتے داروں کو دیدی گئی تاکہ اسے عوام میں ایک جلوس کی شکل میں لے جایا جائے۔ اس واقعے پر شدید ہنگامے شروع ہوگئے اور بہت سے گھر جلا دئیے گئے۔
ایک طرف اس واقعہ کی وجہ سے اشتعال پیدا ہوگیا تھا، دوسری طرف اس واقعہ نے شیخ مجیب الرحمٰن کو یہ موقع فراہم کردیا کہ وہ ضمانت پر رہا ہونے سے انکار کردیں۔ ظہورالحق کی موت کے بعد جس دن ضمانت کی درخواست پیش ہوئی تھی اس سے ایک روز پہلے شام کو شیخ مجیب نے ضمانت کی درخواست پر دستخط کرنے سے صاف انکار کردیا۔ راولپنڈی سے ڈھاکہ میں بیگم مجیب الرحمٰن کو ٹیلیفون کئے جاتے رہے۔ یادرہے کہ یہ کالز ایوب خان کی کابینہ میں مشرقی پاکستان کے وزیر اے صبور کے ٹیلیفون سے کی جارہی تھی۔
نواب زادہ نصراللہ خان کی گول میز کانفرنس آخر کار 10 مارچ 1969ء کو منعقد ہوئی، عوامی لیگ کے مولانا عبدالحمید بھاشانی اور ایوب خان کے دور میں وزیرخارجہ کی ذمہ داریاں ادا کرنے والے ذوالفقار علی بھٹو نے بوجوہ اس کانفرنس میں شریک ہونے سے انکار کر دیا تھا۔ گول میز کانفرنس کے دو اجلاس ہوئے اس دوران اہم بات یہ ہوئی کہ جنرل یحیٰی خان اور شیخ مجیب الرحمٰن کی ملاقات ان کی سابق رہائش گاہ پر ہوئی۔
سوال یہ ہے کہ جنرل یحیٰی خان سیاسی امورمیں قطعاَ َ دلچسپی نہیں رکھتے تھے،آخر انہوں نے کیونکر شیخ مجیب سے ملاقات کی جبکہ شیخ مجیب سے ان کی کسی قسم کی ذاتی ہم آہنگی بھی نہیں تھی۔ یادرہے کہ شیخ مجیب الرحمٰن واحد سیاست دان تھے جس سے یحیٰی خان نے پہلی اور آخری ملاقات کی۔ مغربی پاکستان سے چھ نکات کے خلاف شدید مزاحمت کرنے والے اپوزیشن رہنما گول میز کانفرنس میں شریک تھے، شیخ مجیب الرحمٰن بھی اپنے چھ نکات کی بنیاد پر سیاسی تصفیے کے خواہشمند تھے۔ دونوں جانب سے شدید ردعمل کی صورت میں گول میز کانفرنس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔
ریٹائرڈ چیف جسٹس آف پاکستان مسٹر جسٹس اے آر کار نیلیس سے پوچھاگیا کہ کیا انتخابی مہم کے دوران کسی موقع پر چھ نکات جنرل یحیٰی خان کو بھی دکھائے گئے تھے؟ ان کا کہنا تھا کہ وہ ان نکات سے بخوبی آشنا تھے اور وقتاَ َ فوقتاَ َ ان کے بارے میں گفتگو بھی کرتے تھے، تاہم انہوں نے کبھی ان کے تجریئے کی ضرورت محسوس نہ کی۔گورنر مشرقی پاکستان ایڈمرل احسن اور مارشل لا ایڈمنسٹریٹر لیفٹیننٹ جنرل ایس ایم یعقوب ان دونوں حضرات کا کہنا ہے کہ انہیں یاد نہیں پڑتا کہ کبھی ان چھ نکات کے مفہوم اور مطالب کا غور اور سنجیدگی کے ساتھ کوئی تجزیہ کیا گیا ہو یا ان کے اطلاق اور عواقب کا ہی کوئی احاطہ کیا گیا ہو!
عوامی لیگ کے معاملے میں عدم مداخلت کی پالیسی اختیار کرتے ہوئے حکومت نے انتہا ہی کردی ، اس نے جماعتوں کو تحفظ دینے سے انکار کر دیا جن کی انتخابی مہم میں عوامی لیگ دخل اندازی کر رہی تھی۔ مثلاًعوامی لیگ نے ڈھاکہ کے پلٹن میدان میں ہونے والا جماعت اسلامی کا ایک انتخابی جلسہ درہم برہم کردیا مگر حکومت تماشائی بنی دیکھتی رہی۔ پاکستان ڈیموکریٹک پارٹی کے جلسے کا بھی یہ ہی حال ہوا۔ ایسے میں عوامی لیگ کی کامیابی کے امکانات روشن ہی ہونے تھے۔
دوسری طرف حکومت نے نتائج پر اثر انداز ہونے کا خفیہ کھیل بھی کھیلا۔ جنرل یحیٰی نے اپنے ایک بااعتماد ساتھ میجر جنرل محمد عمر کو نیشنل سیکیورٹی کونسل کا سیکرٹری مقرر کیاتھا، انھیں صدر کے پاس براہ راست رسائی حاصل تھی۔ جنرل عمر کے پاس سیف میں بہت بڑی رقم پڑی ہوئی تھی اور جب بڑی قیمت کے نوٹوں کو تبدیل کیا گیا تو انہوں نے چھ لاکھ روپے جمع کرائے۔ تین لاکھ روپے کیش نکلوائے گئے اور ان کا کوئی حساب نہیں دیا گیا۔ اس کے ساتھ جنرل عمر بار بار سیاستدانوں سے ملتے رہتے تھے۔
ستمبر1970ء میں مشرقی پاکستان میں سیلاب آئے تو یحیٰی خان نے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ملتوی کردئیے۔ مجیب الرحمٰن نے اصرار کیا کہ سیلاب انتخابات ملتوی کرنے کی وجہ نہیں بن سکتے کیونکہ مشرقی پاکستان کے لوگ پانی میں آدھے غرق رہنے کے عادی ہیں۔ انتخابات ملتوی کرنے سے مہم چلانے کے لیے مزید دو ماہ کا اضافہ ہوگیا اور اس طرح آمرانہ دور کی مدت میں اضافہ ہوگیا۔
عوامی لیگ نے سیلاب کوبھی مغربی پاکستانیوں کے خلاف پہلے سے موجود شدید نفرت کو بڑھانے کے لیے استعمال کیا۔ اب یہ بات بالکل واضح تھی کہ مجیب انتخابات پر چھا جائے گا۔ سیلاب کے بعد چند جماعتوں کے علاوہ دوسری تمام جماعتیں انتخابات سے علیحدہ ہوگئیں اور مجیب کومیدان خالی مل گیا۔انتخابی نتائج آنے کے بعد وقت گزرتارہا لیکن قومی اسمبلی کا اجلاس بلائے جانے کی کوئی بات نہ کی گئی۔
3 جنوری 1971ء کو شیخ مجیب الرحمٰن نے ایک بڑا جلسہ منعقد کیا جس میں انہوں نے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے منتخب ارکان سے حلف اور پارٹی کے صوبائی خود مختاری پروگرام سے وفاداری کا عہد لیا۔ شیخ مجیب وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اپنے اس موقف سے پیچھے ہٹتے رہے کہ چھ نکات پر بات چیت ہوسکتی ہے، اب انہوں نے یہ موقف اختیار کر لیا کہ چھ نکات بنگلہ دیش کے عوام کی ملکیت ہیں اور ان پر سودے بازی کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
دسمبر1970 اور 7 جنوری 1971ء کے درمیان کے باعث جنرل یحییٰ خان اور مجیب الرحمن کی ڈھاکہ میں ملاقات بھی صورتحال بہتر بنانے میں ممد ثابت نہ ہو سکی۔ چھ جنوری1971ء کو جنرل یحییٰ کے پرنسپل اسٹاف افسر جنرل پیرزادہ نے مشرقی پاکستان کے گورنر ایڈمرل احسن سے ملاقات کی اور ان سے چھ نکاتی پروگرام کی ایک نقل کے حصول کے لیے کہا تاکہ اگلے روز صدر اس پر مجیب الرحمن اور ان کے ساتھیوں سے بات چیت کر سکیں۔
صدر کی ٹیم کے پاس چھ نکاتی پروگرام کی نقل کا موجود نہ ہونا آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے تاہم ایڈمرل نے خاص طور پر یہ پوچھا کہ کیا چھ نکاتی پروگرام کا تجزیہ کیا جاچکا ہے تاکہ اس کے مضمرات اور خامیوں کا پتہ چل سکے اور صدر مخصوص سوالات کرنے کے قابل ہو سکیں تو جنرل پیرزادہ نے جواب دیا کہ ایسا کوئی تجزیہ نہیں ہوا۔
دوسرے دن اجلاس منعقد ہوا جس میں جنرل یحییٰ خان کے علاوہ وہاں کے پرنسپل اسٹاف افسر اور ایڈمرل احسن موجود تھے۔ عوامی لیگ کی طرف سے شیخ مجیب الرحمن ، مسٹر تاج الدین ، مسٹر نذرالاسلام، مسٹر قمر الزماں، کھونڈ کر مشتاق احمد اور کیپٹن منصور علی تھے۔ شیخ مجیب الرحمن نے اپنا چھ نکاتی پروگرام پیش کیا اور بعض سوالوں کے جواب دئیے جو جنرل یحییٰ خاں نے اٹھائے تھے اور کہا ( بقول ایڈمرل احسن) جناب عالی! اب آپ جان گئے ہیں کہ چھ نکاتی پروگرام کیا ہے۔ اس سوال میں بہت معنی خیزی ہے۔
اس ساری کہانی میں ذوالفقارعلی بھٹو کا کرداربھی اہم رہا۔یہ وہی تھے کہ جنھوں نے تین مارچ کو ڈھاکہ میں بلائے جانے والے قومی اسمبلی کے اجلاس میں اپنی پارٹی کے ارکان کو شریک نہ ہونے کی ہدایت کی، انھوں نے دھمکی بھی لگائی کہ اگر پیپلزپارٹی کے کسی رکن نے اجلاس میں شرکت کی تو اس کی ٹانگیں توڑ دی جائیں گی، اسی طرح انھوں نے دوسری جماعتوں کے نومنتخب ارکان کو بھی دھمکایا کہ اگر وہ ڈھاکہ جائیں تو انھیں بھی مغربی پاکستان واپس آنے کا ٹکٹ نہیں لینا چاہئے۔
بھٹو صاحب کے اس کردار میں ملک سے زیادہ پارٹی یا پھر ذاتی مفاد نظرآتاہے۔ معاملہ صرف ایک بھٹو یا ایک یحییٰ یاپھر ایک مجیب تک ہی محدود نہیں ہے، حقیقت یہ ہے کہ اس سارے گندے اور شرمناک کھیل کے کھلاڑی جیتے، ان کامیاب کھلاڑیوں کی فہرست غلام محمد سے شروع ہوتی ہے۔رہی بات شکست کی تو وہ صرف اور صرف ملک اور قوم کے حصے میں آئی۔ پنڈت جواہر لال نہرو کی بیٹی اندرا گاندھی اپنی مجلسوں میں کہا کرتی تھی: ''میری زندگی کا حسین ترین لمحہ وہ تھا، جب میں نے پاکستان میں مداخلت کر کے بنگلہ دیش بنایا۔''
پاکستانی فوج کے خلاف جنگی جرائم کا فسانہ کیسے تیار ہوا؟
مشرقی پاکستان میں ایسٹ پاکستان رائفلز کے ہاتھوں یقیناً بڑی تعدادمیں باغی مارے گئے، ظاہر ہے کہ ریاست کے خلاف بغاوت میں باغیوں پر پھولوں کی پتیاں نچھاورنہیں کی جاتیں، جماعت اسلامی کے کارکنان نے بھی ''البدر'' اور ''الشمس'' کے نام سے تنظیمیں قائم کرکے پاکستان کو متحد رکھنے کی اس جدوجہد میں پاک فوج کا ساتھ دیا۔ تاہم یہ بات کسی بھی اعتبار سے درست نہیں ہے کہ پاکستانی فوج نے بنگلہ دیش میں بڑے پیمانے پر بے گناہوں کو ہلاک کیا۔
یہ محض عوامی لیگ ہی کادعویٰ رہا ہے کہ جنگِ 1971ء میں پاکستانی فوج اور جماعت اسلامی نے مل کر 30 لاکھ افراد قتل کئے تھے۔بلاشبہ یہ اعدادوشمار دہلی میں تیارہوئے تھے، جس طرح عوامی لیگ نے پاکستان کے خلاف جدوجہد میں بھارتی فوج کے تربیت یافتہ دہشت گردوں کی ایک بڑی فوج مکتی باہنی کو استعمال کیا، بھارتی اسلحہ استعمال کیا، اسی طرح بھارت میں تیارہونے والا پروپیگنڈا بھی پاکستان کے خلاف استعمال کیا۔ بھلا کیسے؟ اس کا جواب پانے کے لئے ممتاز دانشور، سفارت کار، مصنف اور ماہرِ ابلاغیات جناب قطب الدین عزیز اپنی کتاب "Blood and Tears"میں یوں دیتے ہیں:
''مارچ 1971ء کے پہلے ہفتے میں عوامی لیگ نے ریاست کے خلاف بغاوت کا آغاز کیا اور اس کے ساتھ ہی سابق مشرقی پاکستان میں لوٹ مار، تشدد اور قتل و غارت کا ایسا سلسلہ شروع ہوا جو جنگل کی آگ کی طرح پھیلتا چلا گیا۔ اْنہی دنوں وفاقی وزارتِ اطلاعات و نشریات کے ایک اعلیٰ افسر نے مجھے ہدایت کی کہ میرے خبر رساں ادارے سے (سابق) مشرقی پاکستان میں باغیوں کے ہاتھوں غیر بنگالیوں پر ڈھائے جانے والے مظالم سے متعلق کوئی خبر جاری نہیں ہونی چاہیے۔
یہی ہدایت ملک کے دیگر خبر رساں اداروں اور میڈیا آؤٹ لیٹس کو دی گئی۔ عوامی لیگ کے عسکریت پسندوں نے بغاوت شروع ہونے کے بعد ابتدائی دنوں ہی میں مشرقی پاکستان کے ٹیلی کمیونی کیشن نیٹ ورک پر تصرف حاصل کرلیا تھا۔ وہ اس بات کو یقینی بناتے تھے کہ جو مظالم وہ غیر بنگالیوں پر ڈھا رہے تھے، اس کے بارے میں میڈیا میں کوئی بات نہ آئے اور ملک سے باہر بھیجے جانے والے ٹیلی گرامز میں بھی ایسی کوئی بات نہ ہو۔
مارچ 1971ء کے تیسرے ہفتے میں مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ کے عسکریت پسندوں کے مظالم سے بچ کر پانچ ہزار پاکستانی بحری جہاز کے ذریعے چاٹگام سے کراچی پہنچے۔ انہوں نے مظالم کی جو کہانیاں سنائیں، ان کا ایک لفظ بھی مغربی پاکستان کے پریس میں شائع نہیں ہوا۔ اسلام آباد میں وفاقی وزارتِ اطلاعات و نشریات کے بنگالی سیکرٹری نے دھمکی دی تھی کہ جو اخبارات مشرقی پاکستان میں قتل و غارت کی خبروں کی اشاعت پر عائد پابندی کی خلاف ورزی کریں گے، اْن کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔
میرے خبر رساں ادارے کے کئی نمائندے مشرقی پاکستانی کے مختلف حصوں میں موجود تھے مگر اس کے باوجود تسلیم کرنا پڑے گا کہ ہمیں مکمل اندازہ نہیں تھا کہ مشرقی پاکستان میں کتنے بڑے پیمانے پر خرابی پائی جاتی ہے۔ ہمارے اندازوں سے کہیں بڑھ کر غیر بنگالیوں کو قتل کیا جارہا تھا اور ان کی املاک لوٹی جارہی تھیں۔ ڈھاکا اور چاٹگام دو ایسے مقامات تھے جہاں سے کسی نہ کسی طرح جان بچاکر کراچی پہنچنے والے عوامی لیگ کے عسکریت پسندوں کے انسانیت سوز مظالم کی داستانیں سناتے تھے۔
مجھے تسلیم کرنا پڑے گا کہ عوامی لیگ کے عسکریت پسند اور ایسٹ بنگال رجمنٹ اور ایسٹ پاکستان رائفلز میں ان کے ہم خیال پورے مشرقی پاکستان میں غیر بنگالیوں کو جس سفّاکی سے موت کے گھاٹ اتار رہے تھے اور جتنے بڑے پیمانے پر لوٹ مار کر رہے تھے، اْس کی خبریں ہم تک نہیں پہنچ پارہی تھیں۔ مارچ 1971ء کے دوران عوامی لیگ نے غیر بنگالیوں کا جو قتل عام کیا اور ان کی املاک کو لوٹنے یا تلف کرنے کے جو واقعات رونما ہوئے، اْن کی تھوڑی بہت رپورٹنگ اپریل 1971ء میں چند بھارتی اور مغربی اخبارات میں ہوئی۔ 6اپریل 1971ء کو ''دی ٹائمز آف لندن'' نے لکھا: ''ہندوستان کی تقسیم کے وقت مشرقی بنگال (مشرقی پاکستان) میں پناہ لینے والے ہزاروں غیر بنگالیوں کو بنگالیوں نے موت کے گھاٹ اتارا ہے''۔
پاکستانی حکومت نے 25 مارچ کو عوامی لیگ کے کارکنوں اور دیگر باغیوں کے خلاف فوجی آپریشن شروع کیا اور اگلے ہی دن 35 صفِ اول کے مغربی صحافیوں کو ڈھاکا سے نکال دیا۔ ان میں امریکا کے چند چوٹی کے صحافی بھی شامل تھے۔ ان کے دل میں پاکستانی فوج کے خلاف پرخاش پیدا ہوئی اور پھر انہوں نے کبھی مغربی پاکستان کے حق میں ایک لفظ بھی نہیں لکھا۔
ان صحافیوں نے اپنے اخبارات کو جاری کی جانے والی رپورٹس میں فوجی آپریشن کے خلاف جی بھر کے لکھا۔ فوج پر سنگین مظالم ڈھانے کا الزام عائد کیا اور مارچ اور اپریل 1971ء کے عوامی لیگ اور مکتی باہنی کے غنڈوں کے ہاتھوں لاکھوں غیر بنگالیوں اور محب وطن بنگالیوں کے بہیمانہ قتل عام کے بارے میں کچھ بھی سچ نہیں لکھا۔ کروڑوں سادہ لوح امریکیوں اور یورپی باشندوں کے لیے پریس میں چھپا ہوا ہر لفظ آسمانی صحیفے کی مانند ہوتا ہے اور انہوں نے پاکستانی فوج کے آپریشن سے متعلق لکھے جانے والے ہر لفظ کو حقیقت پر مبنی تسلیم کرلیا۔
بھارت کی پروپیگنڈا مشینری نے امریکا اور یورپ میں پاکستانی فوج کو بدنام کرنے کی مہم شروع کی اور ایسی کتابیں اور کتابچے شائع کیے جن میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ پاکستانی فوج نے مشرقی پاکستان میں لاکھوں غیر بنگالیوں اور ہندوؤں کو قتل کیا اور دو لاکھ سے زائد بنگالی لڑکیوں کو زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔ یہ پروپیگنڈا ویسا ہی شدید اور بے بنیاد تھا جیسا نازیوں کیخلاف یہودیوں کا پروپیگنڈا تھا۔ بھارتی پروپیگنڈا مشینری نے اس قدر جھوٹ بولا کہ سچ اْس کی گرد میں چھپ گیا اور مشرقی پاکستان میں مارچ اور اپریل 1971ء کے دوران غیر بنگالیوں پر ڈھائے جانے والی قیامت کی تفصیل آج بھی ایک بھولی ہوئی کہانی ہے۔
حکومتِ پاکستان نے اگست 1971ء میں مشرقی پاکستان کی صورت حال پر ایک وائٹ پیپر شائع کیا جو بین الاقوامی سطح پر کوئی تاثر چھوڑنے میں ناکام رہا۔ یہ وائٹ پیپر خاصی تاخیر سے شائع ہوا تھا اور اس میں غیر بنگالیوں کے قتل عام کی تفصیل عمدگی سے پیش کرنے پر زیادہ توجہ نہیں دی گئی تھی۔ اس وائٹ پیپر میں ایسے درجنوں مقامات کا ذکر نہ تھا جہاں غیر بنگالیوں کو بڑے پیمانے پر موت کے گھاٹ اتارا گیا۔
عوامی لیگ کے غنڈوں کے ہاتھوں بہاریوں کے بہیمانہ قتل عام کی اس پوسٹ مارٹم رپورٹ میں، حکومت عالمی برادری سے اپنی بات کہنے میں ناکام رہی۔ اپنی تمام خامیوں کے باوجود یہ وائٹ پیپر بہت کارگر ثابت ہوا ہوتا اگر اسے اپریل 1971ء کے آخر میں شائع کردیا جاتا۔ نفسیاتی اسلحہ خانے میں وقت بہت بڑا ہتھیار ہے، بالخصوص اس وقت جب دشمن سچائی کو بال برابر بھی تسلیم کرنے کے لیے تیار نہ ہو۔
بھارت کی پروپیگنڈا مشینری نے مغرب میں رائے عامہ کو یہ تسلیم کرنے پر مجبور کردیا کہ مشرقی پاکستان میں بنگالی اکثریت کو پاکستانی فوج نے بے دردی سے نشانہ بنایا اور بے انتہا مظالم ڈھائے۔ مشرقی پاکستان سے بھارت کی طرف نقل مکانی کرنے والوں کے معاملے کو بہت بڑھا چڑھاکر پیش کیا گیا۔ بھارت نے درجنوں کتابیں شائع کیں جن میں پاکستانی فوج کو حالات کی خرابی کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا تھا۔ اس کے جواب میں پاکستانی پروپیگنڈا مشینری زیادہ موثر ثابت نہ ہوسکی۔
پاکستانی فوجیوں کے مظالم کو بھارتی پروپیگنڈا مشینری نے دس گنا، بلکہ بیس گنا کرکے پیش کیا۔ ایک بنگالی مصنف کا کہنا ہے کہ بھارتی پروپیگنڈا مشینری نے مشرقی پاکستان کی راولپنڈی سے علیٰحدگی میں پاکستان کے فوجی ایکشن سے کہیں اہم کردار ادا کیا۔ افسوسناک امریہ ہے کہ پاکستان کا ایک مخصوص طبقہ جو اب تک برصغیر کی تقسیم کو غلط قرار دیتا رہا، وہ آج پاکستانی فوج ، البدر اور الشمس کے بارے میں بھارتی پراپیگنڈا کو نہ صرف درست تسلیم کرتاہے بلکہ اس کی تشہیر کو اپنا فرض اولین سمجھتا ہے۔
لیفٹیننٹ جنرل امیر عبداللہ خان نیازی دعویٰ کیا کرتے تھے کہ بھارتی افواج اْن کی لاش پر سے گزر کر ہی ڈھاکا میں داخل ہوسکتی ہیں لیکن پھر اگلے ہی دن 16دسمبر1971ء کو جنرل نیازی نے نہایت ذلت آمیز طریقے سے دشمن افواج کے سامنے ہتھیار ڈال دئیے اور شکست تسلیم کرلی!
دوسری طرف پاکستانی افواج کے کمانڈر انچیف اور خود ساختہ صدر پاکستان جنرل یحییٰ خان نے اس ذلت آمیز شکست کو محض ایک خطے میں جنگ ہارنے سے تعبیر کرتے ہوئے اس عزم کا اعادہ کیا کہ مغربی محاذ پر یہ جنگ جاری رہے گی! اگلے روز ہی انہوں نے اعتراف شکست کرلیا۔
سقوط مشرقی پاکستان کا تجزیہ کرنے کے لئے قائم حمود الرحمن کمیشن نے جو رپورٹ جاری کی ، اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ تقسیم کے بعد مشرقی پاکستان میں موجود ڈیڑھ کروڑ ہندو پہلے دن ہی سے وہاں انتشار پیداکرنے میں لگ گئے تھے۔ مشرقی پاکستان میں خدمات انجام دینے والے سینئر سرکاری اہلکار اور حکام کی بڑی تعداد کا تعلق پنجاب سے تھا یا یوپی سے جن کی اکثریت بنگالی زبان سے ناآشنا تھی۔ ہندو آبادی سیاسی طور پر سرگرم ہوکر حکومت کی مخالف سیاسی جماعتوں میں شامل ہوگئی۔
بالخصوص عوامی مسلم لیگ میں جس کا نام تبدیل کرکے عوامی لیگ رکھ دیا گیا تھا تاکہ ہندوؤں کو بھی اس کا حصہ بنایاجائے۔ ہندو مشرقی پاکستان کا سیاسی موسم گرم کرنے میں کامیاب رہے، رہی سہی کسر حکمران مسلم لیگ کے اندرونی اختلافات نے پوری کردی۔ یہ کہنے کی بات نہیںہے کہ آنے والے دنوں میں روزمرہ ضرورت کی اشیاء مثلاً نمک ، سرسوں کا تیل، کپڑے اور اناج جیسی بنیادی ضرورت کی اشیاء کو مارکیٹ سے غائب کرنے میں بھی انہی ہندوؤں کا کردار شامل تھا۔
غرضیکہ انھوں نے ہروہ حربہ اختیارکیا جس سے بنگالیوں میں احساس محرومی پیدا ہو۔ ہندودانشور اور ماہرین معاشیات مشرقی اور مغربی پاکستان کا تقابل کرنے لگے۔ یقیناً تقابل سمیت سب کچھ درست تھا لیکن ہم کیوں ہندؤں ہی پر الزام عائد کریں کہ انھوں نے بھارت کے اشاروں پر یہ مذموم کھیل کھیلا۔ دشمن کاکام ہی دشمنی ہوتا ہے، افسوس اس بات کا ہے کہ ہمارے حکمران دشمن کی دشمنی کے سامنے بند باندھنے کے بجائے دشمن کو ایندھن فراہم کرتے رہے۔ مثلاً پنجاب میں 1951ء میں انتخابات ہوئے لیکن مشرقی پاکستان میں نہ ہوئے کیونکہ وہاں حکمران جماعت کو اپنی کامیابی کا یقین نہ تھا۔
بنگالی کو قومی زبان قراردینے کی تحریک شروع ہوئی تو مظاہرین پر بدترین تشدد کرتے ہوئے طلبہ کو ہلاک کردیا گیا۔ بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کھوٹے سکوں پر مشتمل انتظامیہ نے جلتی پر کیسے تیل ڈالا۔آنے والے دنوں میں بھی معاملات کو ایسے سرانجام دینے کی کوشش کی گئی تاہم ہربار سو پیاز بھی کھانا پڑے اور سو جوتے بھی۔
اپوزیشن کے خلاف سخت گیر اقدامات اور 'پروڈا' قانون کے تحت پرانے مسلم لیگیوں کے خلاف کارروائیوں کے نتیجے میں پیدا ہونے والا بحران سنگین ہواتو گورنرجنرل غلام محمد نے فائدہ اٹھالیا۔ انھوں نے خواجہ ناظم الدین کی حکومت کو برطرف کردیا حالانکہ انھیں اسمبلی کی اکثریت کا اعتماد حاصل تھا۔اس کے بعد غلام محمد نے ایسا سیاسی نظام تشکیل دینے کی کوشش کی جس میں انھیں زیادہ سے زیادہ اختیار حاصل ہو۔ امریکہ میں متعین سفیر محمد علی بوگراکی سربراہی میں ایسی کابینہ بنائی جس میں تمام پارلیمانی روایات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے فوج کے کمانڈر انچیف جنرل ایوب خان کو وزیر دفاع بنایاگیا۔ ملاحظہ فرمائیے کہ ہمارے سیاست دان کس قسم کی حرکتیں کررہے تھے!!
خداخدا کرے 54ء میں انتخابات ہوئے، جگتو فرنٹ کے ہاتھوں مسلم لیگ بری طرح ہار گئی، بعدازاں ایک طرف نئی فاتح جماعت کے مسٹر فضل الحق کوحکومت بنانے کی دعوت دی گئی، دوسری طرف ڈھاکہ، نارائن گنج اور کھلنا میں بہاریوں کے خلاف سنگین فسادات شروع ہوگئے۔ نتیجتاً گورنر راج نافذ کردیا گیا، گورنر تھے میجر جنرل سکندر مرزا۔ انھوں نے فوراً فوج بلا کرصوبائی کابینہ کے چند وزرا کو گرفتار کرلیا۔ اتنا کچھ کرنے کے بعد اسی جگتوفرنٹ سے تصفیہ ہوا۔ عوامی لیگ کے مسٹر عطاالرحمن کی قیادت میں نئی حکومت تشکیل دی گئی، ان کی کابینہ میں شیخ مجیب الرحمن بھی شامل تھے۔
جب کسی ملک میں حکمرانی اور سیاست کا یہ عالم ہوگا، پھر وہاں وہ سب کچھ ہوگا، جسے سوچنے سے قوم سو بار ڈرتی ہے۔ مثلاً مشرقی پاکستان میں ہندو کانگریس پارٹی قائم ہوئی۔ اس پارٹی نے مسلمان جماعتوں کی کمزوریوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے فیصلہ کن حیثیت حاصل کرلی۔ وہ حاکمانہ اندازمیں شرائط پیش کرتی اور اپنی باتیں منواتی۔ مثلاًجب عطا الرحمن خان نے مشرقی پاکستان میں فوج کی مدد سے سمگلنگ روکنے کی کوشش کی تو ہندو کمیونٹی نے اس کوشش کو ناکام بنادیا۔
سیاسی خلفشار کا ایک اور نتیجہ ایوب خان کے مارشل لا کی صورت میں سامنے آیا، لوگوں کو باور کرایا گیا کہ حالات میں بہتری آتے ہی مارشل لاختم کردیاجائے گا، تاہم ایسا نہ ہوسکا۔ مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والے ایوب خان اپنے اقتدار کو دوام دینے پر تل گئے۔ مشرقی پاکستان کے ایک سابق وزیراعلیٰ ، مسٹر نورالامین نے کہا تھا کہ جب مارشل لا کا نفاذ ہوا اور تین برس گزرنے کے باوجود کوئی آئین تشکیل نہ دیا جاسکا تو مشرقی پاکستان کے عوام میں اس احساسِ محرومی نے جنم لیا کہ ملکی اْمور اور انتظام میں اْن کا کوئی حصہ یا کردار نہیں رہا۔
جب ایوب خان نے 1962ء کا دستورنافذ کیا تو سابق وزیراعظم حسین شہید سہروردی کی قیادت میں اس کے خلاف ملک گیر مہم شروع ہوگئی، پہلے تو اس مخالفت کو سختی سے کچل دیا گیا، سہروردی گرفتار کر لیے گئے جس کے خلاف شدید عوامی ردعمل ہوا۔ ایوب دور میں ہونے والی تیز رفتار صنعتی ترقی کے نتیجے میں ملک کی دولت رفتہ رفتہ مغربی پاکستان کے چند گھرانوں تک ہی محدود ہوگئی۔ سبب یہ تھا کہ مغربی پاکستان میں ترقی اور خوشحالی کی رفتار نسبتاَ َ زیادہ تیز تھی۔
چنانچہ مشرقی پاکستان کے عوام نے ان صنعتکار خاندانوں کو تمام تر استحصال اور حق تلفی کا ذمہ دار قرار دیا، ایوب حکومت کو جن مسلح افواج کی حمایت حاصل تھی، ان کی اکثریت کا تعلق بھی مغربی پاکستان سے تھا۔ حمودالرحمن کمیشن رپورٹ میں لکھاگیا کہ ایوب خان تمام اختیارات اپنی ذات میں مرکوز نہ کر لیتے اور سیاسی فہم و فراست کا مظاہرہ کرتے ہوئے عوام کو حکومت میں شرکت کا حقیقی احساس دلانے میں کامیاب ہوجاتے تو اس بدقسمت ملک کی تاریخ مختلف ہوتی اور تاریخ میں ان کا نام پاکستان کے عظیم( سپاہی مدبر) کی حیثیت سے ہمیشہ کے لیے محفوظ ہوجاتا۔
سقوط مشرقی پاکستان کی کہانی جب بھی بیان ہوگی تو شیخ مجیب الرحمن کے چھ نکات کا ذکر ضرور ہوگا۔ چھ نکات کیسے وجود میں آئے؟ ان کا خالق اصل میں کون تھا؟ اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ شیخ مجیب الرحمٰن ہر گز اس ذہانت کے مالک نہ تھے کہ یہ نکات تیار کرتے جبکہ مسٹر نورالامین کا خیال تھا کہ ان کے پیچھے کسی غیر ملکی طاقت کا ہاتھ تھا! بعض لوگوں کا کہنا تھا کہ ان نکات کو مشرقی پاکستان کے سی ایس پی افسران کے ایک گروپ نے کسی بینکار سے مل کر ترتیب دیا تاہم ایک گواہ اے کے رفیق الحسن نے مسٹر الطاف گوہر کو چھ نکات کا خالق قرار دیتے ہوئے انکشاف کیا کہ انہیں مذکورہ بالا بینکار کے توسط سے شیخ مجیب الرحمن کو بھیجا گیا تھا۔
انھوں نے یہ انکشاف بھی کیا کہ یہ سب کچھ صدر ایوب کی رضا مندی سے کیا گیا تھا، دراصل وہ شیخ مجیب کو اپنا آلہ کار بناناچاہتے تھے۔ رفیق الحسن کو اس بات کا علم کانفرس شروع ہونے سے ذرا پہلے اس وقت ہوا جب شیخ مجیب الرحمٰن نے ان نکات کی ایک نقل روزنامہ اتفاق کے ایڈیٹر مانک میاں کے حوالے کی جو خود بھی عوامی لیگ کے ممبر تھے۔
جب یہ سوال پیدا ہوا کہ شیخ مجیب کے چھ نکات مانے جائیں یا نہ مانے جائیں تو شیخ مجیب سے مذاکرات کی باتیں ہونے لگیں، اسی اثنا میں دو واقعات رونما ہوئے۔ پہلا واقعہ یہ ہے کہ مرکزی حکومت کے دو وزرا یعنی خواجہ شہاب الدین اور ایڈمرل اے آر خان ڈھاکہ پہنچے اور شیخ مجیب سے ملاقات کی۔
کہا گیا کہ اس ملاقات کا مقصد درحقیقت انہیں اپوزیشن لیڈر نواب زادہ نصراللہ خان کی طرف سے بلائی گئی آل پارٹیز کانفرنس میں شرکت سے روکنا تھا۔ بتایا جاتا ہے کہ ایڈمرل اے آر خان جنرل یحیٰی کے انتہائی قریبی اور گہرے دوست تھے جس کا واضح مطلب یہ ہوا کہ یحییٰ خان چاہتے تھے کہ اس مرحلے پر مجیب الرحمٰن اپنے مطالبات میں شدت اور وسعت پیدا کر لیں جس کا فوری اور دوررس مقصد اس امر کو یقینی بنانا تھا کہ راولپنڈی میں منعقد ہونے والی راؤنڈ ٹیبل کانفرنس بالآخر ناکامی سے دوچار ہو جائے۔
دوسرا واقعہ جس نے شیخ مجیب الرحمن کے طرز عمل کو متاثر کیا وہ اگر تلا سازش کیس کے ایک ملزم سارجنٹ ظہورالحق کا 17 فروری 1969ء کو قتل تھا۔ کہا گیا کہ سارجنٹ ظہور الحق لیویٹری سے واپس آتے ہوئے فرار ہونے کی کوشش میں مارا گیا۔دراصل ایک ایسا موقع آچکا تھا جب ٹریبونل کو یہ یقین ہوگیا تھا کہ کچھ ملزمان کے خلاف ایسے ثبوت موجود نہیں ہیں کہ انہیں سزا دی جاسکے اوراس واقعے سے پہلے پراسیکیوٹر اس بات پر رضا مند ہوگئے تھے کہ وہ ان لوگوں کے ناموں کا اعلان کردیں گے جن کے خلاف حکومت کا مقدمہ چلانے کا ارادہ نہیں ہے۔
سارجنٹ ظہور الحق بھی ان لوگوں میں سے ایک تھا، اس کے وکیلِ صفائی کو بھی معلوم ہوگیا تھا کہ فہرست میں اس کا نام آنے کا امکان ہے۔ ایسے میں ظہور الحق کیوں فرارہوتا بھلا؟ جب وہ مارا گیا تو اس کی لاش اس کے رشتے داروں کو دیدی گئی تاکہ اسے عوام میں ایک جلوس کی شکل میں لے جایا جائے۔ اس واقعے پر شدید ہنگامے شروع ہوگئے اور بہت سے گھر جلا دئیے گئے۔
ایک طرف اس واقعہ کی وجہ سے اشتعال پیدا ہوگیا تھا، دوسری طرف اس واقعہ نے شیخ مجیب الرحمٰن کو یہ موقع فراہم کردیا کہ وہ ضمانت پر رہا ہونے سے انکار کردیں۔ ظہورالحق کی موت کے بعد جس دن ضمانت کی درخواست پیش ہوئی تھی اس سے ایک روز پہلے شام کو شیخ مجیب نے ضمانت کی درخواست پر دستخط کرنے سے صاف انکار کردیا۔ راولپنڈی سے ڈھاکہ میں بیگم مجیب الرحمٰن کو ٹیلیفون کئے جاتے رہے۔ یادرہے کہ یہ کالز ایوب خان کی کابینہ میں مشرقی پاکستان کے وزیر اے صبور کے ٹیلیفون سے کی جارہی تھی۔
نواب زادہ نصراللہ خان کی گول میز کانفرنس آخر کار 10 مارچ 1969ء کو منعقد ہوئی، عوامی لیگ کے مولانا عبدالحمید بھاشانی اور ایوب خان کے دور میں وزیرخارجہ کی ذمہ داریاں ادا کرنے والے ذوالفقار علی بھٹو نے بوجوہ اس کانفرنس میں شریک ہونے سے انکار کر دیا تھا۔ گول میز کانفرنس کے دو اجلاس ہوئے اس دوران اہم بات یہ ہوئی کہ جنرل یحیٰی خان اور شیخ مجیب الرحمٰن کی ملاقات ان کی سابق رہائش گاہ پر ہوئی۔
سوال یہ ہے کہ جنرل یحیٰی خان سیاسی امورمیں قطعاَ َ دلچسپی نہیں رکھتے تھے،آخر انہوں نے کیونکر شیخ مجیب سے ملاقات کی جبکہ شیخ مجیب سے ان کی کسی قسم کی ذاتی ہم آہنگی بھی نہیں تھی۔ یادرہے کہ شیخ مجیب الرحمٰن واحد سیاست دان تھے جس سے یحیٰی خان نے پہلی اور آخری ملاقات کی۔ مغربی پاکستان سے چھ نکات کے خلاف شدید مزاحمت کرنے والے اپوزیشن رہنما گول میز کانفرنس میں شریک تھے، شیخ مجیب الرحمٰن بھی اپنے چھ نکات کی بنیاد پر سیاسی تصفیے کے خواہشمند تھے۔ دونوں جانب سے شدید ردعمل کی صورت میں گول میز کانفرنس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔
ریٹائرڈ چیف جسٹس آف پاکستان مسٹر جسٹس اے آر کار نیلیس سے پوچھاگیا کہ کیا انتخابی مہم کے دوران کسی موقع پر چھ نکات جنرل یحیٰی خان کو بھی دکھائے گئے تھے؟ ان کا کہنا تھا کہ وہ ان نکات سے بخوبی آشنا تھے اور وقتاَ َ فوقتاَ َ ان کے بارے میں گفتگو بھی کرتے تھے، تاہم انہوں نے کبھی ان کے تجریئے کی ضرورت محسوس نہ کی۔گورنر مشرقی پاکستان ایڈمرل احسن اور مارشل لا ایڈمنسٹریٹر لیفٹیننٹ جنرل ایس ایم یعقوب ان دونوں حضرات کا کہنا ہے کہ انہیں یاد نہیں پڑتا کہ کبھی ان چھ نکات کے مفہوم اور مطالب کا غور اور سنجیدگی کے ساتھ کوئی تجزیہ کیا گیا ہو یا ان کے اطلاق اور عواقب کا ہی کوئی احاطہ کیا گیا ہو!
عوامی لیگ کے معاملے میں عدم مداخلت کی پالیسی اختیار کرتے ہوئے حکومت نے انتہا ہی کردی ، اس نے جماعتوں کو تحفظ دینے سے انکار کر دیا جن کی انتخابی مہم میں عوامی لیگ دخل اندازی کر رہی تھی۔ مثلاًعوامی لیگ نے ڈھاکہ کے پلٹن میدان میں ہونے والا جماعت اسلامی کا ایک انتخابی جلسہ درہم برہم کردیا مگر حکومت تماشائی بنی دیکھتی رہی۔ پاکستان ڈیموکریٹک پارٹی کے جلسے کا بھی یہ ہی حال ہوا۔ ایسے میں عوامی لیگ کی کامیابی کے امکانات روشن ہی ہونے تھے۔
دوسری طرف حکومت نے نتائج پر اثر انداز ہونے کا خفیہ کھیل بھی کھیلا۔ جنرل یحیٰی نے اپنے ایک بااعتماد ساتھ میجر جنرل محمد عمر کو نیشنل سیکیورٹی کونسل کا سیکرٹری مقرر کیاتھا، انھیں صدر کے پاس براہ راست رسائی حاصل تھی۔ جنرل عمر کے پاس سیف میں بہت بڑی رقم پڑی ہوئی تھی اور جب بڑی قیمت کے نوٹوں کو تبدیل کیا گیا تو انہوں نے چھ لاکھ روپے جمع کرائے۔ تین لاکھ روپے کیش نکلوائے گئے اور ان کا کوئی حساب نہیں دیا گیا۔ اس کے ساتھ جنرل عمر بار بار سیاستدانوں سے ملتے رہتے تھے۔
ستمبر1970ء میں مشرقی پاکستان میں سیلاب آئے تو یحیٰی خان نے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ملتوی کردئیے۔ مجیب الرحمٰن نے اصرار کیا کہ سیلاب انتخابات ملتوی کرنے کی وجہ نہیں بن سکتے کیونکہ مشرقی پاکستان کے لوگ پانی میں آدھے غرق رہنے کے عادی ہیں۔ انتخابات ملتوی کرنے سے مہم چلانے کے لیے مزید دو ماہ کا اضافہ ہوگیا اور اس طرح آمرانہ دور کی مدت میں اضافہ ہوگیا۔
عوامی لیگ نے سیلاب کوبھی مغربی پاکستانیوں کے خلاف پہلے سے موجود شدید نفرت کو بڑھانے کے لیے استعمال کیا۔ اب یہ بات بالکل واضح تھی کہ مجیب انتخابات پر چھا جائے گا۔ سیلاب کے بعد چند جماعتوں کے علاوہ دوسری تمام جماعتیں انتخابات سے علیحدہ ہوگئیں اور مجیب کومیدان خالی مل گیا۔انتخابی نتائج آنے کے بعد وقت گزرتارہا لیکن قومی اسمبلی کا اجلاس بلائے جانے کی کوئی بات نہ کی گئی۔
3 جنوری 1971ء کو شیخ مجیب الرحمٰن نے ایک بڑا جلسہ منعقد کیا جس میں انہوں نے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے منتخب ارکان سے حلف اور پارٹی کے صوبائی خود مختاری پروگرام سے وفاداری کا عہد لیا۔ شیخ مجیب وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اپنے اس موقف سے پیچھے ہٹتے رہے کہ چھ نکات پر بات چیت ہوسکتی ہے، اب انہوں نے یہ موقف اختیار کر لیا کہ چھ نکات بنگلہ دیش کے عوام کی ملکیت ہیں اور ان پر سودے بازی کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
دسمبر1970 اور 7 جنوری 1971ء کے درمیان کے باعث جنرل یحییٰ خان اور مجیب الرحمن کی ڈھاکہ میں ملاقات بھی صورتحال بہتر بنانے میں ممد ثابت نہ ہو سکی۔ چھ جنوری1971ء کو جنرل یحییٰ کے پرنسپل اسٹاف افسر جنرل پیرزادہ نے مشرقی پاکستان کے گورنر ایڈمرل احسن سے ملاقات کی اور ان سے چھ نکاتی پروگرام کی ایک نقل کے حصول کے لیے کہا تاکہ اگلے روز صدر اس پر مجیب الرحمن اور ان کے ساتھیوں سے بات چیت کر سکیں۔
صدر کی ٹیم کے پاس چھ نکاتی پروگرام کی نقل کا موجود نہ ہونا آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے تاہم ایڈمرل نے خاص طور پر یہ پوچھا کہ کیا چھ نکاتی پروگرام کا تجزیہ کیا جاچکا ہے تاکہ اس کے مضمرات اور خامیوں کا پتہ چل سکے اور صدر مخصوص سوالات کرنے کے قابل ہو سکیں تو جنرل پیرزادہ نے جواب دیا کہ ایسا کوئی تجزیہ نہیں ہوا۔
دوسرے دن اجلاس منعقد ہوا جس میں جنرل یحییٰ خان کے علاوہ وہاں کے پرنسپل اسٹاف افسر اور ایڈمرل احسن موجود تھے۔ عوامی لیگ کی طرف سے شیخ مجیب الرحمن ، مسٹر تاج الدین ، مسٹر نذرالاسلام، مسٹر قمر الزماں، کھونڈ کر مشتاق احمد اور کیپٹن منصور علی تھے۔ شیخ مجیب الرحمن نے اپنا چھ نکاتی پروگرام پیش کیا اور بعض سوالوں کے جواب دئیے جو جنرل یحییٰ خاں نے اٹھائے تھے اور کہا ( بقول ایڈمرل احسن) جناب عالی! اب آپ جان گئے ہیں کہ چھ نکاتی پروگرام کیا ہے۔ اس سوال میں بہت معنی خیزی ہے۔
اس ساری کہانی میں ذوالفقارعلی بھٹو کا کرداربھی اہم رہا۔یہ وہی تھے کہ جنھوں نے تین مارچ کو ڈھاکہ میں بلائے جانے والے قومی اسمبلی کے اجلاس میں اپنی پارٹی کے ارکان کو شریک نہ ہونے کی ہدایت کی، انھوں نے دھمکی بھی لگائی کہ اگر پیپلزپارٹی کے کسی رکن نے اجلاس میں شرکت کی تو اس کی ٹانگیں توڑ دی جائیں گی، اسی طرح انھوں نے دوسری جماعتوں کے نومنتخب ارکان کو بھی دھمکایا کہ اگر وہ ڈھاکہ جائیں تو انھیں بھی مغربی پاکستان واپس آنے کا ٹکٹ نہیں لینا چاہئے۔
بھٹو صاحب کے اس کردار میں ملک سے زیادہ پارٹی یا پھر ذاتی مفاد نظرآتاہے۔ معاملہ صرف ایک بھٹو یا ایک یحییٰ یاپھر ایک مجیب تک ہی محدود نہیں ہے، حقیقت یہ ہے کہ اس سارے گندے اور شرمناک کھیل کے کھلاڑی جیتے، ان کامیاب کھلاڑیوں کی فہرست غلام محمد سے شروع ہوتی ہے۔رہی بات شکست کی تو وہ صرف اور صرف ملک اور قوم کے حصے میں آئی۔ پنڈت جواہر لال نہرو کی بیٹی اندرا گاندھی اپنی مجلسوں میں کہا کرتی تھی: ''میری زندگی کا حسین ترین لمحہ وہ تھا، جب میں نے پاکستان میں مداخلت کر کے بنگلہ دیش بنایا۔''
پاکستانی فوج کے خلاف جنگی جرائم کا فسانہ کیسے تیار ہوا؟
مشرقی پاکستان میں ایسٹ پاکستان رائفلز کے ہاتھوں یقیناً بڑی تعدادمیں باغی مارے گئے، ظاہر ہے کہ ریاست کے خلاف بغاوت میں باغیوں پر پھولوں کی پتیاں نچھاورنہیں کی جاتیں، جماعت اسلامی کے کارکنان نے بھی ''البدر'' اور ''الشمس'' کے نام سے تنظیمیں قائم کرکے پاکستان کو متحد رکھنے کی اس جدوجہد میں پاک فوج کا ساتھ دیا۔ تاہم یہ بات کسی بھی اعتبار سے درست نہیں ہے کہ پاکستانی فوج نے بنگلہ دیش میں بڑے پیمانے پر بے گناہوں کو ہلاک کیا۔
یہ محض عوامی لیگ ہی کادعویٰ رہا ہے کہ جنگِ 1971ء میں پاکستانی فوج اور جماعت اسلامی نے مل کر 30 لاکھ افراد قتل کئے تھے۔بلاشبہ یہ اعدادوشمار دہلی میں تیارہوئے تھے، جس طرح عوامی لیگ نے پاکستان کے خلاف جدوجہد میں بھارتی فوج کے تربیت یافتہ دہشت گردوں کی ایک بڑی فوج مکتی باہنی کو استعمال کیا، بھارتی اسلحہ استعمال کیا، اسی طرح بھارت میں تیارہونے والا پروپیگنڈا بھی پاکستان کے خلاف استعمال کیا۔ بھلا کیسے؟ اس کا جواب پانے کے لئے ممتاز دانشور، سفارت کار، مصنف اور ماہرِ ابلاغیات جناب قطب الدین عزیز اپنی کتاب "Blood and Tears"میں یوں دیتے ہیں:
''مارچ 1971ء کے پہلے ہفتے میں عوامی لیگ نے ریاست کے خلاف بغاوت کا آغاز کیا اور اس کے ساتھ ہی سابق مشرقی پاکستان میں لوٹ مار، تشدد اور قتل و غارت کا ایسا سلسلہ شروع ہوا جو جنگل کی آگ کی طرح پھیلتا چلا گیا۔ اْنہی دنوں وفاقی وزارتِ اطلاعات و نشریات کے ایک اعلیٰ افسر نے مجھے ہدایت کی کہ میرے خبر رساں ادارے سے (سابق) مشرقی پاکستان میں باغیوں کے ہاتھوں غیر بنگالیوں پر ڈھائے جانے والے مظالم سے متعلق کوئی خبر جاری نہیں ہونی چاہیے۔
یہی ہدایت ملک کے دیگر خبر رساں اداروں اور میڈیا آؤٹ لیٹس کو دی گئی۔ عوامی لیگ کے عسکریت پسندوں نے بغاوت شروع ہونے کے بعد ابتدائی دنوں ہی میں مشرقی پاکستان کے ٹیلی کمیونی کیشن نیٹ ورک پر تصرف حاصل کرلیا تھا۔ وہ اس بات کو یقینی بناتے تھے کہ جو مظالم وہ غیر بنگالیوں پر ڈھا رہے تھے، اس کے بارے میں میڈیا میں کوئی بات نہ آئے اور ملک سے باہر بھیجے جانے والے ٹیلی گرامز میں بھی ایسی کوئی بات نہ ہو۔
مارچ 1971ء کے تیسرے ہفتے میں مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ کے عسکریت پسندوں کے مظالم سے بچ کر پانچ ہزار پاکستانی بحری جہاز کے ذریعے چاٹگام سے کراچی پہنچے۔ انہوں نے مظالم کی جو کہانیاں سنائیں، ان کا ایک لفظ بھی مغربی پاکستان کے پریس میں شائع نہیں ہوا۔ اسلام آباد میں وفاقی وزارتِ اطلاعات و نشریات کے بنگالی سیکرٹری نے دھمکی دی تھی کہ جو اخبارات مشرقی پاکستان میں قتل و غارت کی خبروں کی اشاعت پر عائد پابندی کی خلاف ورزی کریں گے، اْن کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔
میرے خبر رساں ادارے کے کئی نمائندے مشرقی پاکستانی کے مختلف حصوں میں موجود تھے مگر اس کے باوجود تسلیم کرنا پڑے گا کہ ہمیں مکمل اندازہ نہیں تھا کہ مشرقی پاکستان میں کتنے بڑے پیمانے پر خرابی پائی جاتی ہے۔ ہمارے اندازوں سے کہیں بڑھ کر غیر بنگالیوں کو قتل کیا جارہا تھا اور ان کی املاک لوٹی جارہی تھیں۔ ڈھاکا اور چاٹگام دو ایسے مقامات تھے جہاں سے کسی نہ کسی طرح جان بچاکر کراچی پہنچنے والے عوامی لیگ کے عسکریت پسندوں کے انسانیت سوز مظالم کی داستانیں سناتے تھے۔
مجھے تسلیم کرنا پڑے گا کہ عوامی لیگ کے عسکریت پسند اور ایسٹ بنگال رجمنٹ اور ایسٹ پاکستان رائفلز میں ان کے ہم خیال پورے مشرقی پاکستان میں غیر بنگالیوں کو جس سفّاکی سے موت کے گھاٹ اتار رہے تھے اور جتنے بڑے پیمانے پر لوٹ مار کر رہے تھے، اْس کی خبریں ہم تک نہیں پہنچ پارہی تھیں۔ مارچ 1971ء کے دوران عوامی لیگ نے غیر بنگالیوں کا جو قتل عام کیا اور ان کی املاک کو لوٹنے یا تلف کرنے کے جو واقعات رونما ہوئے، اْن کی تھوڑی بہت رپورٹنگ اپریل 1971ء میں چند بھارتی اور مغربی اخبارات میں ہوئی۔ 6اپریل 1971ء کو ''دی ٹائمز آف لندن'' نے لکھا: ''ہندوستان کی تقسیم کے وقت مشرقی بنگال (مشرقی پاکستان) میں پناہ لینے والے ہزاروں غیر بنگالیوں کو بنگالیوں نے موت کے گھاٹ اتارا ہے''۔
پاکستانی حکومت نے 25 مارچ کو عوامی لیگ کے کارکنوں اور دیگر باغیوں کے خلاف فوجی آپریشن شروع کیا اور اگلے ہی دن 35 صفِ اول کے مغربی صحافیوں کو ڈھاکا سے نکال دیا۔ ان میں امریکا کے چند چوٹی کے صحافی بھی شامل تھے۔ ان کے دل میں پاکستانی فوج کے خلاف پرخاش پیدا ہوئی اور پھر انہوں نے کبھی مغربی پاکستان کے حق میں ایک لفظ بھی نہیں لکھا۔
ان صحافیوں نے اپنے اخبارات کو جاری کی جانے والی رپورٹس میں فوجی آپریشن کے خلاف جی بھر کے لکھا۔ فوج پر سنگین مظالم ڈھانے کا الزام عائد کیا اور مارچ اور اپریل 1971ء کے عوامی لیگ اور مکتی باہنی کے غنڈوں کے ہاتھوں لاکھوں غیر بنگالیوں اور محب وطن بنگالیوں کے بہیمانہ قتل عام کے بارے میں کچھ بھی سچ نہیں لکھا۔ کروڑوں سادہ لوح امریکیوں اور یورپی باشندوں کے لیے پریس میں چھپا ہوا ہر لفظ آسمانی صحیفے کی مانند ہوتا ہے اور انہوں نے پاکستانی فوج کے آپریشن سے متعلق لکھے جانے والے ہر لفظ کو حقیقت پر مبنی تسلیم کرلیا۔
بھارت کی پروپیگنڈا مشینری نے امریکا اور یورپ میں پاکستانی فوج کو بدنام کرنے کی مہم شروع کی اور ایسی کتابیں اور کتابچے شائع کیے جن میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ پاکستانی فوج نے مشرقی پاکستان میں لاکھوں غیر بنگالیوں اور ہندوؤں کو قتل کیا اور دو لاکھ سے زائد بنگالی لڑکیوں کو زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔ یہ پروپیگنڈا ویسا ہی شدید اور بے بنیاد تھا جیسا نازیوں کیخلاف یہودیوں کا پروپیگنڈا تھا۔ بھارتی پروپیگنڈا مشینری نے اس قدر جھوٹ بولا کہ سچ اْس کی گرد میں چھپ گیا اور مشرقی پاکستان میں مارچ اور اپریل 1971ء کے دوران غیر بنگالیوں پر ڈھائے جانے والی قیامت کی تفصیل آج بھی ایک بھولی ہوئی کہانی ہے۔
حکومتِ پاکستان نے اگست 1971ء میں مشرقی پاکستان کی صورت حال پر ایک وائٹ پیپر شائع کیا جو بین الاقوامی سطح پر کوئی تاثر چھوڑنے میں ناکام رہا۔ یہ وائٹ پیپر خاصی تاخیر سے شائع ہوا تھا اور اس میں غیر بنگالیوں کے قتل عام کی تفصیل عمدگی سے پیش کرنے پر زیادہ توجہ نہیں دی گئی تھی۔ اس وائٹ پیپر میں ایسے درجنوں مقامات کا ذکر نہ تھا جہاں غیر بنگالیوں کو بڑے پیمانے پر موت کے گھاٹ اتارا گیا۔
عوامی لیگ کے غنڈوں کے ہاتھوں بہاریوں کے بہیمانہ قتل عام کی اس پوسٹ مارٹم رپورٹ میں، حکومت عالمی برادری سے اپنی بات کہنے میں ناکام رہی۔ اپنی تمام خامیوں کے باوجود یہ وائٹ پیپر بہت کارگر ثابت ہوا ہوتا اگر اسے اپریل 1971ء کے آخر میں شائع کردیا جاتا۔ نفسیاتی اسلحہ خانے میں وقت بہت بڑا ہتھیار ہے، بالخصوص اس وقت جب دشمن سچائی کو بال برابر بھی تسلیم کرنے کے لیے تیار نہ ہو۔
بھارت کی پروپیگنڈا مشینری نے مغرب میں رائے عامہ کو یہ تسلیم کرنے پر مجبور کردیا کہ مشرقی پاکستان میں بنگالی اکثریت کو پاکستانی فوج نے بے دردی سے نشانہ بنایا اور بے انتہا مظالم ڈھائے۔ مشرقی پاکستان سے بھارت کی طرف نقل مکانی کرنے والوں کے معاملے کو بہت بڑھا چڑھاکر پیش کیا گیا۔ بھارت نے درجنوں کتابیں شائع کیں جن میں پاکستانی فوج کو حالات کی خرابی کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا تھا۔ اس کے جواب میں پاکستانی پروپیگنڈا مشینری زیادہ موثر ثابت نہ ہوسکی۔
پاکستانی فوجیوں کے مظالم کو بھارتی پروپیگنڈا مشینری نے دس گنا، بلکہ بیس گنا کرکے پیش کیا۔ ایک بنگالی مصنف کا کہنا ہے کہ بھارتی پروپیگنڈا مشینری نے مشرقی پاکستان کی راولپنڈی سے علیٰحدگی میں پاکستان کے فوجی ایکشن سے کہیں اہم کردار ادا کیا۔ افسوسناک امریہ ہے کہ پاکستان کا ایک مخصوص طبقہ جو اب تک برصغیر کی تقسیم کو غلط قرار دیتا رہا، وہ آج پاکستانی فوج ، البدر اور الشمس کے بارے میں بھارتی پراپیگنڈا کو نہ صرف درست تسلیم کرتاہے بلکہ اس کی تشہیر کو اپنا فرض اولین سمجھتا ہے۔