عمر بھر کا المیہ

اللہ تعالیٰ کی دنیا تنگ نہیں ہے اور گداگر کے پاؤں میں لنگڑاہٹ نہیں ہے۔

Abdulqhasan@hotmail.com

باقی ماندہ پاکستان میں شہر بہ شہر ہلچل مچانے کے شوقین اور ان کے مخالفوں میں کسی کی زبان سے بھی اس المیے کا ذکر نہیں سنا ،کسی نے اس جاں گسل غم و اندوہ میں سبکی تک نہیں بھری بس اک موج خوں تھی جو سر سے گزر گئی اور ہم سندھ کے پانی سے ہاتھ منہ دھو کر بقیہ پاکستان میں مصروف ہو گئے۔

اب کچھ وقت اس پر گزارا کریں گے اگرآدھا ملک گنوا دینے پر بھی ہم خوش و خرم ہیں اور باقی ماندہ پر بھی فی الوقت خوش و خرم ہیں تو آیندہ کے لیے بھی اللہ مالک ہے ع ملک خدا تنگ نیست پائے گدا لنگ نیست۔ اللہ تعالیٰ کی دنیا تنگ نہیں ہے اور گداگر کے پاؤں میں لنگڑاہٹ نہیں ہے۔ ہمارے ہاتھ پاؤں سلامت رکھنے والے اونچے لوگ جنھیں ہم اشرافیہ کہتے ہیں جب یہ سمجھنے لگے کہ مشرقی پاکستان تو ایک بوجھ ہے ایک بازو نہیں ہے تو ہم نے اسے علی الاعلان اتار کر پھینک دیا اور جب اس پر دنیا بھر میں مسلمانوں نے شور و غل کیا اور اپنے بازوئے شمشیرزن کے کٹنے پر ماتم کیا تو ہم نے مسلمان ملکوں کی ایک کانفرنس بلائی ایک تعزیتی اجلاس منعقد کیا ۔

جس لاہور کی شاہی مسجد میں جمعہ کی نماز میں یہ سربراہ شریک ہوئے تو ان کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے شاہ فیصل نے آنسو بھری آنکھوں اور سینے میں دبی ہوئی سسکیوں میں نماز بڑی مشکل سے ادا کی مگر ہماری جراتوں کا شمار نہیں کہ اس تعزیتی اجلاس کو ہم نے اسلامی سربراہی کانفرنس کا نام دے کر اسے بھی ایک کارنامہ بنا لیا اور اس کی یاد میں لاہور کی اسمبلی کے سامنے ایک مینار تعمیر کر دیا اپنے جرائم پر پردہ ڈالنے کے لیے مگر یہ جرم کسی مینار کی بلندی میں چھپ نہیں سکتا اس دلدوز سانحے نے ہر پاکستان کا دل چھلنی کر دیا اور قدرت نے بھی اسے معاف نہیں کیا۔ اس سانحے میں جو بھی ملوث تھا اس کو سزا ملی۔ اندرا مجیب بھٹو تینوں غیر قدرتی موت مرے اور قدرت نے ان کا جرم پھر بھی معاف نہ کیا ان کی اولادیں بھی سزا پا گئیں۔ مجیب اور بھٹو کی ایک ایک بیٹی بچ گئی جب کہ اندرا کا کچھ بھی نہ بچا اور ہمارا مدہوش جرنیل یحییٰ خان کو عبرت کے طور پر زندہ رکھا لیکن زندگی کو ایک عذاب بنا دیا۔

جس نے بھی دیکھا توبہ توبہ کر اٹھا۔ ہم نے دعویٰ کیا تھا کہ یہ ملک خدا و رسولؐ کے نام پر بنایا گیا ہے چنانچہ اس بے وفائی کی سزا بھی سخت ترین ملی اور ہم پاکستانی اب تک اس سزا سے گزر رہے ہیں۔ اب جب میں یہ سطریں لکھ رہا ہوں تو پاکستان کا سیاسی شہر لاہور بند ہے یا بند ہونے سے بھی بری حالت میں جگہ جگہ آگ جل رہی ہے اور پاکستانی دیوانہ وار سڑکوں پر ناچ رہے ہیں۔ شہر میں اندرونی سڑکیں بند ہیں اور شہر میں داخل ہونے والے باہر کے راستے شہر سے باہر کر دیے گئے ہیں۔ میرے سامنے میرا کل کا کالم پڑا ہے جس میں عمران کو بجا طور پر ایک صاف ستھرا سیاستدان کہا گیا ہے لیکن لگتا ہے وہ سیاسی سوجھ بوجھ اور حالات کو سمجھنے میں بھی صاف ستھرا ہے۔


میرے لیے اور لاتعداد لاہوریوں کے لیے بھی گزشتہ پیر کی صبح بہت نازک تھی میرے ایک پوتے اور ایک نواسے کے امتحان تھے۔ کالج والے بتا رہے تھے کہ کالج کھلا ہے پہلے وقت میں پوتے نوشیروان کا پرچہ تھا وہ تو صبح صبح خیریت سے دے کر آ گیا لیکن اس وقت کالج والوں نے اعلان کیا کہ آج چھٹی کر دی گئی ہے اور اس طرح میرا نواسہ احمد اس خطرے سے بچ گیا۔ دونوں کی ماؤں نے خیر منائی اور میرے ہوش بھی بحال ہو گئے۔ بلاشبہ عوام حکومت کی پالیسیوں سے ناراض ہیں اور اس کے عوام دوست اقدامات کو بھی عمران کی تحریک کا نتیجہ قرار دیتے ہیں اور اب اس قید و بند کی وجہ سے عمران سے بھی شکایت کر رہے ہیں۔

سیاسی احتجاج بہت دیکھے ہیں لیکن سیاستدانوں نے ہمیشہ پوری کوشش کی کہ عوام کو تکلیف نہ ہو چند دن ہوئے لکھا تھا کہ احتجاج کے دوران جب جلوس کے روٹ پر ایک بازار نما سڑک آتی تھی تو ایک دن پہلے سیاسی کارکن یہاں کے دکانداروں سے ملے اور انھیں حفاظت کی یقین دہانی کرائی' جلوس اس قدر پرامن اور عوام دوست ہوتے تھے کہ دکاندار باہر نکل کر جلوس کا خیر مقدم کرتے تھے۔ یہ قید و بند والی سیاست اس وقت دیکھنے میں آئی جب سیاست نہیں ملک کو نقصان پہنچانے کا منصوبہ تھا۔

بات تو المیہ سقوط ڈھاکا سے شروع ہوئی تھی جس کا غم اس قوم کے دلوں میں بیٹھ گیا ہے اور اس باقی ماندہ ملک کے پاکستانی جب بھی کوئی سخت قسم کی سرگرمی دیکھتے ہیں تو ڈر جاتے ہیں کیونکہ ملک پر اب بھی اسی اشرافیہ کی حکومت ہے جس نے ان کے ملک کو توڑ دیا تھا۔ عمران کے ساتھ بھی بعض وہی پرانے لوگ دیکھے جاتے ہیں جو اشرافیہ میں سے ہیں اور جن کی سیاست ذاتی مفاد کے سوا کچھ نہیں۔

ان لوگوں نے ملک کو لوٹا بھی اور لوٹ مار کا یہ سلسلہ اب تک جاری ہے اور جو لوگ باہر ہیں وہ اندر آنے کے لیے بے تاب ہیں اور ہر حربہ جائز سمجھتے ہیں۔ لوگ گھبرا کر کسی مارشل لاء کی خواہش کرتے ہیں لیکن ملک کو اس حال میں انھی مارشل لاؤں نے پہنچایا ہے ایک جرنیل کے مطابق مارشل لاء اتنے مسائل حل نہیں کرتا جتنے وہ پیدا کر دیتا ہے۔ بہر کیف اس ملک کو بچانے والا بھی شاید آ ہی جائے قدرت نے اس ملک کو توڑنے والوں کو عبرت ناک سزائیں دیں خدا کرے اس ملک کو بچانے والا کسی اجر کا مستحق ٹھہرے اور مقبولیت عوام حاصل کرلے۔
Load Next Story